’’مجھے ڈر ہے کہ [محکمہ جنگلات کے ذریعے] ساگوان کی ان سبھی شجرکاری کے سبب، ہمارے بچے صرف اسی کو دیکھ کر بڑے ہوں گے۔ ہمارے پاس جنگل، پیڑ پودے اور جانوروں کے بارے میں جو کچھ بھی علم ہے، وہ سب کھو دیں گے،‘‘ مدھیہ پردیش کے اُمر واڑہ گاؤں کی لیچی بائی اوئیکے کہتی ہیں۔
برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ذریعے ۱۸۶۴ میں قائم کیے گئے ہندوستان کے محکمہ جنگلات کے پاس ملک میں سب سے زیادہ زمینیں ہیں۔ ایک صدی سے بھی زیادہ وقت میں اس نے جو قوانین بنائے ہیں، اس میں تحفظ اور معاش (جیسے لکڑی کی فروخت)، آدیواسیوں اور جنگل کے مکینوں کے جرائم کا بہانہ بنا کر جنگلات اور زمینوں کی گھیرا بندی کر دی گئی ہے، اور ان قوانین کا استعمال انہیں ان کی آبائی زمین سے بے دخل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس ’’تاریخی نا انصافی‘‘ کو دور کرنے کے لیے ۲۰۰۶ کا حق جنگلات قانون جیسا اصلاحی قانون بنایا گیا تھا، جس کے تحت جنگل میں رہنے والی برادریوں ( ۱۵۰ ملین سے زیادہ ہندوستانیوں) کو زمین کا مالکانہ حق، اور اپنے جنگلات کو کنٹرول اور محفوظ کرنے کے اختیار دیے گئے۔ لیکن اس قسم کے التزامات کو بہت کم نافذ کیا جاتا ہے۔
ہندوستانی جنگلات قانون (۱۹۲۷) اور قانون برائے تحفظ جنگلات (۱۹۸۰) جیسے پہلے کے قوانین کے بھی اس قسم کے التزامات کا برا حال ہے، جو محکمہ جنگلات کو فیصلہ لینے اور جنگلات کو کنٹرول کرنے کے لیے وسیع اختیارات دیتے ہیں۔ نیا زمین کو جنگل بنانے کا متلافی قانون (۲۰۱۶) بھی محکمہ جنگلات کو شجرکاری کرنے کے لیے روایتی زمین پر قبضہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سپریم کورٹ میں زیر سماعت ایک معاملے میں، جہاں ریٹائرڈ جنگلاتی افسران اور محافظ گروپوں نے حق جنگلات قانون کے جواز کو چیلنج کیا ہے، جس سے وہاں کے مکینوں کو بے گھر کرنے کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے، وہیں حالیہ سماعت کے دوران مرکزی حکومت کے وکیل ایف آر اے کے حق میں بحث نہیں کر رہے ہیں۔
جنگلات کے مکین، ان کے مشترکہ گروپ، جنگل کے ملازمین کی تنظیم اور بایاں محاذ طویل عرصے سے بے گھر کیے جانے کے خطرے اور حق جنگلات قانون کو ٹھیک سے نافذ نہ کرنے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ۲۰-۲۱ نومبر کو، ۱۰ سے زیادہ ریاستوں کے لوگ میٹنگوں اور جنتر منتر پر احتجاج کرنے کے لیے راجدھانی میں جمع ہوئے۔
ان میں لاکھوں آدیواسیوں اور دلت خواتین میں سے کچھ نے شرکت کی جو جنگل اور زمین کے اپنے انفرادی اور مشترکہ حقوق کو محفوظ کرنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، جو کہ ان کے جینے کا واحد ذریعہ ہے۔ پاری (PARI) نے ان میں سے کچھ لوگوں سے بات کی اور تشدد اور تفریق کے ان کے تجربات کے بارے میں جاننا چاہا۔
دیونتی بائی سون وانی، تیلی (او بی سی) فرقہ؛ بیجا پار گاؤں، کورچی تعلقہ، گڑھ چرولی ضلع، مہاراشٹر
ہم ۲۰۰۲ سے اپنی زمین کا پٹّہ [مالکانہ حق] حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔ ایک بار تلاتی سروے کرنے آیا تھا، لیکن وہ نشے میں تھا اور اس نے ہماری زمین کو نظر انداز کر دیا۔ سرکار ایسا کیوں کرتی ہے، وہ جو کچھ کرتی ہے وہ میرے جیسے لوگوں کے لیے ایک معمہ ہے۔ دس سال قبل، جنگلات کا افسر میری زمین پر آیا اور بولا کہ محکمہ اس پر نرسری بنانے جا رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا، ’’دیکھو بھئی، جس طرح سے تم یہ کام اپنی فیملی کو کھلانے کے لیے کر رہے ہو، اسی طرح میں بھی اس زمین پر کھیتی کر رہی ہوں۔ تم چونکہ ڈیوٹی کر رہے ہو [ایک ملازم ہو] تو تمہیں فخر ہے، لیکن کیا میری محنت کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ تم اپنا کام کرو، اور مجھے میرا کام کرنے دو۔‘‘ وہ مان گیا اور بولا، ’’ٹھیک ہے دیدی، میں آپ کی زمین پر نرسری نہیں بناؤں گا۔‘‘ اور دفعہ اور، میری سہیلی اور میں جنگل سے بانس کاٹنے جا رہے تھے، اور جنگل کے ایک گارڈ نے ہمیں روک دیا اور کہا کہ وہ ہماری کلہاڑی ضبط کر لے گا۔ ’پھر ہم بانس کیسے کاٹیں گے؟‘ ہم نے اس سے پوچھا۔ ’اپنے ننگے ہاتھوں سے؟‘ ہم نے اسے درخت سے باندھنے کی دھمکی دی اور اس سے اتنی لڑائی ہوئی کہ اسے پیچھے ہٹنا پڑا۔ پٹّہ کے لیے ہماری لڑائی ابھی جاری ہے۔
تیجا اوئیکے، گونڈ آدیواسی؛ اورائی گاؤں، بچھیا تعلقہ، منڈلا ضلع، مدھیہ پردیش
’’ہم نہیں جانتے کہ یہ قوانین کیا ہیں اور یہ پروجیکٹ کیا ہیں، لیکن انہوں نے جنگلات تک ہماری رسائی پر روک لگا دی ہے۔ ہمارے علاقے میں ساگوان کی شجرکاری کے لیے صدیوں پرانے درختوں کو کاٹا جا رہا ہے۔ گاؤں کے ایک فرد کو گاؤں کی جنگلات کمیٹی کا سکریٹری بنایا گیا ہے، اور رینج آفس [محکمہ جنگلات] میں اہلکاروں کے ذریعے تیار کی گئی تمام اسکیموں کے لیے اسی کا دستخط لیا گیا ہے۔ کوئی بھی ہم خواتین سے نہیں پوچھتا ہے، اور ہمارے ذریعے لگائے گئے درختوں اور ہمارے ذریعے محفوظ کیے گئے جنگلات کو برباد کیا جا رہا ہے۔ وہ ساگوان کے درختوں کو کاٹتے ہیں، اس کی لکڑیوں کو ٹرک پر لادتے ہیں، اور اس سے تجارت کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں کہ جنگلات کو آدیواسی برباد کر رہے ہیں۔ ہم شہری لوگ نہیں ہیں جن کے پاس تنخواہ والی نوکریاں ہوں۔ جنگلات ہماری آمدنی اور کھانے کا ذریعہ ہیں۔ اسی میں ہمارے جانور جاتے ہیں۔ ہم جنگلات کو برباد کیوں کریں گے؟‘‘
کملا دیوی، سنیا بستی (بلہیری پنچایت)، کھٹیما بلاک، اودھم سنگھ نگر ضلع، اتراکھنڈ
سرکار نے ہمارے گاؤں کے ۱۰۱ کنبوں کے ذریعے دائر انفرادی حقوقِ جنگلات ک دعووں کو منظوری نہیں دی ہے، جسے ہم نے ۲۰۱۶ میں دائر کیا تھا۔ محکمہ جنگلات کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کی ہے۔ پچھلے سال، ۲۴ نومبر کو، جنگلاتی افسر جے سی بی کے ساتھ ہمارے گاؤں آئے اور گیہوں کی ہماری کھڑی فصل کو روند دیا۔ ہم ایف آئی آر [پہلی اطلاعاتی رپورٹ] درج کرانے کے لیے پولس کے پاس دوڑے، لیکن انہوں نے اسے درج کرنے سے منع کر دیا اور ہم سے کہا، ’جنگل میں کیوں بیٹھے ہو؟‘ اوپر سے، محکمہ جنگلات نے ہم ۱۵ خواتین کے خلاف معاملہ درج کر لیا – میرے خیال سے یہ معاملہ سرکاری اہلکاروں کے کام میں رخنہ ڈالنے سے متعلق ہے۔ میری بہو، جس کی گود میں اس وقت ایک مہینے کا بچہ تھا، اس کا نام بھی اس میں ڈال دیا گیا۔ وکیل کرنے کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو ۲۰۰۰ روپے دینے پڑے، جو ہمارے خلاف درج کیے گئے اس مقدمہ میں ہائی کورٹ سے اسٹے لے کر آئے گا۔ دو فصلیں ایسے ہی چلی گئی ہیں ہماری۔ ہمیں کافی عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ محکمہ جنگلات نے ہمارے علاقے کی مشترکہ زمینوں کو چاروں طرف سے گھیر دیا ہے اور اس میں درخت لگا دیے گئے ہیں۔ پچھلے سال، ایک گائے اس میں گھُس گئی جس کے بعد انہوں نے اس کے مالک کے خلاف معاملہ درج کر لیا۔ وہ ہمیں پریشان کرنے کے لیے اسی طرح سے قانون کا استعمال کرتے ہیں۔
راجِم ٹانڈی، پتھورا شہر، پتھورا بلاک، مہاسمند ضلع، چھتیس گڑھ
ایک دلت ہونے کے ناطے، میں اس تشدد کے لیے زندہ ہوں جس کا ہم خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ ہم قانونی طور پر زمین کے مالک نہیں ہیں۔ جب تک کہ پراپرٹی ہمارے نام نہیں لکھی جاتی، تب تک ہمارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اسی لیے ہم نے اپنے علاقے میں دلت آدیواسی منچ قائم کیا ہے۔ یہ عام لوگوں کی تنظیم ہے، جس کے ۸۰ گاؤوں سے ۱۱۰۰۰ سے زیادہ رکن ہیں، جو سالانہ ۱۰۰ روپے اور ۱ کلو چاول جمع کرتے ہیں۔ ہم گاؤوں والوں کو ان کی زمین اور جنگلاتی حقوق کے بارے میں بیدار کرنے کے لیے پرچے چھپواتے ہیں، انہیں بتاتے ہیں کہ جب افسر انہیں ڈرائیں اور کہیں کہ جنگل سرکار [ریاست] کا ہے تو انہیں اس کا جواب کیسے دینا ہے۔ یہ ہماری زمینی سطح کی طاقت کی بنیاد پر ہی ممکن ہو پایا کہ ہم مجوزہ باگھ مارا سونے کی کان [جو ۲۰۱۷-۱۹ میں پڑوس کے بلودا بازار ضلع کے سونا کھان گاؤں میں ۱۰۰۰ ایکڑ میں پھیلی ہوئی ہے؛ جس کا پٹّہ مبینہ طور پر ردّ کر دیا گیا ہے] کے لیے [بین الاقوامی کانکنی کارپوریشن] ویدانتا کو چیلنج کر سکے۔
بیدی بائی، گراسیا آدیواسی؛ نچلا گڑھ گاؤں، آبو روڈ تعلقہ، سروہی ضلع، راجستھان
ہم جب جنگل کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت کرتے تھے، تو کوئی بھی قانون یا افسر آکر ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا تھا۔ پھر وہ ہمیں یہاں سے نکالنے کے لیے اب کیوں آ رہے ہیں؟ محکمہ جنگلات نے نرسری بنائی ہے اور شجرکاری کی ہے اور اس کے چاروں طرف چھ فٹ اونچی دیوار کھڑی کر دی ہے – اُس پار جانے کے لیے کوئی چھلانگ بھی نہیں لگا سکتا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ شجرکاری پیسے کمانے کا ایک طریقہ ہے۔ میرا نام ہماری زمین کے پٹّہ پر نہیں ہے، پھر بھی ہم نے چھ سال پہلے ایف آر اے کا دعویٰ کیا تھا۔ زمین اب میرے شوہر کے بڑی بھائی کے نام پر ہے۔ شادی کے ۱۵ سال بعد، ہمارا کوئی بچہ نہیں ہے۔ میرا دل یہ سوچ کر ڈرتا ہے کہ مجھے گھر سے باہر نکال دیا جائے گا یا میرے شوہر دوسری شادی کر لیں گے۔ اگر پٹّہ پر میرا نام ہوگا، تو مجھے کچھ تحفظ ملے گا۔ ہم بھی زمین پر محنت کرتے ہیں اور اس سے فصلیں نکالتے ہیں۔ پھر زمین صرف مردوں کے نام پر ہی کیوں ہے؟
کلاتی بائی، بریلا آدیواسی؛ سیوال گاؤں، کھکنار بلاک، برہان پور ضلع، مدھیہ پردیش
۹ جولائی کو میں گھر پر تھی جب بچے دوڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ انہوں نے ہمارے کھیتوں میں جے سی بی اور ٹریکٹر دیکھے ہیں۔ ہم گاؤں والے ادھر بھاگے اور دیکھا کہ محکمہ جنگلات کے افسر ۱۱ جے سی بی اور ٹریکٹر لے کر آئے تھے اور انہوں نے ہماری فصلوں کو روند دیا تھا اور گڑھے کھود رہے تھے۔ بحث ہونے لگی اور انہوں نے مردوں پر [پیلٹ گن سے] فائر کر دیا – کسی کو سینے میں گولی لگی، کسی کو پیٹ میں، تو کسی کو حلق میں۔ سال ۲۰۰۳ میں بھی، ہمارے گھروں کو جلا دیا گیا تھا، اور ہمارے آدمیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ انہوں نے ہمارے جانوروں کو ضبط کر لیا، انہیں ہمیں واپس کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں نیلام کر دیا۔ ہمیں کئی مہینوں تک پیڑوں کے نیچے رہنا پڑا ہم اس زمین پر نسلوں سے کھیتی کر رہے ہیں۔ لیکن جنگلاتی افسر ہم سے کھلے عام کہتے ہیں کہ حق جنگلات قانون سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، اور یہ زمین ان کی ہے۔
لیچی بائی اوئیکے، گونڈ آدیواسی؛ امرواڑہ گاؤں، بچھیا تعلقہ، منڈلا گاؤں، مدھیہ پردیش
ہماری نگرانی والے جنگلات میں آپ جس قسم کی رنگا رنگی دیکھ رہے ہیں، ویسی آپ کو وہاں نظر نہیں آئے گی جہاں سرکار نے درخت لگائے ہیں۔ وہاں پر آپ کو صرف ساگوان دکھائی دے گا۔ اس سال بھی، انہوں نے ہمارے گاؤں کے ارد گرد کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا، ساگوان لگائے اور کانٹے دار تاروں سے اسے گھیر دیا۔ اس ساگوان کا کیا استعمال ہے؟ ہمارے جانور کہاں چرنے جائیں گے؟ ہم اپنے مویشیوں کے لیے ایک گوتھن بنانا، اور پانی جمع کرنے کے لیے اپنے گاؤں کے تالاب کو گہرا کھودنا چاہتے تھے۔ لیکن محکمہ جنگلات نے اس کی بھی اجازت نہیں دی۔ مجھے ڈر ہے کہ ساگوان کی ان تمام شجرکاری کے سبب، ہمارے بچے صرف اسی کو دیکھ کر بڑے ہوں گے۔ ہمارے پاس جنگل، پیڑ پودے اور جانوروں کے بارے میں جو کچھ بھی علم ہے، وہ سب کھو دیں گے۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)