’’ہم لوگ چونکہ جنسی کام (سیکس ورک) کرتے ہیں، اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ ہم ہر چیز کی قیمت اپنے جسم سے ادا کریں۔‘‘ دل کا دورہ پڑنے سے شوہر کی اچانک موت ہو جانے کے بعد، اتر پردیش کے فرخ آباد شہر کی رہنے والی ۳۰ سالہ میرا، سال ۲۰۱۲ میں اپنے تین بچوں کے ساتھ دہلی آ گئی تھیں۔ اب وہ کافی غصے میں ہیں اور بہت زیادہ تھک چکی ہیں۔
۳۹ سالہ امیتا، اسپتال کے مرد مددگاروں اور وارڈ اسسٹنٹ کے ذریعے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرنے کی نقل کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’مجھے دوائیں دیتے وقت وہ یہی کرتے ہیں،‘‘ اور اس شرمناک حرکت کو یاد کرکے وہ ناراضگی سے اپنا چہرہ موڑ لیتی ہیں۔ اس طرح ذلیل کیے جانے سے وہ ڈرتی ہیں، پھر بھی اپنی جانچ کرانے یا دوائیں لینے کے لیے وہ سرکاری اسپتال جانے کو مجبور ہیں۔
وہیں، ۴۵ سالہ کُسُم بتاتی ہیں، ’’ہم جب اپنا ایچ آئی وی ٹیسٹ کرانے جاتے ہیں، اور انہیں پتہ چل گیا کہ ہم سیکس ورکرز(جنسی کارکنان) ہیں، تو وہ مدد کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں، ’پیچھے سے آ جانا۔‘ اس کے بعد وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا کر ہمیں غلط طریقے سے چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ کُسُم، ۱۶ ریاستوں کی ساڑھے چار لاکھ سیکس ورکرز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم، آل انڈیا نیٹ ورک آف سیکس ورکرز (اے آئی این ایس ڈبلیو) کی سابق صدر ہیں اور ان کی اس بات سے اس کمیونٹی کی بہت سی عورتیں اتفاق کرتی ہیں۔
پاری نے دہلی کے شمال مغربی ضلع میں واقع روہنی علاقے میں جنسی کارکنان کے ایک گروپ سے اُن کے ایک اڈّے پر ملاقات کی۔ ان میں سے زیادہ تر کو اب وبائی مرض کی وجہ سے کام نہیں مل پا رہا ہے۔ یہ عورتیں گرم کپڑوں میں ملبوس سردی کی ایک دوپہر میں اُس کمیونٹی شیلٹر میں بیٹھی ہوئی ہیں اور ٹفن باکس میں پیک کرکے لائی ہوئی گھر کی بنی سبزی، دال اور روٹی مل بانٹ کر کھا رہی ہیں۔
میرا کہتی ہیں کہ تنہا سیکس ورکرز کو حفظان صحت کی سہولیات تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔
’’یہ لوگ مجھ سے دن میں دو بجے کے بعد اسپتال آنے کے لیے کہتے ہیں، اور وعدہ کرتے ہیں کہ ’میں تمہارا کام کرا دوں گا۔‘ لیکن کوئی بھی کام مفت میں نہیں ہوتا۔ میں نے وارڈ بوائے کو غلطی سے ڈاکٹر سمجھ لیا تھا، لہٰذا مجھے ان کے ساتھ سیکس (جنسی فعل) کرنا پڑا، تاکہ مجھے دوائیں مل سکیں۔ بعض دفعہ ہمارے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوتا، اس لیے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ہم ہمیشہ لمبی قطاروں میں کھڑے رہیں، خاص کر جب مجھے کسی کلائنٹ (گاہک) سے ملنا ہو تب، کیوں کہ وقت کا تعین اس کی آسانی کے حساب سے ہوتا ہے۔ ہم یا تو اپنا علاج کرائیں، یا بھوکے مر جائیں،‘‘ میرا آنکھیں چمکاتے ہوئے، طنزیہ لہجے میں اپنی بات جاری رکھتی ہیں۔ ’’اور اگر میں کچھ کہوں یا اپنی آواز بلند کروں، تو پھر میری بدنامی ہونے لگتی ہے کہ میں سیکس ورکر ہوں۔ ایسے میں تو اور بھی کئی دروازے ہمارے لیے بند ہو جائیں گے۔‘‘
اس علاقے میں دو ایسے سرکاری اسپتال ہیں، جنہوں نے ارد گرد رہنے والی سیکس ورکرز کی طبی ضروریات کے لیے روزانہ ۶۰ منٹ مختص کر دیے ہیں، جہاں یہ عورتیں دوپہر کے ساڑھے بارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک خود کو دکھا سکتی ہیں۔ سیکس ورکرز کے لیے مختص ایک گھنٹہ کا یہ وقت ایچ آئی وی اور جنسی فعل سے منتقل ہونے والی متعدی بیماریوں (ایس ٹی آئی) کی جانچ کرانے کے لیے ہے – جس کا انتظام ان دونوں اسپتالوں نے این جی او کارکنان کی درخواست پر کیا ہے۔
دہلی میں سیکس ورکرز کے لیے کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم، ’سویرا‘ کی رضاکار، رجنی تیواری بتاتی ہیں، ’’سیکس ورکز لمبی لائن اور جانچ یا علاج کرانے میں ہونے والی تاخیر کی وجہ سے عام لوگوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑی نہیں ہوتی ہیں۔‘‘ اگر قطار میں لگنے کے بعد اچانک کسی کلائنٹ کا فون آ گیا، تو وہ درمیان سے نکل کر چل دیتی ہیں۔
تیواری کہتی ہیں کہ اُس ایک گھنٹے میں بھی ڈاکٹر سے دکھا پانا بعض دفعہ کافی مشکل ہوتا ہے۔ اور حفظان صحت سے متعلق ان کے چیلنج کی یہ تو صرف ایک شروعات ہے۔
ڈاکٹر صرف ایس ٹی آئی کی تشخیص کرتے ہیں اور دوائیں دیتے ہیں۔ سیکس ورکرز کو ایچ آئی وی اور آتشک (سائی فلس) کی جانچ کے لیے کٹس (آلات) ’سویرا‘ جیسے این جی او دیتے ہیں، جس کے لیے انہیں دہلی اسٹیٹ ایڈز کنٹرول سوسائٹی کی طرف سے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’’دوسرے لوگوں کی طرح سیکس ورکرز کو بھی بخار، سینے میں درد اور ذیابیطس جیسی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔‘‘ رجنی تیواری، جنسی کارکنان کی مذکورہ بالا شکایتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اور اگر وارڈ بوائے کو پتہ چل گیا کہ یہ سیکس ورکرز ہیں، تو اُن کا استحصال کرنا عام بات ہے۔‘‘
اسپتال کے عملہ میں شامل مردوں کے لیے، خواتین مریضوں کے درمیان سے سیکس ورکرز کی شناخت کرنا آسان ہو سکتا ہے۔
جس کمیونٹی شیلٹر میں یہ عورتیں باہم ملاقاتیں کرتی ہیں، وہ اسپتال سے چند قدم کی دوری پر ہے۔ وبائی مرض سے قبل، امیتا کے گاہک اسپتال کے گیٹ (دروازے) سے ہی انہیں لے جاتے تھے، جسے وہاں کے کچھ مرد اسٹاف دیکھتے رہتے تھے۔
امیتا کہتی ہیں، ’’گارڈ یہ سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں ایچ آئی وی کی جانچ کرانے والی پرچی ہے، وہ سیکس ورکر ہی ہیں۔ بعد میں، جب ہم لوگ جانچ کرانے جاتے ہیں، تو وہ ہمیں پہچان لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو اس کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔ کئی بار، ہمیں لائن میں لگے بغیر ڈاکٹر کو دکھانے کے لیے اپنے ہی کسی کلائنٹ (گاہک) کی مدد لینی پڑ سکتی ہے۔ صلاح و مشورہ لینے، علاج کرانے اور دواؤں کے لیے وہاں پر الگ الگ لائنیں لگتی ہیں۔
امیتا کے شوہر نے جب بیس سال پہلے انہیں چھوڑ دیا تھا، تو وہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ پٹنہ سے دہلی آ گئی تھیں۔ یہاں ایک فیکٹری میں انہیں یومیہ مزدور کے طور پر نوکری مل گئی، لیکن جب مالک نے تنخواہ دینے سے منع کر دیا تو ایک ساتھی کی مدد سے وہ سیکس ورکر بن گئیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میں کئی دنوں تک روتی رہی کہ مجھے یہ کام نہیں کرنا ہے، لیکن سال ۲۰۰۷ میں ایک دن کے ۶۰۰ روپے بہت بڑی رقم تھی – اس سے میں ۱۰ دنوں تک اپنا پیٹ بھر سکتی تھی۔‘‘
امریتا، میرا اور ان جیسی دیگر عورتوں کے بیان سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ سیکس ورکرز کو سماج میں کس قسم کی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے حفظان صحت کی سہولیات تک ان کی رسائی محدود ہے۔ سال ۲۰۱۴ کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ انہی تمام وجوہات کے سبب وہ اسپتالوں میں اپنا پیشہ ظاہر نہیں کرتیں۔ نیشنل نیٹ ورک آف سیکس ورکرز کے ماتحت کام کرنے والے گروپ اور جنسی کارکنان کی تنظیموں کے ذریعے جمع کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’خواتین سیکس ورکرز کی تذلیل و تنقید کی جاتی ہے، لمبے وقت تک انتظار کرایا جاتا ہے، اچھی طرح جانچ نہیں کی جاتی، زبردستی ایچ آئی وی ٹیسٹ کرایا جاتا ہے، پرائیویٹ اسپتالوں میں زیادہ فیس لی جاتی ہے، طبی خدمات مہیا کرنے اور زچگی (ڈیلیوری) کے دوران نگہداشت سے منع کر دیا جاتا ہے؛ اور ان کی رازداری کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔‘‘
امیتا نے جن تجربات کا سامنا کیا ہے، اس کی تصدیق اس رپورٹ سے بھی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم کسی بڑے اسپتال میں تبھی جاتے ہیں جب ہمیں ایچ آئی وی جیسی کسی بڑی بیماری کا خطرہ ہو یا اسقاط حمل کرانا ہو، یا پھر مقامی سطح پر کسی چیز کا علاج کراتے کراتے ہم تھک گئے ہوں۔ چھوٹی موٹی بیماریوں کے لیے ہم جھولا چھاپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کہ ہم دھندہ [جنسی کام] کرتے ہیں، تو وہ بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔‘‘
کُسُم بتاتی ہیں کہ اُن سے ملنے والا کوئی بھی شخص ان کی ذرہ برابر عزت نہیں کرتا۔ جیسے ہی ان کے پیشہ کا پتہ چلتا ہے، لوگ ان کا استحصال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ سیکس نہیں تو کچھ اور۔ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی، انہیں جنسی تسکین چاہیے، یا پھر ذلیل کرنے سے انہیں خوشی حاصل ہوتی ہے۔ ’’بس کسی طرح باڈی ٹچ کرنا ہے اُن کو۔‘‘
روہنی میں واقع ایک غیر منافع بخش تنظیم کے دفتر میں سیکس ورکرز کو دیکھنے والے ڈاکٹر، سمن کمار بسواس کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے سیکس ورکرز کو طبی مدد حاصل کرنے کے لیے یہ سب کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ وہ سیکس ورکرز کو کنڈوم تقسیم کرتے ہیں اور انہیں طبی صلاح دیتے ہیں۔
کووڈ۔۱۹ وبائی مرض نے سیکس ورکرز کے خلاف تعصب کو بڑھا دیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے استحصال کا خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔
اے آئی این ایس ڈبلیو کی موجودہ صدر، پُتُل سنگھ کہتی ہیں، ’’سیکس ورکرز کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمیں راشن کی قطاروں سے ہٹا دیا گیا یا آدھار کارڈ کے لیے ستایا گیا… ہماری ایک بہن کو حمل کے دوران پیچیدگی ہو گئی تھی، لیکن ایمبولینس نے آنے سے انکار کر دیا۔ ہم نے جب اسے چند کلومیٹر کے ۵ ہزار روپے سے زیادہ دینے کا وعدہ کیا، تب جا کر وہ تیار ہوا۔ ہم نے کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا، لیکن وہاں کے اسٹاف نے علاج کرنے سے منع کر دیا اور بلا وجہ کے بہانے بنانے لگا۔ ایک ڈاکٹر کسی طرح اسے دیکھنے کے لیے تیار تو ہوا، لیکن مریض سے تھوڑا دور کھڑے ہو کر۔‘‘ پُتُل بتاتی ہیں کہ آخرکار اس عورت کا بچہ ضائع ہو گیا، حالانکہ وہ لوگ اسے پرائیویٹ کلینک بھی لے گئے تھے۔
*****
ان عورتوں کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ کے مقابلے سرکاری اسپتال کا انتخاب ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ امیتا کہتی ہیں، ’’پرائیویٹ اسپتال میں ہم اپنی عزت گنوائے بغیر ڈاکٹر سے صلاح لیتے ہیں۔‘‘ لیکن یہ اسپتال کافی مہنگے ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پرائیویٹ اسپتال میں اسقاط حمل کرانا تین گنا زیادہ مہنگا یا کم از کم ۱۵ ہزار روپے ہو سکتا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کاغذی کارروائی پر زور دینا ہے۔
۲۸ سالہ پنکی اپنے چہرے اور گردن سے ماسک ہٹا کر وہ بدنما داغ دکھاتی ہیں، جو اُن کے گاہک سے بنے ایک عاشق کے ذریعے گلا کاٹنے کی وجہ سے پڑا تھا۔ اس کا علاج کرانے وہ سرکاری اسپتال کیوں نہیں گئی تھیں، اس کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’لاکھوں سوالات کیے جائیں گے، پہچان ظاہر کر دی جائے گی، اور شاید ہمارے اوپر پولیس کیس بھی تھوپ دیا جائے۔ اس کے علاوہ، جب ہم میں سے زیادہ تر عورتیں گاؤں سے اپنا گھر بار چھوڑ کر آتی ہیں، تو ہمارے پاس ہمیشہ راشن کارڈ یا ایسا کوئی دوسرا کاغذ نہیں ہوتا۔‘‘
مارچ ۲۰۰۷ کے انڈین ویمنز ہیلتھ چارٹر میں کہا گیا ہے کہ سیکس ورکرز کو ’’عوامی صحت کے لیے خطرہ‘‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک دہائی کے بعد بھی اس سوچ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، راجدھانی جیسے شہر میں بھی نہیں۔ اور وبائی مرض نے سیکس ورکرز کے لیے مزید پریشانیاں کھڑی کر دی ہیں۔
قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) نے اکتوبر ۲۰۲۰ میں، کووڈ۔۱۹ کے تناظر میں خواتین کے حقوق پر ایک ایڈوائزری جاری کی تھی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جنسی کارکنان کو درپیش خطرات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے – ان کی روزی روٹی متاثر ہوئی، جنہیں ایچ آئی وی تھا انہیں وائرس کی روک تھام والے علاج تک رسائی حاصل نہیں ہو پائی، اور شناخت سے متعلق کاغذات نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سے کئی کو سرکار کی فلاحی اسکیموں میں شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم، کچھ دنوں کے بعد این ایچ آر سی نے سیکس ورکرز سے متعلق اپنے بیان میں ترمیم کی اور انہیں غیر رسمی کارکنان کے طور پر تسلیم کیے جانے کی ایک بنیادی تجویز کو واپس لے لیا، جس کی وجہ سے ان کے لیے فلاحی اقدام سے فائدہ حاصل کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ترمیم کرنے کے بعد اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ سیکس ورکرز کو انسانی بنیادوں پر راحت فراہم کی جانی چاہیے۔
دہلی میں واقع ہیومن رائٹس لاء نیٹ ورک سے جڑی ایک وکیل، اسنیہا مکھرجی کہتی ہیں، ’’کووڈ کے دوران تو حالت کافی بدتر ہو گئی تھی، جب سرکاری اسپتالوں نے سیکس ورکرز سے یہ کہہ دیا کہ ’ہم تمہیں چھوئیں گے نہیں کیوں کہ تمہاری وجہ سے وائرس پھیل سکتا ہے‘۔ لہٰذا، انہیں دوائیں دینے اور ان کی جانچ کرنے سے منع کر دیا گیا۔‘‘ مکھرجی کا کہنا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ سے متعلق بل، ۲۰۲۱ کے مسودہ میں تمام جنسی کارکنان کو اسمگلنگ کے متاثرین بتایا گیا ہے، اور اس کے قانون بنتے ہی سیکس ورکر کے طور پر کام کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ اس کی وجہ سے سیکس ورکرز حفظان صحت کی سہولیات سے مزید دور ہو سکتی ہیں۔
سیکس ورکر کو ۲۰۲۰ سے پہلے، دن میں ایک یا دو گاہک مل جاتے تھے جن سے ان کی ۲۰۰ سے ۴۰۰ روپے تک کی کمائی ہو جاتی تھی، یعنی ایک مہینے میں وہ ۶۰۰۰ سے ۸۰۰۰ روپے تک کما لیتی تھیں۔ پورے ملک میں پہلی بار کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن لگنے کے بعد، سیکس ورکرز کو چونکہ کئی مہینے تک کوئی گاہک نہیں ملا، اس لیے زیادہ تر غیر رسمی کارکنان کی طرح انہیں بھی خیرات پر منحصر رہنا پڑا۔ کھانا بھی جب مشکل سے مل رہا ہو، تو ویسے میں دواؤں کا انتظام کہاں سے ہو پاتا۔
اے آئی این ایس ڈبلیو کے رابطہ کار، امت کمار بتاتے ہیں، ’’مارچ ۲۰۲۱ میں راشن ملنا بھی بند ہو گیا۔ سرکار نے سیکس ورکرز کی مدد کے لیے کوئی اسکیم شروع نہیں کی۔ وبائی مرض کو تقریباً دو سال ہو چکے ہیں، جب انہیں اپنے گاہک تلاش کرنے میں جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ کھانے کی کمی تو ہے ہی، وہ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، روزی روٹی ختم ہو گئی ہے اور فیملی والے کوئی ایسا کام تلاش کر رہے ہیں جسے وہ آسانی سے کر سکیں۔‘‘
جنسی کارکنان کے نیٹ ورک کی سال ۲۰۱۴ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں سیکس ورکرز کی تعداد ۸ لاکھ سے زیادہ ہے۔ تیواری کے مطابق، ان میں سے ۳۰ ہزار دہلی میں رہتی ہیں۔ راجدھانی میں تقریباً ۳۰ این جی او ان کی باقاعدگی سے جانچ کرنے کے لیے کام کرتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے ۱۰۰۰ یا اس سے زیادہ سیکس ورکرز کی جانچ کرنے کا ہدف طے کیا ہے۔ یہ عورتیں خود کو دہاڑی مزدور سمجھتی ہیں۔ اتر پردیش کے بدایوں ضلع سے تعلق رکھنے والی ایک بیوہ، ۳۴ سالہ رانی بتاتی ہیں، ’’ہم اسے جسم فروشی نہیں کہتے، بلکہ سیکس ورک کہتے ہیں۔ میں روز کماتی ہوں اور روز کھاتی ہوں۔ میری ایک مقررہ جگہ ہے۔ میں دن میں ایک یا دو کلائنٹ لے سکتی ہوں، جن میں سے ہر ایک ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے تک دیتا ہے۔‘‘
آمدنی کا ذریعہ اُن کی شناخت کا ہی ایک حصہ ہے۔ ممبئی میں مقیم کارکن اور نسائی نظریہ داں، منجیما بھٹاچارجیہ کہتی ہیں، ’’یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ سیکس ورکرز کی دوسری پہچان تنہا خواتین، تنہا مائیں، دلت خواتین، ناخواندہ خواتین، مہاجر خواتین وغیرہ بھی ہے جس نے ان کی زندگی کا رخ طے کیا ہے۔‘‘ منجیما کے ذریعے تصنیف کردہ کتاب، ’اِنٹیمیٹ سٹی‘ میں جنسی کاروبار پر عالم کاری اور ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’کئی معاملوں میں عورتیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف قسم کے غیر رسمی کام کرتی ہیں: مثلاً گھریلو کام، جنسی کام، تعمیراتی جگہوں پر کام یا فیکٹری میں کام کرنا۔‘‘
جنسی کام سے جڑی ہوئی کئی اور ضرورتیں ہیں۔ رانی کہتی ہیں، ’’کام کرنے کے لیے اگر ہم کسی اور کا گھر استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں اس کو بھی کمیشن دینا پڑتا ہے۔ اگر گاہک میرا ہے، تو میں ہر مہینے ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے تک کرایہ دیتی ہوں۔ لیکن اگر وہ دیدی [گھر کی مالکن] کا کلائنٹ ہے، تو مجھے ایک متعینہ رقم انہیں دینی پڑے گی۔‘‘
وہ مجھے ایک ایسے ہی اپارٹمنٹ میں لے جاتی ہیں جہاں کی مالکن اس بات کی تصدیق کرنے کے بعد کہ ہم ان کی شناخت کو ظاہر کرکے اس طرح کے انتظام کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے، مجھے وہ خاص کمرہ دکھاتی ہیں۔ اس میں ایک بیڈ (بستر)، ایک آئینہ، ہندوستانی دیوتاؤں کی تصویریں، اور گرمیوں کے لیے ایک پرانا کولر رکھا ہوا ہے۔ بیڈ پر دو نوجوان عورتیں بیٹھی ہوئی ہیں اور اپنے موبائل پر مصروف ہیں۔ بالکنی میں سگریٹ پیتے دو آدمی اپنی نظریں چُرا رہے ہیں۔
معاشی وسیلہ کے طور پر جسم کے استعمال والے ’دنیا کے سب سے پرانے پیشہ‘ میں انتخاب کے سوال کا جواب تاریخی طور پر کافی مشکل رہا ہے۔ بھٹاچارجیہ کہتی ہیں کہ انتخاب کو جب اچھا یا اخلاقی ہی نہیں مانا جاتا تو پھر انتخاب پر زور دینا بہت مشکل ہے۔ ’’ایسی کون عورت ہوگی جو خود کو سیک ورکر کہلانا چاہے گی؟ دوسرے الفاظ میں کہیں تو، یہ اتنا ہی مشکل ہے جتنا کسی لڑکی کے لیے یہ بتانا کہ وہ اپنے بوائے فرینڈ یا پارٹنر کے ساتھ سیکس کرنے کے لیے راضی ہو گئی تھی۔ ایسا کہنے پر اسے ’خراب‘ لڑکی سمجھ لیا جائے گا۔‘‘
دریں اثنا، رانی اس بات سے فکرمند ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو کیا سمجھائیں کہ ان کی ماں ان کے کھانے، رہنے، اسکول کی فیس، اور دواؤں کے لیے پیسے کا انتظام کیسے کرتی ہیں۔
سیکس ورکرز کی رازداری کی حفاظت کرنے کے لیے اسٹوری میں ان کے نام بدل دیے گئے ہیں۔
پاری اور کاؤنٹر میڈیا ٹرسٹ کی جانب سے دیہی ہندوستان کی بلوغت حاصل کر چکی لڑکیوں اور نوجوان عورتوں پر ملگ گیر رپورٹنگ کا پروجیکٹ پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا کے مالی تعاون سے ایک پہل کا حصہ ہے، تاکہ عام لوگوں کی آوازوں اور ان کی زندگی کے تجربات کے توسط سے ان اہم لیکن حاشیہ پر پڑے گروہوں کی حالت کا پتہ لگایا جا سکے۔
اس مضمون کو شائع کرنا چاہتے ہیں؟ براہِ کرم [email protected] کو لکھیں اور اس کی ایک کاپی [email protected] کو بھیج دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز