جیٹھا بھائی رباری کہتے ہیں، ’’براہ کرم ان سے دور ہی رہیں، قریب نہ جائیں۔ وہ ڈر کر بھاگ سکتے ہیں۔ اگر وہ بھاگ گئے، تو اتنے بڑے علاقے میں انہیں کنٹرول کرنا تو دور، انہیں تلاش کر پانا بھی میرے لیے بہت مشکل ہوگا۔‘‘
خانہ بدوش گلہ بان کی زندگی بسر کرنے والے جیٹھا بھائی جن اونٹوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں، وہ کافی مہنگے اونٹ ہیں، جو چارے کی تلاش میں آس پاس ہی تیر رہے ہیں۔
اونٹ؟ تیرنے والے؟ سچ میں؟
جی ہاں۔ جیٹھا بھائی جس ’بڑے علاقے‘ کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، وہ دراصل خلیج کچھّ کے جنوبی ساحل پر واقع میرین نیشنل پارک اور سینکچری (ایم این پی اینڈ ایس) ہے۔ اور یہاں پر، خانہ بدوش گلہ بانوں کی نگرانی میں اونٹوں کے یہ ریوڑ آبی پیڑ پودوں (ایویسینیا میرینا) – جو کہ ان کی غذا کا ضروری حصہ ہوتے ہیں – کی تلاش میں ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ تک تیرتے رہتے ہیں ۔
کارو میرو جاٹ بتاتے ہیں، ’’اگر اس نسل کے اونٹ لمبے عرصے تک آبی پیڑ پودوں کو نہ کھائیں، تو وہ بیمار پڑ سکتے ہیں، اور کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی موت بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے، اس سمندری پارک کے اندر ہمارے اونٹوں کے جھنڈ آبی پیڑ پودوں کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتے رہتے ہیں۔‘‘
میرین نیشنل پارک اور سینکچری میں کل ۴۲ جزیرے ہیں ، جن میں سے ۳۷ جزیرے میرین نیشنل پارک کے تحت آتے ہیں، جب کہ بقیہ ۵ جزیرے سینکچری والے علاقے میں پڑتے ہیں۔ یہ پورا علاقہ گجرات کے سوراشٹر خطہ کے تین ضلعوں- جام نگر، دیو بھومی دوارکا (جسے ۲۰۱۳ میں جام نگر کے کچھ حصوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا) اور موربی میں پھیلا ہوا ہے۔
موسیٰ جاٹ کہتے ہیں، ’’ہم یہاں پر کئی نسلوں سے رہ رہے ہیں۔‘‘ کارو میرو کی طرح، وہ بھی میرین نیشنل پارک کے اندر رہائش پذیر فقیرانی جاٹ قبیلہ کے ایک رکن ہیں۔ میرین نیشنل پارک اور سینکچری کے اندر ایک اور گروپ بھی رہتا ہے – بھوپا رباری، جیٹھا بھائی کا تعلق اسی قبیلہ سے ہے۔ یہ دونوں ہی گروپ روایتی گلہ بان ہیں، جنہیں یہاں کی زبان میں ’مال دھاری‘ کہا جاتا ہے۔ گجراتی زبان میں ’مال‘ کا مطلب ہے مویشی، اور ’دھاری‘ کا مطلب ہے مالک یا سرپرست۔ مال دھاری لوگ پورے گجرات میں گائے، بھینس، اونٹ، گھوڑے، بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں۔
میں ان دونوں ہی گروپ کے ممبران سے مل رہا ہوں جو اس سمندری پارک کے چاروں طرف بسے گاؤں میں رہتے ہیں، جہاں کی آبادی تقریباً ۱۲۰۰ افراد پر مشتمل ہے۔
موسیٰ جاٹ کہتے ہیں، ’’ہم اس سرزمین کی قدر کرتے ہیں۔ جام نگر کے راجا نے برسوں پہلے ہمیں یہاں آ کر بسنے کی دعوت دی تھی۔ ۱۹۸۲ سے بھی پہلے، جب اس مقام کو میرین نیشنل پارک قرار دے دیا گیا۔‘‘
بھُج میں سینٹر فار پیسٹورلزم چلانے والے ’سہجیون‘ نامی این جی او کی ریتوجا مترا بھی اس دعوے کی تصدیق کرتی ہیں۔ ’’ایسا کہا جاتا ہے کہ اس خطہ کا شہزادہ ان دونوں ہی قبیلوں کے گروپس کو اپنی نئی سلطنت ’نوا نگر‘ لے کر آیا تھا، جسے بعد میں ’جام نگر‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔ اور تبھی سے، ان گلہ بانوں کے وارثین یہاں کی زمینوں پر رہتے چلے آئے ہیں۔‘‘
سہجیون میں حقوق جنگلات قانون کے ریاستی رابطہ کار کے طور پر کام کرنے والی ریتوجا مزید بتاتی ہیں، ’’اس خطے کے کچھ گاؤوں کے نام سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کافی زمانے سے یہاں رہ رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک گاؤں کا نام ہے اونٹھ بیٹ شمپر – جس کا ملتا جلتا ترجمہ ہے ’اونٹوں کا جزیرہ‘۔
اس کے علاوہ، اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں لمبے عرصے سے رہنے کی وجہ سے ہی یہاں کے اونٹوں نے تیرنا سیکھ لیا ہوگا۔ ساسکس کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی محقق، لائلا مہتہ کے مطابق : ’’اگر یہ اونٹ روایتی طور پر آبی پیڑ پودوں کے ساتھ زندگی بسر نہیں کرتے تو پھر تیرنا کیسے سیکھ پاتے؟‘‘
ریتوجا ہمیں بتاتی ہیں کہ میرین نیشنل پارک اور سینکچری کے اندر ۱۱۸۴ اونٹ چر سکتے ہیں۔ اور یہ اونٹ ۷۴ مال دھاری خاندانوں کے ہیں۔
جام نگر کا قیام ۱۵۴۰ میں عمل میں آیا جب اسے اس وقت کی نوا نگر شاہی ریاست کی راجدھانی بنایا گیا تھا۔ مال دھاری یہاں پر سب سے پہلے ۱۷ویں صدی میں کسی وقت آئے تھے، اور تبھی سے، بقول ان کے، یہیں پر آباد ہیں۔
یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ وہ ’’اس سرزمین کی قدر‘‘ کیوں کرتے ہیں۔ خاص کر تب، جب آپ اسی علاقے میں رہتے ہوں اور یہاں کے حیرت انگیز سمندری تنوع کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ اس پارک میں مونگے کی چٹانیں، آبی پیڑ پودوں کے جنگلات، ریتیلے ساحل، کیچڑ والے علاقے، آبی خلیج، چٹان والے ساحل، سمندری گھاس کے میدان وغیرہ موجود ہیں۔
اس ماحولیاتی خطہ کی دستاویز کاری ۲۰۱۶ کے ایک تحقیقی مقالہ میں کافی بہتر طریقے سے کی گئی ہے، یہ مقالہ انڈو-جرمن بائیو ڈائیورسٹی پروگرام ، جی آئی زیڈ نے شائع کیا تھا۔ اس علاقے میں ۱۰۰ قسم کی الجی (کائی)، ۷۰ قسم کے اسفنج، اور ۷۰ سے زیادہ قسم کے سخت اور ملائم مونگے پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ۲۰۰ قسم کی مچھلیاں، ۲۷ قسم کے جھینگے، ۳۰ قسم کے کیکڑے اور چار قسم کی سمندری گھاس بھی یہاں پائی جاتی ہے۔
اور یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکتا۔ جیسا کہ مذکورہ تحقیقی مقالہ میں بتایا گیا ہے: آپ کو یہاں پر سمندری کچھوے اور سمندری ممالیے میں سے ہر ایک کی تین قسمیں، خول والے جانوروں کی ۲۰۰ سے زیادہ قسمیں، دوہانوں کی ۹۰ سے زیادہ، صدفیات کی ۵۵، اور پرندوں کی ۷۸ قسمیں دیکھنے کو مل سکتی ہیں۔
فقیرانی جاٹ اور رباری قبیلے کے لوگ اس علاقے میں کئی نسلوں سے کھرائی اونٹ چراتے چلے آ رہے ہیں۔ گجراتی زبان میں ’کھرائی‘ کا مطلب ہوتا ہے ’نمکین‘۔ کھرائی، اونٹوں کی ایک خاص نسل ہے جس نے خود کو اُس ماحولیاتی خطہ کی آب و ہوا کے مطابق ڈھال لیا ہے، جو عام طور پر اونٹوں کے رہنے والے علاقوں سے الگ ہے۔ وہ مختلف قسم کے پودے اور جھاڑیاں تو کھاتے ہی ہیں، لیکن جیسا کہ کارو میرو نے ہمیں بتایا، آبی پیڑ پودے ان کی غذا کا سب سے اہم حصہ ہیں۔
تیرنا جاننے والے ’ڈرومڈری‘ قسم کے یہ کوہان والے اونٹ اپنے گلہ بانوں کے ساتھ رہتے ہیں، جن میں مال دھاریوں یا ان کے مالکوں کے کنبوں کے رکن شامل ہوتے ہیں۔ عام طور پر اونٹوں کے ساتھ دو کی تعداد میں مال دھاری تیرتے ہیں۔ ان میں سے ایک مال دھاری کسی چھوٹی کشتی کے ذریعے کھانا اور پینے کا پانی ساتھ لے کر چلنے اور واپس اپنے گاؤں تک لوٹنے کا کام کرتا ہے۔ دوسرا چرواہا اپنے اونٹوں کے ساتھ جزیرے پر رہتا ہے۔ وہاں کھانا ختم ہو جانے پر وہ اونٹ کے دودھ سے اس کمی کو پورا کرتا ہے۔ یہ دودھ ان کی برادری کے کھانے کا ایک ضروری حصہ ہے۔
لیکن، مال دھاریوں کے لیے حالات تیزی سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جیٹھا بھائی رباری کہتے ہیں، ’’خود کو اور اپنے پیشہ کو برقرار رکھنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے چراگاہ سکڑتے جا رہے ہیں، کیوں کہ یہاں کے زیادہ تر علاقوں پر اب محکمہ جنگلات کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے، آبی پیڑ پودوں تک ہم آسانی سے پہنچ سکتے تھے۔ لیکن ۱۹۹۵ سے، یہاں جانوروں کو چرانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پھر، یہاں پر نمک کے کھیت بھی ہیں جو ہمیں پریشان کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اب ہجرت کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں بچا ہے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اوپر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم اپنے جانوروں کو حد سے زیادہ چرا رہے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
ریتوجا مترا، جو اس علاقے میں لمبے عرصے سے ایف آر اے (حقوق جنگلات قانون) کے لیے کام کرتی رہی ہیں، وہ بھی ان چرواہوں کی باتوں کی تائید کرتی ہیں۔ ’’اگر ہم اونٹوں کے چرنے کی عادتوں پر غور کریں، تو پائیں گے کہ وہ پودوں کے اوپری حصے کو چرتے (یا کھاتے) ہیں، جس سے ان پودوں میں مزید پتیاں نکلتی ہیں! میرین نیشنل پارک کے بیٹس [جزیرے] ہمیشہ سے ہی [ختم ہونے کے دہانے پر پہنچ چکے] ان کھرائی اونٹوں کے پسندیدہ مقام رہے ہیں، جو ان آبی پیڑ پودوں اور دیگر متعلقہ گھاس اور پتیوں وغیرہ کو کھاتے ہیں۔‘‘
لیکن محکمہ جنگلات کی سوچ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے ذریعے تحریر کردہ کچھ کاغذات، اور کچھ ماہرین تعلیم کی تحریروں میں بھی یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس بات کے کافی ثبوت موجود ہیں کہ اونٹوں کی وجہ سے ’بہت زیادہ چرائی‘ کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
جیسا کہ ۲۰۱۶ کے تحقیقی مقالہ میں بتایا گیا ہے، آبی پیڑ پودوں والے علاقوں کے ختم ہونے کے پیچھے کئی اسباب ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ صنعت کاری اور دیگر وجوہات کی وجہ سے بھی ایسے علاقے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن، اس میں مال دھاریوں اور ان کے اونٹوں کو کہیں بھی اس کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔
اور ان حقیقی اسباب کا اثر بہت بڑے پیمانے پر پڑ رہا ہے۔
کھرائی اونٹ – جو اونٹوں کی واحد تیرنے والی نسل ہیں – اپنے مخصوص مال دھاری مالکوں پر مبنی گلہ بانوں کی ٹیم کے ساتھ چرنے جاتے ہیں
جام نگر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ۱۹۸۰ کی دہائی سے ہی صنعت کاری کا کام چل رہا ہے۔ ریتوجا بتاتے ہیں، ’’ان علاقوں میں نمک کی صنعت، تیل سے چلنے والی جیٹی (چھوٹی کشتیوں)، اور دیگر صنعت کاریوں کا اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کاروبار میں آسانی کے لیے، زمین کو اپنے استعمال کے حساب سے بدلواتے وقت انہیں بہت کم دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے! لیکن بات جب گلہ بانوں کے پیشہ کو برقرار رکھنے کی آتی ہے، تو وہی محکمہ محافظ بن جاتا ہے۔ جو کہ، اتفاق سے، آئین کی دفعہ ۱۹ (جی) کے برخلاف ہے، جس میں ’کسی بھی پیشہ کو اپنانے، یا کسی بھی پیشہ کو چلانے، تجارت یا کاروبار کرنے‘ کی گارنٹی دی گئی ہے۔
چونکہ میرین (سمندری) پارک کے اندر جانوروں کو چرانے پر پابندی ہے، اس لیے اونٹوں کے گلہ بانوں کو اکثر محکمہ جنگلات کی طرف سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے متاثر ہونے والے مال دھاریوں میں سے ایک آدم جاٹ بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’چند سال پہلے، محکمہ جنگلات کے اہلکاروں نے یہاں اونٹ چرانے کی وجہ سے مجھے حراست میں لے لیا تھا، تب مجھے ۲۰ ہزار روپے کا جرمانہ بھرنا پڑا تھا۔‘‘ یہاں کے دیگر گلہ بانوں نے بھی ہمیں اسی قسم کی باتیں بتائیں۔
ریتوجا مترا کہتی ہیں، ’’مرکزی حکومت کے ذریعے لایا گیا ۲۰۰۶ کا قانون اب بھی کسی کام کا نہیں ہے۔‘‘ حقوق جنگلات قانون ۲۰۰۶ کا سیکشن ۳(۱)(ڈی)، خانہ بدوش یا چرواہا برادریوں کو جنگلات کا استعمال کرنے اور اپنے جانوروں کو چرانے (چاہے وہ مقامی باشندے ہوں یا گھومنے پھرنے والے) اور روایتی موسمیاتی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کا حق فراہم کرتا ہے۔
لیکن، بقول ریتوجا، ’’باوجود اس کے، اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے مال دھاریوں کو فاریسٹ گارڈ کے ذریعے ہمیشہ سزا دی جاتی ہے، اور پکڑے جانے پر ان سے ۲۰ ہزار روپے سے لے کر ۶۰ ہزار روپے تک کا جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ ایف آر اے کے تحت کاغذ پر جتنے بھی تحفظاتی اقدامات کا ذکر ہے، وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔
یہاں کئی نسلوں سے رہتے چلے آ رہے اور اس پیچیدہ علاقے کے بارے میں دوسروں سے کہیں بہتر جانکاری رکھنے والے ان گلہ بانوں کو شامل کیے بغیر آبی پیڑ پودوں والے علاقوں کو بڑھانے کی کوشش بیکار ہے۔ جگا بھائی رباری کہتے ہیں، ’’ہم اس علاقے کو سمجھتے ہیں، یہاں کے ماحولیاتی نظام کو سمجھتے ہیں، اور ہم حیاتیاتی انواع، آبی پیڑ پودوں کو بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی پالیسیوں کے بھی خلاف نہیں ہیں۔ ہماری تو بس ایک چھوٹی سی درخواست ہے: اور وہ یہ ہے کہ کوئی بھی پالیسی بنانے سے پہلے ہماری بات بھی سنی جائے۔ ورنہ اس علاقے کے آس پاس رہنے والے تقریباً ۱۲۰۰ لوگوں، اور ان تمام اونٹوں کی بھی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘‘
رتائن مکھرجی، سینٹر فار پیسٹورلزم کی طرف سے ملنے والے ایک آزادانہ سفری گرانٹ کے ذریعے گلہ بان اور خانہ بدوش برادریوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ سینٹر نے اس رپورتاژ کے مواد پر اپنے کسی ادارتی کنٹرول کا اظہار نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز