میرا تعلق جام نگر ضلع کے لال پور تعلقہ میں واقع سِنگاچ گاؤں کی ایک رباری فیملی سے ہے۔ لکھنے کا کام میں پہلی بار کر رہی ہوں، اور کورونا دور میں ہی میں نے لکھنا شروع کیا تھا۔ میں چرواہا برادریوں کے ساتھ کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کمیونٹی موبلائزر کے طور پر کام کرتی ہوں۔ میں فاصلاتی تعلیم کے ذریعے گھر سے ہی آرٹس میں گریجویشن کی پڑھائی کر رہی ہوں، اور گجراتی میرا مین سبجیکٹ ہے۔ گزشتہ ۹ مہینوں سے، میں اپنی برادری کے لوگوں میں تعلیم کے تئیں بیداری اور دلچسپی پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہوں۔ میری برادری کی عورتوں میں تعلیمی سطح تشویش ناک حد تک کم ہے۔ یہاں آپ کو بہت کم ایسی عورتیں ملیں گی جو پڑھی لکھی ہیں۔
بنیادی طور پر ہم لوگ چرواہا برادری تھے، اور چارن، بھارواڑ، اہیر جیسی دیگر برادریوں کے ساتھ مل کر بھیڑ پالنے کا کام کرتے تھے۔ ہمارے بہت سے لوگوں نے اب اپنے روایتی پیشہ کو چھوڑ دیا ہے اور بڑی کمپنیوں میں یا کھیتوں میں دہاڑی مزدوری کرتے ہیں۔ ہماری برادری کی کئی عورتیں کارخانوں اور کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ سماج ان عورتوں اور ان کے کام کو تسلیم کر لیتا ہے، لیکن میری طرح اکیلے کام کرنے والی عورتوں کو سماجی طور پر قبولیت کا درجہ مشکل سے ہی مل پاتا ہے۔
جس وقت وہ یہ نظم لکھ رہی ہے، بیک گراؤنڈ میں ایک جوڑے کی خیالی بات چیت سنائی دینے لگتی ہے:
بھرت: سنو، تمہاری نوکری یا کریئر ایک چیز ہے، لیکن میرے والدین…ان کی تو اچھی طرح خدمت کرنی چاہیے۔ تم کو اندازہ نہیں ہے کہ آج میں جو کچھ بھی ہوں ویسا بنانے کے لیے انہوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔
جسمیتا: اوہ…ہاں، مجھے کیسے پتہ ہوگا۔ میرے والدین تو مجھے کہیں سے اٹھا کر لائے تھے نا، جب میں پوری طرح بنی بنائی تیار ہو گئی تھی۔
بھرت: تم مجھے طعنہ کیوں مارتی ہو؟ میں بس اتنا کہہ رہا ہوں کہ میں ہوں نا کمانے کے لیے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم گھر سنبھالو اور آرام سے رہو۔ اور کیا چاہیے تم کو؟
جسمیتا: واہ، مجھے اور کیا چاہیے۔ جیسے میں کوئی سامان ہوں… جس کے اندر جان نہیں ہے۔ اور کسی سامان کے اندر تو خواہشیں پنپ نہیں سکتیں…ہیں نا؟ میں گھر کے کام کروں گی اور مزے سے رہوں گی، مہینے کے آخر میں تمہارے سامنے ہاتھ پھیلاؤں گی اور پیسے مانگوں گی؛ اور اگر تم کو غصہ آیا، تو وہ بھی برداشت کر لوں گی۔ کیوں کہ تم تو کام پر جاتے ہوگے، اور میں گھر پر بیٹھی رہتی ہوں گی۔
بھرت: تم پاگل ہو۔ ارے تم اس خاندان کی عزت ہو۔ میں تمہیں باہر کام کیسے کرنے دے سکتا ہوں۔
جسمیتا: ہاں، ہاں، تم صحیح کہہ رہے ہو۔ میں تو بھول ہی گئی کہ جو عورتیں باہر کام کرتی ہیں، تمہارے لیے وہ بے شرم ہیں، بد کردار ہیں۔
سچائی یہی ہے۔ ہر کوئی ہمیں ہمارے فرائض کی یاد دلانے کے لیے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ وہ یہ بتانے کے لیے بے قرار رہتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، لیکن ہم کیا چاہتے ہیں، یہ کوئی نہیں پوچھتا…
حقوق
میں نے کاغذ کا وہ صفحہ کھو دیا ہے
جس پہ میں نے اپنے حقوق کی فہرست لکھی تھی
اور میرے گرد و پیش
میری آنکھوں کے سامنے
صرف میرے لوازمات اور مجبوریاں جھومتی ہیں
میں ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی
ہوں
کبھی میرے حقوق بھی میرے نام سے ادا ہوں
کبھی ایسا کرکے بھی آزما لو
کبھی مجھ سے بھی پوچھ لو کہ
میں چاہتی کیا ہوں
تم ایسا نہیں کر سکتی ہو
تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتی ہو
کبھی یہ بول کر بھی آزما لو
کہ تم وہ سب کر سکتی ہو جو تمہاری آرزو ہو
میری فکر بے انتہا ہے
اور میری جرأت بے پناہ
لیکن کبھی میرے خوابوں کو
اپنی ہتھیلی پر سجا کر تو دیکھو
اس چہار دیواری کو میں
تم سے کہیں بہتر جانتی ہوں
کبھی اس نیلے آسمان میں مجھے
کھلی اڑان بھی تو لینے دو
صدیوں سے عورتوں کا دم گھونٹا گیا ہے
مجھے سانس لینے دو
پہناوے اور گھومنے پھرنے
کی ہی آزادی نہیں
کبھی مجھ سے یہ بھی پوچھ لو کہ
میری زندگی کی جستجو کیا ہے؟
ترجمہ: نثر والے حصہ کا ترجمہ محمد قمر تبریز نے ، اور نظم والے حصہ کا ترجمہ برہان قریشی نے کیا ہے۔