اُن سے جب میرا تعارف کرایا گیا، تو میری پہلی سوچ یہی تھی کہ ان کا نام پوری طرح سے غلط ہے۔ وہ انھیں لڑائیتی دیوی کہتے ہیں (موٹے طور پر ترجمہ کرنے پر، اس کا مطلب ہے جھگڑالو انسان)، لیکن میرے لیے، پہلی نظر میں وہ ایک پر اعتماد مجاہد ہیں – جو اپنی طاقت سے پر امید ہیں – لیکن، اس سے بھی اہم بات، وہ اپنی کمزوریوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔
وہ مجھ سے کرسی پر بیٹھنے کے لیے کہتی ہیں۔ میں ان سے ایک ساتھ بیٹھنے کے لیے کہتی ہوں تاکہ ہمیں گفتگو کرنے میں آسانی ہو۔ لہٰذا، وہ اپنے لیے ایک اور کرسی کھینچ لیتی ہیں۔ ہم ان کے دو کمرے والے گھر کے برآمدے میں ہیں۔
میں سلماتا گاؤں میں ہوں – اتراکھڈ کے اودھم سنگھ نگر کے ستارگنج بلاک میں۔ یہ تقریباً ۱۱۲ کنبوں کا ایک گاؤں ہے، جس کے زیادہ تر لوگ ریاست کے سب سے بڑے درج فہرست قبیلہ، تھارو کے ہیں – جو کہ ایک کہاوت کے مطابق، اپنی نسل راجپوت شاہی خاندان کو بتاتے ہیں۔ لڑائیتی، جو کہ ایک تھارو ہیں، سے میرا تعارف ایک ایسے شخص کے طور پر کرایا گیا، جن کی طرف دیگر مقامی خواتین دیکھتی ہیں۔ میں ان کی کہانی جاننے کے لیے بیتاب ہوں۔
وہ اپنی زندگی کی کہانی ۲۰۰۲ سے بتانا شروع کرتی ہیں۔ ’’میں کیا تھی – ایک عام عورت؟ پھر کچھ لوگ سامنے آئے اور ہمیں بتایا کہ ہمارا ایک گروپ بن سکتا ہے – جو ہمیں طاقت بخشے گا۔ ہم پیسہ بچا سکتے ہیں۔‘‘
ان علاقوں میں خود اختیاری کے لیے سیلف ہیلپ گروپ کا طریقہ آزمایا ہوا ایک ذریعہ ہے، جیسا کہ میں نے برسوں میں سیکھا ہے۔ میں نے یہ بھی جانا ہے کہ وہ ہمیشہ کام نہیں کرتے ہیں۔ لڑائیتی کے معاملے میں، شروعات اچھی تھی۔ انھوں نے ’ایکتا‘ نام کا مشورہ دیا، لیکن حسد اور غلط فہمیاں بڑھنے لگیں، جس کی وجہ سے گروپ ٹوٹنے لگا۔
’’اصلی وجہ، مجھے معلوم ہے، مرد تھے۔ وہ ہم عورتوں کے ایک ساتھ آنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ صدیوں سے ہمارے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔ مرد شراب پیتے ہیں اور تاش کھیلتے ہیں۔ ہمیں بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے...‘‘ ان کی آواز دھیمی ہو جاتی ہے۔
لڑائیتی کے خود اپنے شوہر، رام نریش ناراض تھے۔ ’’وہ پوچھتے، ’کیا تم نیتا بننے کی کوشش کر رہی ہو؟‘ میرے سسر نے کہا کہ میں نے فیملی کا نام برباد کر دیا ہے۔ میں فیملی کی کسی بھی دیگر خاتون کے برعکس تھی،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
دو لڑکیوں اور ایک لڑکے کی ماں لڑائیتی کو تب یہ احساس ہونا شروع ہوگیا تھا کہ جب تک وہ خود کھڑی نہیں ہوتیں، فیملی کے چھوٹے سے کھیت سے ہونے والی معمولی آمدنی انھیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ انھوں نے پیسے کمانے کے لیے الگ الگ راستے تلاش کیے۔ ایک بار وہ بکری پالنے کی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے دن بھر غائب رہیں۔ لیکن کچھ بھی کام نہیں آ رہا تھا۔ ’’میں راتوں کو جاگتی رہتی، اس خوف سے کہ میرے بچوں کی زندگی بھی میرے جیسی نہ ہو جائے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
اس کا حل گاؤں کی ہی ایک دیگر خاتون سے بات چیت کے دوران نکل کر سامنے آیا، جس نے مشورہ دیا کہ لڑائیتی دری (سوتی کپڑوں کے ٹکڑے) کی بُنائی میں اپنا ہاتھ آزما سکتی ہیں۔ تھاروؤں کے درمیان، دریاں بیش قیمتی ہوتی ہیں – روزمرہ استعمال کی اشیاء کے طور پر اور شادیوں میں کثرت سے تحفہ دینے کے لیے۔ اس میں استعمال کیے جانے والے کپڑے پھٹی ہوئی ساڑیوں، چھوڑ دیے گئے سوٹ، بیکار پڑے کپڑوں کے ٹکڑوں سے آتے ہیں۔
سسروال والوں کو سمجھانا ایک چیلنج تھا، لیکن انھیں اس بات کی تسلی تھی کہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلیں گی۔ ایک کرگھا لایا جانا تھا، اور ۲۰۰۸ تک لڑائیتی کو بہت سی سرکاری اور غیر سرکاری اسکیموں کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا کہ قرض کا انتظام کیسے کیا جا سکتا ہے۔ علاقے میں سرگرم ایک تنظیم نے انھیں بُنائی کے بارے میں ٹریننگ دی۔
شروع میں وہ کام کی تلاش میں گھومیں۔ پھر اپنے گھریلو کاموں سے لڑائیتی کو جو تھوڑا بہت وقت ملتا، اس میں وہ کرگھے پر بیٹھنے سے پہلے کپڑے کی کٹائی، چھنٹائی اور میلان کرتیں۔ ’’کرگھا میں ایک نغمہ ہے۔ یہ مجھے گانے پر مجبور کر دیتا ہے،‘‘ وہ مسکراتی ہیں۔ لڑائیتی کی انگلیاں جیسے ہی اپنا جادو دکھاتی ہیں، ان کے ہنر کی شہرت ہونے لگتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی دریاں دوسروں سے الگ ہوتی ہیں۔ ان کے رنگوں میں بولنے کی طاقت تھی۔ ڈیزائن مسکراہٹ پیدا کر سکتے تھے۔ کام بڑھتا گیا۔ پڑوسی شہر کھٹیما سے آرڈر آنے شروع ہو گئے۔ رام نریش کے ذریعے لگاتار جتائی گئی ناراضگی ختم ہونے لگی۔
آج، وہ دو دنوں میں ایک دری بُن لیتی ہیں۔ ان میں جو پیچدار ہوتی ہے اس کے انھیں ۸۰۰ روپے ایک عدد کے ملتے ہیں، جو سادہ ہوتی ہے اسے لوگ ۴۰۰ روپے میں لے جاتے ہیں اور وہ ان سے ہر مہینے تقریباً ۸۰۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ کھیتی سے سالانہ ۳-۵ لاکھ روپے کے درمیان مل جاتا ہے، اس کے لیے انھوں نے آرگینک طریقے سیکھے ہیں اور پھر انھیں آزمایا ہے۔ ان کے دن لمبے ہوتے ہیں – صبح ۵ بجے شروع ہوتے ہیں اور رات میں ۱۰ بجے سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔
ان برسوں میں، انھوں نے کئی لڑائیاں ہاریں اور کئی جیتیں۔ وہ سیلف ہیلپ گروپ کو دوبارہ زندہ کرنے میں کامیاب رہیں، جس میں اب ۳ لاکھ روپے سے زیادہ کی مشترکہ بچت ہو چکی ہے، اور اپنے بچوں کی تعلیم اور فیملی کے کھیت کے لیے قرض لیے۔ پڑوسی گاؤوں کی عورتیں بھی ان سے صلاح لیتی ہیں۔ دو سال پہلے، عورتوں نے مقامی سطح پر شراب بنانے والے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ مردوں کو برباد کرنے والے پیشہ کو بند کر دے۔ خود لڑائیتی کے اپنے شوہر نے اس کی مخالفت کی۔ ’’مجھے بہت شرم آئی۔ اتنے سالوں کے بعد بھی، وہ میری صلاحیت کو نہیں دیکھ رہے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
چالیس سال کی عمر میں، لڑائیتی نے زندگی میں سکون حاصل کر لیا ہے۔ ’’سب کچھ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یہ کوشش نہیں کرنی چاہیے،‘‘ وہ مجھ سے کہتی ہیں۔
پھر بھی ایک ناکامی انھیں پریشان کرتی ہے – وہ اپنی بڑی بیٹی کو سائنس میں تعلیم جاری رکھنے میں مدد نہیں کر سکیں۔ ’’بی اے کو کون پوچھتا ہے، آپ مجھے بتائیں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ لیکن ایک بار جب بیٹی نے انھیں چھیڑا کہ وہ خود کتنی تعلیم یافتہ ہیں (لڑائیتی نے ۸ویں کلاس تک پڑھائی کی ہے) تو ماں نے خاموشی اختیار کر لی۔
میں لڑائیتی سے کہتی ہوں کہ ان کے کارنامے معمولی نہیں ہیں، اور یہ کہ ان کے اندر جو ہمت ہے وہ حوصلہ کا باعث ہے۔ میں انھیں یہ بھی بتاتی ہوں کہ اگلی بار جب میں آؤں گی، تو اپنی جدوجہد کے بارے میں بات کروں گی۔
روانہ ہونے سے پہلے میں ان سے یہ پوچھنے سے خود کو نہیں روک سکی کہ – یہ نام کیوں۔ وہ کھل کر مسکراتی ہیں۔ ’’کیا آپ نہیں جانتیں... برسوں پہلے، جب میں نے اپنی خود کی دریافت شروع کی، تو کسی نے میرا نام سُنینا [خوبصورت آنکھیں] رکھ دیا۔ میرا ماننا ہے کہ یہ وہ نام ہے جس نے مجھے چُنا ہے۔ میں اب یہی نام رکھتی ہوں۔‘‘
ہم گلے ملتے ہیں اور میں وہاں سے روانہ ہو جاتی ہوں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)