ریحانہ بی بی نے ۷ فروری، ۲۰۲۱ کو صبح ۱۰:۳۰ بجے اپنے شوہر، انس شیخ کو فون ملایا تھا، لیکن جب رابطہ نہیں ہو پایا تو انہیں زیادہ فکر نہیں ہوئی۔ انہوں نے ابھی دو گھنٹے پہلے ہی بات کی تھی۔ ’’اُس صبح ان کی دادی کا انتقال ہو گیا تھا،‘‘ ریحانہ بتاتی ہیں، جنہوں نے یہ خبر دینے کے لیے انہیں صبح ۹ بجے فون کیا تھا۔
’’وہ جنازہ میں نہیں آ سکتے تھے۔ اس لیے انہوں نے مجھ سے تدفین کے وقت ویڈیو کال کرنے کو کہا،‘‘ ۳۳ سالہ ریحانہ، مغربی بنگال کے مالدہ ضلع میں بھگبان پور گاؤں میں اپنی ایک کمرے کی جھونپڑی کے باہر بیٹھی کہتی ہیں۔ انس ۱۷۰۰ کلومیٹر سے زیادہ دور – اتراکھنڈ میں گڑھوال کے پہاڑوں میں تھے۔ ریحانہ نے جب دوسری بار فون کیا، تو رابطہ نہیں ہو سکا۔
اُس صبح ریحانہ کے دو فون کال کے درمیان، اتراکھنڈ کے چمولی ضلع میں تباہی آ چکی تھی۔ نندا دیوی گلیشیئر کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے الک نندا، دھولی گنگا اور رشی گنگا ندیوں میں پانی کی سطح کافی بڑھ گئی۔ زبردست سیلاب کی وجہ سے ان ندیوں کے کنارے واقع گھر بہہ گئے، کئی لوگ اس میں پھنس گئے، جس میں اس خطہ میں موجود ہائیڈرو پاور پلانٹس میں کام کرنے والے مزدور بھی شامل تھے۔
انس اُن میں سے ایک تھے۔ لیکن ریحانہ کو معلوم نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے شوہر کو مزید کئی بار فون لگانے کی کوشش کی۔ پھر انہیں تشویش ہونے لگی، جو دھیرے دھیرے گھبراہٹ میں تبدیل ہو گئی۔ ’’میں لگاتار کال کرتی رہی،‘‘ وہ روتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ اور کیا کرنا ہے۔‘‘
ہماچل پردیش کے کِنّور میں واقع چمولی سے تقریباً ۷۰۰ کلومیٹر دور، انس کے چھوٹے بھائی، اکرم نے یہ خبر ٹی وی پر دیکھی۔ ’’سیلاب کی جگہ وہاں سے زیادہ دور نہیں تھی جہاں میرے بھائی کام کرتے تھے۔ میں تباہی کو لیکر ڈر گیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اگلے دن، ۲۶ سالہ اکرم نے کِنّور ضلع کے تاپڑی گاؤں سے ایک بس پکڑی اور رینی (رینی چک لتا گاؤں کے قریب) کے لیے نکل پڑے۔ چمولی کا رشی گنگا ہائیڈل پروجیکٹ اسی جگہ ہے، جہاں انس کام کرتے تھے۔ وہاں نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فورس زندہ بچے لوگوں کا پتا لگانے کے لیے تلاشی مہم میں لگی ہوئی تھی۔ ’’میں ایک آدمی سے ملا جو میرے بھائی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ وہ ۵۷ لوگوں کی ٹیم میں سے بچا ہوا واحد شخص تھا۔ باقی سبھی افراد بہہ گئے تھے۔‘‘
اکرم نے چمولی سے ریحانہ کو فون کیا، لیکن انہیں یہ خبر دینے کی ہمت نہیں جٹا سکے۔ ’’مجھے انس کے آدھار کارڈ کی ایک کاپی چاہیے تھی، لہٰذا میں نے ریحانہ سے کہا کہ وہ مجھے بھیج دیں۔ وہ فوراً ہی سمجھ گئیں کہ مجھے اس کی ضرورت کیوں ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’مجھے اپنے بھائی کے بارے میں پولیس کو اطلاع دینی تھی کہ شاید انہیں اس کی لاش ملی ہو۔‘‘
۳۵ سالہ انس، رشی گنگا پاور پروجیکٹ کی ہائی وولٹیج ٹرانس مشن لائن پر بطور لائن مین کام کرتے تھے۔ وہ ماہانہ ۲۲ ہزار روپے کماتے تھے۔ مالدہ کے کلیاچک- ۳ بلاک میں واقع اپنے گاؤں کے دیگر کئی لوگوں کی طرح، وہ بھی ۲۰ سال کی عمر سے کام کے لیے ہجرت کرتے اور ہر سال صرف چند دنوں کے لیے گھر لوٹتے تھے۔ حادثہ میں غائب ہونے سے پہلے، انہوں نے ۱۳ مہینے میں صرف ایک بار بھگبان پور کا دورہ کیا تھا۔
اکرم بتاتے ہیں کہ پاور پلانٹ میں لائن مین کا کام ہوتا ہے بجلی کے ٹاور لگانا، تاروں کو چیک کرنا اور خرابی کو دور کرنا۔ اکرم بھی یہی کام کرتے ہیں اور ۱۲ویں کلاس تک پڑھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ۲۰ سال کی عمر سے ہی کام کے لیے ہجرت کرنا شروع کر دیا تھا۔ ’’ہم نے کام کرتے ہوئے یہ سیکھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ابھی وہ کنّور کے ہائیڈرو پاور پلانٹ میں کام کرتے ہیں اور ماہانہ ۱۸ ہزار روپے کماتے ہیں۔
بھگبان پور کے مرد اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے پاور پروجیکٹوں پر کام کرنے کے لیے سالوں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ ۵۳ سالہ اخیم الدین تقریباً ۲۵ سال پہلے لائن مین کے طور پر کام کرنے گئے تھے۔ ’’میں ہماچل پردیش میں تھا۔ جب میں نے کام شروع کیا تھا تب مجھے ایک دن میں ۵۰۔۲ روپے ملتے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’جتنا ہو سکتا ہے ہم اتنا کمانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ پیسے اپنے پاس رکھتے ہیں اور باقی گھر پر بھیج دیتے ہیں تاکہ فیملی زندہ رہ سکے۔‘‘ ان کی نسل کے کارکنوں کے ذریعہ تشکیل کردہ نیٹ ورک نے انس اور اکرم کے لیے اُن کے نقش قدم پر چلنا آسان بنایا۔
لیکن اُن کا کام خطروں سے کھیلنے جیسا ہے۔ اکرم نے اپنے کئی ساتھی کارکنوں کو بجلی کے جھٹکے سے مرتے یا زخمی ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ’’یہ خطرناک ہے۔ ہمیں معمولی تحفظ ملتا ہے۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘‘ مثال کے طور پر، ویسی ایکولوجیکل تباہی جو اُن کے بھائی کو بہا لے گئی (انس اب بھی لاپتہ ہیں؛ ان کی لاش نہیں ملی ہے)۔ ’’لیکن ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ زندہ رہنے کے لیے ہمیں کمانا ہی پڑتا ہے۔ مالدہ میں کوئی کام نہیں ہے۔ ہمیں یہاں سے ہجرت کرکے باہر جانا پڑتا ہے۔‘‘
مالدہ ملک کے سب سے غریب ضلعوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کی دیہی آبادی کے ایک بڑے حصہ کے پاس زمین نہیں ہے اور وہ مزدوری پر منحصر ہیں۔ ’’ضلع میں زراعت روزگار کا بنیادی ذریعہ ہے،‘‘ مالدہ کے ایک سینئر صحافی، سُبھرو مائیترا کہتے ہیں۔ ’’لیکن لوگوں کے پاس زمین کے بہت چھوٹے چھوٹے اور معمولی ٹکڑے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر زمین اکثر آنے والے سیلاب میں ڈوب جاتی ہے۔ کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ یہ زرعی مزدوروں کے لیے بھی ناقابل برداشت ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ضلع میں کوئی صنعت نہیں ہے، اسی لیے یہاں کے لوگ کام کرنے کے لیے ریاست سے باہر جاتے ہیں۔
مغربی بنگال کی حکومت کے ذریعہ ۲۰۰۷ میں شائع کردہ ’ڈسٹرکٹ ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ: مالدہ‘ کارکنوں کی نقل مکانی کی وجوہات پر روشنی ڈالتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبی وسائل کی غیر مساوی تقسیم اور ناموافق زرعی- ماحولیاتی حالات ضلع کے زرعی مزدوروں کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اور دھیمی رفتار سے شہرکاری، صنعتی سرگرمی کی کمی، اور دیہی علاقوں میں کام کی موسمی کمی نے اجرت کی سطحوں کو کم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے غریب کارکنوں کو کام کی تلاش میں دور جانا پڑتا ہے۔
اپریل کے پہلے ہفتہ میں، ملک میں کووڈ- ۱۹ کے معاملوں میں بے پناہ اضافہ کے باوجود، ۳۷ سالہ نیرج مونڈل دہلی میں بہتر کام کی تلاش میں مالدہ سے روانہ ہوئے۔ وہ مالدہ کے مانک چک بلاک کے بھوتنی دیارا (ندی کے کنارے واقع جزیرہ) میں واقع گھر پر اپنی بیوی اور دو نوعمر بچوں کو پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ’’آپ ماسک پہنتے ہیں اور زندگی کے ساتھ چل پڑتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ [۲۰۲۰ کے] لاک ڈاؤن کے بعد شاید ہی کوئی کام ملا ہو۔ سرکار نے جو کچھ دیا ہم نے اسی سے کام چلایا، لیکن ہاتھ میں نقد پیسے بالکل بھی نہیں تھے۔ ویسے بھی، مالدہ میں کام کم ہی ملتا ہے۔‘‘
نیرج کو مالدہ میں ۲۰۰ روپے یومیہ مزدوری ملتی تھی، لیکن دہلی میں وہ ۵۰۰-۵۵۰ روپے کما سکتے ہیں، وہ کہتے ہیں۔ ’’آپ زیادہ بچا سکتے ہیں اور اسے گھر بھیج سکتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ظاہر ہے، مجھے اپنی فیملی کی یاد آئے گی۔ کوئی بھی خوشی سے پردیس نہیں جاتا۔‘‘
مغربی بنگال میں کچھ ہی دنوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، لیکن نیرج کو ووٹ ڈالنے کا موقع کھونے کا کوئی افسوس نہیں ہے۔ ’’زمین پر کچھ نہیں بدلتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمارے گاؤوں سے لوگ ہمیشہ نقل مکانی کرتے رہے ہیں۔ اسے روکنے اور روزگار پیدا کرنے کے لیے کیا کیا گیا ہے؟ جو لوگ مالدہ میں کام کرتے ہیں اُن کا گزارہ مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
گُل نور بی بی کے شوہر، ۳۵ سالہ نجمل شیخ اسے اچھی طرح جانتے ہیں۔ تقریباً ۱۷۴۰۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں، بھگبان پور (مردم شماری ۲۰۱۱) میں وہ انوکھے شخص ہیں، جو یہاں سے کبھی باہر نہیں گئے۔ فیملی کے پاس گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین ہے، لیکن نجمل تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، مالدہ شہر میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتے ہیں۔ ’’وہ ایک دن میں ۲۰۰-۲۵۰ روپے کماتے ہیں،‘‘ ۳۰ سالہ گل نور بتاتی ہیں۔ ’’لیکن کام ہمیشہ نہیں ملتا۔ وہ اکثر بغیر پیسے کے گھر آتے ہیں۔‘‘
حال ہی میں گل نور کے آپریشن پر انہیں ۳۵ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے تھے۔ ’’اُس کے لیے ہم نے اپنی زمین کا ایک حصہ فروخت کر دیا،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’ہمارے پاس کسی ناگہانی حالت کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو کیسے پڑھائیں؟‘‘ گل نور اور نجمل کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں، جن کی عمر ۶ سال سے ۱۶ سال تک ہے۔
انس کے لاپتہ ہونے سے پہلے تک، ریحانہ کو اپنے بچوں کی تعلیم کو لیکر فکر نہیں کرنی پڑتی تھی۔ ان کی بیٹی، ۱۶ سالہ نسریبہ اور بیٹا، ۱۵ سالہ نصیب آسانی سے تعلیم حاصل کر سکتے تھے کیوں کہ ان کے والد گھر پر پیسے بھیج رہے تھے۔ ’’وہ شاید ہی اپنے لیے کچھ رکھتے تھے،‘‘ ریحانہ بتاتی ہیں۔ ’’انہوں نے یومیہ مزدور کے طور پر شروعات کی تھی لیکن حال ہی میں انہیں مستقل عہدہ مل گیا تھا۔ ہمیں اُن کے اوپر بہت فخر تھا۔‘‘
چمولی حادثہ کو دو مہینے سے زیادہ ہو چکے ہیں، لیکن انس کے جانے کا غم ختم نہیں ہوا ہے، ریحانہ کہتی ہیں۔ فیملی کو اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ ریحانہ، جو خاتونِ خانہ ہیں، کہتی ہیں کہ وہ گاؤں میں آنگن واڑی یا حفظانِ صحت کی کارکن بن سکتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ انہیں نوکری کرنے اور تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’’میں نہیں چاہتی کہ میرے بچوں کی پڑھائی میں کوئی رکاوٹ آئے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’میں اسے جاری رکھنے کے لیے کچھ بھی کروں گی۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز