دوپہر کا وقت ہے۔ مجھولی گاؤں کے اپنے اینٹ اور مٹی کے بنے گھر سے باہر ایک چارپائی پر بیٹھیں سوکالو گونڈ مذاقیہ لہجے میں کہتی ہیں، ’’ہم ۵ مارچ کو اپنی برادری کے لوگوں کے ذریعے زمین سے قبضہ ہٹانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کا جشن منانے کے لیے رابرٹس گنج میں ضلع کلکٹر کے دفتر گئے تھے۔‘‘
یہ بات انہوں نے ۱۳ فروری، ۱۹۲۱ کو سپریم کورٹ کے ذریعے دیے گئے عبوری فیصلہ کے حوالے سے کہی تھی۔ یہ فیصلہ حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے) کے جواز کے خلاف جنگلی حیات کے تحفظ والے گروپوں کے ذریعے دائر عرضی پر سماعت کے بعد دیا گیا تھا، اور اس فیصلہ میں ہندوستان کی ۱۶ سے زیادہ ریاستوں کے ۱۰ لاکھ سے بھی زیادہ آدیواسیوں کو اپنے رہائشی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ سال ۲۰۰۶ میں بنائے گئے ایف آر اے قانون کا مقصد جنگل میں رہنے والی برادریوں کو ان کی روایتی زمین پر حق دینا تھا، اور تاریخی طور پر ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو دور کرنا تھا۔
اپنے پوتے پوتی اور نواسے نواسیوں سے گھری ہوئی سوکالو کہتی ہیں، ’’ضلع مجسٹریٹ (ڈی ایم) کے دفتر جانا ضروری تھا۔ ہم سب کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جنگل میں رہنے والی دوسری برادریوں کے لوگوں کے ساتھ متحد رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مرکزی حکومت کے ذریعے لیے گئے فیصلہ کے خلاف اپیل کیے جانے کے بعد اس پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے، اس کے باوجود ہمیں اپنا اتحاد متعلقہ عہدیداروں کو دکھانا ہوگا کہ ہم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’ہم میں سے تقریباً ۳۰ لوگ ڈی ایم کے دفتر میں گھُس گئے، پھر بھی وہ نہ تو ناراض ہوئے اور نہ ہی ہمیں بار نکل جانے کے لیے کہا۔ انہوں نے ہمیں بات چیت کرنے کے لیے دوبارہ آنے کو کہا۔ شاید اس لیے کہ ابھی وہ یہاں نئے نئے آئے تھے۔‘‘
میں پہلی بار سوکالو گونڈ سے اتر پردیش کے رابرٹس گنج میں ستمبر ۲۰۱۶ میں ’آل انڈیا یونین آف فاریسٹ ورکنگ پیپل‘ کے دفتر میں ملی تھی (دیکھیں: ’مجھے معلوم تھا کہ میں اس دن جیل جاؤں گی‘ )۔ اے آئی یو ایف ڈبلیو پی (بنیادی طور پر ۱۹۹۶ میں نیشنل فورم آف فاریسٹ پیپل اینڈ فاریسٹ ورکرز کے طور پر قائم کردہ) کا قیام ۲۰۱۳ میں کیا گیا تھا۔ تقریباً ۱۵ ریاستوں میں اس کے تقریباً ایک لاکھ ۵۰ ہزار رکن ہیں۔ اتر پردیش کے ۱۸ ضلعوں میں یہ تنظیم اپنے تقریباً ۱۰ ہزار ممبران کے ساتھ سرگرم ہے۔
سپریم کورٹ کے ذریعے ۱۳ فروری، ۲۰۱۳ کو دیے گئے ایک فیصلہ کی بنیاد پر ہندوستان کی ۱۶ سے زیادہ ریاستوں کے ۱۰ لاکھ سے بھی زیادہ آدیواسیوں کو جنگل کے اپنے رہائشی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دیا گیا تھا
زندگی کی پانچویں دہائی میں پہنچ چکیں سوکالو کے لیے یہ کوئی نئی لڑائی نہیں ہے۔ وہ اس تنظیم میں ۲۰۰۶ میں شامل ہوئیں اور تب سے اس کی خزانچی کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ تنظیم کے دیگر بنیادی مقاصد میں سے ایک حقوق جنگلات قانون کا استعمال کرکے زمین سے متعلق اپنے حقوق کا دعویٰ کرنے والی برادریوں کے مفادات کے لیے بھی آواز اٹھانا ہے۔
جون ۲۰۱۵ میں سوکالو کو ریاست کے کنہر سینچائی پروجیکٹ کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شامل ہونے کے جرم میں ایک مہینہ سے بھی زیادہ وقت تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔ انہیں ۸ جون، ۲۰۱۸ کو دوسری بار گرفتار کیا گیا۔ اس بار ان کے ساتھ تقریباً ۳۰ سال کی کیسمت گونڈ اور ۵۰ کے آس پاس کے سکھدیو گونڈ بھی تھے۔
یہ تینوں تنظیم کے رکن ہونے کے علاوہ گونڈ آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں چوپن ریلوے اسٹیشن پر تب گرفتار کیا گیا، جب وہ لکھنؤ میں محکمہ جنگلات کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے لوٹ رہے تھے۔ انہیں تعزیرات ہند کی دفعہ ۵۰۴ (امن و امان کو بگاڑنے کی نیت سے عوام کو اُکسانے کی کوشش) سمیت ۱۰ سے زیادہ معاملوں میں ملزم بنایا گیا تھا۔ دن ڈھلنے تک سوکالو اور کیسمت کو مرزاپور جیل اور سکھدیو کو سون بھدر جیل بھیج دیا گیا۔ کیسمت اور سکھدیو تو ستمبر میں رہا ہو گئے، لیکن سوکالو کو نومبر ۲۰۱۸ میں چھوڑا گیا۔
’’اس بار کی گرفتاری الگ تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ جیل میں میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے، لیکن میرے اندر کافی غصہ تھا۔ میرا پورا جسم غصے سے بھرا ہوا تھا۔ میرے ساتھ کسی عام مجرم جیسا برتاؤ کیا جا رہا تھا! میرے خلاف جو بھی مقدمے درج کیے گئے تھے، سب کے سب فرضی تھے۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ سب پولیس نے مجھے ڈرانے کے لیے کیا ہے۔ میں قانون کے راستے پر چلتے ہوئے اپنے حق کے لیے لڑ رہی تھی۔ آپ ہی بتائیے، اس میں کیا غلط تھا؟ میں نے جیل میں کھانا کھانے سے منع کر دیا تھا۔ میں صرف وہی پھل اور ہلکی پھلکی چیزیں کھاتی تھی جو مجھ سے ملنے آنے والے لوگ میرے لیے لے کر آتے تھے۔‘‘
ہماری بات چیت کے دوران ہی سوکالو سے ملنے سکھدیو اور کیسمت ان کے گھر آ گئے۔ انہیں اپنے ساتھی، نندو گونڈ کے بارے میں باتیں کرنی تھیں، جنہیں پانچ دن پہلے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ میٹنگ کرتے وقت انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ نندو کو کس پولیس اسٹیشن میں لے جایا گیا ہے۔ ان کی فکرمندی کی بنیادی وجہ یہی تھی۔ ان کا ماننا ہے کہ نندو کی گرفتاری کے پیچھے کی سب سے بڑی وجہ حقوق جنگلات قانون (ایف آر اے) کا استعمال کرنے کے لیے مقامی آدیواسیوں کو بیدار کرنا ہے۔ سوکالو نے انہیں مشورہ دیا کہ انہیں کن لوگوں سے رابطہ کرنے پر فائدہ ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے آدیواسیوں کے ذریعے استعمال کی جانے والی ترکیب ’فون ٹری (فون درخت)‘ پر بھی انہوں نے بات چیت کی۔ (نندو گونڈ کو جیل سے رہا ہوئے ایک ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے۔)
سکھدیو بتانے لگتے ہیں کہ جیل میں بند رہنے کا تجربہ کتنا خوفناک تھا۔ ’’تنظیم میں شامل ہونے کے کچھ مہینے بعد ہی ہمیں گرفتار کر لیا گیا تا۔ میں مار کھانے کی بات سے بہت ڈرا ہوا تھا، کیوں کہ گاؤں کے دوسرے لوگوں سے ہم نے اس کے بہت سے قصے سن رکھے تھے۔ ہمیں بہت خراب کھانا ملتا تھا۔‘‘
کیسمت بتاتی ہیں کہ سوکالو کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انہیں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی، لیکن انہیں اپنے بچوں کی بہت یاد آتی تھی۔ ’’مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، لیکن سوکالو نے صبر سے کام لیا، اور اسے دیکھ کر ہم نے بھی ہمت سے کام لیا۔ اس کے بعد بھی کئی سوال میرے ذہن میں دوڑتے رہتے تھے – کیا ہم کبھی جیل سے باہر نکل سکیں گے؟ ہم سب یہاں کب تک بند رہیں گے؟‘‘
بہرحال، نندو سے رابطہ کرنے کا منصوبہ بنانے کے بعد وہ سبھی چلے جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ سوکالو اپنا زیادہ تر وقت فون پر بات کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔ انہیں تنظیم کے ممبران کو متحد رکھنا ہوتا ہے، ان کے سوالوں کا جواب دینا ہوتا ہے، اور ضرورت کے مطابق انہیں مدد پہنچانی ہوتی ہے۔ برادری کے لوگ راشن پانے کے لیے آدھار کارڈ بنوانے کی خاطر بھی ان سے ملنے آتے ہیں۔
سوکالو کہتی ہیں کہ اتنی محنت تھکانے والی ہوتی ہے۔ انہیں اپنے گھر کے ساتھ ساتھ تنظیم کو بھی سنبھالنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن یونین کا کام رکنا نہیں چاہیے۔ حالانکہ، مجھے اب زیادہ سفر کرنا پڑتا ہے اور بچوں کے بارے میں بہت فکرمند رہتی ہوں۔‘‘
سپریم کورٹ نے ۲۸ فروری، ۲۰۱۹ کو عرضی پر دیے گئے فیصلہ پر روک لگاتے ہوئے ریاستی حکومتوں کو حقوق جنگلات قانون کے تحت آدیواسیوں کے رہائش سے متعلق دعووں پر جواب دینے کے لیے کہا ہے۔ بہرحال، یہ عارضی راحت ہے۔
سپریم کورٹ نے ۲۴ جولائی کو ایک بار پھر سے بے دخلی کے معاملے پر سماعت کرنے کی تاریخ طے کی ہے۔
سوکالو کو معلوم ہے کہ آگے کی راہ ابھی بھی لمبی ہے۔ ’’ایسا نہیں ہے کہ ہم نے جو درخت لگائے ہیں ان میں لگنے والے پھلوں کا ذائقہ ہمیں ہی ملے گا۔ جو لوگ ہماری محنت سے لگائے گئے ان پھلوں کو چکھیں گے ان کا آنا ابھی باقی ہے۔ وہ میری آنے والی نسلیں ہیں اور میں یہ کام ان کے لیے ہی کر رہی ہوں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز