عائشہ محمد نے سات سال کی عمر میں کیرم کھیلنا شروع کر دیا تھا، جب ان کے والد سنتوش ہیالِنگے ایک کیرم بورڈ لے کر آئے تھے۔ وہ تھانے ضلع کے اُلہاس نگر میں واقع اپنے گھر پر اس کھیل کی پریکٹس کرتے ہوئے بڑی ہوئیں، کیوں کہ وہ کیرم کلبوں میں اس لیے نہیں جا سکتی تھیں، کیوں کہ وہ مرد کھیلنے آیا کرتے تھے۔

پہلی بار آٹھ سال کی عمر میں انھوں نے ٹورنامنٹ میں حصہ لیا، جب انھوں نے ایک سینئر کھلاڑی سے اس کھیل میں مقابلہ کیا۔ وہ اس کھیل میں ہار گئیں، لیکن یہیں سے ان کے سفر کا آغاز ہوا ۔ اور اس طرح ان کے لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انعامات کی بھی بارش ہونے لگی اور آخر کار ۰۴۔۲۰۰۳ میں انھیں مہاراشٹر کا سب سے بڑا اسپورٹس ایوارڈ، شیو چھترپتی اسپورٹس ایوارڈ ملا۔

ان کی ملاقات کیرم چمپئن محمد ساجد سے ایک ٹورنامنٹ کے دوران ہوئی، اور ان دونوں نے اپنی اپنی فیملیز کی لاکھ مخالفت کے باوجود ایک دوسرے سے شادی کر لی۔ اب وہ جل گاؤں میں اپنے والد، شوہر اور ایک بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔ وہ جین اِرّی گیشن سسٹمس میں کام کرتی ہیں اور ایک اسکول میں چھوٹے بچوں کو کوچ کے طور پر کیرم کھیلنا سکھاتی ہیں۔


02-IMG_0062-SK-1.	When the Queen strikes: the story of a carrom champion.jpg

مستقبل کے چمپئنس کی تعمیر: جل گاؤں، مہاراشٹر کے اسکول میں، جہاں عائشہ کیرم کوچ کے طور پر کام کرتی ہیں


03-Screen-Shot-2017-01-27-at-11.47.26-AM-SK-1.	When the Queen strikes: the story of a carrom champion.jpg

رائٹ نوٹس پر اسٹرائک: عائشہ محمد اپنے شوہر ساجد اور اپنے بیٹے حمزہ کے ساتھ


عائشہ کا ماننا ہے کہ کھیل ہر قسم کے امتیازات سے اوپر ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’کھیل سب کے لیے ہوتا ہے اور یہ ہر کسی کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔ آپ نے انفرادی طور پر کھیل کی تعمیر نہیں کی ہے، اسے کوئی بھی کھیل سکتا ہے۔ غریب سے لے کر غریب تک اور امیر سے لے کر امیر تک، ہر کوئی کھیل کو کھیل سکتا ہے۔‘

Shreya Katyayini

ਸ਼੍ਰੇਇਆ ਕਾਤਿਆਇਨੀ ਇੱਕ ਫਿਲਮ-ਮੇਕਰ ਹਨ ਤੇ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਸੀਨੀਅਨ ਵੀਡਿਓ ਐਡੀਟਰ ਹਨ। ਉਹ ਪਾਰੀ ਲਈ ਚਿਤਰਣ ਦਾ ਕੰਮ ਵੀ ਕਰਦੀ ਹਨ।

Other stories by Shreya Katyayini
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique