۷۴ سالہ پریم رام بھاٹ تقریباً چھ دہائی قبل کا زمانہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ’’میرے والد نے میری انگلیوں میں دھاگے باندھ کر کٹھ پتلیوں کو نچانا سکھایا تھا۔‘‘

پریم رام اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’وہ کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھانے کے لیے گاؤں گاؤں جاتے اور مجھے بھی اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ تب میں تقریباً نو سال کا تھا اور ڈھول بجایا کرتا تھا۔ دھیرے دھیرے، میری بھی دلچسپی کٹھ پتلی تماشا میں بڑھنے لگی۔ میرے والد لالو رام بھٹ نے مجھے کٹھ پتلیوں کو گھمانا سکھایا، اور میں بھی انہیں سنبھالنے لگا۔‘‘

پریم رام مغربی جودھ پور کے پرتاپ نگر علاقے میں فٹ پاتھ پر بنی ایک جھگی (جھونپڑی) میں رہتے ہیں۔ ان کی بیوی جُگنی بائی (عمر ۷۰ سال)، بیٹا سُریش، بہو سُنیتا اور ان کے چار بچے (جن کی عمر ۳ سے ۱۲ سال ہے)، سبھی ایک ساتھ رہتے ہیں۔ فیملی کا تعلق بھاٹ برادری سے ہے (جو راجستھان میں او بی سی میں شامل ہے)۔ برادری کے بزرگ بتاتے ہیں کہ تقریباً ۱۰۰ سال پہلے کئی بھاٹ کُنبے راجستھان کے ناگور ضلع سے نقل مکانی کرکے جودھ پور، جے پور، جیسل میر اور بیکانیر جیسے شہروں میں آباد ہو گئے تھے۔

۳۹ سالہ سُریش کہتے ہیں، ’’میں نے کٹھ پتلی بنانے یا کٹھ پتھلی تماشا کی کہیں سے ٹریننگ حاصل نہیں کی ہے۔ میں نے یہ ہنر اپنے والد کو دیکھ کر سیکھا ہے۔‘‘ وہ بھی تقریباً ۱۰ سال کی عمر سے پریم رام کے ساتھ گاؤں گاؤں جاتے اور تماشا دکھانے میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ گھر پر وہ کٹھ پتلیاں بنانے میں مدد کرتے تھے۔ ’’اور ۱۵ سال کی عمر میں، میں نے کٹھ پتلیوں کو اچھی طرح نچانا سیکھ لیا تھا۔ میں خود ہی گاؤں گاؤں جاتا اور تماشا دکھایا کرتا تھا،‘‘ وہ آگے بتاتے ہیں۔

ویڈیو دیکھیں: ’ہماری کہانی سننے والا یا ہمارا شو دیکھنے والا کوئی نہیں ہے‘

اُن کا ۱۲ سال کا بیٹا، موہت اب اُن کے ساتھ جاتا ہے۔ سُریش کہتے ہیں، ’’جب بھی ہمیں کوئی کام ملتا ہے، تو موہت میرے ساتھ ہوتا ہے اور ڈھول بجاتا ہے۔ وہ پانچویں کلاس میں ہے، لیکن [وبائی مرض میں لاک ڈاؤن کے سبب] اسکول بند ہیں۔‘‘

اور اب یہ کام مشکل سے ملتا ہے۔ طویل عرصے سے، کٹھ پتلی تماشا کے ناظرین راجستھان کے ہوٹلوں میں ٹھہرنے والے غیر ملکی سیاح تھے۔ ان کے لیے، تین لوگوں کی ٹولی ایک گھنٹے کا تماشا دکھاتی تھی – ایک آدمی کٹھ پتلیوں کو سنبھالتا تھا اور باقی ہارمونیم اور ڈھولک بجاتے تھے۔ ان میں عام طور پر لوک گیت اور شاہی گھرانے کی سازشوں اور جھڑپوں کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں (اوپر کی ویڈیو دیکھیں)۔

انہیں ہر مہینے تقریباً ۳-۴ شو کرنے کا موقع ملتا تھا، اور ہر شو سے ایک فنکار کی ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے تک کی آمدنی ہو جاتی تھی۔ لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے چونکہ ان کا یہ کام رک گیا ہے، لہٰذا اب یہ لوگ کبھی کبھی گلی محلوں میں اپنا ہنر پیش کرتے ہیں اور ہر شو سے بمشکل ۱۰۰-۱۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔ اس کے علاوہ پُوال او ویلوٹ کا سامان بناکر فروخت کرنے سے بھی ان کی کچھ کمائی ہو جاتی ہے۔ (دیکھیں Jaipur toy makers: stuck under a grass ceiling )

لاک ڈاؤن کے دوران اس برادری کو راشن اور دیگر ضروری سامان کے لیے خیراتی تنظیموں پر انحصار کرنا پڑا، حالانکہ پوری ریاست میں دھیرے دھیرے پابندیاں ہٹانے کی وجہ سے اب انہیں تھوڑا بہت کام ملنے لگا ہے۔

Left: 'No one respects our art like before', says Premram Bhat. In the cover image on top, he is performing with dholak-player Mohanlal Bhat. Right: Manju and Banwarilal Bhat: 'We have the real stories'
PHOTO • Madhav Sharma
In this video story, Premram Bhat and others speak of how their puppet shows, once popular in royal courts and at village events, are no longer in demand, and how the lockdowns have further hit their incomes
PHOTO • Madhav Sharma

بائیں: پریم رام بھاٹ کہتے ہیں، ’پہلے کی طرح اب کوئی ہمارے ہنر کی عزت نہیں کرتا‘۔ سب سے اوپر کی کور فوٹو میں وہ ڈھولک بجا رہے ہیں – پلیئر موہن لال بھاٹ۔ دائیں: منجو اور بنواری لال بھاٹ: ’ہمارے پاس اصلی کہانیاں ہیں‘

جودھ پور کے پرتاپ نگر میں، سڑک کے اُس پار فٹ پاتھ پر بنی جھونپڑی میں ۳۸ سالہ منجو بھاٹ رہتی ہیں، جو کٹھ پتلیوں کے لیے کپڑے کی سلائی کرتی اور زیور بناتی ہیں۔ ان کے شوہر، ۴۱ سالہ بنواری لال بھاٹ ان کٹھ پتلیوں کو نچاتے ہیں۔

’’یہ فن اب ختم ہو رہا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’پہلے ہمیں ایک مہینے میں ۳-۴ شو مل جاتے تھے، لیکن کورونا کی وجہ سے اب ہم لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اب تو صرف حکومت ہی اس فن کو بچا سکتی ہے۔ ہم نہیں بچا سکتے۔ اب تفریح کے الگ الگ ذرائع آ گئے ہیں، ہمیں سننے والا یا ہمارے شو کو دیکھنے والا اب کوئی نہیں ہے۔‘‘

اس کے علاوہ، وہ بتاتی ہیں کہ ان کی روایتی کہانیوں سے چھیڑ چھاڑ کی جانے لگی ہے۔ ’’ہمارے پاس اصلی کہانیاں ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں، ہماری کہانیاں سنتے ہیں اور پھر اپنی مرضی کے مطابق وہ اس میں کچھ گھٹا بڑھا کر ٹیلی ویژن سیریل، ڈراما، فلم بناتے ہیں۔ ان میں جھوٹ زیادہ اور سچائی کم ہوتی ہے۔‘‘

پریم رام کا بھی یہی کہنا ہے کہ ٹیلی ویژن اور موبائل فون جیسی نئی ٹیکنالوجیوں نے ان کا وہ درجہ چھین لیا ہے، جو انہیں پہلے زمانے میں ملتا تھا۔ ’’ہمارے آباء و اجداد راجا مہاراجاؤں کے دربار میں تفریح کا سامان مہیا کرتے تھے۔ بدلے میں انہیں اناج، پیسے اور مختلف قسم کے دوسرے سامان ملتے تھے، جس سے ان کا سال بھر کا کام چل جاتا تھا۔ میرے والد اور دادا لوگوں کی تفریح کی خاطر گاؤں گاؤں جایا کرتے تھے۔ گاؤں والے اب بھی ہماری عزت کرتے ہیں، لیکن دنیا بدل گئی ہے۔ پہلے کی طرح اب کوئی بھی ہمارے ہنر کی عزت نہیں کرتا۔ یہ فن اب ختم ہو رہا ہے اور اب مجھے کٹھ پتھلی تماشا میں بالکل بھی مزہ نہیں آتا۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Madhav Sharma

ਮਾਧਵ ਸ਼ਰਮਾ, ਜੈਪੁਰ ਤੋਂ ਹਨ ਤੇ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ। ਉਹ ਸਮਾਜਿਕ, ਵਾਤਾਵਰਣ ਸਬੰਧੀ ਤੇ ਸਿਹਤ ਸਬੰਧੀ ਮਸਲਿਆਂ ਬਾਰੇ ਲਿਖਦੇ ਹਨ।

Other stories by Madhav Sharma
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique