ہیرا بائی فقیرہ راٹھوڑ نے سال 2010 میں جب نئی گاڑی خریدی، تو چاروں طرف انھیں کی چرچا ہونے لگی، کیوں کہ اس وقت بہت سے بینک ’ٹریکٹر لون‘ دینے میں شدت سے مصروف تھے۔ اورنگ آباد ضلع کی کنڑ تحصیل میں واقع اپنے غریب خانہ پر انھوں نے ہمیں بتایا کہ ’’ٹریکٹر کی دُکان پر سیلز مین نے مجھ سے کہا تھا کہ اس لون (قرض) کو حاصل کرنا اور اسے ادا کرنا بہت آسان ہے۔‘‘ اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد کی مقامی شاخ نے بھی بڑی آسانی سے قرض دے دیا۔ ہیرا بائی، جن کے شوہر ایک ریٹائرڈ فاریسٹ گارڈ ہیں، بنجارہ آدیواسی ہیں اور ان کا کنبہ اسی تحصیل میں 3.5 ایکڑ زمین کا مالک ہوا کرتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’ہم چاہتے تھے کہ اسے (ٹریکٹر کو) خود ہی استعمال کریں اور ساتھ ہی اسے دوسرے کے کھیتوں پر چلا کر کچھ پیسے بھی کما لیں۔‘‘

انھیں 635,000 روپے قیمت والا ٹریکٹر خریدنے کے لیے 575,000 روپے بطور قرض دیا گیا۔ انھیں بینک کو یہ پیسہ 15.9 فیصد کی شرحِ سود پر سات برسوں کے اندر واپس چکانا تھا۔ ’’وہ میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی،‘‘ انھوں نے نہایت غم کے ساتھ کہا اور ہمیں قرض کا مکمل کھاتہ دکھایا۔ اس سال کے مارچ مہینہ تک 7.5 لاکھ روپے سے زیادہ واپس ادا کرنے کے بعد ہیرا بائی ٹوٹ چکی تھیں۔ اُس وقت بینک نے انھیں ’یکبارگی نپٹارہ‘ (او ٹی ایس) کی پیش کش کرتے ہوئے 1.25 لاکھ روپے یک مشت ادا کرنے کے لیے کہا، جسے انھوں نے اپنے رشتہ داروں سے مزید قرض لے کر ادا کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نہیں چاہتی تھی کہ یہ بوجھ میں اپنے بچوں کے سر پر ڈالوں۔‘‘

کل ملا کر، اس بنجارہ کو، جو نہ تو خوشحال ہیں اور نہ ہی امیر ہیں، انھیں ’’9 لاکھ روپے واپس ادا کرنے کے لیے غلام بنا لیا گیا‘‘۔ 5.75 لاکھ روپے کے قرض پر۔ اور، مہاراشٹر کے اس قحط زدہ مراٹھواڑہ خطہ میں کاشت کاری اپنے زوال پر ہے، ’’ہمارے اپنے کھیتوں کے علاوہ اس ٹریکٹر کا اور کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ اورنگ آباد ضلع اور پورے ملک میں اور بھی کئی ہیرا بائی ہیں۔ بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اُن کے برخلاف، اپنا قرض واپس نہیں کر پاتے۔ سب سے اہم بات یہ کہ، اس صوبہ میں قرض کے بوجھ سے لدے لاتعداد کسانوں نے خود کشی کر لی۔ اکیلے اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد (ایس بی ایچ) نے سال 2005-06 سے لے کر اب تک صرف مراٹھواڑہ خطہ میں ایسے 1,000 لون دیے ہیں۔

آل انڈیا بینک آف مہاراشٹر ایمپلائیز فیڈریشن کے جنرل سکریٹری، دیوی داس تُلجاپورکر کے مطابق، ’’بینک ٹریکٹر لون دینے میں مگن تھے۔ انھیں ’ترجیحی سیکٹر میں قرض دینے‘ کا کوٹہ پورا کرنا ہوتا تھا، تاکہ وہ اسے ایگریکلچرل لون کے طور پر دکھا سکیں۔ اور یہ قرض بڑی تعداد میں لوگوں کو اونچی شرحِ سود پر دیے گئے، جو وہ کبھی واپس ادا نہیں کر سکتے تھے۔ ہیرا بائی جیسے لوگوں کے علاوہ، جنھوں نے سمجھوتہ کر لیا، بہت سے ایسے تھے، جنھوں نے قرض کی بڑی رقم تو واپس کردی، لیکن او ٹی ایس (یک مشت رقم) نہیں دے پائے۔ اور بہت سے تو ایسے بھی تھے، جو کچھ بھی واپس ادا نہیں کرسکے۔‘‘ ہم نے آخرالذکر زمرے کے کم از کم 45 لوگوں کی تفصیلات صرف کنڑ تحصیل کی ایس بی ایچ کی واحد برانچ سے حاصل کیں۔ ان لوگوں کے اوپر بینک کی 2.7 کروڑ روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ اور وہ بھی ایک صوبہ کے ایک چھوٹے سے قصبہ کے ایک بینک کی واحد شاخ (برانچ) کی۔ پورے ملک میں پھیلے ایسے بہت سے بینکوں کے اس قسم کے بے شمار ہزاروں قرض ہیں۔


02-IMG_1208-PS-The Benz and the Banjara.jpg

گاڑیوں کے لیے قرض کی رقم شہروں میں بھی بڑی ہوتی ہے، جیسا کہ ممبئی بینک کا یہ کاؤنٹر دکھا رہا ہے۔ کیاخالی جگہ پر کبھی چھوٹے سائز کا ٹریکٹر ہوا کرتا تھا؟


ہیرا بائی نے جس وقت اپنے لیے قرض 15.9 فیصد کی شرحِ سود پر لیا تھا، تب اورنگ آباد قصبہ میں لون کی یہ جگہ صرف 65 کلومیٹر کی دوری پر تھی۔ ’اورنگ آباد گروپ‘ میں شامل شہر کے امیر صنعت کاروں، بڑے افسروں، ڈاکٹروں، وکیلوں اور دیگر پیشہ وروں نے اکتوبر 2010 میں صرف ایک دن میں 150 مرسڈیز بینز کاریں خریدی تھیں۔ (ان میں سے ایک شخص تو اب اورنگ آباد مشرق سے ایم ایل اے بھی بن چکا ہے)۔ ان میں سے کچھ نے اس وقت کہا تھا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ’’اورنگ آباد ترقی کر چکا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اب یہ ’’سرمایہ کاری کے عالمی نقشہ پر ہے۔‘‘ نقشہ پر آنے کے لیے انھوں نے تھوڑی بہت مدد بھی کی ہے۔ بینز کار کے اُس دن فروخت ہونے والے ماڈلس کی قیمت 30 سے 70 لاکھ روپے کے درمیان تھی۔ میڈیا رپورٹوں میں کہا گیا کہ کمپنی نے اِن کاروں پر چھوٹ بھی دی تھی، کیوں کہ وہ 24 گھنٹوں کے اندر 150 لگزری کاریں بیچ رہی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اُس وقت کے اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے چیئرمین کی نظرِ عنایت سے ایس بی آئی اورنگ آباد نے 65 کروڑ روپے کے سودے کی تقریباً دو تہائی رقم کا لون انھیں صرف 7 فیصد شرحِ سود پر دے دیا۔

’خوشی سے پھولے نہیں سما رہے‘ مرسڈیز بینز انڈیا کے ایک مینجنگ ڈائرکٹر وِلفرائڈ آلبر کے بیان کو اُس وقت میڈیا میں نقل کیا گیا تھا کہ وہ ملک کے دوسری سطح اور تیسری سطح کے شہروں کی شاندار اقتصادی طاقت کو سلام کر رہے ہیں۔ ’’آج، ہمارے لیے نہایت فخر کی بات ہے، پورے جوش و ولولہ کے ساتھ کہ ایک ہی جھٹکے میں 150 مرسڈیز بینز کاریں فروخت ہو گئیں۔‘‘

لیکن، دوسری طرف اورنگ آباد کی بہت سی ہیرا بائیوں کو دوسری قسم کے جھٹکے لگ رہے تھے۔ دونوں ہی گروپ گاڑیوں کے لیے لون (قرض) لے رہے تھے۔ دونوں ہی گروہوں نے سرکاری بینکوں سے قرض لیے تھے۔ لیکن، ہیرا بائی کو شہر کے امیروں کے مقابلے دو گنا سود ادا کرنا پڑ رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ وہ اورنگ آباد کو سرمایہ کاری کے عالمی نقشہ پر نہیں لا پا رہی تھیں۔ جو لوگ 12.5 سے لے کر 15.9 فیصد کی شرحِ سود پر ٹریکٹر لون لے رہے تھے، وہ زیادہ تر آدیواسی یا دلت تھے۔ اس گروپ میں سے کسی فرد کو بینز خریدتے ہوئے مشکل سے ہی ڈھونڈا جا سکتا ہے۔

تیلوڑی ٹنڈا (کالونی) کے بنجارہ، وسنت دَلپت راٹھوڑ کو کنڑ تحصیل کے ایس بی ایچ کو 7.53 لاکھ روپے واپس ادا کرنے پڑے (جس میں 1.7 لاکھ روپے کا او ٹی ایس چارج بھی شامل ہے)۔ اسی آدیواسی گروپ کے امر سنگھ مُکھا رام راٹھوڑ، جو امبا ٹنڈا میں رہتے ہیں، پر بینک کی 11.14 لاکھ روپے کی رقم واجب الادا ہے، جب کہ انھوں نے اس رقم کا آدھا بطور قرض لیا تھا۔ انھوں نے اب تک ایک بھی پیسہ واپس نہیں کیا ہے، اور شاید کبھی واپس کر بھی نہ پائیں۔ ہم نے جب ان کے ٹنڈا کا دورہ کیا، تو ان کے پڑوسیوں نے ہم سے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ان کے بارے میں سنا تک نہیں ہے۔ لیکن، ہم نے ان کا گھر ڈھونڈ ہی لیا، جہاں ہمیں کوئی بھی قیمتی سامان نہیں ملا اور ٹریکٹر تو بالکل بھی نظر نہیں آیا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی زیادہ طاقتور آدمی کسی غریب کے نام پر قرض لے لیتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ کنڑ کے اِن 45 معاملوں کے علاوہ، ہم نے دوسری تحصیلوں اور برانچوں کے اس قسم کے لون کی متعدد تفصیلات حاصل کیں۔

تُلجاپورکر کہتے ہیں، ’’ان میں سے کسی بھی لون کو نان پرفارمنگ اثاثہ نہیں کہا گیا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ رقم کروڑوں روپے تک جا سکتی ہے۔ زیادہ تر بینک یہی کرتے ہیں کہ وہ انھیں کاغذ پر پرفارمنگ اکاؤنٹس کے طور پر دکھاتے ہیں۔ اسی لیے آپ اتنی رقم دیکھ رہے ہیں جو کہ اصل سے دو گنا زیادہ ہیں، جب کہ بعض دفعہ ان میں سے ایک بھی پیسہ واپس نہیں کیا گیا ہے۔ پیسے واپس کرنے کی مدت بہت پہلے ہی ختم ہوچکی ہوگی، لیکن اسے اب بھی فہرست میں معیاری یا پرفارمنگ اثاثہ کے طور پر درج کیا گیا ہے، جسے لے کر کوئی پریشانی نہیں ہے۔ لیکن کبھی نہ کبھی تو، اس حقیقت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔‘‘ اور کبھی کبھار تو خریدار کو منجھولیے اور ڈیلروں سے بھی دھوکہ کھانا پڑتا ہے۔ ’’بینک سے پیسہ ایک ٹریکٹر اور ساتھ ہی اس کی ٹرالی اور دیگر ساز و سامان کے لیے لیا جا سکتا ہے۔ لیکن، کسان صرف ٹریکٹر چاہتے ہیں اور پاتے بھی وہی ہیں۔ بقیہ سامان ڈیلروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔‘‘

بینک کے ملازمین بتاتے ہیں کہ بینز خریدنے والوں کے ساتھ بھی دھوکہ کیا گیا۔ ’’ان میں سے بہت سی کاروں کو بار بار بیچا گیا، دو بار، تین بار اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ بار۔‘‘ یہ بات ہمیں اورنگ آباد کے ایک بڑے صنعت کار نے بتائی۔ ایک دوسرے ذریعہ سے ہمیں پتہ چلا کہ کار کے کچھ مالکوں نے چھوٹ اور کم شرحِ سود کا فوری فائدہ اٹھایا اور کار کو نفع بخش قیمت پر جلد ہی کسی اور کو بیچ دیا۔

ٹریکٹر کی فروخت میں 2004-14 کے درمیان تین گنا اضافہ ہوا۔ اس صنعت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سال 2013 میں ہندوستان میں کل 619,000 ٹریکٹرس کی پیداوار ہوئی، جو کہ پوری دنیا میں ان کی پیداوار کا تقریباً ایک تہائی تھا۔ بہت سے لوگوں نے اسے ’’دیہی ترقی کے آئینہ‘‘ کے طور پر دیکھا یا ایک ایسے ’’اہم بیرومیٹر‘‘ کے طور پر کہ دیہی ہندوستان کیسے آگے بڑھ رہا ہے۔ یقیناً، بعض حلقوں کی آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے یہ دیکھنے کو ملا۔ تاہم، اس کی وجہ سے قرض دینے کا رحجان بھی بڑھا۔ سماجی اقتصادی اور ذات پر مبنی مردم شماری کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہندوستان کے صرف 8 فیصد دیہی گھروں میں سب سے زیادہ کمانے والا فرد ایک مہینہ میں 10,000 روپے سے زیادہ کما لیتا ہے۔ (جن گھروں میں ٹریکٹر ہے، وہ اس 8 فیصد سے کافی کم ہیں)۔ پھر بھی، بہت سے ماہرینِ اقتصادیات اور کالم نگاروں کا یہی ماننا ہے کہ ٹریکٹروں کی فروخت کی تعداد یہ جانچنے کا معتبر پیمانہ ہے کہ دیہی ہندوستان کیسے ترقی کر رہا ہے۔ لہٰذا اب، جب کہ اورنگ آباد کے ڈیلروں کا کہنا ہے کہ ٹریکٹروں کی فروخت میں 50 فیصد کی کمی آئی ہے، تو گھر یا دفتر میں بیٹھ کر تجزیہ کرنے والوں کے لیے یہ ’دیہی پریشانی‘ کا واضح اشاریہ ہے۔

یہ بات صحیح ہے کہ ٹریکٹر ایک پیداواری آلہ ہے، جب کہ مرسڈیز بینز عیش و آرام کا ایک ذریعہ۔ لیکن 2004-14 کی مدت میں قرض پر مبنی ٹریکٹر کی فروخت کو تیز رفتار دیہی ترقی کی علامت کے طور پر دیکھنا اتنی ہی بیوقوفی ہے، جتنی یہ کہنا کہ ایک دن میں 150 مرسڈیز بینز کی فروخت نے اورنگ آباد کو عالمی نقشہ پر پہنچا دیا۔ مراٹھواڑہ کی فی کس آمدنی اب بھی 64,330 ہے، جو کہ مہاراشٹر کے تمام خطوں میں سب سے کم ہے، جو کہ صوبہ کے بقیہ حصوں کے مقابلے تقریباً 40 فیصد کم ہے اور ممبئی سے تقریباً 70 فیصد کم ہے۔

دریں اثنا، دیوالیہ پن کا ایک نیا بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔ اِس بار اس میں کھدائی والی مشینیں شامل ہیں، جن کا استعمال مہاراشٹر جیسے صوبہ میں بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے، جہاں حکومتیں ہاتھ سے کام کرنے والے مزدوروں کی جگہ زیادہ سے زیادہ مشینوں کو کام پر لگا کر خوشی محسوس کر رہی ہیں۔

حاجی اکبر بیگ نام کے ٹھیکہ دار اور اورنگ آباد ضلع کے خلط آباد کے سابق میونسپل کونسل چیف  بتاتے ہیں، ’’بہت سے لوگ ڈھیر سارا پیسہ کھونے والے اور دیوالیہ بننے والے ہیں۔ 19,000 لوگوں پر مشتمل میرے چھوٹے سے قصبہ میں کم از کم 30 جے سی بی مشینیں ہیں۔ کون جانتا ہے کہ پورے صوبہ میں یہ کتنی ہیں؟ چونکہ ان کا استعمال جل یُکت شیوار ابھیان (صوبائی حکومت کی پانی کو بچانے کی سب سے اہم اسکیم) جیسی اسکیموں میں ہو رہا ہے، اس لیے بہت سے لوگ اس کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ انھوں نے پرائیویٹ بینکوں اور نان۔بینکنگ مالیاتی کمپنیوں سے بڑے بڑے قرض لے کر جے سی بی مشینیں خریدی ہیں، جن میں سے ایک کی قیمت 29 لاکھ روپے تک ہے۔ اس کے پہلے خریداروں میں سے ایک میں بھی تھا۔ لیکن میں نے پیسوں کا انتظام بینک سے قرض لے کر نہیں کیا، بلکہ پیسوں کا انتظام اپنے بہت سے پرانے اوزار بیچ کر اور کچھ پیسے فیملی اراکین سے قرض لے کر کیا۔

’’قرض کی قسط چکانے اور مشین کے رکھ رکھاؤ پر اچھا خاصا پیسہ خرچ کرنے کے بعد، چونکہ آپ کے پاس زیادہ پیسہ نہیں بچتا، اس لیے آپ کو ایک مہینہ میں کم از کم ایک لاکھ روپے کا تو کام ملنا ہی چاہیے۔ یہ اِس موسم میں تو ممکن ہے، لیکن مانسون کے آتے ہی یہ کام ملنا بند ہو جائے گا۔ تیس کی بات تو چھوڑ دیجیے، اس پورے قصبہ میں تین جے سی بی مشینوں کے لیے بھی زیادہ کام نہیں بچے گا۔ تب آپ کیا کریں گے؟ جن لوگوں کو اس میدان کا کوئی تجربہ نہیں ہے، وہ بھی پوکلین ہائڈرالک کھدائی مشینوں پر پیسہ لگا رہے ہیں، جن کی قیمت بعض دفعہ جے سی بی سے دو گنی ہوتی ہے۔ ایک بار پھر، قرض لے کر وہ برباد ہو سکتے ہیں۔ مجھے شک ہے کہ ایسا پورے خطہ میں ہو رہا ہے۔ کچھ ہی عوامی رابطہ والے تاجر، جن کے لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں، صرف انھیں کو ٹھیکہ ملے گا۔ شاید 100 میں سے صرف 10 ہی بچ پائیں گے۔ بقیہ دیوالیہ پن کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘


03-P1040127(Crop)-PS-The Benz and the Banjara.jpg

ہیرا بائی کا تعلق مہاراشٹر کے اورنگ آباد ضلع کی بنجارہ ( خانہ بدوش قبیلہ ) برادری سے ہے۔


کنڑ میں اپنے گھر پر ہمیں دیکھ کر ہیرا بائی کو بھی لگا کہ ہم لوگ شاید بینک کے اہل کار ہیں۔ ’’اب میرے ساتھ کیا ہوگا؟‘‘ وہ خوف سے پوچھتی ہیں۔ ان کا یہ سوال 6.35 لاکھ روپے (لیکن شاید اس سے بھی کم) کے ٹریکٹر کے لیے قرض لی گئی 5.75 لاکھ روپے کی رقم کے بدلے 9 لاکھ روپے واپس ادا کرنے کے بعد ہے۔ ’’کیا مجھے ابھی اور پیسے چکانے ہوں گے؟‘‘ نہیں، ہم انھیں جواب دیتے ہیں۔ آپ نے قیمت ادا کر دی ہے، پوری رقم، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)


ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath