ہم نے دیکھا – لیکن ہمیں اس پر یقین نہیں ہوا۔ ہم ان کے قریب پہنچے، اپنی کار سے نیچے اترے، اور غور سے دیکھنے لگے۔ یہ حقیقت تھی، کوئی جھوٹ نہیں تھا۔ ہمیں اب بھی یقین نہیں ہو رہا تھا۔ رتن بسواس کے پاس پانچ بانس تھے، ان میں سے ہر ایک کی لمبائی ۴۰۔۴۵ فیٹ تھی، اور انہیں پورے توازن کے ساتھ سائیکل سے باندھا گیا تھا۔ وہ اس بوجھ کو اپنے گاؤں سے ۱۷ کلومیٹر دور، تریپورہ کی راجدھانی اگرتلہ کے ایک بازار تک، سڑک کے راستے کھینچتے ہوئے لے جا رہے تھے۔ اگر ان بانسوں کے نکلے ہوئے کناروں سے کوئی پتھر یا کوئی اور چیز ٹکرا جاتی، تو سائیکل، سائیکل کے مالک اور بانس زمین پر گر پڑتے اور وہ بری طرح زخمی ہو جاتے۔ بانس کی یہ خاصیت ہے کہ وہ دیکھنے میں تو بہت ہلکے لگتے ہیں، لیکن ہوتے بہت بھاری ہیں۔ بانس تھے تو کل پانچ، لیکن دیکھنے میں چار ہی لگ رہے تھے، کیوں کہ ان میں سے دو آپس میں اس طرح سے بندھے تھے گویا ایک ہی ہوں۔ اِن پانچ بانسوں کا وزن کل ملا کر ۲۰۰ کلوگرام تھا۔ بسواس یہ جانتے تھے۔ ہم سے بات کرکے وہ بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی اس سواری کی فوٹو کھینچنے کی بھی ہمیں اجازت دی۔ مگر انہوں نے ہمیں اس سائیکل کو کھینچنے کی اجازت نہیں دی، کیو ں کہ وہ اس کے خطرات سے واقف تھے۔
’مشکل سے پانچ فیٹ لمبی سائیکل پر آپ اتنے وزنی اور اتنے لمبے بانسوں کا توازن کیسے بناتے ہیں؟‘ یہ سوال سن کر وہ مسکراتے ہیں اور ہمیں وہ تختہ دکھاتے ہیں، جو کہ بانسوں کا ہی بنا ہوا ہے۔ ان میں سے دو بانسوں کو تو انہوں نے سائیکل کے آگے کی طرف کھڑا کرکے لگا رکھا ہے۔ اس کے علاوہ، پیچھے کے کیریئر پر بھی بانس تختوں پر ہی بندھے ہیں۔
اس طرح، دو بانس افقی پٹی کے ساتھ بندھے ہیں، جو اگلے تختے پر ٹکے ہوئے ہیں، اور پیچھے کی طرف بھی کیریئر پر بندھے تختے پر ٹکے ہوئے ہیں۔ بقیہ بڑے بانس سامنے کی طرف ہینڈل اور سیٹ پر رکھے ہوئے ہیں اور دونوں طرف کے ہی جوڑوں سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس طرح، ان بانسوں کو آپس میں جوڑ کر انہیں ایک ہی جگہ رکھا جا سکتا ہے۔ اس وجہ سے، سڑک پر چلتے وقت بانس آسانی سے ادھر ادھر ہِل نہیں سکتے ہیں۔ یہ کمر توڑ محنت کا کام ہے۔ بسواس اپنی روزی روٹی کمانے اور چار رکنی فیملی کا پیٹ بھرنے کے لیے جو کام کرتے ہیں ان میں سے یہ ایک ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں ہوں، میری بیوی اور دو بیٹے ہیں۔ میرا گاؤں جیرانیا بلاک (مغربی تریپورہ ضلع) میں ہے۔ میں دہاڑی مزدور ہوں۔ اگر کسی عمارت کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے، تو میں ایک مزدور کے طور پر کام کر لیتا ہوں۔‘‘ ورنہ، کھیتی کے سیزن میں وہ زرعی مزدور یا وزن ڈھونے والے بن جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’’نہیں۔ میں نے اِن بانسوں کو خود نہیں کاٹا۔ میرے لیے یہ کام بہت مشکل ہوتا۔ یہ بانس اُن سے خریدتا ہوں جو انہیں لے کر میرے گاؤں آتے ہیں۔‘‘ اور اگر یہ بانس اگرتلہ کے بازار میں فروخت ہو جائیں، تو انہیں ۲۰۰ روپے کا منافع ہو سکتا ہے۔ اُس وقت میرے ساتھ سنیل کلائی سفر کر رہے تھے جو تریپورہ سنٹرل یونیورسٹی کے شعبہ صحافت و ترسیل عامہ میں لکچرر ہیں۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ بسواس چاہتے تو بازار تک پہنچنے کے لیے کئی چھوٹے راستوں کا انتخاب کر سکتے تھے۔ مگر انہوں نے شاید ایسا اس لیے نہیں کیا، کیوں کہ اُن راستوں پر بانسوں کی لمبائی کے مطابق جگہ نہیں مل پاتی۔ اس کے بعد ہم لوگ اپنی کار میں بیٹھے اور اگلی منزل اَمباسا ضلع کی طرف چل پڑے۔ بسواس مخالف سمت میں چلے جا رہے ہیں، اس سائیکل کی ۴۰ فیٹ لمبی پونچھ ان کے پیچھے ہوا میں لہرا رہی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز