کسی عورت کو ملے انصاف کا خاتمہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟
– بلقیس بانو
مارچ ۲۰۰۲ میں، گجرات کے داہود ضلع میں ۱۹ سالہ بلقیس یعقوب رسول کی ایک بھیڑ نے بے رحمی سے عصمت دری کی۔ وہ بھیڑ اتنے ہی پر نہیں رکی، بلکہ اس نے بلقیس کی تین سال کی بیٹی صالحہ سمیت ان کی فیملی کے ۱۴ اراکین کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس وقت بلقیس پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔
لِمکھیڑا تعلقہ کے رندھک پور گاؤں میں، اُس دن بلقیس کی فیملی پر حملہ کرنے والے لوگ اسی گاؤں کے رہنے والے تھے۔ وہ اُن سبھی کو جانتی تھیں۔
دسمبر ۲۰۰۳ میں، سپریم کورٹ کی ہدایت پر مرکزی تفتیشی ایجنسی (سی بی آئی) نے معاملے کی جانچ شروع کی؛ تقریباً ایک مہینہ بعد ملزمین کو گرفتار کر لیا گیا۔ اگست ۲۰۰۴ میں، سپریم کورٹ نے مقدمے کو ممبئی ٹرانسفر کر دیا، جہاں سماعت کے بعد جنوری ۲۰۰۸ میں سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے ۲۰ میں سے ۱۳ ملزمین کو قصوروار پایا۔ ان میں سے ۱۱ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
مئی ۲۰۱۷ میں، بامبے ہائی کورٹ نے سبھی ۱۱ مجرموں کی عمر قید کی سزا کو برقرار رکھا اور بری کیے گئے سات ملزمین کی رہائی کو خارج کر دیا۔
اس کے پانچ سال بعد، ۱۵ اگست ۲۰۲۲ کو گجرات حکومت کے ذریعے تشکیل کردہ جیل صلاح کار کمیٹی کی سفارش پر عمر قید کی سزا کاٹ رہے سبھی ۱۱ مجرموں کو رہا کر دیا گیا۔
کئی ماہرین نے ان مجرموں کی رہائی کے قانونی جواز پر سوال اٹھائے ہیں۔ یہاں، شاعر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے، بلقیس سے محو گفتگو ہے۔
ایک بار میرا نام بھی ہوتا بلقیس
تمہارے نام میں ایسا کیا رکھا ہے بلقیس
جو میری نظم کو تار تار کر
اس کے محکم قانون کو لہو لہان کر دیتا ہے
تمہارے نام میں ایسا کیا رکھا ہے بلقیس
جو آوارہ زبانوں کی گانٹھ باندھتا ہے
اور انہیں گفتار کے درمیاں تھام لیتا ہے
تمہاری آنکھوں میں وہ درد کے ابلتے ہوئے
سورج
میری آنکھوں میں بسی ہر اُس تصویر کو
دھندلا دیتے ہیں
جن سے میں، تمہارے غم سے نقش کھینچتا ہوں
وہ جھلستے ہوئے بے انتہا صحراؤں
اور مجنوں کے گرداب میں جوجھتی یادیں
ضبط ہو جاتی ہیں اُن آنکھوں کی ایک نظر میں
اُن تمام قدروں کو بوسیدہ کرتی ہیں جنہیں
میں مانتا ہوں
اور اس چھلاوے کی تہذیب کی بنیاد گرا دیتی
ہیں
جو کہ نا پائیدار ہے، ایک بار بار کا
دہرایا ہوا جھوٹ ہے
تمہارے نام میں ایسا کیا رکھا ہے بلقیس
جو سیاہیوں کو الٹ دیتا ہے کچھ اس طرح
کہ انصاف کی مورت کا سرخرو چہرہ داغ داغ کر
دیتا ہے
تمہارے خون سے لبریز یہ زمین
صالحہ کے نرم، ٹوٹے ہوئے سر کی طرح
ایک دن شرمسار ہو کے پھٹ جائے گی
جس ٹیلے کی چڑھائی کو تم نے اپنے بچے کھچے
لباس کو ڈھانپ کر سر کر لیا
شاید ہمیشہ ہی برہنہ رہے گا
جس پر صدیوں گھاس کا ایک تنکا نہ اُگے گا
اور ہر ہوا کا جھونکا جو اِس زمین سے گزرے
گا
بے کسی اور بے بسی کا کوسا پھونک کر جائے
گا
تمہارے نام میں ایسا کیا رکھا ہے بلقیس
جس سے میری مرد وادی مانوتا کا قلم
کائنات کے لمبے دائرے کا سفر کرتے ہوئے
بیچ راستے آتے آتے رک جاتا ہے
اور اس کی اخلاقی نوک کو توڑ دیتا ہے؟
شاید یہ نظم بھی
بے سود ہو کر رہ جائے گی
– ایک بے جان رحم کی فریاد کی طرح، ایک مشکوک قانونی داؤ کی مانند
–
ماسوا کہ تم اس کو چھو کر اس میں اپنی جرأت
سے جان پھونک دو
اس نظم کو اپنا نام دے دو، بلقیس
محض نام نہیں، اس نام کو تحریک دو
میرے نیم جاں عوام کو، جان دو بلقیس
میرے جڑوں سے ٹوٹے ہوئے ناموں کو قوت دو
اور میری اسیر کوششوں کو ٹوٹ پڑنا سکھا دو
ایسے کہ جیسے ہوں پھرتیلے سوالیہ نشان،
بلقیس
اور میری معذور زبان کی امداد کرو
اپنے لچیلے، سریلے کلام سے ایسے
تشبیہ ہو جیسے جرأت کی
کنیت ہو آزادی کی، بلقیس
انصاف کی ہم آہنگ ہو
انتقام کی ضد ہو، بلقیس
اور اُسے نوازو اپنے تخیل سے، بلقیس
تمہاری رات کی بہتی دھارا
انصاف کی آنکھوں کا کاجل بن جائے، بلقیس
بلقیس ایک نظم ہو، بلقیس ہو ایک نعرہ
بلقیس وہ گیت ہو پیارا
جو توڑ دے قلم کاغذ کا دائرہ
اور دور دور تک کھلے آسمان کی ہو اس کی
اڑان؛
تاکہ انسانیت کے وہ امن پرست کبوتر
اس خوں ریز سیارے کو اپنی آغوش میں
لے کر سہلائے، اور اُگل دے وہ سب
جو تمہارے نام میں ہے رکھا، بلقیس
کاش! ایک بار میرا نام بھی ہوتا بلقیس
مترجم: برہان قریشی