یہ موسیقی اتنی ہی فطری ہے جتنی کہ چھاٹینا گاؤں کے وسط تک جانے والے راستے میں گھروں کی دیواریں۔ اور مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کی اس آدیواسی بستی کی گلیوں میں کبھی بانم اور گُب گُبی نامی سازوں کی الگ الگ، سرھیلی دھُن بجتی تھی۔ یہ دونوں ساز سنتھال آدیواسیوں کے ذریعہ بجائے جاتے تھے۔
لیکن اب، دھُن اور آوازیں دونوں غائب ہو رہی ہیں۔
’’ہم ان سازوں کو زیادہ تر اپنے پرب [تہواروں] پر بجاتے ہیں،‘‘ راج نگر بلاک میں سنتھال آدیواسیوں کے گُلال گاچھی گاؤں میں رہنے والے ۴۲ سالہ گنیش سورین کہتے ہیں۔ ایک زرعی مزدور اور بانم بجانے والے گنیش دو تار والی گُب گُبی بجاتے ہیں، جسے انہوں نے خود بنایا ہے۔ ایک تار والا بانم ، سنتھال اور دیگر آدیواسی برادریوں کے لیے کافی پرانا ساز ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی اور ثقافتی اہمیت بھی رکھتا ہے۔
ان کے لیے، ان کے ساز کی آوازیں آزادی اور جل، جنگل، زمین کے لیے سنتھالوں کی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہیں – یہ ایشوز آج بھی زندہ ہیں
’’ہم نے سِدھو- کانہو تہوار میں بانم بجایا ہے،‘‘ چھاٹینا کے ۴۶ سالہ زرعی مزدور، ہوپون سورین کہتے ہیں۔ اس تہوار کا نام دو سنتھال لیڈروں – سِدھو مُرمو اور کانہو مُرمو کے نام پر رکھا گیا ہے، جنہوں نے ۱۸۵۵ میں انگریزوں کے خلاف بڑا ہول (بغاوت) کیا تھا۔ انگریزوں نے ان کی گرفتاری کے لیے ۱۰ ہزار روپے کا انعام رکھا تھا۔ اُس وقت یہ ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی، جس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی چنوتی کتنی خطرناک تھی۔ اس بغاوت میں آدیواسی کا کافی خون بہایا گیا تھا۔ انگریزوں نے تیر اور دھنُش سے لیس ۶۰ ہزار سنتھالوں میں سے کم از کم ۱۵ ہزار کو گولی مار دی تھی۔ ان کے اعزاز میں منعقد ہونے والے اس تہوار میں، بانم بجاکر ان کی یاد کو تازہ کیا جاتا ہے۔
’’ہمارے بچپن میں، مشہور بانم بجانے والے ہوا کرتے تھے، جنہیں ہم ریڈیو پر سنتے تھے۔ ہم نے ان کے ذریعہ گائے گئے گیتوں اور دھُنوں کو سن کر ساز بنانا اور انہیں بجانا سیکھا،‘‘ ہوپون سورین کہتے ہیں۔
گنیش سورین کی گب گبی بھی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کے لیے، ان کے ساز کی آواز آزادی اور جل، جنگل اور زمین کے لیے سنتھالوں کی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے – یہ ایشوز آج بھی زندہ ہیں۔ گنیش اور ہوپون دونوں مقامی مہاجن (زمیندار ساہوکار) کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ اگرچہ اس علاقے میں سرکاری طور پر مقررہ مزدوری کی شرح ۲۴۰ روپے یومیہ ہے، اور کاغذ پر بھی یہی لکھا ہوا ہے، لیکن کئی مہینوں سے انہیں یومیہ ۱۰۰-۲۰۰ روپے ہی مل رہے ہیں۔ انہیں کبھی کبھی راج مستری کا کام مل جاتا ہے، جب وہ ایک دن میں ۲۶۰ روپے کما سکتے ہیں۔ مغربی بنگال میں منریگا کی شرح ۲۴۰ روپے ہے، لیکن درحقیقت انہیں ۱۸۲-۲۰۲ روپے ہی ملتے ہیں۔ ان کا تجربہ ہے کہ سال بھر میں انہیں اس قسم کا صرف ۲۵ دنوں کا روزگار ملتا ہے۔
مقامی لوگ مجھے بتاتے ہیں کہ اس علاقہ میں مزدوری (منریگا کو چھوڑ کر) کی شرح زیادہ ہوا کرتی تھی، لیکن پچھلے کچھ برسوں میں اس میں کمی آئی ہے۔ سال ۲۰۱۱ کے آس پاس یا اس کے بعد اسے ۲۴۰ روپے مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن پہلے سے ہی کم ہو رہی اس شرح کو وبائی مرض اور لاک ڈاؤن کے سبب ایک بڑا جھٹکا لگا۔ حالانکہ، بارش اچھی ہوئی ہے اور اب جب کہ کھیتی کا موسم چل رہا ہے، وہ کچھ دنوں یا ہفتوں تک، یومیہ ۲۴۰ روپے دوبارہ پا سکتے ہیں۔
ہر ایک بانم اور گب گبی کو نئے سرے سے بنایا جاتا ہے، اور یہ فنکار کی ذاتی تخلیقی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لیے اسے بنانے اور بجانے والے فنکار کے کردار کے مطابق، ان سازوں کی شکل و صورت بدل جاتی ہے۔ ہوپون سورین کا بانم ، بسلے (ہتھوڑی جیسا دھاردار اوزار) اور روکا (چھینی) جیسے آلات سے لکڑی کو احتیاط سے چھیل کر بنایا جاتا ہے۔
گنیش سورین کا بانم بہت خوبصورت ہے اور اسے ناریل کے گولے، جانوروں کی کھال – اور چھاتا کی چھڑی سے تیار کیا گیا ہے۔
کولکاتا کی ربیندر بھارتی یونیورسٹی کی آدیواسی موسیقی کی ماہر ڈاکٹر نبیدتا لاہیری کے مطابق، ’’ بانم ایک تار والا ساز ہے، جو شاید وائلن فیملی سے وابستہ ہے، جسے دھنش کے ساتھ بجایا جا سکتا ہے، اور جس میں ایک سخت آواز ہوتی ہے۔ یہ ایک کارڈوفون ہے، جسے اس قسم کے دیگر سازوں کی طرح براہ راست انگلیوں سے نہیں بجایا جا سکتا۔ اسے صرف تار یا بعض جانوروں کے بال سے تیار کردہ چھار [دھنش] سے ہی بجایا جا سکتا ہے۔ بنگال میں آپ کئی قسم کے بانم دیکھ سکتے ہیں – جیسے کہ فانتور بانم ، بیلے بانم وغیرہ – کیوں کہ انہیں بنانے والے اپنے خود کے، انوکھے طریقے سے انہیں بناتے ہیں۔‘‘
گنیش سورین کی گب گبی بنگالی فوک میوزک کے ایک مشہور ساز، کھوموک کی آدیواسی اور نئی شکل ہے۔ اسے بنانے کے لیے انہوں نے ڈھول اور اپنے بیٹے کے کھلونوں میں سے ایک کا استعمال کیا۔ اس کی دھُن انہیں اپنے بیٹے کی معصوم ہنسی اور تال جنگل کی یاد دلاتا ہے۔ ’’میں اپنے دماغ کو تروتازہ رکھنے کے لیے، ۱۵ سال سے دونوں ساز بجا رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ایک زمانہ تھا جب میں دن بھر کی مشقت کے بعد شام کو انہیں بجاتا تھا اور لوگ سننے آتے تھے۔ لیکن آج ان کے پاس بہت سارے متبادل ہیں اور کوئی بھی اس بوڑھے شخص کی موسیقی نہیں سننا چاہتا۔‘‘
ان کے گاؤں کے کئی مرد مختلف قصبوں میں راج مستری، یا یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں، اور ان میں سے کچھ اب بھی اپنے ساتھ بانم لے جاتے ہیں۔ لیکن اب بہت سے لوگ موسیقی کی اس روایت کو سیکھنا نہیں چاہتے، گنیش اور ہوپون کہتے ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں اور ہماری برادری میں بہت کم لوگ ہیں، جو اس انوکھی آواز کو بنانے کاعلم اور ہنر رکھتے ہیں،‘‘ ہوپون کہتے ہیں۔
’’ہمارے مقامی اسکول میں کچھ پرجوش طلبہ ہونے چاہئیں، تاکہ ہم وہاں جاکر انہیں اس کے بارے میں پڑھا سکیں،‘‘ گنیش کہتے ہیں۔ لیکن، وہ کہتے ہیں، آج کی نسل کو ایک بٹن کے کلک پر گانے اور موبائل ایپ دستیاب ہیں۔ پھر ان کی دلچسپی بانم میں کیسے ہو سکتی ہے؟
گنیش اور ہوپون کے پاس نہ تو موبائل فون ہے اور نہ ہی وہ اسے خرید سکتے ہیں۔
گنیش اور ہوپون دونوں اپنے عزیز بانم کے زوال کا ایک سبب اپنی اقتصادی حالت کو بھی بتاتے ہیں۔ وہ غریب زرعی مزدور ہیں جو کم مزدوری پر کئی گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ’’اگر میں بانم بجانا چاہوں، تو میری فیملی کو کئی دنوں تک بھوکا رہنا پڑے گا،‘‘ گنیش کہتے ہیں۔
’’ساز و موسیقی ہماری بھوک نہیں مٹا سکتے،‘‘ ہوپون کہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز