نرملا دیوی سیم و زر کے گوٹے اور شیشے کے ٹکڑوں سے مزین گھاگھرا تھامے، شام کو تقریباً ۷ بجے اُدے پور کی باگور کی حویلی میں اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ وہاں، وہ اپنی بیٹی تارا اور آٹھ دیگر خواتین کے ساتھ – سبھی ایک دوسرے کی رشتہ دار ہیں – وہ چاری رقص، گھومر، بَھوئی اور دیگر قسموں کو پیش کرتی ہیں۔
’’روزانہ یکساں توانائی کے ساتھ رقص کرنا آسان نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ خاص کر تب، جب اپنے دانتوں میں تلوار دبا کر لے جانا ہو یا سر پر رکھے دھات کے برتن کے اوپر تیل کے چراغ روشن کرنا، یا کانچ کے ٹکڑوں پر رقص کرنا ہو یا سر پر مٹی کے گھڑے کو متوازن کرنا۔ باوجود اس کے، نرملا اور ان کی ٹولی کی رکن خواتین – ان کی نند سیما دیوی اور ساس بھامری بائی سمیت – ہر شام کو ایسا کرتی ہیں۔ ’’میری نند اپنے سر پر ۱۱ برتن رکھتی ہیں، اور اس کے آخر میں، وہ سر سے پیر تک پسینے میں ڈوب جاتی ہیں،‘‘ نرملا بتاتی ہیں۔ ’’پھر بھی وہ اسٹیج پر مسکراتی رہتی ہیں، اور اگلے رقص کے لیے تیار ہونے کو واپس چینجنگ روم میں جاتی ہیں۔‘‘
لیکن رقاصہ برادری، کامد (درج فہرست ذات کے طور پر جلد بند)، تیرہ تالی کے لیے سب سے زیادہ جانی جاتی ہے۔ یہ ۱۰-۱۵ منٹ کا سلسلہ، جو حویلی میں ایک گھنٹے کی پیشکش کا حصہ ہے، مقامی فوک ہیرو، بابا رام دیو کو خراجِ عقیدت ہے۔ برادری کا یہ عقیدہ ہے کہ انہوں نے لاچار و بے بس لوگوں کی مدد کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی۔
نرملا مجھے بتاتی ہیں کہ یہ سلسلہ نوراتری تہوار کے نو دنوں میں برادری کے ذریعے کیے جانے والے فنی مظاہرہ سے یا جب انہوں نے مندر میں بھجن گائے اور تانپورہ، ڈھول اور منجیرا (پیتل کی جھانجھ) بجائے، اسی سے شروع ہوا۔ تیرہ تالی منجیروں کو جسم پر – ٹانگوں، پیروں، ہاتھوں پر – رسی سے باندھ کر ۱۳ (تیرہ) الگ الگ طریقوں سے کیا جاتا ہے۔
بچپن میں نرملا اپنی ماں کے رقص کی نقل کرتیں – راجستھان کے پالی ضلع کے اپنے گاؤں پڈرلا میں، اس چھوٹے منجیرے کو پہن کر جسے ان کی والدہ نے ان کے لیے بنایا تھا۔ تیسری کلاس کے بعد انہوں نے اسکول چھوڑ دیا تھا، تاکہ اپنے دادا-دادی کے ساتھ میلہ، تہواروں اور مندروں میں جا سکیں۔ دھیرے دھیرے، وہ بھی ایک ماہر رقاصہ بن گئیں، اور جب وہ ۱۲ سال کی تھیں، تو اپنے ہارمونیم-ڈھول بجانے والے اور گلوکار دادا کے ساتھ، پہلی بار اجمیر کے پاس پُشکر میلے میں اسٹیج پر رقص پیش کیا تھا۔ وہ لوک گیت بھی گایا کرتی تھیں۔ ’’میں نے سبق یا کلاس نہیں لی، ہماری فیملی ایک ساتھ جمع ہوتی تھی اور ہم سبھی تہواروں اور پوجا میں گاتے تھے،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
نرملا جب ۱۲ سال کی تھیں، تو فیملی والوں نے ان کی شادی گوگُند تحصیل کے ڈھول گاؤں کے ایک گلوکار اور ہارمونیم بجانے والے، کھیم داس کامد سے کر دی تھی۔ وہ ۱۵ سال کی عمر میں ہی اس کے ساتھ رہنے چلی گئیں۔ ان کا بیٹا، شیام داس، اب ۱۸ سال کا ہو گیا ہے۔ تارا کماری جب ان کے حمل میں نو مہینے کی تھیں، تبھی ایک حادثہ میں ان کے شوہر کی موت ہو گئی، تارا اب ۱۶ سال کی ہیں۔ ’’تارا نے اپنے والد کو نہیں دیکھا ہے، اس کے لیے میں ہی سب کچھ ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
اس وقت، نرملا اور کھیم داس اندور چلے گئے تھے، جہاں وہ ایک ہوٹل میں اپنا فن پیش کرتے تھے۔ کھیم داس کی موت کے بعد نرملا کے بھائی، جو احمد آباد کے ایک ہوٹل میں فنی مظاہرہ کرتے تھے، انہیں وہاں آنے کو کہا۔ احمد آباد میں ۱۲ سال گزارنے کے بعد، نرملا اور ان کی فیملی چار سال پہلے ادے پور آ گئی۔
یہ فیملی پرانے ادے پور شہر کے ایک پرانے گھر میں رہتی ہے، جس کا انتظام دھروہر فوک ڈانس نے کیا ہے، جو باگور کی حویلی میں شو کے منتظمین ہیں۔ یہ حویلی پچولا جھیل کے سامنے ریاست کے ذریعے چلایا جانے والا ایک میوزیم ہے۔
باگور کی حویلی میں نرملا اور تارا میں سے ہر ایک، ۵۰۰۰ روپے ماہانہ کماتی ہیں۔ اور اگست سے اکتوبر تک، ادے پور کے ہوٹل اس رقاصہ گروپ کو فنی پیشکش کے لیے مدعو کرتے ہیں۔ وہ ان کے سب سے مصروف مہینے ہوتے ہیں۔ ’’ہمیں دو سے تین گھنٹے [دیگر ہوٹلوں میں] پیشکش کے ۱۰۰۰ روپے فی کس ملتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ انہیں مہینے میں تقریباً پانچ بار اس قسم کے شو کی بکنگ ملتی ہے۔ ’’اور جب یہ شو دہلی میں یا کہیں دور ہوتا ہے، تو ہمیں تقریباً ۳۰۰۰ روپے ملتے ہیں،‘‘ تارا کہتی ہیں۔
ٹولی کی دیگر رکن اپنی پیشکش کے لیے، ایجنٹ کے توسط سے بیرونِ ملک بھی جا چکی ہیں۔ سال ۲۰۱۴ میں ایک مہینہ کے لمبے سفر کے دوران نرملا، جو ایسے دو سفر میں سے ایک میں شامل تھیں، کہتی ہیں کہ انہوں نے ۱۲ ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا – جس میں برازیل، کیوبا اور نیدرلینڈ شامل ہیں۔
رقص کے علاوہ، تارا اُدے پور کے ایک سرکاری اسکول میں ۱۱ویں کلاس میں پڑھ بھی رہی ہیں۔ ان کے انتخابی مضامین میں میوزک اور پینٹنگ شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے ٹیچروں کو فخر ہے کہ انہوں نے مختلف شہروں اور قصبوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن کلاس کے کچھ ساتھی انہیں نیچی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’’وہ اس طرح سے رقص نہیں کر سکتے جیسے میں کر سکتی ہوں، وہ فن کو کبھی نہیں سمجھ پائیں گے اور صرف ہمیں نیچا دکھائیں گے۔ رقص کرتے وقت میں ان سبھی مسائل کو بھول جاتی ہوں، چاہے وہ گھر کے مسائل ہوں یا کچھ اور،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
تارا کو گانے میں بھی دلچسپی ہے۔ ’’میں چاہتی ہوں کہ جس دن میں اسٹیج پر جاؤں اُس دن ناظرین کی زبان پر صرف میرا نام ہو۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ میرے والد کی آواز ہے جو مجھے وراثت میں ملی ہے، لیکن میری فیملی ایسا کہتی ہے۔ جب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں، تو ایک اچھی گلوکارہ ہونا مشکل نہیں لگتا، میں وہاں پہنچ سکتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
نرملا اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتی ہیں۔ ان کا بیٹا بی اے کی پڑھائی کر رہا ہے اور جِم ٹریننگ میں کریئر بنانا چاہتا ہے۔ ’’تارا کو ناچنا اور گانا جاری رکھنا چاہیے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ جب آپ تعلیم یافتہ ہوتے ہیں تو چیزیں آسان ہو جاتی ہیں،‘‘ نرملا کہتی ہیں۔ ’’مجھے گلوکاری میں دلچسپی ہے، لیکن سبھی مصرعوں کو یاد نہیں کر سکتی، اگر مجھے پڑھنا لکھنا آتا، تو میں کاغذ کو دیکھ کر پڑھ سکتی تھی۔‘‘
دوسری طرف، تارا نہیں چاہتیں کہ ان کی ماں بھی دادی کی طرح بوڑھی ہونے پر کام کریں۔ ’’ممّی کو اس لائق ہونا چاہیے کہ جب وہ بوڑھی ہو جائیں، تو گھر پر آرام کریں، نئے کپڑے پہنیں اور ذائقہ دار کھانا کھائیں۔‘‘
لیکن نرملا کے اسٹیج سے طویل عرصے تک دور رہنے کا امکان کم ہے۔ ’’دن میں ہم سستی محسوس کرتے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’لیکن جب اسٹیج پر جانے کا وقت آتا ہے، تو ہماری روحیں بیدار ہو جاتی ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)