اصل سوال قدروں کا ہے۔ اور یہ قدریں ہماری زندگی کا اہم حصہ ہیں۔ ہم خود کو قدرت سے الگ کرکے نہیں دیکھ پاتے۔ آدیواسی جب لڑتے ہیں، تو وہ سرکار یا کسی کمپنی کے خلاف نہیں لڑتے۔ ان کے پاس اپنی ’بھومی سینا‘ ہے، اور وہ لالچ اور خود غرضی میں لتھڑے قدروں کی مخالفت میں لڑتے ہیں۔
ان تمام چیزوں کی شروعات تہذیبوں کے ارتقا کے ساتھ ہوئی – جب ہم نے انفرادیت پسندی کو اپنا سر اٹھاتے ہوئے دیکھا، اور ہم انسانوں کو قدرت سے الگ وجود رکھنے والی اکائی کے طور پر دیکھنے لگے۔ یہیں سے تصادم کی شروعات ہوئی۔ جب ہم خود کو ندی سے دور کر لیتے ہیں، تو اس کے پانی میں سیویج، کیمیاوی اور صنعتی کچرا خالی کرنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ ہم ندی کو ذریعہ سمجھ کر اس پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ جیسے ہی ہم خود کو قدرت سے الگ اور برتر سمجھنے لگتے ہیں، اس کی لوٹ اور اس کا بیجا استعمال آسان ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف، کسی آدیواسی برادری کے لیے اس کی قدریں صرف کاغذ پر تحریر کردہ ضابطے نہیں ہوتے۔ یہ قدریں ہمارے لیے زندگی بسر کرنے کا ذریعہ ہیں۔
زمین کا جنین ہوں میں
زمین کی جڑ-بیج-جنین
ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی
کا احساس ہوں میں
بھیل، مُنڈا، بوڈو،
گونڈ، سنتھالی ہوں میں
انسانوں کا بابائے
آدم ہوں میں
تم مجھے جیو، جی بھر
کر جیو
میں یہاں کی بہشت ہوں
زمین کی جڑ-بیج-جنین
ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی
کا احساس ہوں میں
سہیادری، ستپوڑہ،
وندھیا، اراولی ہوں میں
ہمالیہ کی چوٹی،
جنوبی سمندر کی وادی
شمال مشرق کا سر سبز
رنگ ہوں میں
تم جہاں جہاں پیڑ
کاٹوگے
پہاڑوں کو بیچوگے
تم مجھے فروخت ہوتے
ہوئے پاؤگے
ندیوں کے مرنے سے
مرتا ہوں میں
تم مجھے سانسوں میں
پی سکتے ہو
تمہاری زندگی کا عرق
ہوں میں
زمین کی جڑ-بیج-جنین
ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی
کا احساس ہوں میں
ہو آخر تم بھی میری
ہی نسل
تم بھی میرا ہی خون
ہو
لالچ-حوس-اقتدار کا
اندھیرا
دیکھنے نہ دیتا تمہیں
جگ سارا
تم زمین کو زمین کہتے
ہم زمین کو ماں
ندیوں کو تم کہتے
ندیاں
وہ ہے ہماری بہنا
پہاڑ تم کو پہاڑ نظر
آتے
وہ کہتا ہم کو اپنا
بھائی
دادا ہمارا سورج
دادا، ماما چندا ماما
کہتا یہ رشتہ مجھ کو
لکیر کھینچ
میرے تمہارے بیچ
پھر بھی میں نہ مانتا
میرا عقیدہ
پگھلوگے تم اپنے آپ
ہی
گرمی سنبھالتا برف
ہوں میں
زمین کی جڑ-بیج-جنینں
ہوں میں
سورج کی لافانی گرمی
کا احساس ہوں میں
یہ نظم بنیادی طور پر دیہولی بھیلی اور ہندی زبان میں لکھی گئی تھی۔
مترجم: محمد قمر تبریز