گیہوں کی فصل کی سینچائی کا وقت آ چکا تھا۔ اور سبرن سنگھ اپنے کھیت میں اس ضروری کام کو کرنے سے چوک نہیں سکتے تھے۔ اس لیے، وہ دسمبر کے پہلے ہفتہ میں ہریانہ-دہلی سنگھو سرحد سے پنجاب میں واقع اپنے گاؤں واپس چلے گئے۔

لیکن وہ ہمیشہ کے لیے اس احتجاجی مظاہرہ کو چھوڑ کر نہیں جا رہے تھے، جہاں وہ ۲۶ نومبر سے ڈٹے ہوئے تھے۔ کچھ دنوں بعد، وہ ۲۵۰ کلومیٹر دور اپنے گاؤں کھانت میں واقع ۱۲ ایکڑ کے اپنے کھیت سے واپس سنگھو آ گئے تھے۔ ۷۰ سالہ کسان بتاتے ہیں، ’’ایسا کرنے والا میں اکیلا نہیں ہوں۔ کئی لوگ اپنے گاؤوں اور احتجاج کے مقامات کے درمیان چکر لگا رہے ہیں۔

کسانوں کے ذریعے تیار کیے جا رہے اس رِلے کی وجہ سے سنگھو پر ان کی تعداد مضبوط بنی رہتی ہے اور یہ بھی یقینی ہو جاتا ہے کہ گاؤں میں ان کی فصلیں بھی نظر انداز نہ ہوں۔

نومبر-دسمبر کے مہینے کا ذکر کرتے ہوئے سبرن بتاتے ہیں، ’’انہی دنوں میں گیہوں کی کھیتی شروع کی جاتی ہے۔ جب میں یہاں نہیں تھا، تب میرے گاؤں کے ہی کچھ دوستوں نے سنگھو پر میری جگہ لی تھی۔‘‘

آندولن کرنے والے کئی لوگ اسی طرح آ جا رہے ہیں۔ پہلے ایک فوجی رہ چکے سبرن بتاتے ہیں، ’’ہم میں سے کئی لوگوں کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں۔ یہ گاڑیاں یہاں سے ہمارے گاؤوں کے درمیان چلتی رہتی ہیں۔ لیکن کاریں کبھی خالی نہیں رہتیں۔ اگر چار لوگوں کو ان کے گاؤں چھوڑا جاتا ہے، تو دیگر چار لوگ ان کی جگہ اسی کار سے واپس آتے ہیں۔‘‘

'The cars keep going back and forth from here to our villages. If four people are dropped there, four others come back in the same car', says Sabaran Singh
PHOTO • Parth M.N.
'The cars keep going back and forth from here to our villages. If four people are dropped there, four others come back in the same car', says Sabaran Singh
PHOTO • Parth M.N.

سبرن سنگھ بتاتے ہیں، ’یہ گاڑیاں یہاں سے ہمارے گاؤوں کے درمیان چلتی رہتی ہیں۔ اگر چار لوگوں کو ان کے گاؤں چھوڑا جاتا ہے، تو دیگر چار لوگ ان کی جگہ اسی کار سے واپس آتے ہیں‘

وہ لوگ سنگھو واپس آ گئے، جو قومی راجدھانی اور اس کے آس پاس واقع احتجاج کے کئی مقامات میں سے ایک ہے، جہاں ۲۶ نومبر سے ہزاروں کی تعداد میں کسان سال ۲۰۲۰ کے ستمبر ماہ میں مرکزی حکومت کے ذریعے پارلیمنٹ میں پاس کروائے گئے نئے زرعی قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں۔

شمالی دہلی کی طرف سے ہریانہ کی سرحد، سنگھو پر ہو رہا احتجاجی مظاہرہ سائز میں سب سے بڑا ہے، جہاں ۳۰ ہزار کسان جمع ہیں۔ وہ تب تک یہاں پر ڈٹے رہیں گے، جب تک قانون واپس نہیں لیے جاتے۔

سبرن جب دسمبر کی شروعات میں فتح گڑھ صاحب ضلع کی کھمانوں تحصیل میں واقع اپنے گاؤں میں تھے، تب وہ ایک شادی میں شامل ہوئے، بینک کے کچھ کام پورے کیے، اور صاف کپڑوں کا ایک بنڈل لے لیا۔ وہ ٹرک میں اپنے گدے کے نیچے بچھی ہوئی سوکھی گھاس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’یہاں پر ہمار پاس تمام سہولیات ہیں۔ اس سے ہمیں گرمی ملتی ہے۔ اوپر سے یہاں بجلی، پانی، اور کمبل بھی ہیں۔ بیت الخلاء کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارے پاس چھ مہینوں سے زیادہ کا کھانے کا سامان ہے۔‘‘

گیہوں اور دھان کی کھیتی کرنے والے سبرن کو اس قانون سے سب سے زیادہ دقت ہے جو ریاست کے ذریعے چلائی جا رہی منڈیوں کو ختم کر دے گا، جہاں سے سرکار کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) پر اناج خریدتی ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے پنجاب اور ہریانہ میں گیہوں اور چاول کی خرید زیادہ اچھی طرح سے ہوتی ہے، اس لیے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زیادہ تر یہیں کے کسان ان قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔ سبرن بتاتے ہیں، ’’جیسے ہی پرائیویٹ کمپنیاں آئیں گی، وہ اجارہ داری قائم کریں گی۔ کسانوں کی نہیں چلے گی اور یہ بڑی کمپنیاں ان قوانین کا سہارا لے کر اپنی من مانی کریں گی۔‘‘

Left: Hardeep Kaur (second from left) says, 'We will go back  for a while when he [an employee looking after their farmland] needs us there. We will be replaced by someone here for that duration'. Right: Entire families at Singhu are engaged in this rotation
PHOTO • Parth M.N.
Left: Hardeep Kaur (second from left) says, 'We will go back  for a while when he [an employee looking after their farmland] needs us there. We will be replaced by someone here for that duration'. Right: Entire families at Singhu are engaged in this rotation
PHOTO • Parth M.N.

بائیں: ہردیپ کور (بائیں سے دوسری) کہتی ہیں، ’ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے واپس جائیں گے، جب اس کو [ایک مزدور جو ان کی زمین کی دیکھ بھال کر رہا ہے] ہماری ضرورت پڑے گی۔ اس دوران ہماری جگہ یہاں کوئی اور رہے گا۔‘ دائیں: سنگھو پر تمام لوگ اسی طرح آ جا رہے ہیں

ان قوانین کو سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔ کسان ان تینوں قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ یہ قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی بازار کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاستی خرید، اور کسانوں کی مدد کرنے والے دیگر طریقوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔

کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں وہ ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ۔ ان کی تنقید اس لیے بھی کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

سبرن کہتے ہیں، ’’یہ لٹیروں کی سرکار ہے۔ آنے والے دنوں میں اور بھی کسان ہم سے جڑیں گے۔ یہ مظاہرہ بڑا ہوتا جائے گا۔‘‘

جو لوگ حال ہی میں مظاہرہ میں شامل ہوئے ہیں، ان میں سے ایک ۶۲ سالہ ہردیپ کور بھی ہیں، جو سنگھو پر دسمبر کے تیسرے ہفتے میں آئی تھیں۔ اپنی تین دوستوں کے ساتھ کڑکڑاتی ٹھنڈ میں شال لپیٹے اور چارپائی پر بیٹھے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ’’میرے بچوں نے مجھے احتجاجی مظاہرے سے جڑنے کے لیے کہا۔‘‘

کور یہاں سنگھو سے تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر دور لدھیانہ کی جگراؤں تحصیل میں واقع چکر گاؤں سے آئی ہیں۔ ان کے بچے آسٹریلیا میں رہتے ہیں، جہاں ان کی بیٹی ایک نرس ہے اور بیٹا ایک فیکٹری میں کام کرتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’وہ لوگ خبریں دیکھتے رہتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اس کا حصہ بننے کے لیے آمادہ کیا۔ ہم نے جب یہاں آنے کا ارادہ کیا، تب ہم نے کورونا کی بھی پرواہ نہیں کی۔‘‘

احتجاج کے مقام پر لگے پوسٹروں کے مطابق، وزیر اعظم نریندر مودی کووڈ۔۱۹ سے بھی بڑے وائرس ہیں۔

PHOTO • Parth M.N.

شمشیر سنگھ (سب سے اوپر بائیں، درمیان میں) کہتے ہیں کہ کسانوں کو گاؤوں میں رہ کر حمایت دینے والے اور مدد کرنے والے لوگ بھی مظاہرین ہیں، بھلے ہی وہ لوگ سنگھو پر دکھائی نہیں دیتے

جب تک کور اور ان کے شوہر جورا سنگھ احتجاج کے مقام پر ہیں، تب تک ان کی ۱۲ ایکڑ کی زمین، جس پر دھان اور گیہوں کی کھیتی ہوتی ہے، اس کی دیکھ بھال ان کا ایک مزدور کر رہا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب اسے ہماری ضرورت پڑے گی، تب ہم لوگ کچھ دنوں کے لیے گاؤں جائیں گے۔ تب یہاں پر ہماری جگہ کوئی اور لے گا۔ ہم لوگ گھر جانے کے لیے گاڑی کرایے پر لیں گے۔ وہی گاڑی گاؤں سے کسی اور کو واپس لے آئے گی۔‘‘

جو لوگ کار سے آنے جانے کا کرایہ نہیں برداشت کر سکتے، وہ لوگ بس سے آ جا رہے ہیں۔ اتر پردیش کے مظفر نگر ضلع کے شیو پوری گاؤں میں چار ایکڑ زمین پر گنّے کی کھیتی کرنے والے ۳۶ سالہ شمشیر سنگھ بتاتے ہیں کہ کسان اپنی ٹریکٹر ٹرالیوں کو بھی احتجاج کے مقام پر لے کر آئے ہیں، لیکن وہ کہیں نہیں جاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ٹریکٹروں کا یہاں کھڑا رہنا یہ دکھاتا ہے کہ ہم نے اس جنگ کے میدان کو نہیں چھوڑا ہے۔ یہ سنگھو پر ہی کھڑے رہتے ہیں۔‘‘

جہاں شمشیر سنگھ سنگھو پر اپنی موجودگی درج کرا رہے ہیں، وہیں گاؤں میں گنّے کاٹے جا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں یہاں کچھ دن اور رہوں گا۔ جب میں یہاں سے چلا جاؤں گا، تب میرا بھائی میری جگہ یہاں رہے گا۔ وہ ابھی گنے کی کٹائی کر رہا ہے۔ کھیتی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ کام چلتا رہنا چاہیے۔‘‘

شمشیر کہتے ہیں کہ کسانوں کو گاؤوں میں رہ کر حمایت دینے والے اور مدد کرنے والے لوگ بھی مظاہرین ہیں، بھلے ہی وہ سنگھو پر دکھائی نہیں دیتے۔ ان کے مطابق، ’’کئی سارے لوگوں نے اس مظاہرہ میں شامل ہونے کے لیے اپنا گھر چھوڑا ہے۔ لیکن ہر کسی کے پاس کھیت کی دیکھ بھال کے لیے فیملی یا معاون نہیں ہیں۔ اس لیے، جو لوگ گاؤں میں ہیں وہ لوگ دو گنا کام کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی بھی زمین پر کٹائی کر رہے ہیں جو سنگھو یا احتجاج کے دیگر مقامات پر موجود ہیں۔ وہ لوگ بھی اس مظاہرے کا حصہ ہیں۔ وہ لوگ بس احتجاج کے مقامات پر موجود نہیں ہیں۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Parth M.N.

ਪਾਰਥ ਐੱਮ.ਐੱਨ. 2017 ਤੋਂ ਪਾਰੀ ਦੇ ਫੈਲੋ ਹਨ ਅਤੇ ਵੱਖੋ-ਵੱਖ ਨਿਊਜ਼ ਵੈੱਬਸਾਈਟਾਂ ਨੂੰ ਰਿਪੋਰਟਿੰਗ ਕਰਨ ਵਾਲੇ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕ੍ਰਿਕੇਟ ਅਤੇ ਘੁੰਮਣਾ-ਫਿਰਨਾ ਚੰਗਾ ਲੱਗਦਾ ਹੈ।

Other stories by Parth M.N.
Editor : Sharmila Joshi

ਸ਼ਰਮਿਲਾ ਜੋਸ਼ੀ ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੀ ਸਾਬਕਾ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ ਅਤੇ ਕਦੇ ਕਦਾਈਂ ਲੇਖਣੀ ਅਤੇ ਪੜ੍ਹਾਉਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique