راما اڈیلو گانڈیواڑ کافی دنوں سے تھوڑے فکرمند اور پریشان رہتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ ایسا کیوں ہے۔ بھلے ہی کووڈ۔۱۹ کی دوسری لہر تمام زندگیوں کو نگل جانے کے بعد اب زوال پذیر ہے، لیکن ان کے لیے اس دور کے خوفناک تجربات اور یادگاروں کو فراموش کر پانا مشکل ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ادھر کچھ دنوں سے آخری رسومات کے لیے شمشان آنے والوں کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے، لیکن اگر تیسری لہر آ گئی تو؟ میں ایک بار اور تباہی کے اس خوفناک منظر سے روبرو ہونے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
شمشان کے ایک ملازم کے طور پر ۶۰ سالہ راما، مہاراشٹر کے عثمان آباد شہر کے کپل دھار شمشان پر کام کرتے ہیں۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ شمشان کے احاطہ میں ہی رہتے ہیں۔ ان کی فیملی میں ان کی ۷۸ سالہ ماں ادل بائی، ۴۰ سالہ بیوی لکشمی، اور ان کی چار بیٹیاں رادھکا (عمر ۱۸ سال)، منیشا (عمر ۱۲ سال)، ستیہ شیلا (عمر ۱۰ سال)، اور ساریکا (عمر ۳ سال) ہیں۔ رادھکا کے شوہر گنیش (عمر ۲۲ سال) بھی ان کے ساتھ ہی رہتے ہیں۔
راما کا کام شمشان کا نظم و نسق دیکھنا ہے۔ راما بتاتے ہیں، ’’مجھے لاشوں کے لیے ’چِتا‘ کا انتظام کرنے سے لے کر لاش کے جل جانے کے بعد ’استھیاں‘ اور راکھ ہٹانے جیسے کئی دیگر کام کرنے ہوتے ہیں۔ اس کام کے بدلے ہمیں عثمان آباد میونسپل کونسل کی طرف سے ہر مہینے ۵۰۰۰ روپے ملتے ہیں۔ گنیش اس کام میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ فیملی کی آمدنی کا واحد ذریعہ یہی رقم ہے، جو کہ ان دونوں لوگوں کے ذریعے کیے گئے کام کے عوض ملتی ہے۔
بنیادی طور پر عثمان آباد شہر سے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر دور واقع ناندیڑ کے رہنے والے راما، اپنی فیملی کے ساتھ یہاں تقریباً ۱۲ سال قبل آئے تھے۔ وہ مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج فہرست مسان جوگی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسان جوگی برادری کے لوگ روایتی طور پر شمشان گھاٹ پر کام کرنے کے ساتھ ساتھ بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے رہے ہیں۔ گانڈیواڑ فیملی کی طرح ہی کچھ اور کنبوں کے لوگ شمشان اور قبرستان کی زمین پر رہتے ہیں۔
راما کہتے ہیں کہ انہوں نے تا عمر شمشان کی زمین پر ہی کام کیا ہے۔ لیکن اپنی پوری زندگی میں انہوں نے پہلے کبھی اتنی لاشیں ایک ساتھ نہیں دیکھی تھیں جتنی کہ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے بعد دیکھیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’خاص طور پر دوسری لہر کے دوران (مارچ-مئی ۲۰۲۱ کے دوران)۔ میں نے ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کووڈ وبائی مرض کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی چِتائیں پورے دن جلتی رہتی تھیں۔ پورے دن چِتاؤں سے اٹھتا دھواں ہماری سانسوں میں گھلتا رہتا تھا۔ مجھے تو اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں ہم بچ کیسے گئے۔‘‘
وبائی مرض پھیلنے کی وجہ سے حالات ایسے ہو گئے تھے کہ نہ جانے کتنے دنوں تک یہ فیملی تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے تڑپتی رہی۔ ٹن کی چھت والا ان کا مکان شمشان کے داخلی دروازہ پر ہی موجود ہے، جس کی چتاؤں کو جلانے کی جگہ سے دوری بمشکل ۱۰۰-۱۵۰ میٹر ہے۔ ان کے گھر کے ٹھیک سامنے ہی لکڑیوں کا انبار لگا ہوا ہے اور گھر سے ڈھلان کی طرف تقریباً کچھ ہی درجن قدم کی دوری پر چِتائیں لگائی جاتی ہیں۔ چتاؤں سے اٹھتے دھوئیں اور لاش کے جلنے کی عجیب سی بدبو لیے ہوا بہتی ہوئی ان کے گھر کی طرف جاتی ہے۔
جب کووڈ کی وجہ سے شرح اموات خطرناک طور پر بڑھ گئی تھی، تب گانڈیواڑ فیملی کے گھر میں ہر وقت دھواں بھرا رہتا تھا۔ دوپہر میں اور دیر شام، یعنی دن میں دو بار عثمان آباد سول ہاسپیٹل سے لاشوں کو آخری رسومات کے لیے یہاں بھیجا جاتا تھا۔ راما اور گنیش دونوں ہی وقت شمشان میں لاشوں کا انبار لگنے سے پہلے چِتا تیار رکھتے تھے۔
گنیش بتاتے ہیں، ’’اُن مہینوں کے دوران ہر دن تقریباً ۱۵-۲۰ لاشیں جلائی جاتی تھیں۔ ایک دن تو یہ تعداد ۲۹ تک پہنچ گئی تھی۔ پہلی لہر (اپریل ۲۰۲۰ سے جولائی ۲۰۲۰ کی شروعات تک) کے دوران ہر دن یہاں ۵-۶ لاشیں لائیں گئی اور اس وقت ہمیں لگا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے۔ ہم ایک اور بار اتنا سب کچھ نہیں جھیل سکتے۔ یہ بیحد تھکا دینے والا اور تکلیف دہ ہے۔‘‘
تقریباً ہر دن ان کی صبح رشتہ داروں کی آہ و بکا سے ہوتی تھی، اور دن بھر دھوئیں کے سایہ میں رہنے کے بعد رات میں جب وہ تھکے ہارے بستر پر جاتے تھے، تو ان کی آنکھوں میں جلن اور کھجلی ہوتی تھی۔ حالانکہ، کووڈ وبائی مرض سے ہوئی اموات کے معاملوں میں کمی آنے کے بعد بھلے ہی وہاں کی ہوا تھوڑی بہتر ہوئی ہو، راما اس دم گھٹنے والے ماحول کی عجیب سی بدبو کو اپنی یادداشت سے نہیں مٹا سکتے جو تب ان کے گھر کے ہر کونے میں بس گئی تھی۔
دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، ۱۴ اکتوبر تک عثمان آباد ضلع میں کووڈ۔۱۹ کے ۳۹۰ کے آس پاس فعال معاملے تھے۔ مارچ ۲۰۲۰ سے اب تک یہاں کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے ۶۷ ہزار سے بھی زیادہ معاملے سامنے آئے ہیں، وہیں وبائی مرض کے سبب ۲۰۰۰ سے زیادہ موتیں ہوئی ہیں۔
راما کی یادداشت میں درج ہو چکے متوفی کے اہل خانہ کی آہ و بکا اور ماتم کے خوفناک منظر، جب تب اپنے قبضے میں لے کر انہیں پریشان کرتے رہتے ہیں۔ ساتھ ہی، وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مرنے والوں کے اہل خانہ اکثر شمشان میں بھیڑ لگا دیتے تھے اور کووڈ پروٹوکال کی خلاف ورزی بھی کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایسے حالات کا سامنا کرتے ہوئے پوری ہمدردی سے پیش آنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے درمیان مناسب دوری بنائے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنا کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی لوگ بات سمجھتے ہیں، کبھی کبھی وہ برہمی کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
ان حالات نے یقیناً راما کی فیملی پر اثر ڈالا ہے، خاص طور پر دوسری لہر کے دوران۔ ہر بار جیسے ہی شمشان کی جانب اوپر کی طرف آتے ہوئے پتھریلے راستے پر کوئی ایمبولینس دکھائی دیتی تھی، ۳ سالہ ساریکا کی زبان سے ’دھواں، دھواں‘ لفظ نکلنے لگتا تھا۔ گویا دھوئیں کا ایمبولینس سے کوئی رشتہ ہو اور وہ اس کی سمجھ میں آتا ہو۔ گنیش بتاتے ہیں، ’’ایمبولینس سے لاشوں کو اتارنے سے پہلے ہی وہ اپنی آنکھیں ملنے لگتی تھی۔‘‘ گنیش کے مطابق، چاہے کھڑکیاں اور دروازے بند کیوں نہ ہوں، دھواں گھر میں داخل ہونے کے لیے اپنا راستہ بنا لیتا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’دوسری لہر کی ہولناکی تھمنے کے بعد ہی ہمیں تھوڑا سکون ملا۔ اس لیے، وہ اب ویسا کچھ نہیں کرتی ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بڑا ہونا، اس پر دور رس اثر ڈالے گا۔ تیسری لہر کا امکان خوفناک ہے۔‘‘
ہر صبح، راما اور ان کی فیملی کے لوگ ضلع انتظامیہ کی طرف سے فون پر دستیاب کرائے گئے کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔ راما بتاتے ہیں، ’’ہر صبح ہم اٹھتے ہیں، اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں، اور اس کے بعد ہی پھر چین کی سانس لیتے ہیں۔ حال فی الحال کے اعداد و شمار اتنے خوفناک نہیں رہے ہیں۔ لیکن اگر تیسری لہر آتی ہے یا پھر اعداد و شمار میں اُچھال آنے لگتا ہے، تو سب سے پہلے ہمیں ہی معلوم ہوگا۔‘‘
حالانکہ، بھلے ہی ان کی فیملی وبائی مرض سے ابھی تک محفوظ رہی ہے، لیکن راما کی ماں کے مطابق وبائی مرض کے اس دور کے دور رس اثرات پڑے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ہم میں سے ہر کسی کی طبیعت کبھی نہ کبھی بگڑی ہے۔ کھانسی تو ابھی تک آتی رہتی ہے، بھلے ہی مرنے والوں کی تعداد گھٹ گئی ہے۔ سر بھاری رہتا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے گھوم رہا ہو۔ ہمیں ہمیشہ چکر آنے جیسا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم سے کووڈ کی ایک اور لہر کا سامنا اور لگاتار موت کے سایے میں رہنا برداشت نہیں ہو پائے گا۔‘‘
ان کے سامنے ایسے حالات میں یہاں رہنے کے علاوہ کوئی اور متبادل نہیں ہے۔ راما سوالیہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’ہم اور کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس اتنے بھی پیسے کہاں ہیں کہ مکان کرایے پر لے سکیں۔ اور میں نے پوری زندگی میں کوئی دوسرا کام بھی نہیں کیا ہے۔‘‘
ان کی فیملی شمشان کے پاس واقع میونسپل کونسل کی زمین پر جوار اور باجرا کی کھیتی کرتی ہے، جس سے بمشکل صرف اتنی ہی پیداوار ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کی ضرورت پوری ہو جائے۔ ادل بائی کہتی ہیں، ’’ہمارے ہاتھ میں نقد پیسہ تو آخری رسومات پورا کروانے کے کام سے ہی آتا ہے۔ اس کے بغیر ہمارا گزر بسر بھی نہیں ہو پائے گا۔‘‘
بغیر کسی اور طرح کی آمدنی اور یہاں تک کہ موجودہ خوفناک حالات میں بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے، یہ فیملی اپنی ہمت اور اپنی کوششوں سے جیسے تیسے اپنی زندگی کی گاڑی کو مستقبل کی سمت میں دھکیل رہی ہے۔ ادل بائی بتاتی ہیں، ’’ہمارے پاس کووڈ سے تحفظ کے لحاظ سے بھی کوئی انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس سینیٹائزر تک نہیں ہے۔ حفاظتی لباس نہ ہونے کے سبب ہمیں ہر کام اپنے ننگے ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایسے حالات میں رہتے ہوئے انہیں کسی اور بات سے زیادہ فکر اپنی پوتیوں کی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں بالکل نہیں چاہتی کہ وہ بڑی ہوں اور شمشان میں کام کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دیں۔‘‘
اسٹوری کی اس سیریز کو، رپورٹر کو آزادانہ صحافتی گرانٹ کے توسط سے پولٹزر سنٹر کی م دد حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز