’’میں آپ کا موازنہ گرمی کے دن سے کروں؟‘‘ ۱۹ سالہ فائزہ انصاری سرگوشی کے لہجہ میں کہتی ہیں۔ ہم لوگ رہنما لائبریری سنٹر کی ٹائل والی فرش پر پالتھی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ممبرا میں عورتوں کی یہ واحد لائبریری ہے۔
دو کمرے والے اپارٹمنٹ سے بنی یہ لائبریری دارالفلاح مسجد کے قریب واقع ایک خستہ حال عمارت کی پہلی منزل پر ہے، جہاں زیادہ تر نوجوان عورتیں آتی جاتی ہیں۔ لائبریری میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے برقعے کو اتار کر خالی پڑی پلاسٹک کی کرسیوں پر رکھ دیتی ہیں اور ٹھنڈے فرش پر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ جگہ مرکزی ممبئی سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور، شمال مشرقی سمت میں ایک مضافاتی علاقہ ہے، جہاں باہر کا درجہ حرارت اس وقت ۳۶ ڈگری سیلسیس ہے۔
شیکسپیئر کے سونیٹ ۱۸ کے بارے میں بتا رہی فائزہ سے، میں مزید سننے کا اصرار کرتی ہوں۔ ان کی بہن رضیہ سمیت سبھی کی نظریں فائزہ کی طرف گھوم جاتی ہیں۔ فائزہ، رومیو اور جولیٹ سے ایک سطر پڑھتی ہیں، ’’خوبصورت دل، خوبصورت چہرے سے بہتر ہوتا ہے۔‘‘ رضیہ شرمیلی نگاہوں سے اپنی بہن کی طرف دیکھتی ہے۔ وہاں موجود دوسری لڑکیاں بھی ایک دوسرے کی چٹکی لیتے ہوئے، شرم کے مارے زور سے ہنسنے لگتی ہیں۔ اس ہنسی مذاق کا مطلب کوئی بھی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔
لیکن، ۱۸ سالہ رضیہ انصاری اتنی شرمیلی نہیں ہیں۔ انہوں نے ابھی تک شیکسپیئر کی صرف ایک کہانی پڑھی ہے، جس کا دلچسپ خلاصہ وہ میرے سامنے پیش کر رہی ہیں۔ سیزاریو کے بھیس میں وایولا کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’بارہویں رات کسی ہندی فلم کی طرح ہے۔ وایولا کا دوہرا کردار ہے۔‘‘ رضیہ اپنی انگریزی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اسی لیے انہوں نے لائبریری میں انگریزی بول چال کی کلاس میں داخلہ لیا ہے۔ یہاں پر صبح ۱۱ بجے سے شام کے ۶ بجے تک، ہفتے میں پانچ دن الگ الگ بیچ کی ایک گھنٹے کی کلاس ہوتی ہے۔
فائزہ اور رضیہ کی فیملی، تقریباً ۱۸ مہینے پہلے جھارکھنڈ کے دُمکا ضلع میں واقع آسنسول گاؤں سے ممبرا آئی تھی۔ لیکن ان بہنوں کو ممبرا پسند نہیں آیا۔ رضیہ کہتی ہیں، ’’یہاں چاروں طرف گندگی کا ڈھیر ہے۔‘‘ فائزہ ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہاں کتاب کی دکانوں سے زیادہ کھانے پینے کی دکانیں ہیں۔‘‘ گاؤں میں دونوں بہنوں کو برقعہ نہیں پہننا پڑتا تھا۔ رضیہ کہتی ہیں، ’’وہاں گھر پر ہمیں بہت آزادی تھی۔ لیکن یہاں کے بارے میں، ہماری ماں کہتی ہیں کہ ماحول اچھا نہیں ہے۔‘‘
آسنسول میں ان کے والد کے پاس کیرانے کی ہول سیل کی دکان تھی۔ لیکن، بقول رضیہ، انہوں نے ’’زیادہ پیسے کمانے اور بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے‘‘ ممبئی آنے کا فیصلہ کیا، جہاں ان کی دادی اور فیملی کے دیگر ارکان پہلے سے ہی رہ رہے تھے۔ یہاں آتے ہی، انہوں نے اپنے گھر کے پاس کیرانے کی ایک دکان کھول لی۔
دونوں بہنوں کا زیادہ تر وقت پاس کے اے ای کلسیکر ڈگری کالج میں گزرتا ہے، جہاں وہ بالترتیب بی اے سال اوّل اور سال دوئم کی طالبہ ہیں۔ لیکن، بقول رضیہ، وہ ’’[گاؤں کے] اپنے گھر کے بارے میں‘‘ یہ ساری باتیں رہنما لائبریری میں ہی کرتی ہیں، جو ان کے گھر سے چند قدم کی دوری پر ہے۔
اتر پردیش کی ہریّا تحصیل میں واقع ببھناں گاؤں سے تعلق رکھنے والی بشیرہ شاہ کے لیے لائبریری وہ جگہ ہے، جہاں وہ اپنے گھر کی سوچ سے تھوڑا آزاد ہو سکتی ہیں۔ بشیرہ تقریباً ۱۴ سال کی عمر میں شادی ہونے کے بعد، گونڈا شہر کے قریب اشوک پور گاؤں میں واقع اپنے شوہر کے گھر چلی گئی تھیں۔ ان کے شوہر اُس وقت سعودی عرب میں راج مستری کا کام کرتے تھے، لیکن دو سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔ اب بیوہ ہو چکیں ۳۶ سال کی بشیرہ اپنی ماں، چار بچوں اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ ممبرا میں رہتی ہیں۔
ان کے والد ۲۰۰۰ کی دہائی میں یہاں آئے تھے، لیکن اکتوبر ۲۰۱۷ میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ مسجد بندر میں خشک میوے کی اُن کی ایک دکان تھی، جسے اب کرایے پر دے دیا گیا ہے۔ بشیرہ کے دو بیٹوں کی عمر ۱۶ سال اور ۱۵ سال ہے، جنہوں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن، بچپن میں مذہبی تعلیم اور تیسری جماعت تک اردو کی پڑھائی کر چکیں بشیرہ نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرا خواب ہے کہ شمشیر اور شفاء سے میں انگریزی میں بات کروں۔‘‘ ان کا سب سے چھوٹا بیٹا، شمشیر (عمر ۱۲ سال) اور بیٹی، شفاء (عمر ۹ سال) ممبرا پبلک اسکول میں انگریزی کی پڑھائی کر رہے ہیں۔
رہنما لائبریری کی شروعات ۲۰۰۳ میں ہوئی تھی، اور تبھی سے یہاں خواتین کا آنا جانا جاری ہے۔ یہ خواتین گپ شپ، ہنسی مذاق، آرام کرنے، یا کتابوں کا مطالعہ کرنے کے لیے اس لائبریری میں دن بھر آتی ہیں۔ آوازِ نسواں نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) نے چندے اور کراؤڈ فنڈنگ کی مدد سے یہ لائبریری قائم کی تھی۔ یہیں پر اس این جی او کا ممبرا سنٹر بھی ہے، جہاں پر عورتوں کی خواندگی اور انہیں قانونی امداد فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے، کیوں کہ بہت سی عورتیں ان کے پاس طلاق، شوہر کی ایک سے زیادہ بیوی اور گھریلو تشدد وغیرہ جیسے مسائل لے کر آتی ہیں۔
اس جگہ کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیوں کہ یہاں پر مسلم آبادی زیادہ ہے۔ ممبرا میں آوازِ نسواں کی معاون، یاسمین آغا کے مطابق، اس کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں پر ’’عورتوں کے پاس اپنے برقعے اتارنے، ایک دوسرے سے بات چیت کرنے اور آرام کرنے کے لیے جگہ کی کمی ہے۔‘‘ شروع میں، لائبریری نے اپنے ممبران سے کہا کہ وہ اسکول جانے والی لڑکیوں اور ان کی ماؤں کو جا کر اس کے بارے میں بتائیں، لیکن کالج کی لڑکیوں کو جیسے ہی اس لائبریری کے بارے میں پتہ چلا، وہ بھی یہاں آنے لگیں۔
لائبریری کے سرپرستوں کی تعداد ۳۵۰ ہے – اور یہ سبھی عورتیں ہیں، جن میں سے کئی کا تعلق اُن کنبوں سے ہے جو ملک کے مختلف گاؤوں سے ہجرت کرکے ممبئی آ گئے تھے۔ یہ عورتیں ہر سال بطور ممبرشپ ۱۰۰ روپے جمع کرتی ہیں، جس سے انہیں لائبریری سے کتابیں اور میگزین اپنے گھر لے جانے کی سہولت ملتی ہے اور کبھی کبھی وہ بُک کلب کی میٹنگ اور ورکشاپ میں بھی شریک ہوتی ہیں۔
جنوری کے وسط میں ہونے والی بُک کلب کی گزشتہ میٹنگ میں، ۱۲ نوجوان عورتوں نے مرزا غالب اور فیض احمد فیض کی نظموں پر گفتگو کی تھی۔ لائبریرین فائزہ خان بتاتی ہیں، ’’قارئین کو دو خیموں میں تقسیم کیا گیا تھا – ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ دوسرا اس بات کو تسلیم کرے اور اعتراف کرے کہ جس شاعر کی انہوں نے تعریف کی ہے وہی سب سے بہتر ہے۔‘‘ فائزہ، غالب والے خیمہ میں تھیں، لیکن انہوں نے سختی سے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔
فائزہ ۱۹ سال کی عمر سے ہی رہنما لائبریری آ رہی ہیں، اب وہ ۲۸ سال کی ہو چکی ہیں۔ ان کی پیدائش اور پرورش ممبرا میں ہی ہوئی ہے۔ مینجمنٹ اسٹڈیز کی ڈگری حاصل کر چکیں فائزہ کو ۲۰۱۴ میں لائبریرین کی نوکری کی پیشکش کی گئی تھی۔ وہ کہتی ہیں، ’’عوامی جگہوں پر مردوں کا غلبہ ہے۔ اور عورتیں اپنے گھروں میں بند رہتی ہیں۔ لیکن لائبریری میں وہ بے باکی سے، مردوں کی طرح ہی بات چیت کر سکتی ہیں۔‘‘
ان کے پاس نہ صرف لائبریری کی چابی رہتی ہے، بلکہ وہ یہاں گھومنے کے لیے آنے والی عورتوں کو ممبر بننے میں بھی مدد کرتی ہیں، اور ان کے پڑھنے کے ذوق کو پروان چڑھاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’یہاں پر اردو کتابوں کی سب سے زیادہ مانگ ہے۔‘‘ لائبریری میں لکڑی کی پانچ الماریوں میں رکھی ۶۰۰۰ کتابوں میں سے زیادہ تر اردو کی کتابیں ہیں۔
کچھ مشہور کتابیں پاکستانی مصنفین کی ہیں، جنہیں پڑھنے کے لیے لوگ اکثر اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک ابن صفی کے جاسوسی ناول ہیں، جو کافی مشہور ہیں۔ ان کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ عمران سیریز اور جاسوسی دنیا جیسے ناول کے صفحات زیادہ پڑھے جانے کی وجہ سے اب زرد ہو چکے ہیں۔ اس لائبریری میں ابن صفی کے ایسے ۷۲ ناول موجود ہیں۔
فائزہ کے لیے یہ انتہائی مایوسی کی بات ہے کہ نمرہ احمد (لائبریری کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی مصنفہ) کے ناولوں کے صفحات کو بہت سی جگہوں پر حاشیہ کے نوٹ کے ساتھ کونے سے موڑ دیا گیا ہے۔ یہاں پر رضیہ بھٹ، عصمت چغتائی، منشی پریم چند، سعادت حسن منٹو کی کتابوں کے ساتھ ساتھ شیکسپیئر کے اردو ترجمے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہیری پوٹر، اور چیتن بھگت کی کتابیں تو ہیں ہی۔
اتر پردیش کے غازی پور ضلع میں واقع خضرپور علی نگر گاؤں سے ممبرا آئیں، ۲۰ سالہ زرداب شاہ، شرد پگارے کی ہندی تھریلر، ’اُجالے کی تلاش‘ پڑھ رہی ہیں، لیکن حسرت بھری نظروں سے ’ورلڈ بک انسائیکلوپیڈیا‘ کو دیکھ رہی ہیں، جو ایک الماری کے سب سے اوپری خانے میں رکھی ہوئی ہے۔ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہمیں ان کتابوں کو گھر لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نقشے دیکھنا چاہتی ہوں اور سوئٹزرلینڈ کی کسی مہم جوئی پر روانہ ہونے کا تصور کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
زرداب شاہ کے اندر کسی مہم جوئی پر جانے کا شدید احساس اُس وقت پیدا ہوا، جب انہیں پچھلے سال بنارس ہندو یونیورسٹی میں انگریزی سے ایم اے میں داخلہ مل گیا تھا۔ لیکن ان کے ماں باپ نے انہیں وہاں جانے نہیں دیا۔ ان کے والد ایک ٹرک ڈرائیور ہیں، جب کہ ماں ایک خاتونِ خانہ۔ زرداب کہتی ہیں، ’’وہ نہیں چاہتے کہ میں ہاسٹل میں رہوں۔‘‘ وہاں بھیجنے کی بجائے، انہوں نے زرداب کو اپنے پاس ممبرا بلا لیا۔ یہاں آنے سے پہلے وہ گاؤں میں اپنے چچا کے گھر رہ کر پڑھائی کر رہی تھیں۔ اب وہ ممبئی کالج میں داخلہ لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان کی بلڈنگ میں رہنے والے کسی شخص نے جب انہیں رہنما لائبریری کے بارے میں بتایا، تو وہ فوراً اس کی ممبر بن گئیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’گاؤں میں، میں اپنا وقت برباد کر رہی تھی… یہاں، کم از کم، میں پڑھ رہی ہوں اور کچھ سیکھ رہی ہوں۔‘‘ ممبرا میں رہنے کی عادت ڈالنے میں انہیں کچھ وقت لگا، لیکن یہاں انہیں اپنے گاؤں کی یاد بالکل بھی نہیں آتی۔ زرداب کہتی ہیں، ’’وہاں کوئی موقع دستیاب نہیں ہے۔ بچپن میں تو آپ کو وہ جگہ اچھی لگ سکتی ہے، لیکن بڑے ہونے پر نہیں۔‘‘ اور اب، رہنما لائبریری کے ساتھ انہوں نے اتنا مضبوط رشتہ قائم کر لیا ہے کہ وہ یقین سے کہتی ہیں، ’’مجھے شاید اسی مہم جوئی کی تلاش تھی۔‘‘
ممبرا میں رہنے والے زیادہ تر مسلم گھرانے وہ ہیں، جو بمبئی کے ۱۹۹۲ کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد یہاں آکر بس گئے تھے۔ شافعہ شیخ کی فیملی بھی اسی زمانے میں یہاں آئی تھی۔ اس سے پہلے یہ لوگ ورلی میں رہتے تھے، جہاں انہیں کوئی جسمانی نقصان تو نہیں پہنچا تھا، لیکن فسادات کے دوران انہیں کافی پریشانی ہوئی تھی۔ شافعہ اس لائبریری میں پہلی بار تب آئی تھیں، جب انہیں اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لیے قانونی مدد کی ضرورت تھی۔ شادی کے آٹھ مہینے بعد جب شافعہ حاملہ تھیں، تو شوہر نے انہیں چھوڑ دیا تھا۔ لیکن، یہاں آنے کے بعد جب انہوں نے کتابوں کا ذخیرہ دیکھا، تو تھوڑی کنفیوز ہوئیں، ’’مجھے لگا کہ ہمارے معاشرے میں جس طرح دیگر بہت سی چیزیں عورتوں کی پہنچ سے دور ہیں، ویسے ہی یہ کتابیں بھی ہوں گی۔‘‘
جلد ہی، شافعہ اور ان کی والدہ حسینہ بانو رہنما لائبریری کی ممبر بن گئیں۔ شافعہ کی عمر اب ۲۷ سال ہے، اور وہ کچھ کتابیں اپنی چار سال کی بیٹی مصباح فاطمہ کو بھی بلند آواز میں پڑھ کر سناتی ہیں۔ شافعہ اور ان کی والدہ اس لائبریری کی سب سے شوقین قارئین میں سے ایک ہیں – وہ ہر ہفتے ۳-۲ کتابیں اور ۳-۲ میگزین لے کر جاتی ہیں، جب کہ دوسرے قارئین ایک ہی کتاب کو کئی مہینے تک پڑھنے کے بعد لوٹاتے ہیں۔
شافعہ اس وقت، پاکستان کی مشہور ناول نگار، نمرہ احمد کا ناول ’جنّت کے پتّے‘ پڑھ رہی ہیں۔ یہ کہانی ایک لڑکی کے جنسی استحصال پر مبنی ہے۔ ناول کا مرکزی کردار ایک مرد ہے، لیکن وہ اس لڑکی کو بچاتا نہیں ہے۔ شافعہ کہتی ہیں، ’’ہمیشہ ایک ہیرو ہی آ کر سب کو بچائے گا، ایسا نہیں ہے۔‘‘
کتابوں کے شوق کے علاوہ، عورتیں اس لائبریری میں دوسروں کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی جمع ہوتی ہیں۔ زرداب کہتی ہیں، ’’یہاں ہم جس طرح چاہیں بیٹھ سکتے ہیں، ہنسی مذاق کر سکتے ہیں، کھیل سکتے ہیں، یا آپس میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ یہاں پر جو آزادی ملتی ہے وہ ہمیں اپنے گھروں میں حاصل نہیں ہوتی۔‘‘ ان عورتوں کے درمیان اس وقت تین طلاق کے بارے میں زی ٹی وی کے ایک مشہور شو، ’عشق سبحان اللہ‘ کو لے کر گرما گرم بحث چل رہی ہے۔
لائبریرین فائزہ نوجوان عورتوں کے لیے ایک رول ماڈل بن چکی ہیں، حالانکہ یہ نوکری انہوں نے ہچکچاتے ہوئے قبول کی تھی۔ اب وہ اپنی طرف سے پہل کرتے ہوئے ان عورتوں کو اکٹھا کرتی ہیں اور جو کتابیں وہ خود نہیں پڑھ سکتیں، اس کے بارے میں انہیں بتاتی ہیں۔ پچھلی کتاب جس کے بارے میں فائزہ نے ان عورتوں کو بتایا تھا، وہ گجرات کے ۲۰۰۲ کے فسادات پر مبنی رانا ایوب کی ’گجرات فائلز‘ تھی، لیکن غالب اور فیض پر ہونے والی بحث کے برعکس، یہ گفتگو انتہائی سنجیدہ رہی۔
مترجم: محمد قمر تبریز