یہ دل کا دورہ پڑنے کی عمر نہیں تھی۔ کے ویرمنی ابھی ۳۵ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے جب انہوں نے آخری سانسیں لی تھیں۔
ان کی بیوہ کویتا، کڈمن کُڈی گاؤں میں اپنے گھر میں بیٹھی ہمیں بتاتی ہیں، ’’ہم کھیت میں کام کر رہے تھے کہ وہ اچانک گر کر بیہوش ہو گئے...‘‘ وہ اب بھی سوچ رہی ہیں کہ اتنی چھوٹی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے کیسے ان کے شوہر کی موت ہو سکتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ویرمنی صحت مند تھے، لیکن بہت زیادہ پریشانی اور تناؤ میں تھے۔
۳۰ دسمبر ۲۰۱۶ کو دونوں اپنے کھیت پر گئے تھے۔ اس بے زمین دلت کنبے نے ۲۵ء۱ ایکڑ کا ایک پلاٹ پہلی بار کسی گاؤں والے سے پٹّہ پر لیا تھا۔ دھان یا جو بھی فصل انہوں نے لگائی تھی اس دن اس کی دیکھ بھال کے لیے وہاں گئے تھے۔
شام ۴ بجے کے قریب کویتا نے اپنے شوہر کو گرتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میں یہ جاننے کے لیے بھاگی کہ معاملہ کیا ہے، تو وہ کوئی جواب نہیں دے رہے تھے۔‘‘ انہوں نے مدد کے لیے لوگوں کو پکارا اور انہیں ایمبولینس میں نزدیکی سرکاری اسپتال لے گئیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ دل کا دورہ پڑنے سے فوراً ہی ان کی موت ہوگئی تھی۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی موت صدمے کی وجہ سے ہوئی ہے۔
کویتا اب اپنے دو بچوں، پانچ سالہ دیویہ درشنی اور ڈھائی سالہ نتیہ شری کی پرورش کے لیے تنہا رہ گئی ہیں۔ وہ ابھی تک یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ہوا کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہماری قسمت کی خرابی کہ [۲۰۱۶ میں] بارش نہیں ہوئی۔ یہ پہلا موقع تھا جب ہم نے اپنی روزی روٹی کے لیے زمین پٹّہ پر لینے کا فیصلہ کیا تھا، اور یہ کھیتی کے لیے بدترین سال ثابت ہوا۔‘‘
ویرمنی اور کویتا ہر سال دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کرتے، اجرت حاصل کرتے، اور ایک سال میں تین فصلیں اگانے والے اس علاقے میں اپنی زمین حاصل کرنے کا خواب دیکھتے۔
لیکن ۲۰۱۶ میں موسم گرما اور موسم سرما دونوں کی بوائی خشک سالی کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔ ایسا صرف کاویری ڈیلٹا کے انتہائی مشرقی سرے پر واقع ناگ پٹینم ضلع کے کڈمن کڈی گاؤں میں ہی نہیں بلکہ پورے تمل ناڈو میں ہوا تھا۔
ویرمنی اس علاقے کے واحد کسان نہیں تھے جن کی موت اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ہوگئی تھی۔ تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، تیرورور ضلع کے ادھیچا پورم گاؤں میں اروکیامیری کی کہانی کچھ ویسی ہی ہے۔
ان کی فیملی میں کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ اندیشہ نہیں تھا کہ دل کے شدید دورے سے ان کے شوہر ٹی اڑگیسن کی موت ہو جائے گی۔ وہ ابھی صرف ۳۶ سال کے تھے، نم آنکھوں کے ساتھ واقعات کے سلسلے کو بیان کرتے ہوئے اروکیامیری کہتی ہیں۔ ۴ نومبر ۲۰۱۶ کو وہ دوپہر کے وقت اپنے کھیت پر گئے اور مرجھائی ہوئی فصلوں کے درمیان گر گئے۔ جب تک لوگ انہیں تیرورور کے ایک ہسپتال تک لے کر جاتے ان کی موت واقع ہو چکی تھی۔
اڑگیسن درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے ایک بے زمین کسان تھے۔ انہوں نے ۲۰۱۶-۱۷ میں دو ایکڑ کھیتی کی زمین لیز (پٹّہ) پر لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ پچھلی ایک صدی کے دوران اس خطے میں خشک سالی سے متاثرہ بدترین سالوں میں سے ایک تھا۔
ان کی موت نے ان کے کنبے کو مالی اور جذباتی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اڑگیسن کی ۷۰ سالہ والدہ امرتاولّی اب کام کرتی ہیں۔ وہ ایک قریبی اسکول میں ۳۰۰۰ روپے ماہانہ پر جھاڑو لگانے کا کام کرتی ہیں، اور وہ اپنے پوتے پوتیوں کی کفالت میں مدد پہنچانے کے لیے یہ کام جاری رکھیں گی۔ اڑگیسن اور اروکیامیری کی دو بیٹیاں ہیں اور ایک بیٹا ہے۔ یہ سب اپنی نوعمری میں ہیں اور تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
اڑگیسن نے اروکیامیری کو کھیتوں میں کام کرنے کی کبھی اجازت نہیں دی تھی۔ اب ان کا اصرار ہے کہ اگر کوئی انہیں نوکری تلاش کرنے میں مدد کرے تو وہ آنگن واڑی میں مددگار کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔ ان کے والد تینگیّا بھی ایک زرعی مزدور ہیں۔ انہوں نے بہت پہلے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
فیملی کو حکومت کی جانب سے کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، اور ان پر دو مائیکرو کریڈٹ اداروں کے چالیس چالیس ہزار کے دو قرضے واجب الادا ہیں۔ یہ قرضے اڑگیسن کی اہلیہ اور والدہ کے نام پر لیے گئے تھے۔ اروکیامیری بتاتی ہیں، ’’ہم نے اپنے تمام زیورات گروی رکھ کر رشتہ داروں سے بھی چھوٹے موٹے غیر رسمی قرض لے رکھے ہیں۔‘‘
خطے میں زرعی تناؤ کے بڑھتے ہوئے معاملوں اور اس کے المناک نتائج کے پیش نظر جنوری ۲۰۱۷ میں پیپلز یونین آف سول لبرٹیز کی ایک ٹیم نے جس میں زرعی کارکن، سماجی کارکن، طلباء، ڈاکٹرز اور دیگر افراد شامل تھے، کاویری ڈیلٹا میں ان اموات کی وجوہات کو دریافت کرنے کی کوشش کی۔
ٹیم میں شامل تیرورور ضلع کے منّار گڈی قصبے کے ماہر امراض قلب اور سماجی کارکن ڈاکٹر بھارتی سیلون کہتے ہیں، ’’ہم نے ڈیلٹا کے تین اضلاع، ناگ پٹینم، تیرورور اور تنجاور، میں اچانک اموات کے ساتھ ساتھ خودکشیوں کے تقریباً ۵۰ واقعات اور موجودہ صورتحال کا مطالعہ کیا۔‘‘
ڈاکٹر سیلون کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کبھی ڈیلٹا میں ایسے واقعات نہیں دیکھے۔ ’’مرنے والوں میں سے زیادہ تر کو دل کے عارضہ کی پہلے سے کوئی شکایت نہیں تھی، ان میں سے کئی نوجوان تھے۔ ہم ان اموات کو زرعی اور خاندانی محاذوں پر ہونے والی پریشانیوں سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ حکومت اسے قبول نہیں کرتی، لیکن ہمارے پاس یہ تسلیم کرنے کے لیے وجوہات موجود ہیں کہ اچانک جذباتی تناؤ اور معاشی بدحالی ان اموات کا سبب بن سکتی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے، جبکہ حکومت کی بے حسی افسوسناک ہے۔‘‘
جبکہ تامل ناڈو حکومت کا کہنا ہے کہ ان واقعات کا موجودہ خشک سالی اور زرعی تناؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حکومت ان واقعات کو گھریلو مسائل اور صحت کے مسائل جیسے عوامل سے منسوب کر رہی ہے، یا حادثاتی موت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ حکومت نے اس حقیقت کے باوجود یہ رویہ اختیار کر رکھا ہے کہ مقامی کسانوں کے گروپوں کے اندازوں کے مطابق جنوری سے جون ۲۰۱۷ تک دل کا دورہ پڑنے سے ۲۰۰ سے زیادہ اچانک موتیں ہوئی ہیں۔
اور یہ اموات کسانوں کی خودکشی کے علاوہ ہیں۔ قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) کی طرف سے ۵ جنوری ۲۰۱۷ کو ریاستی حکومت کو جاری کردہ نوٹس کے مطابق دسمبر ۲۰۱۶ کے صرف ایک ماہ میں ۱۰۶ کسانوں کی خودکشی کی اطلاع ملی تھی۔ این ایچ آر سی کا کہنا ہے کہ ان اموات میں سے زیادہ تر کاویری ڈیلٹا کے آٹھ اضلاع میں واقع ہوئیں، جن کی مجموعی آبادی ۸۰ لاکھ کے قریب ہے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔
اگرچہ ریاستی حکومت اب بھی اس کی تردید کر رہی ہے، لیکن خطہ میں اتنے کم وقت میں صدمے سے ہونے والی اموات کی لہر کی سب سے بڑی وجہ خشک سالی ہی معلوم ہوتی ہے۔ مارچ ۲۰۱۷ میں حکومت نے خود تمل ناڈو کے ۳۲ اضلاع میں سے ۲۱ کو خشک سالی سے متاثرہ قرار دیا تھا۔
شمال مشرقی یا واپس ہوتا معمول کا مانسون، جس سے اکتوبر اور دسمبر کے درمیان تمل ناڈو، ساحلی آندھرا پردیش، جنوبی کرناٹک اور کیرالہ میں بارش ہوتی ہے، ۲۰۱۶ میں ناکام رہا۔ یہ مانسون عام طور پر کاویری ڈیلٹا کے آٹھ اضلاع میں کسانوں کو دھان اگانے میں مدد کرتا ہے۔ تمل ناڈو میں مجموعی طور پر موسم سرما کی فصل کا انحصار کسی بھی دوسری ہندوستانی ریاست کے مقابلے شمال مشرقی مانسون پر زیادہ ہوتا ہے۔
اس خطہ کے کچھ اضلاع میں اب بارش ہوئی ہے جو جولائی تا ستمبرمیں جنوب مغربی مانسون سے پہلے ہوتی ہے۔ لیکن ۲۰۱۶ میں ریاست میں جنوب مغربی اور شمال مشرقی مانسون میں ۶۰ فیصد کی کمی درج کی گئی تھی۔ ریاستی حکومت کے محکمہ زراعت کے تخمینوں کے مطابق دونوں مانسون میں کمی کی وجہ سے تمل ناڈو میں ۲۰۱۶ کے موسم سرما میں چاول کی بوائی میں ۳۰ فیصد سے زیادہ، اور پیداوار میں ۶۰ فیصد سے زیادہ کی کمی درج کی گئی تھی۔
مربوط خشک سالی کی شدت کے اشاریہ (آئی ڈی ایس آئی) کے مطابق، اکتوبر ۲۰۱۶ سے مارچ ۲۰۱۷ کے درمیان کاشتکاری کے موسم میں تمل ناڈو میں تقریباً ۳۵ لاکھ ہیکٹیئر کھیت انتہائی سے درمیانے درجے کی خشک سالی کے حالات سے دو چار ہوئے۔ یہ تمل ناڈو کے کل رقبہ کا ۳۰ فیصد حصہ ہے۔
کاویری کا یہ ڈیلٹا جو کبھی زرخیز ہوا کرتا تھا اور دو دہائی قبل تک یہاں تین فصلیں اگائی جاتی تھیں۔ گزشتہ ۲۰ برسوں کے دوران پانی کی کمی کی وجہ سے یہ دو فصلی خطہ بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۶-۱۷ کا زرعی سال پچھلی ایک صدی میں پہلا سال تھا کہ کبھی پانی سے لبریز رہنے والے اس خطہ کے کسان دھان کی ایک فصل تک کاشت نہیں کرسکے۔ مانسون کی ناکامی کے علاوہ کرناٹک نے کاویری کے پانی کا تمل ناڈو کا حصہ نہیں چھوڑا تھا، وجہ تھی دریا کے آبگیرہ (کیچمنٹ) کے علاقے میں خشک سالی۔
اس کے نتیجے میں فصلوں کو تباہ کن نقصان پہنچا۔
کڈمن کڈی گاؤں میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں ویرمنی کی تصویر دروازے کے بائیں جانب ایک کونے میں دیوار پر لٹکی ہوئی ہے۔ ویرمنی اور زمین کے مالک کے درمیان معاہدے کی ایک کاپی، جسے کویتا نے ہمیں دکھایا، دراصل ایک ذیلی لیز ہے۔ زمین اصل میں ایک مذہبی ادارے کے انڈوومنٹ ٹرسٹ کی ہے۔ ویرمنی نے جس سے زمین لی تھی وہ محض ایک ایجنٹ تھا۔ معاہدے کے مطابق ۲۵۰۰۰ روپے سالانہ کی بیناد پر لیز کی مدت دو سال کے لیے تھی۔ اڑگیسن کے لیز کا بھی یہی معاملہ تھا۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ ویرمنی اور اڑگیسن بینکوں سے کم سود پر قرض حاصل نہیں کر سکتے تھے، کیونکہ کھیتی کی زمین ان کے نام نہیں تھی، جوفصلی قرضوں کے لیے ایک اہم شرط ہوتی ہے۔
کویتا کہتی ہیں، ’’ہم کبھی اسکول نہیں گئے۔ ہم چاہتے تھے کہ ہمارے بچے اسکول جائیں، اس لیے ہم نے زمین لیز پر لینے کا فیصلہ کیا اور آہستہ آہستہ ان کی تعلیم کے لیے معقول آمدنی حاصل کی۔‘‘ لیکن اس کا نتیجہ الٹا ہو گیا۔
کویتا کو ریاستی حکومت کی جانب سے بطور معاوضہ ۳ لاکھ روپے ملے ہیں۔ یہ معاوضہ مبینہ طور پر سیاسی دباؤ کے تحت کچھ سوگوار کسان کنبوں کو دیا گیا ہے۔ اس رقم میں سے وہ ۵۰ ہزار روپے فیملی کے ذریعہ لیے گئے مائیکرو فنانس فرم کے قرض اور رشتہ داروں سے لیے گئے دوسرے چھوٹے قرضے واپس کرنے میں خرچ کر چکی ہیں۔
وہ افسوس کے ساتھ کہتی ہیں، ’’اگر یہ رقم پہلے مل جاتی تو میرے شوہر کی موت نہ ہوتی۔‘‘
مترجم: شفیق عالم