شام ڈھلتے ہی وہ ایک ویران باغ میں چلا گیا۔ بڑی سی لاٹھی اور چھوٹے سے فون کو بغل میں رکھ کر ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ اس باغ میں ایک سال کے اندر ایسا دوسری بار تھا، جب چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تمام بچے اور بالغ ایک بار پھر اپنے اپنے گھروں میں بند ہو چکے تھے۔

وہ گزشتہ چند دنوں سے اس باغ میں آ رہا تھا۔ جب چاروں طرف اندھیرا چھا گیا اور سڑکوں کے بلب جلنے لگے، تو ان کی روشنی سے شاخوں کے سایے زمین پر پڑنے لگے۔ درختوں سے جیسے ہی ہلکی سی ہوا چلی، زمین پر پڑے خشک پتے توجہ ہٹانے کے لیے رقص کرنے لگے۔ لیکن، اس کے اندر کا اندھیرا مزید گہرا ہو گیا۔ وہاں وہ گھنٹوں بیٹھا رہا، پرسکون لیکن اندر ہی اندر پریشان۔

۲۰ سال کا یہ نوجوان یہاں کا ایک جانا پہچانا چہرہ تھا – پھر بھی کئی لوگ اس سے ناواقف تھے۔ اس کی یونیفارم بتا رہی تھی کہ وہ کیا کام کرتا ہے – وہ قریب کی ایک عمارت میں سیکورٹی گارڈ تھا۔ اس کا نام... کس کو اس کی پرواہ تھی؟ سات سال تک سیکورٹی گارڈ کا کام کرنے کے بعد بھی، وہ اپارٹمنٹ کے زمینداروں کے لیے گمنام ہی رہا۔

وہ یہاں اتر پردیش کے بندیل کھنڈ سے آیا تھا، جہاں اس کے والد ایک مقامی شاعر اور داستان گو تھے – جنہیں اپنی بات رکھنے، اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی وجہ سے قتل دیا گیا تھا۔ غصے سے لوگوں نے ان کی تصانیف اور کتابیں بھی جلا دیں، جو اُن کا واحد قیمتی سرمایہ تھے۔ صرف ایک ٹوٹی اور جلی ہوئی جھونپڑی رہ گئی، اور بچ گئی ایک ستم زدہ ماں اور اس کا دس سالہ بیٹا۔ اسے ہر وقت یہ خوف ستاتا رہتا کہ اگر انہوں نے اس کے بیٹے کو بھی چھین لیا تب کیا ہوگا؟ اسی لیے اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ بھاگ، جتنا تیز بھاگ سکتا ہے بھاگ۔

وہ پڑھنا چاہتا تھا، اسے بڑے جوتے پہننے کا شوق تھا، لیکن قسمت نے اسے ریلوے اسٹیشن پر دوسروں کے جوتے صاف کرنے میں لگا دیا – ممبئی کے اسی شہر میں جہاں وہ سکون کی تلاش میں آیا تھا۔ اس نے نالے صاف کیے، تعمیراتی مقامات پر کام کیا – اور آہستہ آہستہ ترقی کرتے ہوئے گارڈ کی پوزیشن تک پہنچ گیا۔ اسے اتنے پیسے مل جاتے تھے کہ وہ اپنی ماں کو اس میں سے کچھ بھیج سکے۔ جلد ہی، ماں کے من میں اپنے بیٹے کو شادی کے جوڑے میں دیکھنے کی خواہش انگڑائی لینے لگی۔

اس نے ایک نوجوان خاتون کا انتخاب کیا۔ بیٹا بھی اس کی سیاہ آنکھوں کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ مدھونا بھنگی ۱۷ سال کی تھی، اور اپنے نام کی طرح ہی میٹھی اور خوش مزاج تھی۔ وہ اسے ممبئی لے کر آیا۔ اس سے پہلے وہ نالاسوپارہ کی ایک چال (جھگی بستی) کے چھوٹے سے کمرے میں ۱۰ لوگوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اب چونکہ مدھونا بھی وہاں آ گئی تھی، لہٰذا اس نے کچھ دنوں کے لیے ایک دوست کا کمرہ کرایے پر لیا۔ وہ ہر وقت اس سے چمٹی رہتی، اس لیے کہ اسے بھیڑ بھاڑ والی ٹرین کے سفر، اونچی عمارتوں، گنجان بستی سے ڈر لگتا تھا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس نے صاف صاف کہہ دیا: ’’اب میں یہاں ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔ گاؤں میں جو تازہ ہوا ملتی تھی، وہ مجھے یہاں نہیں مل سکتی۔‘‘ گارڈ نے جب اپنا گھر بار چھوڑا تھا تب اسے بھی ایسا ہی احساس ہوا تھا۔

کچھ دنوں بعد، مدھونا ماں بننے والی تھی۔ وہ اپنے گاؤں واپس چلی گئی۔ گارڈ بھی اس کے ساتھ موجود رہنا چاہتا تھا، تبھی لاک ڈاؤن نے اس کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ گھر جانے کے لیے وہ بہت گڑگڑایا لیکن اس کے مالکوں نے اسے چھٹی دینے سے منع کر دیا۔ اسے بتایا گیا کہ اگر وہ گھر گیا، تو وہاں سے لوٹنے پر اسے دوبارہ نوکری پر نہیں رکھا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی سمجھایا کہ اس کی وجہ سے نئی بیماری اس کے نومولود بچے کو بھی لگ سکتی ہے۔

گارڈ نے ان کی تشویش (جو کہ اصل میں ان کی عمارت کی رکھوالی کو لیکر تھی) کو صحیح مان کو اپنے من کو سمجھایا۔ اس نے سوچا کہ کچھ ہی ہفتوں کی تو بات ہے۔ اور پیسہ بھی ضروری تھا – وہ اپنے بچے کو ہر وہ چیز دینا چاہتا تھا جس کی خواہش خود اسے اپنے بچپن میں ہوا کرتی تھی۔ کچھ دنوں پہلے، اس نے بازار میں زرد رنگ کی ایک چھوٹی سی ڈریس دیکھی تھی۔ دکان کے دوبارہ کھلنے پر وہ اسے خریدنا چاہتا تھا، اور مدھونا کے لیے بھی ایک ساڑی لینا چاہتا تھا۔ اس کی بے چینی، اپنے نومولود بچے کے بارے میں خواب دیکھنے سے دور ہونے لگی۔

اُدھر گاؤں میں، مدھونا کے پاس کوئی فون نہیں تھا۔ اور ویسے بھی نیٹ ورک کی آنکھ مچولی جاری تھی۔ وہ کیرانہ اسٹور کے قریب واقع فون بوتھ پر وہ پرچی لیکر جاتی، جس پر گارڈ نے اپنا نمبر لکھ کر دیا تھا۔ پھر، دکان بند ہونے کی وجہ سے، وہ ایک پڑوسی سے موبائل فون اُدھار لے کر بات کرتی۔

اس نے اپنے شوہر سے گھر واپس آنے کی التجا کی۔ لیکن وہ ممبئی میں ہی رہا، وہاں سے حرکت نہیں کر سکا۔ کچھ ہفتوں بعد خبر ملی کہ بیوی نے ان کی بچی کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے اس کا نام نہیں رکھا، کیوں کہ مدھونا چاہتی تھی کہ پہلے بچی کا باپ اسے دیکھ لے۔

دیر رات کو جب لائٹیں مدھم ہوئیں، تو گارڈ رات میں اپنا چکّر لگانے کے لیے باغ کی بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ تمام فلیٹ روشن تھے۔ کچھ ٹیلی ویژن اسکرینوں کی روشنی کھڑکی سے باہر آ رہی تھی۔ کوئی بچہ زور سے ہنسا۔ کسی کے گھر میں پریشر کوکر کی سیٹی بجی۔

لاک ڈاؤن کے دوران، وہ رات اور دن میں ہر وقت ان فلیٹوں تک باہر سے منگوائے گئے کھانے پہنچاتا۔ امید کرتا کہ مدھونا اور ننھی بچی نے بھی پیٹ بھر کھانا کھا لیا ہوگا۔ فلیٹ کے بیمار لوگوں کو ایمبولینس تک پہنچانے میں مدد کرتا۔ وہ بھول گیا تھا کہ کسی دن اسے بھی یہ بیماری لگ سکتی ہے۔ اس نے بیماری سے متاثر ہونے کی وجہ سے اپنے ایک ساتھی کو نوکری سے نکالے جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اپنی نوکری بھی نہ چلی جائے، اس ڈر سے جب بھی اسے کھانسی آتی تو وہ اسے دبانے کی کوشش کرتا۔

اس نے گھر میں کام کرنے والی ایک عورت کو فریاد کرتے ہوئے دیکھا جو بلڈنگ میں دوبارہ کام کرنے کی اجازت طلب کر رہی تھی۔ بھوک اور تپ دق کی وجہ سے اس کا بیٹا کافی کمزور ہو گیا تھا، اور اس کا شوہر ان کی بچت کے تمام پیسے لے کر کہیں بھاگ گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد، گارڈ نے اس عورت کو دیکھا کہ وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ سڑک پر بھیک مانگ رہی ہے۔

اس نے مقامی غنڈوں کے ہاتھوں سبزی فروش کے ٹھیلے کو پلٹتے ہوئے دیکھا، خود سبزی فروش کی زندگی پوری طرح تہس نہس ہو چکی تھی۔ اس نے ہاتھ جوڑے، رویا، گڑگڑایا کہ اسے کام کرنے کی اجازت دی جائے – افطار کرنے کے لیے اس دن اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کی فیملی اس کا انتظار کر رہی تھی۔ غنڈوں نے کہا کہ کام کرنے سے اسے انفیکشن ہو سکتا ہے، اس لیے وہ اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سبزیاں سڑک پر ایک بڑے دسترخوان کی طرح بکھری ہوئی تھیں جب کہ غنڈے اس کا ٹھیلا لے کر جا چکے تھے۔ اس نے سبزیوں کو ایک ایک کرکے چُنا اور اپنی شرٹ میں رکھنے لگا، جسے ٹماٹر نے لال کر دیا تھا۔ لیکن بھاری ہونے کی وجہ سے یہ سبزیاں دوبارہ بکھر گئیں۔

وہاں کے رہائشی اپنی کھڑکیوں سے سارا نظارہ دیکھتے رہے، اپنے فون سے اسے ریکارڈ کرتے رہے، جس کے بعد ویڈیو کو سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، سرکار کو مخاطب کرکے ناراضگی بھرے پیراگراف لکھے گئے۔

کچھ دنوں پہلے، اس نے بازار میں زرد رنگ کی ایک چھوٹی سی ڈریس دیکھی تھی۔ دکان کے دوبارہ کھلنے پر وہ اسے خریدنا چاہتا تھا، اور مدھونا کے لیے بھی ایک ساڑی لینا چاہتا تھا

جب دسمبر کا مہینہ آیا، تو گارڈ نے دوسرے گارڈوں کو کام پر لوٹتے ہوئے دیکھ کر امید کی کہ اب وہ بھی اپنے گاؤں لوٹ سکے گا۔ لیکن کام کی تلاش میں اب وہاں نئے لوگ آنے لگے تھے۔ اس نے ان کی مایوسی کو دیکھا، وہ اسے حسد سے دیکھ رہے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اگر وہ چلا گیا تو اس کی نوکری جا سکتی ہے، گارڈ نے مزید کچھ دنوں کے لیے خود کو زبردستی روکا۔ ظاہر ہے، وہ یہ سب کچھ مدھونا اور اپنی بچی کے لیے ہی تو کر رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مدھونا قرض کی وجہ سے گاؤں کے زمیندار کی طرف سے ہونے والی ہراسانی کی شکایت اس سے کبھی نہیں کرے گے، اور نہ ہی اس بات کی شکایت کرے گی کہ پہلے کی بہ نسبت اسے کھانے کو بہت کم مل رہا ہے۔

پھر ایک اور لاک ڈاؤن کی خبر آ گئی۔ ایمبولینس کی چیخیں لگاتار سنائی دینے لگیں۔ یہ پچھلے سال سے بھی زیادہ برا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد ایک بوڑھے باپ کو گھر سے باہر نکالا جا رہا ہے۔ اس نے روتے، چیختے ہوئے چھوٹے بچوں کو اسپتال لے جاتے ہوئے دیکھا۔

اس نے اپنا کام جاری رکھا اور مدھونا سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی گھر پہنچ جائے گا۔ ہر بار وہ رونے لگتی، کیوں کہ وہ ڈری ہوئی تھی: ’’اپنی حفاظت کرنا۔ ہمیں صرف آپ کی ضرورت ہے۔ ہماری بچی نے ابھی تک اپنے باپ کو نہیں دیکھا ہے۔‘‘ اس کے الفاظ اس کے اندر پیوست ہو جاتے، لیکن اس کی آواز سے اسے تسلی ملتی۔ فون پر دو چار منٹ کی یہ بات چیت دونوں کے لیے کافی معنی رکھتی تھی۔ وہ باتیں کم کرتے، لیکن اتنی دوری سے ایک دوسرے کے دلوں کی دھڑکن کو سن کر بہتر محسوس کرتے تھے۔

پھر ایک دن فون آیا: ’’کوئی بھی اسپتال انہیں بھرتی نہیں کر رہا ہے۔ سارے بستر بھرے ہوئے ہیں، آکسیجن ختم ہو چکا ہے۔ تمہاری بیوی اور بچی آخری سانس تک آکسیجن کے لیے تڑپتے رہے۔‘‘ یہ آواز گاؤں کے ہی ایک آدمی کی تھی، جو کافی گھبرایا ہوا تھا اور خود اپنے والد کے لیے آکسیجن ڈھونڈنے کی خاطر ادھر ادھر بھاگ رہا تھا۔ پورا گاؤں سانس کی بھیک مانگ رہا تھا۔

وہ کمزور دھاگہ جس نے گارڈ کو امید کے دامن سے باندھ رکھا تھا، اچانک ٹوٹ گیا۔ اس کے مالک نے آخرکار اسے چھٹی دے دی۔ لیکن اب وہ کس کے پاس جاتا؟ اس لیے وہ کھانے کا پیکٹ لے کر ’ڈیوٹی‘ پر واپس آ گیا۔ زرد رنگ کا وہ ڈریس اور ساڑی اس کے چھوٹے سے تھیلے میں احتیاط سے لپیٹ کر ابھی بھی رکھے ہوئے تھے۔ مدھونا اور اس کی بغیر نام والی بچی کو یا تو جلا دیا گیا یا کہیں پر پھینک دیا گیا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Aakanksha

ਆਕਾਂਕਸ਼ਾ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਰਿਪੋਰਟਰ ਅਤੇ ਫੋਟੋਗ੍ਰਾਫਰ ਹਨ। ਉਹ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਟੀਮ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਇੱਕ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਵਜੋਂ ਅਤੇ ਪੇਂਡੂ ਖੇਤਰਾਂ ਵਿੱਚ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਨੂੰ ਉਹਨਾਂ ਦੇ ਆਲ਼ੇ-ਦੁਆਲ਼ੇ ਦੀਆਂ ਚੀਜ਼ਾਂ ਨੂੰ ਦਸਤਾਵੇਜ਼ੀਕਰਨ ਲਈ ਸਿਖਲਾਈ ਦਿੰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Aakanksha
Illustrations : Antara Raman

ਅੰਤਰਾ ਰਮਨ ਚਿਤਰਕ ਹਨ ਅਤੇ ਉਹ ਸਮਾਜਿਕ ਪ੍ਰਕਿਰਿਆਵਾਂ ਦੇ ਹਿੱਤਾਂ ਅਤੇ ਮਿਥਿਆਸ ਦੀ ਕਲਪਨਾ ਨਾਲ਼ ਜੁੜੀ ਹੋਈ ਵੈੱਬਸਾਈਟ ਡਿਜਾਈਨਰ ਹਨ। ਉਹ ਸ਼੍ਰਿਸ਼ਟੀ ਇੰਸਟੀਚਿਊਟ ਆਫ਼ ਆਰਟ, ਡਿਜਾਇਨ ਐਂਡ ਟਕਨਾਲੋਜੀ, ਬੰਗਲੁਰੂ ਤੋਂ ਗ੍ਰੈਜੁਏਟ ਹਨ, ਉਹ ਮੰਨਦੀ ਹਨ ਕਿ ਕਹਾਣੀ-ਕਹਿਣ ਅਤੇ ਚਿਤਰਣ ਦੇ ਇਹ ਸੰਸਾਰ ਪ੍ਰਤੀਕਾਤਮਕ ਹਨ।

Other stories by Antara Raman
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique