جموں و کشمیر کے اونچے پہاڑوں پر آپ کسی بکروال کو شاید ہی کبھی اکیلے دیکھ پائیں۔
یہ لوگ ہمالیہ کے اونچے پہاڑوں میں اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کے میدان تلاش کرنے کی خاطر بڑے بڑے گروپوں میں چلتے ہیں۔ محمد لطیف بھی ہر سال ان اونچے چراگاہوں یا بہک کی طرف جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’تین یا چار بھائی اپنی پوری فیملی کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ریوڑ کو سنبھالنا آسان ہوتا ہے کیوں کہ بھیڑ اور بکریاں اکٹھے چلتی ہیں۔‘‘ ان کا اشارہ تقریباً ۵۰۰۰ بھیڑ، بکریاں، گھوڑے، اور کچھ بکروال کتوں کے ایک ریوڑ کی طرف ہے، جو ہر سال ان کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔
بکروال اپنے سفر کی شروعات جموں کے میدانی علاقوں سے کرتے ہیں اور پیر پنجال اور ہمالیہ کے دوسرے پہاڑوں میں واقع چراگاہوں تک جاتے ہیں، اور اس طرح تقریباً ۳۰۰۰ میٹر کی اونچائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ گرمیوں کی شروعات ہونے سے تھوڑا پہلے یعنی مارچ کے آخر میں اونچائی کی طرف چلنا شروع کرتے ہیں، اور سردیوں کا موسم شروع ہونے سے پہلے یعنی ستمبر کے آس پاس وہاں سے واپس لوٹنے لگتے ہیں۔
اس دوران انہیں ایک طرف کا سفر طے کرنے میں تقریباً ۸-۶ ہفتوں کا وقت لگ جاتا ہے؛ سب سے آگے عورتیں، بچے، اور کچھ مرد چلتے ہیں۔ محمد لطیف بتاتے ہیں، ’’بڑے چراگاہوں کے پاس وہ ہم سے پہلے پہنچ جاتے ہیں اور ریوڑ کے پہنچنے تک ڈیرہ [کیمپ] تیار رکھتے ہیں۔‘‘ ان کا گروپ راجوری کے قریب ایک جگہ سے اونچائی کی طرف چلنا شروع کرتا ہے اور لداخ کے زوجیلا درّہ کے قریب واقع مینا مارگ تک کا سفر کرتا ہے۔
شوکت علی کاندل، جن کی عمر ۳۰-۲۵ سال کی ہے، جموں کے کٹھوعہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ۲۰ بکروال خاندانوں کے ایک دوسرے گروپ کا حصہ ہیں۔ ستمبر ۲۰۲۲ کا مہینہ ہے، اور ان کا گروپ کشتواڑ ضلع – جہاں یہ لوگ کئی نسلوں سے اپنے گرمیوں کے دن گزارتے چلے آ رہے ہیں – کے دودھائی بہک (اونچے چراگاہ) سے لوٹ رہا ہے۔ بیچ میں انہوں نے برف سے بھری وروَن وادی پار کی ہے۔ شوکت کہتے ہیں، ’’ہم اگلے مہینے کٹھوعہ پہنچیں گے۔ راستے میں ہمیں چار یا پانچ جگہ اور رکنا ہے۔‘‘
بکروال سال بھر گھومتے رہتے ہیں کیوں کہ ان کی بھیڑوں کو ایک جگہ بند کرکے چارہ نہیں کھلایا جا سکتا؛ انہیں کھلے میں چرنے کی عادت ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنے ریوڑ کے آرام اور چارے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں کیوں کہ مویشی ہی ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ ہیں – کشمیر کی تمام تقریبات میں بھیڑ بکریوں کے گوشت کی اونچی قیمت ملتی ہے۔ شوکت کے ایک بزرگ رشتہ دار کہتے ہیں، ’’بھیڑ اور بکریاں ہمارے لیے کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ [مقامی] کشمیروں کے پاس اخروٹ اور سیب کے درخت ہیں [جن سے ان کی آمدنی ہوتی ہے]۔‘‘ ان کے اس سفر میں گھوڑے اور خچر بھی اہمیت رکھتے ہیں: جن کی ضرورت صرف سیاحوں کو ہی نہیں پڑتی، بلکہ یہ فیملی کے ممبران کو بھی بھیڑ بکریوں کے بچے، اون، پانی، اور روزمرہ کی ضروریات کے سامان ڈھونے میں مدد کرتے ہیں۔
دن کے شروع میں ہم لوگ شوکت کی بیوی، شمع بانو کے ساتھ پہاڑ کی تیز ڈھلان سے چلتے ہوئے ان کے کیمپ تک آئے۔ ان کے سر پر پانی کا ایک بڑا برتن رکھا ہوا تھا جسے انہوں نے ندی سے بھرا تھا۔ پانی لانے کا کام اکثر عورتیں ہی کرتی ہیں جنہیں یہ کام روزانہ کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ سفر کے دوران بھی وہ یہ کام کرتی ہیں۔
خانہ بدوش برادری، بکروال کو ریاست میں درج فہرست قبیلہ کا درجہ حاصل ہے۔ سال ۲۰۱۳ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ان کی آبادی ۱۱۳۱۹۸ ہے۔ پورے جموں و کشمیر کا سفر کرنے کے دوران یہ لوگ باغوں میں سیزن کے حساب سے مزدوری کا کام بھی کر لیتے ہیں۔ سالانہ ایک ہی علاقے کی طرف مہاجرت کرنے کی وجہ سے کشمیری باشندوں کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔ لہٰذا، آس پاس کے گاؤوں کی جو عورتیں اکثر اپنے مویشیوں کو چرانے باہر نکلتی ہیں، وہ ان کے خیموں میں آرام سے بیٹھ کر ان کے ساتھ بات چیت کرتی ہیں۔
زہرہ (جن کی عمر ۷۰ سے ۸۰ سال کے درمیان ہے) کہتی ہیں، ’’ہمارا ریوڑ چھوٹا ہے، پھر بھی ہم لوگ ہر سال مہاجرت کرتے ہیں کیوں کہ ہمارے آدمیوں کو [اس سفر کے دوران] کچھ اضافی کام مل جاتا ہے۔ نوجوان لوگ لکڑیاں کاٹنے چلے جاتے ہیں یا مقامی کشمیریوں کے لیے اخروٹ اور سیب اتارنے کا کام کرتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ کی روایتی کشیدہ کاری سے تیار کی گئی ٹوپی پہن رکھی ہے جسے یہاں کی کچھ بکروال عورتیں پہنتی ہیں۔ وہ جموں میں واقع اپنے گھر کی طرف لوٹتے ہوئے، پہاڑی گاندر بل ضلع کے کنگن گاؤں میں ایک نہر کے کنارے اپنی فیملی کے بقیہ لوگوں کے ساتھ ٹھہری ہوئی ہیں۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اگر یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا تب بھی ہم لوگ مہاجرت کریں گے، پتہ ہے کیوں؟ گرمیوں میں میدانی علاقوں کی گرمی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی!
*****
’’وہاں لگے باڑ کو دیکھئے۔‘‘
بکری کے دودھ سے بنی ملائی دار گلابی رنگ کی گرما گرم چائے کی چسکی لیتے ہوئے غلام نبی کاندل کہتے ہیں، ’’پرانے دن چلے گئے،‘‘ وہ بغیر باڑ والے علاقوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں جس کے وہ عادی تھے۔ گھاس کے میدانوں اور عارضی کیمپ لگانے کی جگہوں کے بارے میں اب وہ بے چینی اور غیر یقینی کے شکار ہیں۔
اگلے پہاڑ پر لگائی گئی نئی باڑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے سنا ہے کہ اگلے سال آرمی اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے لے گی۔‘‘ ہمارے ارد گرد بیٹھے ہوئے دوسرے بکروال اپنی برادری کے اس بزرگ کی باتیں سن رہے ہیں، ان کے چہروں پر بھی فکرمندی کے نشان ظاہر ہو رہے ہیں۔
اتنا ہی نہیں۔ اب تو گھاس کے کئی میدانوں کو سیاحتی مقامات میں تبدیل کیا جا رہا ہے؛ سون مرگ اور پہل گام جیسے مقبول سیاحتی مقامات اس سال سیاحوں سے بہت زیادہ بھرے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے مویشیوں کے لیے یہ مقامات گرمیوں میں چرنے کے لیے اہم جگہیں ہیں۔
برادری کے ایک بزرگ (جو اپنا نام نہیں بتانا چاہتے) نے ہم سے کہا، ’’یہ [ریاست] سرنگوں اور سڑکوں پر کتنا پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ اب ہر جگہ سڑکیں اچھی ہونے والی ہیں، جو کہ سیاحوں اور مسافروں کے لیے اچھی بات ہے لیکن ہمارے لیے نہیں۔‘‘
وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جن علاقوں میں گاڑی چلانے لائق سڑکیں نہیں ہیں، وہاں بکروال لوگ اپنے گھوڑے کرایے پر دے کر آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’سیاحتی سیزن میں ہماری آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہوتا ہے۔‘‘ لیکن اس کے لیے، انہیں بچولیوں اور مقامی باشندوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے، صرف گھوڑے کرایے پر دینے کے معاملے میں ہی نہیں، بلکہ ٹورسٹ یا ٹریکنگ گائیڈ کے طور پر کام تلاش کرتے وقت، اور مقامی ریستوراں میں بھی۔ سال ۲۰۱۳ کی اس رپورٹ کے مطابق، بکروالوں کی اوسط شرح خواندگی ۳۲ فیصد ہے، اس لیے دوسرے کام ان کی پہنچ سے کافی دور ہیں۔
بکروال لوگ اون بیچنے کا بھی کام کرتے ہیں، جس سے کشمیری شال اور قالین بنائے جاتے ہیں۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ، وادی کشمیر اور گریزی جیسی دیسی بھیڑ کی نسلوں کی کراس بریڈنگ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی میرینو جیسی نسل کے ساتھ کرائی جا رہی ہے، تاکہ کوالٹی کو بہتر کیا جا سکے۔ اس معاملے میں بھی، بکروالوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں کئی لوگوں نے بتایا کہ ’’کچھ سال پہلے ایک کلو اون کی قیمت تقریباً ۱۰۰ روپے ہوا کرتی تھی۔ اب ہمیں ۳۰ روپے بھی نہیں ملتے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ بھیڑ بکریوں کے بال کترنے والی اکائیوں تک آسانی سے پہنچ نہ ہونے اور ریاست کی طرف سے کی جانے والی اندیکھی کی وجہ سے قیمتوں میں تیزی سے گراوٹ آ رہی ہے۔ یہ لوگ جو قدرتی اون بیچا کرتے تھے، اسے ایکریلک اون جیسے سنتھیٹک متبادل سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ چونکہ کئی چراگاہوں تک تاجروں یا دکانوں کی رسائی نہیں ہے، اس لیے بکروالوں کو اپنے اون گھوڑے یا خچروں پر لاد کر چلنا پڑتا ہے اور پھر بازار تک پہنچانے کے لیے انہیں کوئی گاڑی کرایے پر لینی پڑتی ہے۔ اس سال، کئی بکروالوں نے اپنی بھیڑوں کے بال کترنے کے بعد اون کو گھاس کے میدانوں میں ہی چھوڑ دیا کیوں کہ اسے ڈھونے کی قیمت اس سے کہیں زیادہ تھی جو بازار میں اسے بیچ کر وہ حاصل کر پاتے۔
وہیں، بکریوں کے بال کا استعمال وہ ٹینٹ یا رسیاں بنانے میں کرتے ہیں۔ اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان تنی ہوئی ایک رسی کو کھینچتے ہوئے شوکت ہمیں بتاتے ہیں، ’’کگنی بکریاں اس کے لیے اچھی ہوتی ہیں، ان کے بال لمبے ہوتے یں۔‘‘ کگنی، بکریوں کی وہ نسل ہے جس سے انہیں مہنگے کشمیری اون حاصل ہوتے ہیں۔
اپنی منزل تک تیزی سے پہنچنے میں بکروالوں کی مدد کرنے کے لیے، سال ۲۰۲۲ میں حکومت نے انہیں اور ان کے مویشیوں کو گرمیوں کے چراگاہوں تک ٹرک سے پہنچانے کی پیشکش کی تھی۔ یہ لوگ جو سفر ہفتوں میں طے کرتے تھے، وہ ایک دن میں ہی پورا ہو گیا تھا۔ لیکن جن لوگوں نے ٹرکوں سے جانے کے لیے حامی بھری تھی ان میں سے کئی لوگ یہ سہولت حاصل نہیں کر پائے کیوں کہ ٹرکوں کی تعداد بہت کم تھی۔ دوسروں کے لیے، یہ پیشکش اس وقت آئی جب وہ پہلے ہی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ بھیڑ پروری کے ایک افسر نے تسلیم کیا کہ، ’’بکروال خاندانوں کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ٹرک بہت کم تھے۔ زیادہ تر لوگ یہ خدمات حاصل نہیں کر پائے ہیں۔‘‘
*****
’’میرا یہ بچہ ۲۰ دن پہلے ہی پیدا ہوا تھا۔‘‘
مینا اختر ٹینٹ کے کونے میں پڑے کپڑوں کے ایک چھوٹے سے بنڈل کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ نوزائیدہ بچے کو بنڈل میں مشکل میں تب تک ہی رکھا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ رونا نہ شروع کر دے۔ مینا نے اس بچے کو پہاڑوں کے دامن میں بنے ایک اسپتال میں جنم دیا تھا۔ انہیں وہاں اس لیے لے جانا پڑا کیوں کہ بچے کی پیدائش کی متوقع تاریخ پار کر چکی تھی اور انہیں درد زہ نہیں ہو رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں، ’’مجھے کمزوری محسوس ہونے لگی تھی۔ دوبارہ طاقت حاصل کرنے کے لیے میں نے حلوہ کھانا شروع کر دیا تھا، اب پچھلے دو دنوں سے روٹی کھا رہی ہوں۔‘‘ مینا کے شوہر آس پاس کے گاؤوں میں لکڑی کاٹنے کا کام کرتے ہیں اور انہیں اس کام سے جو پیسہ ملتا ہے، اسی سے ان کا گھر چل رہا ہے۔
چائے بنانے کے لیے پلاسٹک کے ایک پیکٹ سے برتن میں دودھ ڈالتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ابھی ہمیں دودھ نہیں مل پا رہا ہے۔ بکریاں بچے دینے والی ہیں۔ بچے جب پیدا ہو جائیں گے، تو ہمیں پھر سے دودھ ملنے لگے گا۔‘‘ بکروال، خاص کر ان کی عورتوں اور بچوں کے لیے گھی، دودھ، اور پنیر غذائیت کے ضروری وسائل کے طور پر کام آتے ہیں۔
اونچے پہاڑوں میں قیام کے دوران جب یہ لوگ ٹینٹ سے خود کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تب انتہائی چھوٹے بچوں کو ٹینٹ کے اندر کھانا پکانے والی آگ اور کمبل سے گرم رکھا جاتا ہے۔ چلنے پھرنے لائق بچے کیمپ کے چاروں طرف آزادی سے گھومتے اور ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے رہتے ہیں۔ انہیں کتوں کی رکھوالی کرنے یا جلانے کی لکڑیاں اور پانی لانے جیسا چھوٹا موٹا کام سونپ دیا جاتا ہے۔ مینا کہتی ہیں، ’’بچے پہاڑ سے نکلنے والے پانی کے چشمے میں دن بھر کھیلتے ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ لداخ کی سرحد کے قریب واقع مینا مارگ کے سردیوں کے بہک کو چھوڑنے پر انہیں دکھ ہوگا: ’’وہاں پر زندگی اچھی ہے۔‘‘
شوکت کے ڈیرہ سے تعلق رکھنے والی خالدہ بیگم بھی اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ چل رہی ہیں، لیکن ان کی نوجوان بیٹی جموں میں ہی ایک رشتہ دار کے پاس ٹھہری ہوئی ہے تاکہ اسکول جا سکے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میری بیٹی وہاں پر اچھی طرح پڑھائی کر سکتی ہے۔‘‘ کئی بچوں کو پڑھنے کا موقع نہیں مل پاتا ہے اور انہیں اپنے کنبوں کے ساتھ ہی مہاجرت کرنی پڑتی ہے۔ ریاست کے ذریعے موبائل اسکول چلانے کی کوششیں بارآور نہیں ہو پائی ہیں کیوں کہ ان اسکولوں تک کچھ ہی بکروالوں کی رسائی ہے۔
حکومت نے موبائل اسکول میں جن ٹیچروں کی تقرری کی تھی، وہ ہمیشہ نظر نہیں آتے۔ پریشان نظر آ رہے ۳۰-۲۰ سال کی عمر کے خادم حسین کہتے ہیں، ’’وہ یہاں نہیں آتے ہیں، لیکن انہیں تنخواہ ملتی ہے۔‘‘ خادم کا تعلق بکروالوں کے اس گروپ سے ہے جو کشمیر کو لداخ سے جوڑنے والے زوجیلا درّہ کے بالکل قریب اپنا کیمپ لگاتا ہے۔
فیصل رضا بوکڑا کہتے ہیں، ’’نوجوان نسل زیادہ تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ وہ خانہ بدوش زندگی کی بجائے دیگر متبادل اپنا رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ [خانہ بدوش] زندگی گزارنا مشکل ہے۔‘‘ فیصل رضا، جموں میں گوجر بکروال یوتھ ویلفیئر کانفرنس کے صوبائی صدر ہیں اور لوگوں کو بے گھر کیے جانے اور نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے پیر پنجال کے علاقوں میں پیدل مارچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمارے نوجوانوں کے لیے یہ آسان نہیں ہے۔ ہم جب لوگوں سے بات کرتے ہیں، تو ہمیں ابھی بھی کافی بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ایسا زیادہ تر شہروں میں ہوتا ہے۔ [جانبداری] ہمیں بری طرح متاثر کرتی ہے۔‘‘ فیصل رضا گوجر اور بکروالوں کو بطور درج فہرست قبائل اپنے حقوق کے تئیں بیدار کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
سرینگر شہر کے باہری علاقے میں واقع زکورہ میں ۱۲ بکروال خاندان رہتے ہیں – ایک ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم پروجیکٹ کی وجہ سے سردیوں کے ان کے بہک کو اجاڑ دیا گیا تھا، اس لیے وہ یہاں آکر آباد ہو گئے ہیں۔ الطاف (بدلا ہوا نام) یہیں پیدا ہوئے تھے اور اب سرینگر میں ایک اسکول کی بس چلاتے ہیں۔ اپنی برادری کے دیگر لوگوں کی طرح مہاجرت نہ کرنے کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں، ’’میں نے اپنے بزرگوں، بیمار والدین اور بچوں کے لیے یہیں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘‘
غلام نبی، جنہوں نے اپنی پوری زندگی پہاڑوں میں آزادی سے گھومتے ہوئے گزاری ہے، اپنی کمیونٹی کے غیر یقینی مستقبل اور باڑ، سیاحت اور بدلتی ہوئی زندگی سے درپیش متعدد خطرات کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ میرا درد کیسے جان پائیں گے؟‘‘
رپورٹرز اپنی مدد اور مہمان نوازی کے لیے فیصل بوکڑا، شوکت کاندل، اور اشفاق کاندل کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
رتائن مکھرجی، سینٹر فار پیسٹورلزم کی طرف سے ملنے والے ایک آزادانہ سفری گرانٹ کے ذریعے گلہ بان اور خانہ بدوش برادریوں کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہیں۔ سینٹر نے اس رپورتاژ کے مواد پر اپنے کسی ادارتی کنٹرول کا اظہار نہیں کیا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز