اس نے بتایا کہ وہ دکان کا مالک نہیں ہے، صرف اس کا دوست ہے۔ کچھ دیر بعد، اس نے خود کو ’’مالک کا رشتہ دار‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ اور پھر اس کے چند لمحے بعد ہی، وہ ’’دکان میں کام کرنے والا اس کا ایک رشتہ دار‘‘ بن گیا۔ عین ممکن ہے کہ اگر ہم اس سے اسی طرح سوال پوچھتے رہتے، تو کچھ دیر بعد اس نے شاید خود کو دکان کا مالک قرار دے دیا ہوتا۔

اس نے اپنی تصویر کھنچوانے سے انکار کر دیا۔ اور دکان کے اندر جا کر شوٹنگ کرنے سے صاف منع کر دیا۔ البتہ، دکان کے باہر لگے سائن بورڈ کی تصویر کھینچنے پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔

سائن بورڈ پر لکھا تھا – ودیشی شراب دکان – جو داخلی دروازہ سے تھوڑا دور تھا۔ لائسنس یافتہ کا نام: رمیش پرساد۔ یہ جگہ سرگوجا کے کٹگھورا قصبہ کے کنارے تھی، جو اب چھتیس گڑھ میں ہے (لیکن اُس وقت مدھیہ پردیش میں ہوا کرتی تھی)۔ ہم جس شخص سے بات کر رہے تھے وہ یقیناً رمیش پرساد نہیں تھا۔ شروع میں اسے دیکھ کر یہی لگا کہ وہ اس غیر ملکی شراب کی دکان پر آنے والا کوئی بڑا گاہک ہوگا۔

غیر ملکی شراب؟ جی، پوری طرح نہیں۔ مجھے ٹھیک سے یاد نہیں ہے کہ میں نے آخری بار ’آئی ایم ایف ایل‘ کا مخفف کب سنا تھا۔ آئی ایم ایف ایل کا مطلب ہے – انڈین میڈ فارین لِکر (یعنی ہندوستانی ساختہ غیر ملکی شراب)۔ سال ۱۹۹۴ میں، جب یہ تصویر کھینچی گئی تھی، اُس وقت آئی ایم ایف ایل بمقابلہ دیسی شراب کے اوپر کافی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔

جیسا کہ مجھے Law Insider ویب سائٹ سے پتہ چلا، آئی ایم ایف ایل کا ’’مطلب ہے وہ شراب جو بیرونی ممالک سے درآمد کی گئی مختلف قسم کی شرابوں جیسے کہ جن، برانڈی، وہسکی یا رَم میں مِلک پنچ اور اس جیسی دوسری اسپرٹ پر مشتمل دیگر شرابوں کو ملا کر ہندوستان میں تیار کی جاتی یا بنائی جاتی ہے، لیکن اس میں بیئر، وائن اور غیر ملکی شراب کو شامل نہیں کیا جاتا۔‘‘ یاد رہے کہ اس میں ’’بیئر، وائن (شراب) اور غیر ملکی شراب‘‘ کو شامل نہیں کیا جاتا۔

آئی ایم ایف ایل میں درآمد شدہ شراب اور ممکنہ طور پر لازمی گھریلو مرکب (شاید گُڑ یا شاید درآمد شدہ مشروبات میں صرف مقامی ملاوٹ یا اسے بوتلوں میں بند کرنا) دونوں شامل ہوں۔ ہمیں اس کا صحیح علم نہیں ہے۔

PHOTO • P. Sainath

اُن دنوں دیسی شراب بنانے والوں کے درمیان پایا جانے والا غصہ جائز تھا۔ تاڑی، عرق، اور اس جیسی دیگر دیسی شرابوں پر کسی نہ کسی ریاست میں وقتاً فوقتاً پابندی لگا دی جاتی تھی۔ لیکن آئی ایم ایف ایل کو فروغ دیا جاتا تھا۔ اُس ودیشی شراب دکان پر کھڑے ہو کر میں جائزہ لے ہی رہا تھا کہ مجھے سال ۱۹۹۳ کا وہ واقعہ یاد آگیا، جو میں نے وہاں سے ۱۷۰۰ کلومیٹر دور، تمل ناڈو کے پڈوکوٹئی میں دیکھا تھا۔ میں وہاں جن عرق (دیسی شراب) مخالف حکام سے ملنے گیا تھا، وہ ’برانڈی کی دکانوں‘ کی نیلامی کرنے میں مصروف تھے کیوں کہ جنوبی تمل ناڈو میں آئی ایم ایف ایل کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جا چکی تھی۔ عرق ان کے لیے سر درد بن چکا تھا کیوں کہ اس کی وجہ سے قانونی الکحل کی فروخت سے بطور محصولات حاصل ہونے والی آمدنی پر اثر پڑ رہا تھا۔

ایک عوامی جلسہ کے دوران، مذکورہ ممانعت کو نافذ کرنے والے عہدیداروں کو اس وقت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، جب ‘ڈی ایم کے‘ کے ایک کارکن نے مالیہ کے ایک سرکردہ افسر کو ۵ روپے پیش کیے اور اس سے کہا کہ یہ ’’برانڈی کی دکانوں کو فروغ دینے اور شراب نوشی کی برائیوں کے خلاف آپ کی لڑائی کے لیے ایک نذرانہ ہے۔‘‘

اُدھر کٹگھورا میں، سال ۱۹۹۴ میں، اُس دکان پر ہمیں اچانک یاد آیا کہ تاخیر ہو رہی ہے، لہٰذا ہم نے قدرے متزلزل، اُس خود ساختہ گائیڈ (رہنما) سے اپنا پیچھا چھڑایا جو اب غیر ملکی اثرات پر اپنا لکچر شروع کرنے ہی والا تھا۔ ہمیں اُس ودیشی شراب کی دکان کے لائسنس یافتہ مالک، رمیش پرساد سے ملنے کا موقع نہیں مل سکا، کیوں کہ ہمیں دیسی شاہراہ سے تین گھنٹے کے اندر امبیکا پور پہنچنا تھا۔

مجھے آئی ایم ایف ایل کی یاد اُس دن اچانک آ گئی جب گزشتہ ۲۲ دسمبر کو، مدھیہ پردیش کے وزیر محصولات جگدیش دیوڑا نے (ایک طرح سے فخریہ انداز میں) ریاستی اسمبلی کو بتایا کہ ’’سال ۲۰۲۰-۲۱ میں آئی ایم ایف ایل کی کھپت بڑھ کر ۴۲۰ اعشاریہ ۶۵ لاکھ پروف لیٹر ہو چکی ہے، جو کہ سال ۲۰۱۰-۱۱ کے ۳۴۱ اعشاریہ ۸۶ لاکھ پروف لیٹر کے مقابلے ۲۳ اعشاریہ ۰۵ فیصد کا اضافہ ہے۔‘‘

اور پروف لیٹر میں آخر یہ ’پروف‘ کیا ہے؟ ظاہری طور پر اس کی ابتدا صدیوں پہلے انگلینڈ میں، شراب میں الکحل کی مقدار یا سطح کو چیک کرنے کے لیے ٹیسٹ کے طور پر ہوئی تھی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الکحل کی مقدار کی پیمائش کے طور پر اس قسم کا ’پروف‘ اب  تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن یہاں دیکھئے، مدھیہ پردیش – جیسا کہ وزیر دیوڑا دلیل دے سکتے ہیں – اب بھی تاریخ رقم کر رہا ہے۔ اُسی دہائی میں جب ہندوستانی ساختہ غیر ملکی شراب میں ۲۳ فیصد کا اضافہ ہوا، دیسی شراب میں صرف ۸ اعشاریہ ۲ فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا – حالانکہ اس کی کل کھپت کی مقدار تب بھی آئی ایم ایف ایل سے دو گنا زیادہ تھی۔ تو دیسی آج بھی لوگوں کی پہلی پسند بنی ہوئی ہے، لیکن ودیشی کی شرح ترقی دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یعنی ایک ایسا تضاد جو خود ساختہ ’دیش بھکتوں‘ کو پریشان کر سکتا ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique