جنوری ۲۰۱۵ سے اب تک بھولی دیوی وشنوئی کو ڈائن قرار دیے ہوئے ۱۵ سال گزر چکے ہیں۔ راجستھان کے دریبا گاؤں میں اس دن تین عورتوں نے بھولی پر ڈائن ہونے اور ان کے بچوں کو بیمار کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے بھولی کو پورے گاؤں کے سامن ڈائن کہا اور الزام لگایا کہ وہ دوسروں کے جسم میں داخل ہو جاتی ہیں اور لوگوں کو بیمار کر دیتی ہیں۔

اس واقعہ کے چار مہینے بعد بھولی دیوی اور ان کی فیملی کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ وہ بھیل واڑہ ضلع کی سوانا تحصیل میں تقریباً ۵۰۰ کنبوں کے گاؤں، دریبا سے ۱۴ کلومیٹر دور بھیل واڑہ شہر میں رہنے کے لیے آ گئے۔

تقریباً ۵۰ سالہ کسان اور خاتون خانہ بھولی کہتی ہیں کہ وہ ڈائن کے رسم میں یقین نہیں کرتیں۔ لیکن ڈائن ہونے کا داغ ان کے اوپر تب تک رہے گا جب تک الزام لگانے والی اور ان کا بائیکاٹ کرنے والی عورتیں ان کے ہاتھوں سے پرساد قبول نہیں کرتیں، وہ بتاتی ہیں۔

اپنے اوپر سے ڈائن ہونے کا داغ ہٹانے کے لیے بھولی لمبے عرصے سے کوشش کر رہی ہیں۔ رشتہ داروں اور گاؤں والوں کے کہنے پر وہ پشکر، ہریدوار اور کیدارناتھ کی تیرتھ یاتراؤں سے لیکر گنگا اسنان اور اُپواس تک کر چکی ہیں کیوں کہ انہیں بتایا گیا کہ ان کے ان کاموں سے انہیں ڈائن ہونے کی بدنامی سے نجات مل جائے گی۔

’’تیرتھ، اُپواس اور تمام رسوم و روایات کو ادا کرنے کے بعد ہم نے کچھ میاں بیوی کو کھانے پر بلایا، لیکن کوئی بھی میرے گھر کھانے نہیں آیا،‘‘ بھولی بتاتی ہیں۔ بائیکاٹ ختم کرنے کی امید میں بھولی کی فیملی نے اپنے گھر اور گاؤں میں تہواروں پر کئی بار کھانے کا اہتمام کیا ہے۔ بھولی کا اندازہ ہے کہ ان سب پر اب تک وہ ۱۰ لاکھ روپے خرچ کر چکے ہیں۔

بھول واڑہ میں سماجی کارکن، تارا اہلووالیہ کہتی ہیں، ’’بھولی جس بائیکاٹ کا سامنا کر رہی ہیں، وہ بھیل واڑہ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔‘‘ ۲۰۰۵ میں واقعہ کے بعد تارا نے ہی بھولی اور ان کی فیملی کی طرف سے عدالت کے ذریعے معاملے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

Left: Bholi and her family were forced to leave their home in Dariba village four months after the incident. Right: She moved with her husband Pyarchand (right) and family (including daughter-in-law Hemlata, on the left) to Bhilwara city
PHOTO • People's Archive of Rural India
Left: Bholi and her family were forced to leave their home in Dariba village four months after the incident. Right: She moved with her husband Pyarchand (right) and family (including daughter-in-law Hemlata, on the left) to Bhilwara city
PHOTO • Tara Ahluwalia

بائیں: واقعہ کے چار مہینے بعد بھولی دیوی اور ان کی فیملی کو دریبا گاؤں چھوڑنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ دائیں: وہ اپنے شوہر پیار چند (دائیں) اور فیملی (بہو ہیم لتا، بائیں طرف، سمیت) بھیل واڑہ شہر چلی گئیں (تصویر ۲۰۱۷ کی ہے)

۲۸ جنوری، ۲۰۰۵ کو درج ہوئی ایف آئی آر کے مطابق، دریبا میں بھولی کی فیملی کی بین بیگھہ (ایک اعشاریہ ۲ ایکڑ) زمین پر قبضہ کرنے کے مقصد سے ایک فیملی کے ساتھ ممبران نے انہیں ڈائن بتا دیا۔ بھولی کی طرح ملزم فیملی کا تعلق بھی وشنوئی (بشنوئی) برادری سے ہے، جو راجستھان میں دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) میں شامل ہے۔ بھولی کے شوہر پیار چند وشنوئی بتاتے ہیں کہ کئی برسوں سے وہ فیملی اپنے کھیت میں جانے کے لیے، ان کے کھیت سے ہوکر جانے کا راستہ مانگ رہی تھی، لیکن اس کھیت کو انہوں نے بٹائی پر دے رکھا ہے۔ جب پیار چند نے راستہ دینے سے انکار کر دیا، تو ان میں جھگڑا ہوا اور تبھی انہوں نے بھولی کو ڈائن کہنا شروع کر دیا۔

بھیل واڑہ ضلع کے سپرنٹنڈٹ آف پولس، ہریندر کمار مہاور کا ماننا ہے کہ ڈائن ہراسانی کے کیس ہمیشہ ویسے نہیں ہوتے جیسے وہ نظر آتے ہیں۔ ’’ان میں سے زیادہ تر جھوٹے اور زمینی تنازع سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں یہ رسم سماجی روایتوں سے نکلی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

اکثر گاؤں کے بارسوخ لوگ کسی ایسی بیوہ یا تنہا عورت کو ڈائن کہنا شروع کر دیتے ہیں، جو اقتصادی اور قانون طور پر اپنی لڑائی لڑنے کے قابل نہ ہو، اہلووالیہ کہتی ہیں، اور زیادہ معاملوں میں یہ ان کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اہلووالیہ ۱۹۸۰ کی دہائی سے بھیل واڑہ ضلع میں ڈائن کی رسم کے خلاف مہم چلا رہی ہیں۔ انہوں نے ’بال ایوم مہیلا چیتن سمیتی‘ نام سے ان جی او بھی بنایا ہے۔

کنبوں کی آپسی دشمنی اور عناد کی وجہ سے بھی عورتوں کے خلاف ایسے الزام لگائے جاتے ہیں۔ چونکہ ان معاملوں کو پہلے سماجی مسائل کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اس لیے گاؤں کی پنچایتیں (پنچ) انہیں کنٹرول کرتی تھیں۔ ’’عورتوں کو ڈائن قرار دینے اور اس رسم کو آگے بڑھانے میں پنچایت کے ممبران یعنی پنچوں نے کافی اہم رول نبھایا ہے،‘‘ تارا اہلووالیہ کہتی ہیں۔

سماجی کارکنوں کی ۲۵ سال کی لمبی مہم کے بعد حکومت راجستھان نے اپریل ۲۰۱۵ میں راجستھان ڈائن مخالف قانون پاس کیا۔ قانون میں ڈائن کی رسم کو جرم قرار دیا گیا۔ اس میں ایک سے ۵ سال تک کی سزا، ۵۰ ہزار روپے جرمانہ یا دونوں کا التزام ہے۔

PHOTO • Madhav Sharma

۲۰۱۵ سے قانون بننے کے بعد راجستھان میں ڈائن قرار دیے جانے کے ۲۶۱ معاملے سامنے آئے ہیں۔ حالانکہ پولس نے صرف ۱۰۹ کیس میں ہی چارج شیٹ دائر کی ہے اور آج تک کسی ملزم کو سزا نہیں ہو پائی ہے

راجستھان پولس سے ملے اعداد و شمار کے مطابق، جب سے قانون نافذ ہوا ہے، تب سے اکیلے بھیل واڑہ ضلع میں ۷۵ معاملے درج ہوئے ہیں۔ (ہریندر مہاور بتاتے ہیں کہ ہر مہینے یہاں ۱۰-۱۵ ایسی شکایتیں آتی ہیں، لیکن سبھی کیس میں تبدیل نہیں ہو پاتیں۔) قانون بننے کے بعد راجستھان میں ڈائن قرار دیے جانے کے ۲۶۱ معاملے سامنے آئے ہیں۔ ۲۰۱۵ میں ۱۲ کیس، ۲۰۱۶ میں ۶۱، ۲۰۱۷ میں ۱۱۶، ۲۰۱۸ میں ۲۷ اور ۲۰۱۹ میں نومبر تک ۴۵ کیس درج ہوئے ہیں۔ حالانکہ، پولس صرف ۱۰۹ معاملوں میں ہی چارج شیٹ دائر کر پائی ہے۔

’’قانون زمینی سطح پر مؤثر طریقے سے نافذ نہیں ہو رہا ہے۔ اسی لیے راجستھان میں آج تک ڈائن ہراسانی کے ایک بھی معاملہ میں کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے،‘‘ اہلووالیہ کہتی ہیں۔ وہ آگے بتاتی ہیں کہ دیہی علاقوں میں پولس والے قانون کے بارے میں کم جانکاری رکھتے ہیں اور ڈائن ہراسانی کے کیسوں کو صرف جھگڑے کا کیس بناکر شکایت درج کر لیتے ہیں۔

راجستھان میں دلت، آدیواسی اور خانہ بدوش افراد کے حقوق کی مہم سے جڑے بھیل واڑہ کے سماجی کارکن، راکیش شرما بھی اہلووالیہ کی بات سے متفق ہے کہ پولس ایسے معاملوں کی ٹھیک سے جانچ نہیں کرتی اور ایسے معاملوں کو تعزیراتِ ہند کی صحیح دفعات کے تحت رجسٹر بھی نہیں کرتی۔ شرما الزام لگاتے ہیں کہ کچھ پولس والے کیس کو کمزور کرنے کے لیے ملزم فریق سے رشوت تک لیتے ہیں۔ ’’اس رسم کے دو پہلو ہیں – سماجی اور قانونی۔ اگر سماجی خرابی کسی عورت کو ڈائن بناتی ہے، تویہ قانون کی ذمہ داری ہے کہ ملزمین کو سزا ملے۔ لیکن، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ پولس اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کر رہی ہے۔ اسی لیے کسی بھی متاثرہ کی نہ تو باز آبادکاری ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی ملزم ابھی تک مجرم ثابت ہوا ہے۔‘‘

بھولی کا کیس جب سے درج ہوا ہے تب سے نچلی عدالت میں اٹکا ہوا ہے۔ ’’ہم ۴-۵ بار بھیل واڑہ سیشن کورٹ میں گئے۔ شروعاتمیں ہمیں سرکاری وکیل مہیا کرایا گیا، لیکن بعد میں سماعت رک گئی کیوں کہ ملزم فریق ایک بھی سماعت کے دوران عدالت نہیں پہنچا،‘‘ پیار چند کہتے ہیں۔ بھولی کا کیس عدالت میں آخری بار اپریل ۲۰۱۹ میں سنا گیا تھا۔

PHOTO • Madhav Sharma

۶۸ سالہ پیار چند نے ۲۰۰۶ میں ٹیچر کی نوکری سے ریٹائرمنٹ (وی آر ایس) لے لیا تھا۔ وہ دریبا سے ۱۸ کلومیٹر دور، کماریا کھیڑا گاؤں کے پرائمری اسکول میں پڑھاتے تھے۔ انہوں نے بھی اپنی بیوی کے اوپر لگے ڈائن کے داغ کو دھونے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ریٹائرمنٹ کے وقت پیار چند ۳۵ ہزار روپے ماہانہ پاتے تھے۔ انہوں نے اور بھولی نے خود کو سماج میں اعتماد واپس حاصل کرنے کے لیے کھانے کا جو انتظام کیا تھا، اس کا خرچ پیار چند کی بچت اور ان کے تین بیٹوں کی کمائی سے آیا۔

فیملی کے بھیل واڑہ آنے کے بعد بھی پریشانیوں نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ۱۴ اگست، ۲۰۱۶ کو بھولی کی ایک پڑوسن نے ان کے اوپر کالا جادو کرنے اور اس کے گھٹنوں میں درد دینے کا الزام لگاتے ہوئے ان کی پٹائی کر دی۔ پڑوسی نے اس دن ایک مقامی اخبار میں بھولی کے بارے میں مضمون پڑھا تھا، جس سے اسے دریبا میں بھولی پر لگائے گئے ڈائن کے داغ کے بارے میں پتا چلا۔

’’گاؤں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ شہر میں پڑوسیوں نے بھی مجھ پر یہ داغ لگایا۔ اس کے سبب میری بہو، ہیم لتا کو بھی ڈائن کہا جانے لگا۔ اس کا ۱۲ سال تک سماج سے بائیکاٹ کیا گیا اور مجھ سے سارے تعلقات ختم کرنے کی شرط پر اسے سماج میں واپس لیا گیا،‘‘ بھولی کہتی ہیں۔ ان کے بیٹے اوم پرکاش، یعنی ہیم لتا کے شوہر اور ان کے چار بچوں کو بھی ان سے ملنے سے روکا گیا۔

ڈائن کا داغ لگنے کے بعد، ۳۵ سالہ ہیم لتا کو بھیل واڑہ میں ان کے مائکے میں بھی داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ ’’جب میں وہاں جاتی تھی، تو مجھ سے اچھوتوں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ اخبار میں میری ساس کے بارے میں چھپی خبر نے میری فیملی کو بھی کافی متاثر کیا۔ کالونی کے لوگوں نے میرے ساتھ سارے تعلقات ختم کر لیے،‘‘ ہیم لتا بتاتی ہیں۔ لیکن ان کے شوہر، ۴۰ سالہ اوم پرکاش نے ان کی اور اپنی ماں (بھولی) کی ہمیشہ مدد کی۔ وہ بھیل واڑہ میں ہی ایک ٹریکٹر کمپنی میں کام کرتے ہیں اور ۲۰ ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں۔ ہیم لتا خود بھی شہر کے ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھاتی ہیں اور ماہانہ ۱۵ ہزار روپے کماتی ہیں۔

حالات نے ۲۰۱۶ میں بھولی اور پیار چند کو بھیل واڑہ کے جواہر نگر میں ۳ ہزار روپے ماہانہ کرایے پر گھر لینے کے لیے مجبور کر دیا۔ حالانکہ پیار چند کا اسی کالونی میں اپنا گھر ہے، جو انہیں اپنے والد سے وراثت میں ملا تھا۔ اوم پرکاش، ہیم لتا اپنے بچوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتے ہیں۔ بھولی اور پیار چند اپنا خرچ پنشن سے چلاتے ہیں۔ حالانکہ پیار چند کی بھیل واڑہ شہر میں ۱ اعشاریہ ۶ ایکڑ زرعی زمین بھی ہے، جس پر وہ سرسوں اور چنا اُگاتے ہیں۔

’’کوئی بھی رشتہ دار ہمارے گھر ہم سے ملنے نہیں آتا، میرے مائکے سے بھی نہیں،‘‘ بھولی کہتی ہیں۔ اس بدنامی کے سبب، ان کے دو دیگر بیٹے- پپو (۳۰) اور سندر لال (۲۸) کی بیویاں بھی انہیں چھوڑ کر چلی گئیں، وہ بتاتی ہیں۔ سندر لال اب جودھپور میں رہتے ہیں اور ایک کالج میں پڑھاتے ہیں، جب کہ پپو اپنے والد کے ساتھ کھیتی کرتے ہیں اور بھیل واڑہ میں اپنے بھائی اوم پرکاش کے ساتھ رہتے ہیں۔

'People from my village as well as neighbours in the city have marked me with this stigma', says Bholi
PHOTO • Madhav Sharma

’میرے گاؤں کے ساتھ ساتھ شہر کے میرے پڑوسیوں نے بھی میرے اوپر یہ داغ لگایا ہے‘، بھولی کہتی ہیں

بھولی کی فیملی بھلے ہی ان کے ساتھ کھڑی ہو، لیکن بہت سی ڈائن کی بدنامی سے متاثرہ بنا کسی گھریلو سہارے کے تنہا زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ’’گزشتہ دو سالوں میں بھیل واڑہ کے گاؤں میں ڈائن قرار دی گئی سات عورتوں کی موت ہوئی ہے،‘‘ اہلووالیہ کہتی ہیں۔ وہ مانتی ہیں کہ بھلے ان کی موت قدرتی نظر آئے، لیکن اس کے پیچھے ذہنی تناؤ، اکیلاپن اور غریبی ہے۔

دیہی معاشرہ میں سماجی بائیکاٹ سے بڑا کوئی دوسرا درد نہیں ہوتا، ہیم لتا کہتی ہیں۔

راجستھان یونیورسٹی، جے پور کے شعبہ سماجیات سے ریٹائرڈ پروفیسر راجیو گپتا ڈائن قرار دینے کے عمل اور مقصد کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔ ’’ڈائن قرار دینا، جادو ٹونا کرنا لوگوں میں خوف پیدا کرنے اور کہانیاں بنانے کا کام کرتا ہے۔ اس بری رسم میں خوف اور عدم تحفظ کے کئی عنصر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سماج کے لوگ بھی متاثرہ سے بات کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ یہ خوف اور عدم تحفظ اگلی نسل تک بھی پہنچتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

لیکن راجستھان کے وزیر برائے انصاف اور تفویض اختیار، ماسٹر بھنور لال میگھوال اس بری رسم سے انجان ہیں، جب کہ ریاست میں یہ کافی لمبے عرصے سے جاری ہے اور ۲۰۱۵ سے جرم بھی ہے۔ ’’عورتوں سے ایسا برتاؤ ٹھیک نہیں ہے، لیکن مجھے اس سلسلے میں جانکاری نہیں ہے۔ میں [متعلقہ] محکمہ سے بات کروں گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

ان سب کے درمیان بھولی دیوی طویل عرصے سے انصاف ملنے کا انتظار کر رہی ہیں۔ آنکھوں میں آنسو لیے وہ سوال کرتی ہیں، ’’صرف عورتوں پر ہی ہمیشہ ڈائن ہونے کا داغ کیوں لگتا ہے؟ مردوں پر کیوں نہیں؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Madhav Sharma

ਮਾਧਵ ਸ਼ਰਮਾ, ਜੈਪੁਰ ਤੋਂ ਹਨ ਤੇ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ। ਉਹ ਸਮਾਜਿਕ, ਵਾਤਾਵਰਣ ਸਬੰਧੀ ਤੇ ਸਿਹਤ ਸਬੰਧੀ ਮਸਲਿਆਂ ਬਾਰੇ ਲਿਖਦੇ ਹਨ।

Other stories by Madhav Sharma
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique