دلاور شکلگر ۱۹۶۰ کی دہائی کے وسط کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے مسکراتے ہیں۔ ان کے ورکشاپ میں کوئی آدمی لوہے پر ہتھوڑے مار رہا تھا، اور اس سے اڑ کر آنے والے ایک ٹکڑے (چھیلن) نے ان کے بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی کو زخمی کر دیا۔ اس واقعہ کو پانچ دہائی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، لیکن کافی پہلے بھر چکے اُس زخم کا نشان اب بھی دکھائی دے رہا ہے، اور وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میری ہتھیلیوں کو دیکھیں۔ یہ اب دھات کی بن گئی ہیں۔‘‘
اُن پانچ سے زیادہ دہائیوں میں، ۶۸ سالہ دلاور نے گرما گرم لوہے اور کاربن اسٹیل (لوہا اور کاربن کے امتزاج سے بنی دھات) پر ایک دن میں کم از کم ۵۰۰ بار ہتھوڑا مارا ہے – اور اِن ۵۵ برسوں میں دھات پر اپنا پانچ کلو کا گھن (ہتھوڑا) تقریباً ۸۰ لاکھ بار مارا ہے۔
سانگلی ضلع کے والوا تعلقہ کے باگانی گاؤں میں رہنے والے شکلگر خاندان کے لوہار، اس کام کو ایک صدی سے بھی زیادہ وقت سے کر رہے ہیں – ہاتھوں سے مختلف قسم کے اوزار بناتے ہیں، جن کا استعمال گھروں اور کھیتوں میں کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ ہاتھ سے بہترین قسم کے سروتے یا اَڈیکِتّا (مراٹھی میں) بنانے کے لیے جانےجاتے ہیں – جو اپنے ڈیزائن، مضبوطی اور دھار کے لیے خاص ہیں۔
یہ سروتے سائز میں چار اِنچ سے لیکر دو فٹ تک کے ہوتے ہیں۔ چھوٹے اڈیکتّا کا استعمال سپاری، کاتھ (کتھّا)، کھوبرا (خشک ناریل) اور سُتلی (رسّی) کاٹنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ بڑے سروتے کا استعمال سونے اور چاندی (سوناروں اور جوہریوں کے ذریعے استعمال کے لیے) اور بڑی سپاری کو کاٹنے کے لیے کیا جاتا ہے، جس کے چھوٹے ٹکڑے بازار میں فروخت کیے جاتے ہیں۔
شکلگر خاندان کے ذریعے بنائے گئے سروتے طویل عرصے سے اتنے مشہور ہیں کہ انہیں خریدنے کے لیے قریب اور دور کے لوگ باگانی آتے رہے ہیں۔ وہ مہاراشٹر کے اَکلُج، کولہاپور، عثمان آباد، سنگولے اور سانگلی سے، اور کرناٹک کے اتھنی، بیجاپور، رائے باغ وغیرہ جگہوں سے آتے ہیں۔
’’مجھے تو یاد بھی نہیں ہے کہ میں کتنے اَڈیکِتّا بنا چکا ہوں،‘‘ دلاور کہتے ہیں۔ وہ کھُرپی، وِلا (درانتی)، وِلاتی (سبزی کاٹنے والا ہنسوا)، کدبا کپائچی ولاتی (بھوسا کاٹنے کے لیے گنڈاسا)، دھنگری کُرہاڑ (مویشی پروروں کی کلہاڑیاں)، باغبانی کے لیے قینچیاں، انگور کاٹنے کی قینچی، پترا کپائچی کٹری (چھت کے پترے کاٹنے والی قینچی)، اور برچھا (مچھلی کو مارنے کے لیے دانت دار اوزار) جیسے آلات بھی بنا چکے ہیں۔
دلاور، اپنے ۴۱ سالہ بیٹے سلیم سمیت، باگانی میں اس پیشہ میں بچے صرف چار لوہاروں میں سب سے بزرگ ہیں۔ (دیگر دو سلیم کے چچیرے بھائی، ہارون اور سمیر شکلگر ہیں۔) دلاور بتاتے ہیں کہ ۱۹۵۰ اور ۶۰ کی دہائی میں ان کے گاؤں میں ایسے ۱۰-۱۵ لوگ تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا انتقال ہوگیا، بقیہ نے خود کو زرعی آلات بنانے تک محدود کر لیا ہے کیوں کہ اڈیکتّا کی مانگ کم ہو گئی ہے، اور انہیں بنانے میں وقت اور صبر کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن اچھی قیمت نہیں ملتی، دلاور کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک ایسا کام ہے جس میں کافی ہنرمندی اور کڑی محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
انہوں نے یقینی بنایا ہے کہ ان کا بیٹا سلیم، خاندانی پیشہ کو جاری رکھے – شکلگروں کی چھٹی نسل اپنے دھات کے ہنر کو برقرار رکھے۔ ’’اب نوکریاں کہاں ہیں؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’ہنر کبھی ضائع نہیں ہوتا۔ اگر نوکری نہیں ملی تو آپ کیا کریں گے؟‘‘
دلاور نے ۱۳ سال کی عمر میں اپنے والد مقبول کے ساتھ سروتے بنانا شروع کیا تھا۔ مقبول کے پاس مدد کرنے والے لوگ کم ہوتے جا رہے تھے، اس لیے دلاور کو ۸ویں کلاس کے بعد اسکول چھوڑنا پڑا اور خاندان کے پیشہ میں شامل ہونا پڑا۔ اُس وقت، ایک اڈیکتّا ۴ روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ ’’تب، ہم دو روپے میں بس سے سانگلی شہر جا سکتے تھے اور فلم بھی دیکھ سکتے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔
اور پھر وہ ایک اور کہانی یاد کرتے ہیں، جو ان کے مرحوم والد نے انہیں بتائی تھی: اڈیکتّا بنانے کے شکلگروں کے ہنر سے خوش ہوکر، برطانوی اہلکاروں نے میراج میں (باگانی سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور) ان کی دستکاری کی نمائش کرنے کے لیے (سانگلی ریاست کے) دستکاروں کا ایک اجلاس منعقد کیا تھا۔ ’’انہوں نے میرے پردادا، امام شکلگر کو مدعو کیا تھا۔ ان کے اڈیکتّا کو دیکھنے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کیا انہوں نے اسے کسی مشین سے بنایا ہے۔‘‘ امام نے کہا کہ نہیں۔ کچھ دنوں بعد، اہلکاروں نے انہیں دوبارہ بلایا – وہ اُس شاندار اڈیکتّا کو دوبارہ دیکھنا چاہتے تھے۔ ’’انہوں نے کہا کہ اگر وہ انہیں تمام ضروری اشیاء فراہم کر دیں، تو کیا وہ ان کے سامنے ہاتھ سے اڈیکتّا بنا پائیں گے؟‘‘ انہوں نے فوراً کہا، ’ہاں‘۔
’’ایک اور کاریگر تھا جو اس نمائش میں اپنی چمٹی کے ساتھ گیا تھا۔ جب برطانوی اہلکاروں نے اس سے وہی سوال پوچھا، تو وہ یہ کہتے ہوئے وہاں سے بھاگ گیا کہ اس نے مشینوں کا استعمال کرکے چمٹی بنائی ہے۔ انگریز اتنے چالاک تھے،‘‘ دلاور ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’وہ جانتے تھے کہ یہ ہنر کتنا اہم ہے۔‘‘ کچھ انگریز ان کے خاندان کے ذریعے بنائے گئے سروتے اپنے ساتھ برطانیہ لے گئے – اور شکلگروں کے ذریعے بنائے گئے کچھ اڈیکتّا امریکہ بھی جا چکے ہیں۔
’’کچھ محقق امریکہ سے قحط [۱۹۷۲] کا مطالعہ کرنے کے لیے یہاں، گاؤوں میں آئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک مترجم بھی تھا۔‘‘ دلاور مجھے بتاتے ہیں کہ یہ دانشور پاس کے ایک گاؤں، ناگاؤں میں ایک کسان سے ملنے گئے۔ ’’انہیں چائے پیش کرنے کے بعد، کسان نے ایک اڈیکتّا نکالا اور سپاری کاٹنے لگا۔‘‘ حیران ہوکر، انہوں نے اس سے اس سروتے کے بارے میں پوچھا اور پتا چلا کہ یہ شکلگروں کے ورکشاپ میں بنایا گیا تھا، جہاں وہ بعد میں پہنچ گئے۔ ’’انہوں نے مجھے ۱۰ اڈیکتّا بنانے کے لیے کہا،‘‘ دلاور کہتے ہیں۔ ’’میں نے انہیں ایک مہینہ میں پورا کر لیا اور ان سے [کل] ۱۵۰ روپے مانگے۔ انہوں نے رحم دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مجھے ۱۰۰ روپے مزید دیے،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
آج بھی، شکلگر خاندان ۱۲ الگ الگ قسم کے اڈیکتّا بناتا ہے۔ ’’ہم آرڈر کے مطابق بھی بناتے ہیں،‘‘ سلیم کہتے ہیں، جنہوں نے سانگلی شہر کے انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (آئی ٹی آئی) سے مشین ٹولز گرائنڈنگ کا کورس کیا، اور ۲۰۰۳ سے اپنے والد کی مدد کرنے لگے۔ ان کے چھوٹے بھائی، ۳۸ سالہ جاوید، جن کی خاندانی پیشہ میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی، لاتور شہر کے محکمہ آبپاشی میں کلرک کے طور پر کام کرتے ہیں۔
مغربی مہاراشٹر میں ویسے تو مرد و خواتین دونوں ہی لوہار کا کام کرتے ہیں، لیکن باگانی گاؤں میں، ’’شروع سے، صرف مرد ہی اڈیکتّا بنا رہے ہیں،‘‘ دلاور کہتے ہیں۔ دلاور کی بیوی ۶۱ سالہ زیتن بی اور سلیم کی بیوی ۳۵ سالہ افسانہ، دونوں خاتون خانہ ہیں۔
ایک اڈیکتّا پر کام شروع کرتے ہوئے سلیم کہتے ہیں، ’’آپ کو یہاں کوئی ورنیئر کیلیپر یا اسکیل نہیں ملیں گے۔ شکلگروں نے کبھی کوئی پیمائش بھی نہیں لکھی۔‘‘ دلاور کہتے ہیں، ’’ہمیں ضرورت بھی نہیں ہے۔ آمچیا نجریت بسلا آہے [ہم اپنی آنکھوں سے ناپ سکتے ہیں]۔‘‘ سروتے کا اوپری ہینڈل کمان پتّی (کاربن اسٹیل سے بنی کمانی پتّی) کا استعمال کرکے اور نچلا ہینڈل لوکھنڈ سالی (لوہے کی چھڑ) سے بنایا جاتا ہے۔ باگانی سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، کولہاپور یا سانگلی شہر سے ایک کلو کمانی پتّی خریدنے پر سلیم کو تقریباً ۸۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ۱۹۶۰ کی دہائی کی شروعات میں، دلاور ایک کلو کمانی پتّی صرف ۵۰ پیسے میں خریدتے تھے۔
والد اور بیٹے کے لیے کام کا دن عام طور پر صبح ۷ بجے شروع ہوتا ہے، اور کم از کم ۱۰ گھنٹے تک چلتا ہے۔ سلیم بھٹی میں کاربن اسٹیل کو گرم کرکے شروعات کرتے ہیں اور پھر دھونکنی کی طرف مڑ جاتے ہیں۔ اس میں کچھ منٹ لگانے کے بعد، وہ تیزی سے چپٹے چمٹے کے ساتھ لال گرم کاربن اسٹیل کو اُٹھاتے ہیں اور اسے مشین والے ہتھوڑے کے نیچے رکھتے ہیں۔ سال ۲۰۱۲ میں کولہاپور میں اس مشین کو ڈیڑھ لاکھ روپے میں لانے سے پہلے، شکلگر ہاتھ سے ہتھوڑا مارتے تھے اور روزانہ اپنے جسم اور ہڈیوں کو خطرے میں ڈالتے تھے۔
مشین کے ذریعے کاربن اسٹیل کو تھوڑی دیر تک ہتھوڑا مارنے کے بعد، سلیم اسے ۵۰ کلو کے لوہے کے ٹکڑے پر رکھتے ہیں۔ پھر، سروتے کی صحیح شکل دینے کے لیے دلاور اسے ہاتھ سے ہتھوڑا مارتے ہیں۔ ’’آپ اسے مشین پر صحیح شکل نہیں دے سکتے،‘‘ سلیم بتاتے ہیں۔ ہتھوڑے اور بھٹی کے اس کام میں تقریباً ۹۰ منٹ لگتے ہیں۔
سروتے کا بنیادی ڈھانچہ تیار ہو جانے کے بعد، دلاور کاربن اسٹیل کو محفوظ کرنے کے لیے ایک وائس کا استعمال کرتے ہیں۔ پھر، وہ کولہاپور شہر کی ہارڈویئر کی ایک دکان سے خریدے گئے مختلف قسم کے کانا (گھسنے والے آلات) کا استعمال کرکے احتیاط سے چھوٹے چھیلن کو ہٹاتے ہیں۔
اڈیکتّا کے سائز کی متعدد بار جانچ کرنے کے بعد، وہ اس کے بلیڈ کو تیز کرنا شروع کرتے ہیں۔ اس کی دھار اتنی اچھی ہوتی ہے کہ اسے ۱۰ برسوں میں صرف ایک بار تیز کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، وہ کہتے ہیں۔
شکلگروں کو اب ایک اڈیکتّا بنانے میں تقریباً پانچ گھنٹے لگتے ہیں۔ پہلے انہیں دو گنا وقت لگتا تھا، جب وہ سب کچھ ہاتھ سے کرتے تھے۔ ’’ہم نے کام کو تقسیم کر لیا ہے، تاکہ ہم تیزی سے چیزیں بنا سکیں،‘‘ سلیم کہتے ہیں، جو دھات کے ٹکڑے کو بھٹی میں گرم کرنے، اسے پیٹنے اور شکل دینے کا کام کرتے ہیں، جب کہ ان کے والد اسے گھسنے اور بلیڈ کو تیز کرنے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
تیار اڈیکتّا اپنے ڈیزائن اور سائز کی بنیاد پر، ۵۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ دو فٹ لمبے اڈیکتّا کی قیمت ۴ ہزار سے ۵ ہزار روپے ہو سکتی ہے۔ اور یہ سروتا کتنے دنوں تک چلے گا؟ ’’تمہی آہے تو پرینت چالتے [یہ تب تک چلے گا جب تک آپ زندہ ہیں]،‘‘ دلاور ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
لیکن اب اِن مضبوط شکلگر اڈیکتّا کو ڈھونڈنے زیادہ لوگ نہیں آتے – پہلے ایک مہینہ میں کم از کم ۳۰ سروتے فروخت ہوجاتے تھے، اب ان کی فروخت گھٹ کر مشکل سے ۵ یا ۷ رہ گئی ہے۔ ’’پہلے، بہت سارے لوگ پان کھاتے تھے۔ اس کے لیے، وہ ہمیشہ سُپاری کاٹتے تھے،‘‘ دلاور کہتے ہیں۔ گاؤوں کے چھوٹے لوگ آج کل زیادہ پان نہیں کھاتے، سلیم بتاتے ہیں۔ ’’وہ گُٹکھا اور پان مسالہ کھانے لگے ہیں۔‘‘
صرف اڈیکتّا بناکر مناسب کمائی کرنا چونکہ مشکل ہو گیا ہے، اس لیے یہ خاندان ایک مہینہ میں تقریباً ۴۰ درانتی اور سبزی کاٹنے والا ہنسوا بھی بناتا ہے۔ دلاور درانتی اور قینچی کی دھار کو بھی تیز کرتے ہیں، اور ہر ایک کے لیے ۳۰ سے ۵۰ روپے وصول کرتے ہیں۔ ’’یہ سائڈ بزنس ہمیں ہماری فیملی کو کھلانے میں مدد کرتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ خاندان کی آدھا ایکڑ زمین، گنّے کے ایک کسان کو بٹائی پر دیکر بھی تھوڑا کماتے ہیں۔
لیکن شکلگر جو درانتی بناتے ہیں، اسے مقامی لوہاروں کے ذریعے بنائی گئی ناقص مواد اور معیار والی سستی درانتیوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، سلیم کہتے ہیں۔ یہ تقریباً ۶۰ روپے میں دستیاب ہیں، جب کہ شکلگروں کے ذریعے بنائی گئی درانتی کی قیمت ۱۸۰-۲۰۰ روپے ہے۔ ’’لوگوں کی سوچ اب [چیزوں کو] استعمال کرو اور پھینک دو جیسی بن گئی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں سستی قیمت میں چاہتے ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
’’اور سبھی لوہار اڈیکتّا نہیں بنا سکتے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ ’’جملا پہیجے‘‘ – آپ کے اندر وہ ہونا چاہیے جس کی اسے ضرورت ہے۔
روزمرہ کی دیگر چنوتیاں بھی ہیں۔ ان میں سے ایک زخم لگنے یا بیمار پڑنے کا امکان ہے۔ شکلگروں کے گھریلو ڈاکٹر نے انہیں صلاح دی ہے کہ وہ کام کرتے وقت دھات سے بنے چہرے کی ڈھال کا استعمال کریں، تاکہ وہ کینسر پیدا کرنے والے مادّے کو سانس کے ذریعے اپنے جسم کے اندر لے جانے سے محفوظ رہ سکیں۔ لیکن وہ صرف کپاس کے تہہ دار ماسک کا استعمال کرتے ہیں اور کبھی کبھی دستانے پہنتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خوش قسمتی سے، خاندان میں کسی کو بھی اب تک کام سے ہونے والی بیماری کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے – حالانکہ، دلاور کی زخمی انگلی کبھی کبھار ہونے والے سانحہ کو بتاتی ہے۔
ہر مہینے، وہ ورکشاپ کے لیے کم از کم ۱۰۰۰ روپے کا بجلی بل ادا کرتے ہیں، لیکن تقریباً ہر دن بجلی ۴ سے ۵ گھنٹے تک غائب رہتی ہے۔ اس کی وجہ سے ہتھوڑا چلانے کی مشین، اور دھار تیز کرنے والی ایک اور مشین بند رہتی ہے، جس سے انہیں کئی گھنٹے کے کام اور آمدنی کا نقصان ہوتا ہے۔ ’’بجلی جانے کا کوئی متعینہ وقت نہیں ہے،‘‘ سلیم کہتے ہیں۔ بجلی کے بغیر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
رکاوٹوں کے باوجود، شکلگر جو کچھ بناتے ہیں، اس میں اعلیٰ پیمانوں کو برقرار رکھنا کافی اہم ہے، جیسا کہ ان کی سروتے کی شہرت کے لیے بھی ضروری ہے۔ سلیم کہتے ہیں، ’’باگانی کے پاس اڈیکتّا کی وراثت ہے،‘‘ سلیم کہتے ہیں، جنہیں امید ہے کہ کلاس ۴ میں پڑھنے والا ان کا بیٹا، ۱۰ سالہ جنید، شکلگروں کی وراثت کو آگے لے جائے گا۔ ’’لوگ ان کے لیے دور سے آتے ہیں، اور ہم سستے اڈیکتّا بناکر کسی کو مایوس نہیں کرنا چاہتے۔ فروخت ہوجانے کے بعد، صارف کو کسی بھی شکایت کے ساتھ واپس نہیں آنا چاہیے۔‘‘
دلاور کو، گھٹتی مانگ کے باوجود، اپنے خاندان کی نسلوں پرانی دستکاری پر آج بھی فخر ہے۔ ’’یہ ایک ایسا کام ہے، جہاں لوگ آپ کی تلاش میں آتے رہیں گے، بھلے ہی آپ پہاڑوں پر کیوں نہ کام کرتے ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’آج ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے، وہ اڈیکتّا کی وجہ سے ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز