یہ پاس کے ایک گاؤں کی عورتیں تھیں، جنہیں جنگ کے میدان میں اپنا عزیز سردار مل گیا تھا۔ وہ اپنے گھر کے مردوں کی تلاش میں آئی تھیں۔ لیکن، انہیں وہاں پر اپنے سردار، امیدورئی مل گئے، جو بری طرح زخمی تھے اور ان کے جسم سے خون نکل رہا تھا، لیکن وہ زندہ تھے۔ وہ عورتیں انہیں احتیاط سے اٹھاکر تین میل دور، اپنے گاؤں واپس لے آئیں۔
کچھ ہی دیر میں وہاں فوجی پہنچ گئے، جو ’مطلوب‘ امیدورئی کو تلاش کر رہے تھے۔ عورتوں نے انہیں جلدی سے ایک سفید کپڑے سے ڈھانپ دیا، آہ و بکا اور ماتم کرنے لگیں، اور ان فوجیوں سے کہا کہ چیچک سے ان کی موت ہو گئی ہے۔ یہ سن کر فوجی اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے بھاگ گئے، جب کہ امیدورئی سمیت کئی آدمیوں کو بچا لیا گیا۔
یہ ایک شاندار اور سچی کہانی ہے۔ یہ ۲۰۰ سال پہلے تمل ناڈو میں ہوا تھا۔ اس کا تذکرہ اس جنگ کے بارے میں انگریزوں کے ذریعے لکھے گئے ۱۹ویں صدی کے ابتدائی دور کے ریکارڈ میں ملتا ہے۔ اور اب مشہور مصنف، چو دھرمن اپنی خوبصورت تمل میں اس کہانی کو بیان کر رہے ہیں۔ وہ اسے آج کے تصور، اور کووڈ-۱۹ وبا سے خوف اور گھبراہٹ کے تناظر میں بیان کر رہے ہیں۔ اور ہمیں ایک بیش قیمتی زبانی تاریخ فراہم کر رہے ہیں کہ گاؤوں کیسے صدیوں سے مختلف قسم کے وائرس، طاعون اور وبائی امراض کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
’’امیدورئی ایک عظیم مجاہد آزادی ویرا پانڈیا کٹّا بومّن کے بھائی تھے، جو [جنوبی تمل ناڈو میں] پنچالان کروچی کے پولیگار [سربراہ] بھی تھے،‘‘ دھرمن بتاتے ہیں۔ گونگا اور بہرا ہونے کی وجہ سے امیدورئی کو [انگریزوں کے ذریعے] اومی [مقامی طور پر] اور ڈمبی بھی کہا جاتا تھا۔ مقامی لوگ انہیں بہت پسند کرتے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہمیشہ ان کے پیچھے پڑی رہتی تھی، تاکہ اس ’بدنام اور مشہور سردار‘ کو تباہ کیا جا سکے۔ ’’آپ اس کے بارے میں کرنل جیمس ویلش کی کتاب، Military Reminiscences میں پڑھ سکتے ہیں،‘‘ دھرمن بتاتے ہیں۔
پنچالان کوریچی کی تاریخی لڑائی ۱۷۹۹ میں، تمل ناڈو کے توتوکڈی ضلع میں دھرمن کے گھر، کووِل پٹّی شہر سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور لڑی گئی تھی۔ لیکن برطانوی کرنل ویلش کے برعکس، جنہوں نے اپنے سفرنامہ میں امیدورئی کو بچانے والی خواتین کو ’’قابل رحم اور آدھی بیوقوف‘‘ کہا ہے، دھرمن دیہی باشندوں کی عقل مندی اور ان عورتوں کی بہادری کی تعریف کرتے ہیں، جو امیدورئی کو جنگ کے میدان سے گھر لے آئی تھیں۔ ’’آپ ہی بتائیے، کیا ان عورتوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک مطلوبہ شخص ہیں، کہ فوجی ان کا پیچھا کرتے ہوئے آئیں گے، کہ ان کے گھروں کو تباہ کیا جا سکتا ہے؟‘‘ دھرمن سوال کرتے ہیں۔
میں دھرمن سے کووِل پٹّی میں ملی تھی – یہ شہر ۲۰۱۵ میں یہاں کی مشہور کدلامِٹّئی ، مونگ پھلی کی کینڈی، کو جی آئی (جغرافیائی نشان) ملنے کی وجہ سے سرخیوں میں تھا۔ ان کے خیال میں، جیسا کہ انہوں نے اس وقت کہا تھا، ’’ دلت تحریر جیسی کوئی چیز نہیں ہے ۔ میں پیدائشی طور پر دلت ہو سکتا ہوں، لیکن اپنی تحریر کو الگ نہیں کر سکتا۔‘‘ ابھی حال ہی میں ہم نے فون پر بات کی تھی۔ ’’میرا روز کا معمول [اس لاک ڈاؤن کے سبب] زیادہ نہیں بدلا ہے،‘‘ انہوں نے بتایا۔ ’’خلوت میرے لیے ایک طرزِ زندگی ہے۔ میں دن کے پہلے حصہ میں لکھتا ہوں اور دوپہر کے بعد کا وقت کنمئی [تالاب] سے مچھلی پکڑنے میں گزارتا ہوں۔
’’کووڈ بحران ’ایڈِپّا سِکّل‘ ہے [چاول سے بنا الجھا ہوا دھاگہ، جس سے ایڈیَپّم نام کا ایک پکوان بنتا ہے]۔ غریب پریشان حال ہیں، ہم ان کی مدد کیسے کریں؟ ہم سمندری طوفان اور زلزلہ سے نمٹنا تو جانتے ہیں۔ لیکن، باہم مربوط دنیا میں، جہاں ہم ایک دن میں آدھی دنیا کا سفر کر سکتے ہیں – جس طرح سے اس وائرس نے بھی کیا – ہم ایک ایسے دشمن سے لڑنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔‘‘
تاریخی طور پر، یہاں کے گاؤوں نے کئی وبائی امراض دیکھے ہیں، جن میں سے کچھ تو کووڈ-۱۹ جیسے خطرناک تھے۔ ’’اب ختم ہو چکے چیچک کو ہی لے لیجئے، جسے تمل میں ’پیریا امّئی‘ کہتے ہیں۔ اس مرض میں مبتلا شخص کی جلد پر بڑے بڑے دانے نکل آتے تھے، جو جسم کو سر سے پیر تک ڈھانپ لیتے، اور کبھی کبھی آنکھوں کے اوپر بھی نکل آتے تھے۔ یہ بہت آسانی سے آدمی کو اندھا کر سکتے تھے، اس کی جان لے سکتے تھے۔ کیا یہ حیرانی کی بات تھی کہ اس کے بارے میں سنتے ہی انگریزی فوج کی پیدل ٹکڑی ڈر کر بھاگ گئی تھی؟ اسی طرح، ہیضہ اور طاعون بھی اعلیٰ شرحِ اموات والی خطرناک بیماریاں تھیں۔
’’تینوں بیماریوں [چیچک، ہیضہ اور طاعون] کو ’اوٹّووَر اوٹّی نوئی‘ کہا جاتا تھا – یہ وبائی امراض تھے جو چھونے، رابطہ میں آنے اور آلودگی سے پھیلتے تھے۔ ہمارے اجداد کے پاس کوئی ٹیکہ یا دوا نہیں تھی۔ علاج کے طور پر صرف نیم دستیاب تھا، جو ایک طاقتور اینٹی سیپٹک ہے۔ اس لیے وہ نیم کے پتّے لاتے، پیس کر اس کا پیسٹ بناتے اور پھوڑے پر لگاتے تھے۔ چیچک میں مبتلا شخص ہرا دکھائی دیتا تھا۔‘‘
۶۶ سالہ دھرمن نے نوجوانی میں چیچک دیکھا تھا، جب وہ اپنے آبائی گاؤں ارولئی کڈی میں رہتے تھے، جو کووِل پٹّی سے تقریباً ۱۰ کلومیٹر دور، توتوکڈی ضلع کے ایٹّایاپورم تعلقہ میں ہے۔ وہ اپنی مختصر کہانیوں اور ناولوں میں، اس سرزمین – کریسال زمین، یا بارش پر مبنی علاقہ – اور منظر نامہ کے بارے میں تفصیل سے لکھتے ہیں، جن میں سے سبھی نے انہیں انعام اور پذیرائی دلوائی ہے۔ ۲۰۱۹ میں، ان کی کتاب سول (ان کے آبائی گاؤں کی ماحولیات پر مبنی ایک ناول) کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا تھا۔
چیچک کی بیماری اتنی مشہور اور مہلک تھی کہ اسے بیان کرنے کے لیے ایک خاص زبان وجود میں آئی، دھرمن بتاتے ہیں۔ ’’ ’تھائی کوٹی کِٹّا‘ اصطلاح – جس کا مطلب یہ تھا کہ دیوی نے آدمی کو لے لیا ہے – اس کا استعمال چیچک کی وجہ سے ہونے والی موت کا ذکر کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ اسے بیان کرنے کا یہ واضح اور عقل مندانہ طریقہ تھا۔ ایسے جملے بھی تھے، جو اس کے پھیلنے کی طرف اشارہ کرتے تھے: امّئی وندھی رُکّو‘ ، چیچک کی بیماری آ گئی ہے، جس کا مطلب تھا کہ کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں؛ ’امّئی ولیادوتو‘ ، اس کا مطلب تھا کہ یہ بیماری بڑے پیمانے پر پھیل چکی ہے اور بستی کے کئی گھر اس کی چپیٹ میں ہیں۔‘‘
کووڈ-۱۹ کی موجودہ درجہ بندی میں بھی کچھ ایسی ہی یکسانیت ہے: کلسٹر، کمیونٹی اسپریڈ اور متاثرہ علاقہ۔ کچھ اور جملے، ’امّا ایرانگِٹّا‘ اور ’تھنّی اوتھیاچو‘ کا لفظی معنی تھا کہ دیوی جا چکی ہے، اور پانی ڈال دیا گیا ہے۔ بنیادی طور سے یہ جملے بیماری کے خاتمہ کا اشارہ تھے۔ (جیسے کہ ہمارے وقت میں کوارنٹائن اور آئیسولیشن کا خاتمہ۔)
’’چیچک جب پوری طرح سے ختم ہو جاتا تھا، اور آدمی تین بار غسل کر لیتا تھا، صرف تبھی وہ دوسروں کے ساتھ گھل مل سکتا تھا۔ آج ہم کورونا وائرس کے لیے جو کچھ کر رہے ہیں، وہ بہت الگ نہیں ہے، لیکن اس بار،‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’کچھ زیادہ ہی ڈرامہ اور خوف ہے – جو بعض دفعہ میڈیا کے ذریعے تیار کردہ ہے۔
’’پرانی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاحدگی (آئیسولیشن) کو سختی سے نافذ کیا گیا تھا۔ متاثرہ شخص کے گھر کے دروازے پر نیم کی ٹہنی لٹکا دی جاتی تھی، جو راہگیروں کو اس بیماری کے بارے میں آگاہ کر دیتی تھی۔ جب بیماری بڑے پیمانے پر پھیل جاتی تھی، تو نیم کی ٹہنیاں ایک ساتھ باندھ کر گاؤں کے داخلی دروازہ پر لٹکا دی جاتی تھیں، تاکہ مہمانوں اور فروشوں کو پتا چل جائے کہ اندر بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ ان اشاروں کو دیکھ کر، وہ ہمیشہ دور چلے جاتے تھے۔‘‘
اس زمانے میں، لوگوں کا خود پر انحصار ان کے کام آتا تھا، دھرمن کہتے ہیں۔ ’’ہر گھر میں دودھ اور دہی کی اپنی سپلائی تھی۔ اگر آپ کے پاس کم پڑ گیا، تو کوئی پڑوسی آپ کے گھر کے باہر چھوڑ جاتا تھا اور آپ اسے اٹھا سکتے تھے۔ زیادہ تر لوگ کسان تھے اور سبزیاں اگاتے تھے۔ ان کے پاس چاول اور دال کا ذخیرہ ہوتا تھا۔ لوکی، کدو، تورئی، چچنڈا – ہم انہیں اپنے کھیتوں سے توڑ سکتے تھے۔ اس کے علاوہ، ہم نقدی میں لین دین نہیں کرتے تھے، بلکہ سامان کے بدلے سامان کا لین دین کرتے تھے۔ اگر آپ کے پاس لال مرچ نہیں ہے، تو آپ دھنیا کے بیج کے بدلے اسے حاصل کر سکتے تھے۔‘‘
دھرمن بتاتے ہیں کہ چیچک گرمیوں کی بیماری تھی، جو پھیلنے کے لیے گرم مہینوں کا انتخاب کرتی تھی۔ ہیضہ اور طاعون بارش کے موسم میں آتے تھے۔ اور ان سبھی سے لوگ بڑی تعداد میں مرتے تھے۔ ’’میرے دادا جی نے مجھے اس وقت کی کہانیاں سنائی ہیں۔ لوگ وبائی مرض سے مرنے والے کسی آدمی کو دفنانے قبرستان جاتے، اور جب لوٹ کر گاؤں آتے تو دیکھتے تھے کہ دو اور لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ وہ انہیں سنبھالنے سے انکار نہیں کر سکتے تھے؛ ایک بستی میں رہنے والے زیادہ تر ایک دوسرے کے رشتہ دار جو تھے۔ اور اسی لیے، کسی بھی قسم کے تحفظاتی آلات کے بغیر، وہ لاشوں کو اٹھاکر دوبارہ قبرستان جاتے تھے۔‘‘
یہ یقینی طور پر کووڈ-۱۹ کے وقت کی حالیہ خبروں سے الگ ہے جو ہمیں بدنام کیے جانے کی اطلاع دیتی ہیں، طبی ملازمین کو کرایے کے مکان سے نکال دیا گیا، رشتہ دار کووڈ-۱۹ سے مرنے والے کی لاش لینے سے منع کر رہے ہیں، اور لوگ لاشوں کو اپنے قریبی علاقے میں دفنانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ گھر کے قریب، دھرمن اپنے ضلع کے ایک آدمی کے بارے میں بتاتے ہیں، جو ممبئی سے لوٹنے والے اپنے بھائی سے گھر چھوڑنے کے لیے کہتا ہے۔ وجہ؟ اس ساحلی میٹرو شہر میں بیماری بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی، اور مقامی شخص کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتا تھا۔
’’کیا یہ ہماری قدروں کا، ہماری انسانیت کا زوال نہیں ہے؟‘‘ دھرمن سوال کرتے ہیں۔ ’’ماضی کے ساتھ اس کا موازنہ کریں: کیا اُن پرجوش عورتوں نے موت کے ڈر سے امیدورئی کو چھوڑ دیا تھا، یا بہادری کے ساتھ ان کو بچا لیا تھا؟‘‘
اتفاق سے امیدورئی کو، جیسا کہ کرنل ویلش نے ان کے بارے میں لکھا، ’’ پھانسی پر لٹکنا ہی تھا ‘‘ اور ایسا ہی ان کے بھائی کٹّا بومّن کے ساتھ بھی ہوا – انگریزوں نے دونوں کو ۱۷۹۹ میں پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔
وقت کے ساتھ صرف ہمدردی کا جذبہ ہی نہیں بدلا ہے، بلکہ ہماری دفاعی قوت بھی بدل گئی ہے، دھرمن کہتے ہیں۔ اور اس کا سبب وہ ہمارے کھانے کی عادت کو بتاتے ہیں۔ وہ ہماری غذا سے باجرا کے غائب ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈاکٹر ہمیشہ اس کی صلاح دیتے ہیں۔ ’’ہم مقامی غذائی اشیا کیوں نہیں کھا رہے ہیں؟ روایتی فصلوں کو کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے، بارش کی بس دو یا تین بوچھار سے ہی فصل تیار ہوجاتی ہے۔
’’امرود میرے لیے کافی اچھا ہے۔ یہ گرم موسم میں بڑھتا ہے؛ یہ میری زمین کا پھل ہے۔ مجھے سیب کی ضرورت کیوں ہے، جو ٹھنڈ میں بڑھتا ہے، پہاڑی ماحول میں میرے گھر سے بہت دور، اور جسے مجھے تک پہنچنے میں کافی لمبا سفر طے کرنا پڑتا ہے؟‘‘
ان کی دادی سینی امّل ایک قدم آگے کی بات کرتی تھیں۔ وہ جب بھی کووِل پٹّی سے ارولئی کڈی میں اپنے آبائی گھر لوٹتے تھے، تو پانی کی بوتل لے جانے پر وہ انہیں ڈانٹتی تھیں۔ ’’وہ مجھ سے کہتیں کہ اس پانی کو باہر پھینک دو، کیوں کہ وہ ’مردہ‘ ہے۔ اور وہ مجھے کنویں کا پانی پینے کا حکم دیتی تھیں!‘‘
دھرمن نے اپنی زندگی میں کرفیو کا سامنا صرف ایک بار کیا ہے – کووڈ-۱۹ کی آمد سے قبل۔ سال ۱۹۹۵ میں ذات پر مبنی لڑائی کے بعد آٹھ دن کا کرفیو لگا دیا گیا تھا – جب مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکلنے پر گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
تناؤ کے ان دنوں اور راتوں کے دوران، دھرمن کی ملاقات ایک ایسی عورت سے ہوئی جو ان کے مختصر افسانہ کا ذریعہ بنیں: ایک حاملہ عورت جسے دردِ زہ ہونے لگا تھا۔ مصنف اور ان کی فیملی ہی تھی، جو دیر رات اسے نرسنگ ہوم لے گئی۔ جس کے بعد، ڈاکٹر کو جن چیزوں کی ضرورت تھی، اسے ڈھونڈنے کے لیے دھرمن نے پورے شہر کا چکر لگایا۔
’’صرف اتنا ہی نہیں۔ اس واقعہ کا عجیب و غریب حصہ یہ تھا کہ وہ عورت اور میں دو الگ الگ ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے، جن کے درمیان لڑائی چل رہی تھی۔ جب بچہ پیدا ہوا، تو میاں بیوی نے مجھ سے اس کا نام رکھنے کی درخواست کی۔ میں نے اس لڑکی کا نام کلا دیوی رکھا [ کلاورم یا اس وقت ہونے والی پر تشدد لڑائی کے حوالے سے]۔ آپ کو معلوم ہے وہ کہانی میں نے کیسے شروع کی؟‘ وہ ان واقعات کی خیالی کہانی کے بارے میں پوچھتے ہیں، جو انہوں نے لکھی ہے۔ ’’جو لوگ برسوں سے میرے دوست تھے، وہ میرے دشمن بن گئے، اور جو میرے دشمن تھے وہ دوست بن گئے، اور یہ سب ایک پل میں ہوا...‘
شناسا لگتا ہے؟ فرقہ واریت کے دور میں، کووڈ-۱۹، اور مہاجروں کا سفر، شاید یہ ہونا چاہیے۔
مترجم: محمد قمر تبریز