اشوک بھٹ اپنی کٹھ پتلیوں، لکڑی سے بنائے گئے چھوٹے چھوٹے گھوڑے اور ہاتھی کے کھلونوں وغیرہ کو تیزی سے سمیٹ رہے ہیں۔ جنوبی دہلی میں سرکار کے ذریعے چلائے جانے والے بازار، دلی ہاٹ کے باہر انہوں نے جس سفید چادر کو بچھا کر اپنے یہ کھلونے سجائے تھے، اب اسی چادر میں انہیں لپیٹ رہے ہیں۔ انہیں یہاں سے جلدی بھاگنا ہوگا، کیوں کہ دہلی پولیس نے ابھی ابھی اس جگہ پر چھاپہ مارا ہے۔ اس کی وجہ سے سڑکوں پر اپنا سامان بیچنے والے اشوک جیسے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ اب وہ کیا کریں۔

دلی ہاٹ ایک ادھ کھلی جگہ ہے جسے مقامی میونسپلٹی نے دستکاروں کو اپنا سامان بیچنے کے لیے دیا ہے۔ اشوک کا کہنا ہے کہ یہاں کی انتظامیہ (کلب) ہر ایک دستکار کو دلی ہاٹ کے اندر کچھ مدت کے لیے ایک چھوٹی سی دکان دیتی ہے، لیکن اشوک نے آج دیگر کاریگروں کے ساتھ اس مخصوص جگہ کے باہر اپنی دکان اس لیے لگائی تھی کیوں کہ یہ تمام لوگ ہاٹ کے اندر دکان ملنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو آج پولیس نے ’غیر قانونی‘ کہہ کر نشانہ بنایا ہے۔

چالیس سالہ اشوک کہتے ہیں، ’’دلی ہاٹ کے باہر یہ عام بات ہے۔ میں یہاں مجبوری میں اپنے سامان بیچ رہا ہوں۔‘‘ جب پولیس وہاں سے چلی جاتی ہے، تو اشوک اپنی جگہ پر واپس لوٹ آتے ہیں جو کہ بازار کے داخلی دروازہ کے قریب ہے۔ وہ فٹ پاتھ پر دوبارہ اس سفید چادر کو بچھاتے ہیں اور اپنی بیوی (جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں) کی مدد سے کھلونوں کو سجانے لگتے ہیں۔ چمکدار سرخ اور نارنجی رنگ کی بندھیج پرنٹ میں ملبوس کٹھ پتیلیاں انتہائی سلیقے سے رکھ دی گئی ہیں، اور اشوک اپنے دن کی شروعات کرنے کے لیے پھر سے تیار ہیں۔

*****

’’کٹھ پتلی کالونی ہمیشہ دنیا بھر کے سیاحوں سے بھری رہتی تھی۔‘‘

دہلی کے تقریباً ۳۰ سال کے کٹھ پتلی فنکار، سنی (بدلا ہوا نام) کہتے ہیں، ’’وہاں پر ہمیں کبھی کام کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘ وہ یاد کرتے ہیں کہ راجدھانی کی جس جگہ پر وہ پلے بڑھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی کٹھ پتلی شو ہوتا رہتا تھا۔ اس علاقے کے شاندار ماحول نے ہی انہیں یہ ہنر سیکھنے کی ترغیب دی۔ وہ کہتے ہیں، ’’شو دیکھنے کے لیے لوگ دور دراز سے وہاں آتے تھے اور ہمیں فوراً پیسے دے دیتے تھے۔‘‘

Chamanlal Bhat (left), Ashok Bhat and his wife (right) have made puppets and performed shows with them across the country
PHOTO • Himanshu Pargai
Chamanlal Bhat (left), Ashok Bhat and his wife (right) have made puppets and performed shows with them across the country
PHOTO • Himanshu Pargai

چمن لال بھٹ (بائیں)، اشوک بھٹ اور ان کی بیوی (دائیں) کٹھ پتلیاں بناتے ہیں اور ان کے ساتھ پورے ملک میں پرفارم کر چکے ہیں

چمن لال بھٹ (جن کی عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہے) ۱۹۷۰ کی دہائی کے اوائل میں اپنی فیملی کے ساتھ مغربی دہلی کی کٹھ پتلی کالونی میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے شادی پور کا یہ علاقہ آہستہ آہستہ کٹھ پتلی بنانے والوں اور اس کے فنکاروں کے مرکز کے طور پر مشہور ہوتا چلا گیا۔ ان کے جیسے کئی فنکار راجستھان سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے تھے۔

اشوک نے کٹھ پتلی بنانے اور ان کے ساتھ پرفارم کرنے کا ہنر اپنے والد سے سیکھا، اور بتاتے ہیں کہ یہ روایت ان کی فیملی میں کئی نسلوں سے چلی آ رہی ہے۔ وہ راجستھانی لوک کہانیوں پر مبنی کٹھ پتلی شو تیار کرتے ہیں اور اپنے کلائنٹ کی مانگ پر کچھ کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شو کے لیے کٹھ پتلیاں بنانا، کہانیاں لکھنا اور ان کے ساتھ پرفارم کرنا ’’صرف جسمانی مشقت ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے سوچنا بھی پڑتا ہے۔‘‘

اس ہنر کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’کٹھ پتلی بنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں لکڑی کے فریم بنانے پڑتے ہیں، پھر انہیں کئی دنوں تک دھوپ میں سُکھانا پڑتا ہے، اس کے بعد ان لکڑیوں کو ہموار کرکے ان کے اوپر پینٹ کرنا پڑتا ہے۔‘‘

وہ مزید بتاتے ہیں، ’’کٹھ پتلیوں کے لکڑی کے فریم پر چار پانچ بار پینٹ کرنا پڑتا ہے، تب جا کر اس پر رنگ چڑھتا ہے۔ اس کے بعد پینٹ برش کو الگ رکھ کر سوئی اور دھاگے کا کام شروع ہوتا ہے۔‘‘ کٹھ پتلی کے ہر ایک حصہ پر الگ الگ قسم کے اوزاروں سے کام کرنے کے لیے کئی سالوں کی مشق درکار ہوتی ہے: ’’ہم کپڑے کی سلائی کرتے ہیں اور اسے کٹھ پتیلوں کو پہناتے ہیں۔ اس کے بعد ہم ان کے کپڑوں پر زری کا کام کرتے ہیں، اس میں ڈوری باندھتے ہیں اور انہیں ناچنے والی کٹھ پتلیاں بنا دیتے ہیں۔‘‘

اشوک یاد کرتے ہیں، ’’سال کے اس وقت، میں میلوں، شادیوں اور دیگر تقریبات میں کام کرتا تھا۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمارے کام کو لوگ آج بھی پسند کرتے ہیں اور ہمیں فون کرکے بلاتے ہیں، لیکن ویسے لوگ اب بہت کم ہیں۔‘‘

Puppets made by Ashok and his family for sale outside Dilli Haat in New Delhi
PHOTO • Himanshu Pargai

نئی دہلی میں دلی ہاٹ کے باہر فروخت کے لیے سجا کر رکھی اشوک اور ان کی فیملی کے ذریعے بنائی گئیں کٹھ پتلیاں

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دو بچے اسکول میں پڑھتے ہیں، جن کی کفالت کے لیے میاں بیوی کو کٹھ پتلیاں بیچنے کا کام کرنا پڑتا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کے باوجود، ہماری کٹھ پتلی سدا بہار ہے۔ میں یہ کام اپنے بچوں کو بھی سکھا رہا ہوں جیسے میرے والد نے مجھے سکھایا تھا۔‘‘

*****

آنند پربت انڈسٹریل ایریا کے ٹرانزٹ کیمپ میں اپنے گھر کے باہر بیٹھے سنی، کٹھ پتلی فنکاروں کی اس حالت زار کے لیے کٹھ پتلی کالونی سے انہیں دوسری جگہ منتقل کرنے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کی کٹھ پتلی کالونی پہلے مغربی دہلی کے شادی پور میں تھی۔ سال ۲۰۱۷ میں، دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کے پہلے ’اِن سیٹو جھگی جھونپڑی باز آبادکاری پروجیکٹ‘ کے تحت انہیں وہاں سے اجاڑ کر اس کیمپ میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ ڈی ڈی اے نے ان کے گھروں کو دوبارہ تعمیر کرنے، اور انہیں اوریجنل پلاٹ پر اور ’بہتر مکان‘ میں دوبارہ منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ لیکن چھ سال ہو چکے ہیں اور کٹھ پتلیاں بنانے والے اب بھی اسی ’ٹرانزٹ‘ کیمپ میں رہ رہے ہیں۔

ابھی یہ لوگ جس ٹرانزٹ کیمپ میں رہ رہے ہیں، وہ وہاں سے پانچ کلومیٹر دور ہے، لیکن سنی کا کہنا ہے کہ رہائش گاہ کی اس منتقلی نے کٹھ پتلی کاریگروں کی زندگی اور معاش کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’’پہلے، ہماری کالونی مین روڈ پر تھی اور وہاں تک پہنچنا آسان تھا۔ اب کوئی بھی ٹرانزٹ کیمپ کے بارے میں نہیں جانتا، کوئی یہاں آنا نہیں چاہتا، یہاں تک کہ ٹیکسی ڈرائیور بھی آنند پربت کا نام سن کر یہاں آنے سے منع کر دیتے ہیں۔‘‘

سنی مزید کہتے ہیں، ’’کیمپ والے علاقہ کے باہر کوئی اچھی سڑک نہیں ہے، یہاں پیدل چلنے میں بھی دقت ہوتی ہے۔ کسی جگہ وقت پر پہنچنے کے لیے ہمیں یہاں سے دو گھنٹے پہلے نکلنا پڑتا ہے۔‘‘

Puppet-makers blame the fall in the fortunes of puppet makers to a shift in residence to a transit camp in Anand Parbat Industrial Area. Residents say the area is poorly maintained and they often fall ill
PHOTO • Himanshu Pargai
Puppet-makers blame the fall in the fortunes of puppet makers to a shift in residence to a transit camp in Anand Parbat Industrial Area. Residents say the area is poorly maintained and they often fall ill
PHOTO • Himanshu Pargai

کٹھ پتلی بنانے والے اپنی حالت زار کے لیے خود کو کٹھ پتلی کالونی سے آنند پربت انڈسٹریل ایریا کے ٹرانزٹ کیمپ میں منتقل کیے جانے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ یہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کی جاتی، جس کی وجہ سے وہ اکثر بیمار پڑ جاتے ہیں

اس عارضی بستی میں، ۲۸۰۰ کنبے فائبر گلاس سے بنے گھروں میں رہتے ہیں جن کی چھتیں ٹن کی ہیں۔ چمن لال بتاتے ہیں کہ ڈی ڈی اے نے ہر گلی کے آخر میں ایک مشترکہ غسل خانہ اور بیت الخلاء فراہم کیا ہے، لیکن ان کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہیں کی جاتی اور تازہ پانی شاید ہی کبھی آتا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’اس کیمپ میں صحت اور صاف صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ پانی کی کوالٹی بہت خراب ہے، جس کی وجہ سے ہر کوئی بیمار پڑ جاتا ہے۔ بیماری کی وجہ سے ہم نے اپنے زیادہ تر کاریگروں کو کھو دیا ہے۔‘‘

کٹھ پتلی بنانے والے کئی فنکار اب اس پیشہ کو چھوڑ کر کوئی دوسرا پیشہ یا فن اختیار کرنے لگے ہیں۔ چمن لال کہتے ہیں، ’’ڈھول بجانا اب زیادہ مقبول ہے۔‘‘ ایک دوسرے کاریگر، ۲۹ سالہ اجے بھٹ کہتے ہیں کہ ڈھول بجا کر آپ ایک دن میں تقریباً ۲۰ ہزار روپے کما سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایسا نہیں ہے کہ ہم کٹھ پتلی شو نہیں کرنا چاہتے، لیکن اپنے گھر والوں کے لیے ہمیں پیسے بھی تو کمانے ہیں۔‘‘

دہلی کی سردی میں اپنے گھر کے باہر ہلکی دھوپ میں بیٹھے چمن لال کو راجدھانی منتقل ہونے سے پہلے کی اپنی زندگی یاد آتی ہے۔ انہوں نے اپنا بچپن اتر پردیش اور راجستھان کے گاؤوں میں اپنی فیملی کے ساتھ کٹھ پتلی شو کرتے ہوئے گزارا ہے۔

چمن لال بتاتے ہیں، ’’سرپنچ [گاؤں کا مکھیا] ہمیں پرفارم کرنے کے لیے ایک جگہ دیتا تھا۔ ہر کوئی شو دیکھنے آتا تھا اور خوشی سے ہمارا استقبال کرتا تھا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Student Reporter : Himanshu Pargai

Himanshu Pargai is a final year MA Development student at Azim Premji University, Bengaluru.

Other stories by Himanshu Pargai
Editor : Riya Behl

ਰੀਆ ਬਹਿਲ, ਪੀਪਲਸ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ (ਪਾਰੀ) ਦੀ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ ਫ਼ੋਟੋਗ੍ਰਾਫ਼ਰ ਹਨ। ਪਾਰੀ ਐਜੂਕੇਸ਼ਨ ਵਿੱਚ ਸਮੱਗਰੀ ਸੰਪਾਦਕ ਦੇ ਰੂਪ ਵਿੱਚ ਉਹ ਵਿਦਿਆਰਥੀਆਂ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਰਲ਼ ਕੇ ਵਾਂਝੇ ਭਾਈਚਾਰਿਆਂ ਦੇ ਜੀਵਨ ਦਾ ਦਸਤਾਵੇਜੀਕਰਨ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Riya Behl
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique