’’میرے پاس کھیت نہیں ہیں، نہ ہی میرے اجداد کے پاس تھے،‘‘ کمل جیت کور کہتی ہیں۔ ’’پھر بھی، میں یہاں چھوٹے طریقے سے اپنے کسانوں کی مدد کر رہی ہوں، کیوں کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا، تو مجھے اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کارپوریٹوں سے نمٹنا پڑے گا۔‘‘
پنجاب کے لدھیانہ شہر کی رہنے والی ۳۵ سالہ کمل جیت ایک ٹیچر ہیں، اور سنگھو میں ایک سایہ دار جگہ پر کچھ سہیلیوں کے ساتھ سلائی مشینیں چلا رہی ہیں۔ وہ یکے بعد دیگر احتجاجی مقام پر آتی ہیں، ایک بار میں تین دنوں کے لیے، اور احتجاج کر رہے کسانوں کی شرٹ کے ٹوٹے ہوئے بٹن مفت میں لگاتی ہیں یا ان کی پھٹی ہوئی شلوار قمیض کی سلائی کرتی ہیں۔ ان کے پاس ہردن تقریباً ۲۰۰ لوگ آتے ہیں۔
سنگھو میں اس قسم کی خدمات مختلف شکلوں میں اور انتہائی کشادہ دلی کے ساتھ دستیاب ہیں – احتجاج کو اپنی حمایت کے طور پر۔
اپنی خدمات فراہم کرنے والوں میں سے ایک، ارشاد (پورا نام دستیاب نہیں ہے) بھی ہیں۔ سنگھو بارڈر سے تقریباً چار کلومیٹر کی دوری پر، کنڈلی صنعتی علاقے میں واقع ٹی ڈی آئی مال کے باہر ایک تنگ گلی کے کنارے پر، وہ ایک سکھ احتجاجی کے سر کی زوردار مالش کر رہے ہیں۔ وہاں کئی دیگر لوگ اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ کروکشیتر کے رہنے والے ارشاد ایک حجام ہیں، اور کہتے ہیں کہ وہ یہاں برادری – بھائی چارے کے جذبے سے آئے ہیں۔
اسی راستے پر، اپنے چھوٹے ٹرک کے باہر سردار گرمیت سنگھ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، جن کے ارد گرد کئی ایسے لوگ مفت میں مالش کرانے کے لیے جمع ہیں، جن کے پُٹھے پنجاب سے سنگھو تک ٹرالیوں میں گھنٹوں سفر کرنے کی وجہ سے درد کر رہے ہیں۔ ’’اس وقت وہ کئی دیگر قسم کی تکلیفوں سے گزر رہے ہیں...‘‘ وہ کہتے ہیں، اس بارے میں بتاتے ہوئے کہ ان کی مدد کرنے کے لیے کیا چیز انہیں یہاں لیکر آئی ہے۔
چنڈی گڑھ کے ڈاکٹر سریندر کمار، سنگھو میں دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ میڈیکل کیمپ کی شکل میں اپنی خدمات فراہم کرر ہے ہیں۔ یہ احتجاجی مقام پر موجود کئی میڈیکل کیمپوں میں سے ایک ہے – ان میں سے کچھ کو کولکاتا یا حیدرآباد جیسے دور دراز کے مقام سے آئے ڈاکٹروں کے ذریعہ چلایا جا رہا ہے۔ ’’ہم تعلیمی سند لیتے وقت کیے گئے عہد کی تعمیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں – روز بروز بڑھتی ٹھنڈ کا سامنا کر رہے بزرگوں کی خدمت کرکے، جن میں سے کئی کھلی سڑکوں پر رہ رہے ہیں،‘‘ سریندر کہتے ہیں۔
حوصلہ بلند رکھنے میں مدد کرنے کے لیے، لدھیانہ کے ستپال سنگھ اور ان کے دوست گنّے کی پیرائی کرنے والی وزنی مشین کو کھلے ٹرک پر لادکر سنگھو تک لائے ہیں۔ ان مشینوں کا استعمال عام طور پر چینی ملوں میں کیا جاتا ہے – احتجاجی مقام پر، ستپال کے ذریعہ لایا گیا کولہو، پاس سے گزرنے والے تمام لوگوں کے لیے میٹھا تازہ رس نکالتا ہے۔ وہ ہر دن گنّے سے بھرے ایک ٹرک کا استعمال کرتے ہیں، جسے لدھیانہ ضلع کے ان کے گاؤں، علیوال میں جمع کیے گئے چندے کے پیسے سے خریدا گیا تھا۔
اور کُنڈلی کے اسی مال والے میدان میں، بھٹنڈا کے نہنگ امن دیپ سنگھ کالے رنگ کے گھوڑے کو نہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ پنجاب کی زرعی اقتصادیات کی حفاظت کرنے کے لیے سنگھو میں ہیں۔ مال کے پاس لگے ایک لنگر میں آنے والوں کو کھانا کھلانے کے علاوہ، امن دیپ اور دیگر (سبھی کا تعلق نہنگ، سکھ جنگجوؤں کی جماعت سے ہے) ہر شام کو دہلی پولیس کے ذریعہ بیریکیڈز کے طور پر استعمال کیے گئے کنٹینر کے مقام پر گاڑے گئے خیمہ کے پاس کیرتن کرتے ہیں۔
امرتسر کے رہنے والے پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم، گرویز سنگھ دیگر طلبہ کے ساتھ، سنگھو میں خیمہ زن کسانوں کو دو ہفتے میں ایک بار شائع ہونے والے اخبار، ٹرالی ٹائمز بانٹتے ہیں۔ انہوں نے کپڑے اور پلاسٹک کی چادروں سے ایک بڑی جگہ کو گھیر لیا ہے اور وہاں آنے والوں کے ذریعہ پوسٹر پر نعرے لکھنے کے لیے کاغذ و قلم رکھ دیے ہیں – ان پوسٹروں کی نمائش وہاں ہمیشہ لگی رہتی ہے، اور وہ ایک مفت لائبریری بھی چلاتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے امبیڈکر اسٹوڈنٹس یونین کے ممبران بھی سنگھو میں مفت لائبریری چلا رہے ہیں، اور وہ پوسٹر بھی بناتے ہیں (سب سے اوپر کی کور فوٹو دیکھیں)۔
رات میں، سنگھو بارڈر سے کُنڈلی لوٹتے وقت، خود کو گرم کرنے کے لیے ہم کئی بار آگ کے پاس رکے، جس کے چاروں طرف مختلف گروپ ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔
ہم اُس سڑک پر بابا گُرپال سنگھ سے ان کے خیمہ میں ملے اور ان کی چائے پی، جو وہ ہمیشہ تیار رکھتے ہیں۔ ۸۶ سالہ بابا گُرپال پٹیالہ کے پاس خانپور گونڈیا گرودوارہ میں ایک سنیاسی اور گرنتھی ہیں۔ وہ ایک عالم شخص ہیں، اور ہمیں سکھوں کی شناخت پر مبنی سیاست کی تاریخ بتاتے ہیں، اور سمجھاتے ہیں کہ کیسے کسانوں کا یہ احتجاج اُن حدود کو پار کرکے سبھی کی بھلائی کے لیے ایک کل ہند تحریک بن گیا ہے۔
میں بابا گُرپال سے پوچھتا ہوں کہ وہ اپنے بزرگ ساتھیوں کے ہمراہ سنگھو میں سیوا (خدمت) کیوں کر رہے ہیں، دن میں آٹھ گھنٹے سب کو چائے کیوں پلا رہے ہیں۔ رات میں آگ اور دھوئیں کے اُس غبار کو دیکھتے ہوئے، وہ جواب دیتے ہیں، ’’یہ ہم سبھی کے لیے باہر آنے اور اپنے حصہ کی خدمت کو انجام دینے کا وقت ہے، کیوں کہ یہ اچھائی اور برائی کے درمیان سیدھی لڑائی بن گئی ہے۔ کروکشیتر کی جنگ [مہابھارت] میں بھی یہی ہوا تھا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز