بیٹی کی دردناک موت کے بعد گزشتہ پانچ سالوں میں کانتا بھیسے کے اندر ابل رہے غصے نے انہیں کھل کر بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کی بیٹی موہنی بھیسے نے ۲۰ جنوری، ۲۰۱۶ کو خود کشی کر لی تھی۔ کانتا کہتی ہیں، ’’ہماری تنگ دستی نے میری بچی کی جان لے لی۔‘‘
جب موہنی کی موت ہوئی، تب اس کی عمر ۱۸ سال تھی اور وہ ۱۲ویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ مہاراشٹر کے لاتور ضلع کے بھیسے واگھولی گاؤں کی رہنے والی ۴۲ سالہ کانتا کہتی ہیں، ’’ہماری یہ حیثیت نہیں تھی کہ ہم اسے ۱۲ویں کے بعد آگے پڑھا پاتے، اس لیے ہم اس کی شادی کے لیے لڑکا دیکھنے لگے۔‘‘
شادی میں مختلف قسم کے اخراجات ہوتے ہیں، لہٰذا کانتا اور ان کے ۴۵ سالہ شوہر، پانڈورنگ اس کے بارے میں فکرمند تھے۔ کانتا کہتی ہیں، ’’میں اور میرے شوہر، ہم دونوں زرعی مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ہمیں یہ لگا کہ موہنی کی شادی کے لیے ہم پیسوں کا انتظام نہیں کر پائیں گے۔ اس وقت جہیز بھی ایک لاکھ روپے لیا جا رہا تھا۔‘‘
میاں بیوی پہلے ہی ۲ء۵ لاکھ روپے کا قرض ادا کر رہے تھے، جسے انہوں نے ایک ساہوکار سے ۵ فیصد ماہانہ شرح سود پر لیا تھا۔ یہ قرض ۲۰۱۳ میں ان کی بڑی بیٹی، اشونی کی شادی کے لیے لیا گیا تھا۔ موہنی کی شادی کے لیے ان کے پاس اپنی زمین بیچنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، جس سے انہیں ۲ لاکھ روپے ملتے۔
بھیسے واگھولی میں واقع ان کے ایک ایکڑ کھیت کی جُتائی نہیں ہو پا رہی تھی۔ کانتا تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہاں پانی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اور ہمارے علاقے میں ہمیشہ خشک سالی رہتی ہے۔‘‘ سال ۲۰۱۶ میں دوسروں کے کھیتوں پر کام کرتے ہوئے کانتا نے یومیہ مزدوری کے طور پر ۱۵۰ روپے اور پانڈورَنگ نے ۳۰۰ روپے کمائے۔ اس طرح ایک مہینے کے اندر انہوں نے مشترکہ طور پر ۲۰۰۰-۲۴۰۰ روپے کمائے۔
ایک رات موہنی نے کانتا اور پانڈورنگ کی زمین بیچنے کے بارے میں کی جا رہی گفتگو سن لی۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنی جان دے دی۔ کانتا بتاتی ہیں، ’’جب ہم کھیت میں کام کر رہے تھے، موہنی نے خود کو پھندے سے لٹکا لیا۔‘‘
موہنی نے اپنے سوسائڈ نوٹ میں لکھا تھا کہ وہ قرض کے بوجھ تلے دبے اپنے باپ کو شادی کے خرچ سے نجات دیتے ہوئے ان کی مصیبتیں کم کرنا چاہتی تھی۔ اس نے جہیز کی رسم کی بھی مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کی وکالت کی۔ موہنی نے اپنے ماں باپ سے درخواست کی تھی کہ اس کی آخری رسومات میں پیسے خرچ کرنے کی بجائے، اس پیسے کا استعمال اس کے بھائی بہن کی تعلیم پر کیا جائے۔ نکیتا اور انیکیت تب بالترتیب ۷ویں اور ۹ویں کلاس میں تھے۔
اس کی موت کے بعد بہت سے سیاسی لیڈر، سرکاری اہلکار، میڈیا سے وابستہ افراد، اور کئی مشہور لوگ ان سے ملنے آئے، ایسا کانتا بتاتی ہیں۔ وہ آگے کہتی ہیں، ’’ان سبھی نے ہمیں بھروسہ دلایا کہ وہ ہمارے بچوں کی تعلیم کا انتظام کریں گے۔ سرکاری اہلکار نے بھی کہا کہ ہمیں جلد ہی سرکاری اسکیم (پردھان منتری آواس یوجنا) کے تحت مکان الاٹ کر دیا جائے گا۔‘‘ پانڈورنگ بتاتے ہیں، ’’نہ صرف پکّا گھر، بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ ہمیں سرکاری اسکیم کے تحت بجلی کا کنکشن اور ایل پی جی گیس کنکشن بھی دیا جائے گا۔ ابھی تک ہمیں ان میں سے کچھ بھی نہیں ملا ہے۔‘‘
بھیسے واگھولی کی سرحد پر واقع ان کا کچّا مکان (بغیر سیمنٹ کے) اینٹوں کو جوڑ کر بنایا گیا ہے۔ کانتا بتاتی ہیں، ’’گھر کی چھت ٹھیک نہیں ہے، اور اکثر سانپ اور گرگٹ گھر میں گھُس آتے ہیں۔ ہم راتوں کو سوتے تک نہیں ہیں، تاکہ ہمارے بچے ٹھیک سے سو پائیں۔ یہ تمام لوگ جو ہم سے ملنے آئے تھے، جب بعد میں ہم نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ہم سے دوبارہ کبھی بات تک نہیں کی۔‘‘
موہنی نے اپنے سوسائڈ نوٹ میں لکھا تھا کہ وہ قرض کے بوجھ تلے دبے اپنے باپ کو شادی کے خرچ سے نجات دیتے ہوئے ان کی مصیبتیں کم کرنا چاہتی تھی۔ اس نے جہیز کی رسم کی بھی مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمہ کی وکالت کی
ان کی زندگی کا ہر دن جدوجہد کی کہانی بیان کرتا ہے۔ کانتا بتاتی ہیں، ’’میں اپنی روزانہ کی مصیبتیں بیان نہیں کر سکتی۔ ہم چاروں طرف سے مصیبتوں سے گھرے ہوئے ہیں۔‘‘ سال ۲۰۱۶ کے بعد سے قحط کی وجہ سے انہیں گاؤں میں بمشکل ہی کام ملتا ہے۔ اپنی تنگ دستی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کانتا کہتی ہیں، ’’یومیہ مزدوری کی اجرت میں سال ۲۰۱۴ سے کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے، مگر کیا تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں بھی وہی ہیں جو تب تھیں؟‘‘
یہ لوگ تھوڑا بہت جو کچھ بھی کماتے ہیں، اس میں سے کانتا کو ذیابیطس کی مہینہ بھر کی دواؤں کے لیے ۶۰۰ روپے الگ رکھنا ہوتا ہے۔ کانتا اور پانڈورنگ، دونوں کو ہی ۲۰۱۷ سے بلڈ پریشر کی شکایت ہے۔ کانتا تھوڑی ناراضگی اور سوالیہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’کیا سرکار ہماری صحت کا خیال نہیں رکھ سکتی؟ معمولی بخار کی دوا بھی ۹۰ روپے سے کم میں نہیں آتی۔ کیا ہمارے جیسے لوگوں کو اس میں کچھ رعایت نہیں ملنی چاہیے؟‘‘
یہاں تک کہ عوامی تقسیم کے نظام (پی ڈی ایس) کے تحت جو راشن انہیں ملتا ہے، وہ بھی بیحد خراب کوالٹی کا ہوتا ہے۔ کانتا بتاتی ہیں، ’’جو چاول اور گیہوں ہمیں (راشن کارڈ رکھنے والوں کو) ملتا ہے، وہ اتنی گھٹیا قسم کا ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ بازار جاکر پھر سے اناج خریدتے ہیں۔ مگر ہمارے جیسے لوگوں کا کیا، جن کی حیثیت اتنی بھی نہیں ہے؟‘‘ کانتا اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومت کی جو بھی فلاحی اسکیمیں ہیں، وہ یا تو لوگوں کی رسائی سے دور ہیں یا اگر قابل رسا ہیں، تو ان سے لوگوں کی بدحالی ذرا بھی دور نہیں ہوتی۔
خشک سالی کے لحاظ سے حساس خطہ، مراٹھواڑہ کے لاتور علاقہ کے لوگوں کو تمام قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ برسوں کے زرعی بحران نے یہاں کے لوگوں کو غریبی اور قرض کے دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ کسی بھی طرح کے راحتی کاموں سے ان کی مشکلیں کم نہیں ہوئی ہیں۔ نتیجتاً غریبی اور قرض کی دو دھاری تلوار پر چلتے ہوئے بہت سے کسانوں نے اپنی جان دے دی۔ سال ۲۰۱۵ میں، موہنی کی خودکشی کے تقریباً سال بھر پہلے ۱۱۳۳ کسانوں نے خودکشی کر لی تھی، اور سال ۲۰۲۰ میں اس قسم کی موت کی تعداد ۶۹۳ درج کی گئی۔
کانتا کی اس بات میں مستقبل کے تئیں نا امیدی اور مایوسی صاف جھلکتی ہے، ’’ہماری بچی نے یہ سوچتے ہوئے جان دے دی کہ اس سے ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔ اب میں اسے کیسے بتاؤں کہ ہم مراٹھواڑہ کے کسان ہیں، ہماری زندگی میں کبھی کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز