uploads/Articles/Chitrangada/A Minister Mines His Own Business/k.eranna.jpg


جی جناردھن ریڈی کے لیے زندگی کبھی اس سے بہتر نہیں رہی۔

حکومتِ کرناٹک میں بی جے پی کے وزیر اور کانکنی کے بڑے تاجر ۴۲ سالہ ریڈی نے حالیہ برسوں میں بے انتہا دولت کمائی ہے، بنگلور سے ۲۹۰ کلومیٹر دور شمال میں واقع گرم اور دھول بھری کانوں کے لیے مشہور بیلاری ضلع سے خام لوہا چین کو ایکسپورٹ کرکے۔

حال ہی میں ایک روز صبح کو، اپوزیشن کے دو کونسلر کو اپنی پارٹی میں شامل کرکے بیلاری میونسپل کارپوریشن میں بی جے پی کا پوری طرح پرچم لہرانے سے متعلق میٹنگ سے باہر نکلنے کے بعد، زندہ دل اور خوش لباس ریڈی نے کہا: ’’خود مجھے نہیں معلوم کہ میں نے گزشتہ پانچ برسوں میں کتنے پیسے کمائے ہیں ۔۔۔ فی الحال میں کوڈپّا (پڑوس کے آندھرا پریش میں) میں ۲۰ ہزار کروڑ روپے کا اسٹیل پلانٹ بنا رہا ہوں۔‘‘

اقتدار میں آنے کے چند ہفتوں کے اندر ہی، ریڈی نے ریاست کے لیے مائننگ پالیسی بنائی، جس کے تحت کانکنی کے لیے پٹّہ (لیز) صرف انھیں امیدواروں کو دیا جائے گا، جو ’’قدر میں اضافہ‘‘ کر سکیں۔

بالفاظِ دیگر، جو اُن کی طرح صنعت کار ہوں گے۔

’’میری ذاتی دولت تقریباً ۱۵۰۰ کروڑ ہونی چاہیے،‘‘ ریڈی تخمینہ لگاتے ہیں۔

جو کہ بیلاری کے ۱۵ لاکھ ووٹروں کی مجموعی آمدنی کا ۵۰ فیصد ہے، اور ایک پولس کانسٹیبل کے بیٹے کے لیے کوئی خراب کارکردگی نہیں ہے، جس نے ۱۹۸۹ میں تجارت میں قدم رکھا اور اپنے دوستوں سے ۳۵ ہزار روپے جمع کرکے ایک مالیاتی بجت فرم قائم کیا۔

آج، ریڈی کی ذاتی ملکیت میں دو ہیلی کاپٹر، متعدد مہنگی کاریں، اور بے انتہا سیاسی طاقت ہے، کیوں کہ وہ الیکشن سے پہلے پارٹی کی خراب قسمت کو درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

سال ۱۹۹۹ تک، پس ماندہ بیلاری ضلع ہندوستان کے سیاسی نقشہ پر گمنام تھا، اور کانگریس کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ پارٹی یہاں آزادی کے بعد سے لوک سبھا الیکشن ہر بار جیتتی رہی، حتیٰ کہ سونیا گاندھی بھی اپنی زندگی کا پہلا الیکشن سشما سوراج کے خلاف یہیں سے جیتی تھیں۔

آج، چیزیں بہت زیادہ الگ نہیں ہو سکتیں تھیں۔

ریڈی اور ان کے بڑے بھائی سمیت اس ضلع سے تین قانون ساز ریاستی کابینہ میں وزیر ہیں، اور ریاست کے اندر بی جے پی اقتدار کا مرکز ہیں۔

ریڈی کے بڑے بھائی نے پارٹی کے لیے پہلی بار ۲۰۰۴ میں پارلیمنٹ کی سیٹ جیتی، اور ریڈی نے ۲۳ اپریل کو ہونے والے انتخابات میں بی جے پی کی امیدوار اور ایک مقامی ایم ایل اے کی بہن، جے شانتی کی دوبارہ جیت کا وعدہ کر رہے ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/A Minister Mines His Own Business/janardhana_reddy.jpg


بیلاری کے خوبصورت پتھر کے پہاڑ کے دامن میں بن رہے اپنے سوئس اسٹائل بنگلہ کے اندر نہایت خوبصورت اور نیلے رنگ کے سوئمنگ پول کے پاس چہل قدمی کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’میں ان کے لیے ایک ایسی اکثریت سے جیت کی گارنٹی دیتا ہوں، جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

سال ۱۹۹۹ میں اپنی دردناک ہار کی وجہ سے میڈم (سشما سوراج) نے ریڈی فیملی کو سیاست میں آنے کا مشورہ دیا۔ کانکنی سے کمائی ہوئی ان کی دولت کو اس خطہ، اور ریاست میں کروڑوں روپے پر مبنی انتخابی تشہیر پر لگایا گیا۔

سال ۲۰۰۸ کے اسمبلی انتخابات کے بعد، الیکشن کمشنروں نے دہلی اور ممبئی کے سیمیناروں میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے دولت کی درجہ بندی کی تنقید کی تھی، اور کہا تھا کہ یہ ’’جمہوریت کو خراب‘‘ کر رہی ہے۔ لیکن، بیلاری میں اس تنقید کا بہت زیادہ اثر نہیں ہوا۔

ووٹروں کو رشوت دینے کے الزام پر ریڈی ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ’’مجھے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔۔ دیوے گوڑا (جنتا دَل سیکولر کے سربراہ) ایسا کرتے ہیں۔‘‘

بیلاری کی جھونپڑ پٹیوں میں، جہاں دلتوں اور مسلمانوں کی اکثریت ہے، مخالف آوازیں دب جاتی ہیں۔

’’انتخابات سے ایک دن قبل، تمام پارٹیاں یہاں آئیں اور انھوں نے ہر ووٹر کو ہزار ہزار روپے دیے،‘‘ کارپینٹر گنّان (۴۵) اسمبلی انتخابات کے بارے میں کہتے ہیں۔

گنّان کو نہیں معلوم کہ یہ رقم، جو کہ ان کی ماہانہ تنخواہ کا ایک تہائی ہے، اور ووٹ، ان کے جیسے لوگوں کو با اختیار بنا رہا ہے یا نہیں۔

’’چند ماہ قبل جب میں میئر کے پاس دلتوں سے متعلق سرکاری کے تحت چھوٹا قرض دلانے میں مدد مانگنے گیا، تو انھوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے وہاں سے بھگا دیا کہ ’کیا تم نے مجھے مفت میں ووٹ دیا تھا؟‘ ‘‘


/static/media/uploads/Articles/Chitrangada/A Minister Mines His Own Business/dsc_2083.jpg


طبیب ٹی رامناتھ، ولد ٹیکور سبرامنیم، جو کہ سال ۱۹۴۷ سے ہی بیلاری سے پارلیمنٹ کے تین بار رکن منتخب ہوئے، الماری سے ایک البم نکالتے ہیں، جس میں پانچ دہائی قبل کی ان کے والد کی ایک تصویر ہے، جس میں وہ اپنے گھر میں لال بہادر شاستری کے ساتھ فرش پر بیٹھے ہوئے ناشتہ کر رہے ہیں۔

’’میرے والد جب ایم پی بن گئے تو ہم لوگ غریب ہوتے چلے گئے، کیوں کہ ان کی تنخواہ اس سے آدھی تھی جتنی کہ وہ وکالت کی نوکری سے کما رہے تھے،‘‘ ڈاکٹر نے بتایا۔ ’’کیا کوئی آدمی ایسا آج کے کسی سیاست داں کے بارے میں کہہ سکتا ہے؟ یہ سبھی رشوت کھا رہے ہیں اور پیسہ کما رہے ہیں۔‘‘

رامناتھ بیلاری میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں کو لے کر دو متضاد نظریہ رکھتے ہیں۔

’’مٹھی بھر لوگوں نے کانکنی سے پیسہ بنایا ہے۔ صنعتی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے، جو کہ اچھی بات ہے۔ لیکن آلودگی بڑھ گئی ہے، جنگل کاٹے جا رہے ہیں، اور مقامی باشندے کینسر اور ٹیوبر کلوسس (ٹی بی) جیسی بیماریوں سے پریشان ہیں۔‘‘

ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر ۶۵ کلومیٹر تک گاڑی چلانے کے بعد سرخ غبار سے پٹا لکشمی پورہ گاؤں آتا ہے، جو بیلاری کی کانوں کے بیچ میں واقع ہے۔

کسان ملیمانی ایرانہ جیسے مقامی باشندے فکرمند ہیں کہ کیسے خام لوہے کی طلب ان کی دنیا کو خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔

پہاڑوں کے درمیان واقع بارش کے پانی کے ذخیرہ، ہولی کُنٹے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے، جس کا پانی زنگ کی طرح سرخ ہو چکا ہے اور خام لوہے کا غبار ملنے سے زہریلا ہو چکا ہے، کیچڑ میں لت پت لنگی پہنے ہوئے یہ کسان کہتا ہے، ’’یہ وہ پانی ہے جس سے کبھی ہمارے کھیتوں کی سینچائی ہوتی تھی۔ ہماری زمینوں اور پانی کو آلودہ کیا جا رہا ہے، اور ہمارے جنگلوں کو برباد۔‘‘

’’ہم چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ بند ہو۔ لیکن کانوں کے مالک امیر وزراء ہیں، اس لیے حکومت ہماری کیوں سنے گی؟‘‘

یہ مضمون پہلی بار ہندوستان ٹائمز کے مارچ ۲۰۰۹ کے شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔

Chitrangada Choudhury

ਚਿਤਰਾਂਗਦਾ ਚੌਧਰੀ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ ਤੇ ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਦੇ ਕੋਰ ਗਰੁੱਪ ਦੀ ਮੈਂਬਰ ਹਨ।

Other stories by Chitrangada Choudhury
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique