تین سالوں میں کسی نے بھی ہل بنانے کا آرڈر نہیں دیا تھا۔ نہ ہی کسی نے کلہاڑی اور پھاوڑا بنانے کو کہا تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ کسانوں کے لیے اوزار اور آلات بنانے والے بنگارو رامچاری مصیبت میں تھے۔ وہ برسوں سے مکند پورم میں اکیلے بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ ان کے پاس نہ تو کھیت تھے اور نہ ہی مویشی، وہ کسان بھی نہیں تھے۔ لیکن ان کی حالت اس بات پر منحصر تھی کہ نلگونڈہ کے اس گاؤں میں کھیتی باڑی کی حالت کیسی چل رہی ہے۔

یہاں کے ایک سیاسی کارکن، ایس شری نواس کہتے ہیں، ’’جب کھیتی کی حالت خراب ہوتی ہے، تو سب کی حالت خراب ہو جاتی ہے۔ صرف کسان ہی اس سے متاثر نہیں ہوتے۔‘‘ رامچاری کی حالت بہت خراب تھی۔ ان کی موت بھوک کی وجہ سے ہوئی۔ یہ گاؤں ناگارجن ساگر باندھ پروجیکٹ کی بائیں نہر کے کنٹرول والے علاقے میں پڑتا ہے۔ یہاں برسوں پہلے تک اچھی کھیتی ہوا کرتی تھی۔

اس زرعی بحران کا اثر صرف کسانوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ کمہار، چمڑے کا کام کرنے والے، بڑھئی اور غیر زرعی کام کرنے والے دیگر بہت سے لوگ اس زرعی بحران کی چپیٹ میں آئے ہیں، جس کی وجہ سے ریاست کے کسان خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ سے، زراعت سے جڑے دیگر پیشے بھی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔

رامچاری کی بیوی، ارونا بتاتی ہیں، ’’میں یہاں نہیں تھی، اور وجے واڑہ کی ایک چپل کمپنی میں کام کر رہی تھی۔‘‘ ووڈّرنگی (بڑھئی) ذات کی عورتیں عموماً کام کی تلاش میں ہجرت نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ میں پہلے کبھی مزدوری کے لیے باہر نہیں گئی تھی۔ لیکن یہاں کام ملنے کی کوئی امید نہیں تھی۔‘‘ اس لیے، وہ ایک ماہ قبل ہی اپنے تین بچوں کو شوہر کے پاس چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔

شری نواس بتاتے ہیں، ’’رامچاری کے پاس تقریباً ۴۰ گاہک ہوا کرتے تھے۔ وہ انہیں مزدوری کے عوض دھان دیا کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے انہیں سال میں ۷۰ کلوگرام دھان دیے۔‘‘ اس طرح، انہیں جو تقریباً ۲۸۰۰ کلو ملتے تھے ان میں سے وہ اپنی فیملی کی ضرورت کے حساب سے دھان نکال لیتے تھے اور باقی کو بازار میں بیچ دیتے تھے۔ ’’۷۰ کلو کے بدلے انہیں ۲۵۰ روپے کے آس پاس مل جاتے تھے۔ یاد رہے کہ یہ دھان کے لیے تھا، چاول کے لیے نہیں۔ پھر بھی، ان کی فیملی کو جتنی ضرورت تھی اسے نکالنے کے بعد، وہ اس طریقے سے ایک سال میں ۴۰۰۰ روپے کما سکتے تھے۔ اس کے سہارے ہی وہ فیملی کا خیال رکھتے تھے۔‘‘

ان کے پاس پہلے اس سے بھی زیادہ گاہک ہوا کرتے تھے، لیکن کمائی کے سیزن کے ٹھیک بیچ میں ہی بحران آ گیا۔ گاؤں میں ۱۲ ٹریکٹروں کے آنے سے کام گھٹنے لگا۔ کے لِنگیّا کہتے ہیں، ’’اس سے ان کو نقصان پہنچا جو ہاتھ سے کاریگری کرتے ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی اُن کے جیسے دوسرے بے زمین مزدوروں کی حالت خراب ہونے لگی۔ رامچاری کے لیے یہ ایک بڑا دھچکہ تھا۔ لیکن وہ اپنے کام میں لگے رہے، اور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح زندگی کی گاڑی چلتی رہے۔ ارونا بتاتی ہیں، ’’ان کے پاس کوئی اور ہنر نہیں تھا۔‘‘ انہوں نے پانچویں کلاس تک پڑھائی کی تھی، جب کہ ارونا چوتھی کلاس پاس ہیں۔

PHOTO • P. Sainath

ارونا اپنے بچوں کو شوہر رامچاری کے پاس چھوڑ کر، ایک مہینہ سے مزدوری کرنے کے لیے باہر گئی ہوئی تھیں

ٹریکٹر تو صرف شروعات تھی۔ سال ۱۹۹۰ کی دہائی میں زرعی شعبہ میں کوئی سرمایہ کاری نہیں ہوئی، نہ تو سرکاری اور نہ ہی پرائیویٹ۔ فصلوں کی بربادی کے ساتھ ہی بیکاری آئی۔ کسانوں کے پاس پیسے ہی نہیں تھے، اس لیے وہ اپنے پرانے اوزاروں اور آلات سے ہی کام چلانے لگے۔ رامچاری کے لیے یہ ایک تباہی کی طرح ہی تھا۔ گاؤں کے لوگ سوال کرتے ہیں، ’’ہم اوزاروں کو کس سے بدلتے؟ ہم اس کا خرچ کہاں سے اٹھاتے؟ نئے اوزاروں سے ہم کیا کرتے؟‘‘ ساتھ ہی، پرانے اور خراب ہو چکے اوزاروں نے باقی ماندہ کھیتی کو بھی برباد کرنا شروع کر دیا۔

اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا کہ نہر میں تھوڑا پانی ہے یا بالکل بھی نہیں ہے۔

دریں اثنا، ہر کوئی قرضدار ہو گیا۔ کھیتی کی لاگت بڑھنے لگی تھی اور فصلیں برباد ہو رہی تھیں، اس لیے بہت سے لوگوں نے گزارہ کے لیے قرض لینا شروع کر دیا۔ ۴۵ سالہ رامچاری، جو ایک باوقار اور ہنرمند کاریگر تھے، کو یہ راستہ پسند نہیں تھا۔ ان کا تو تقریباً ۶۰۰۰ روپے کا قرض بھی اس علاقے کے لحاظ سے حیران کن طریقے سے کم تھا۔

سوسائٹی کے ایک اہلکار، کے ریڈی بتاتے ہیں، ’’اس گاؤں پر صرف کوآپریٹو سوسائٹی بینک کا ۲۲ لاکھ روپے کا قرض ہے۔‘‘ انہوں نے گرامین بینک سے بھی تقریباً ۱۵ لاکھ روپے اور اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد سے ۵ لاکھ روپے قرض لے رکھے ہیں۔ بائیں بازو کے کارکن ایس شری نواس کہتے ہیں، ’’اور یہ بنیادی رقم نہیں ہے۔ مکند پورم کا قرض اس سے بھی زیادہ ہے، وہ بھی ساہوکاروں سے لیا گیا۔‘‘ شاید تین گنا زیادہ، یہاں کے لوگ بتاتے ہیں۔

اس کا مطلب ہے کہ ۳۴۵ خاندانوں والے اس گاؤں کا کل قرض ڈیڑھ کروڑ روپے کا ہے۔ زندگی کے گزارہ کے لیے ہونے والی رسہ کشی میں بدلتے ہی، کھیتی ڈوبنا شروع ہو گئی۔ اور زمین کی قیمت ۱۲۰۰۰۰ روپے فی ایکڑ سے نیچے گر کر ۶۰۰۰۰ روپے فی ایکڑ پر آ گئی۔ ضلع کے رِیوتو سَنگھم لیڈر، گنگی نارائن ریڈی کہتے ہیں، ’’عموماً، لوگ اپنی زمین کھونا نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اسے بیچنے کی خواہش رکھتے ہیں، انہیں کوئی خریدار نہیں مل رہا ہے۔‘‘

کچھ ٹریکٹر مالکوں نے اپنی مشینیں قرض دینے والوں ہاتھوں کھو دیں۔ اس سے رامچاری کو کوئی راحت نہیں ملی، کیوں کہ جن کسانوں کے پاس ٹریکٹر نہیں تھے وہ بھی اپنے اوزاروں کو بدل نہیں رہے تھے۔ شری نواس بتاتے ہیں، ’’ان کے پاس سال بھر میں صرف دو یا تین گاہک ہی رہ گئے تھے۔‘‘ اور اب حالیہ دنوں میں ہی، گاؤں والوں نے اپنے ۳۰ بیل بیچ دیے۔ اس سے بھی بڑھئی کا کام گھٹ گیا جو بیل کے استعمال کی کئی چیزیں تیار کرتا تھا۔

PHOTO • P. Sainath

گاؤں والے پوچھتے ہیں، ’ہم [زرعی] آلات کو کس چیز سے بدلیں گے؟ اور ہم نئے اوزاروں کا کریں گے کیا؟‘

اس کے بعد مہاجرت کا دور شروع ہوا۔ گنگی ریڈی کہتے ہیں، ’’پہلے ۵۰۰ مزدور روزگار کی تلاش میں ہر سال یہاں آیا کرتے تھے۔ اب وہ وقت نہیں رہا۔ اب ۲۵۰ لوگ کام کی تلاش میں یہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔‘‘

پچھلے سال پورا گاؤں بھوک مری کا سامنا کر رہا تھا۔ رامچاری، دوسروں کے مقابلے کچھ زیادہ بحران میں تھے۔ بدقسمتی سے ان لوگوں نے جو دو سب سے خراب سال کاٹے، اس دوران ہندوستان اِس ملک میں غریبوں کے ذریعے ادا کی جانے والی قیمت سے بھی کم قیمت پر اناج ایکسپورٹ کر رہا تھا۔ بڑھئی نے صرف ایک بار اپنے پڑوسی سے جب تھوڑا پیسہ اُدھار لیا تھا، تبھی وہ کچھ نوکالو (ٹوٹا ہوا چاول) اس پیسے سے خرید کر لایا تھا۔ بچا ہوا نوکالو اب بھی گھر میں پڑا ہوا ہے۔ ارونا میں ہمت نہیں ہے کہ وہ اسے پھینک سکیں۔

وہ جب شہر میں واقع کارخانہ میں مزدوری کرنے گئی ہوئی تھیں، گھر میں رامچاری بھوک سے تڑپ رہے تھے۔ ان کی پڑوسن موتھمّا بتاتی ہیں، ’’ہم ان کے بچوں کو اکثر کھانا کھلاتے تھے۔ لیکن وہ خود ایسے برتاؤ کرتا تھا جیسے کہ پوری طرح ٹھیک ہو۔ اپنے آخری ہفتہ میں اس نے ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا، جسے قبول کرنے میں اس کا ضمیر آڑے آتا تھا۔‘‘ پڑوسیوں کی حالت بھی خراب ہی تھی۔ پھر بھی ان کی مدد سے بچوں کا کام چلتا رہا۔ اس سال ۱۵ مئی کو رامچاری گر پڑے۔ اس سے پہلے کہ ارونا وجے واڑہ سے بھاگ کر ان کے پاس آتیں، وہ مر چکے تھے۔

رامچاری کئی محاذ پر بحران کا سامنا کر رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر مشکلوں نے اس ریاست کے کسانوں کو خودکشی کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔ انہوں نے آندھرا پردیش کی زراعت کو تباہ کر دیا ہے۔ صفر سرمایہ کاری۔ اونچی لاگت۔ فصل کی بربادی۔ بڑھتا ہوا قرض۔ سرکار کی مجرمانہ اندیکھی۔ ان کے کاریگری کی گھٹتی مانگ۔ ایسی اور بھی کئی تہیں ہیں…

ارونا اب اس امید میں جی رہی ہیں کہ حکومت ان کی فیملی کی مدد کے لیے آگے آئے گی۔ رامچاری نے خود جس ایک واحد سرکاری پروگرام کے لیے اَپلائی کیا تھا وہ ’ادھارنا‘ تھی، جس کے تحت کاریگروں کو نئے اوزار مہیا کرائے جاتے ہیں۔ لیکن ان اوزاروں کے آنے سے پہلے ہی بڑھئی کی موت ہو چکی تھی۔

اس اسٹوری کا ایک مختصر حصہ پہلے دی ہندو میں شائع کیا گیا تھا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ਪੀ ਸਾਈਨਾਥ People’s Archive of Rural India ਦੇ ਮੋਢੀ-ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਕਈ ਦਹਾਕਿਆਂ ਤੋਂ ਦਿਹਾਤੀ ਭਾਰਤ ਨੂੰ ਪਾਠਕਾਂ ਦੇ ਰੂ-ਬ-ਰੂ ਕਰਵਾ ਰਹੇ ਹਨ। Everybody Loves a Good Drought ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਪ੍ਰਸਿੱਧ ਕਿਤਾਬ ਹੈ। ਅਮਰਤਿਆ ਸੇਨ ਨੇ ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੂੰ ਕਾਲ (famine) ਅਤੇ ਭੁੱਖਮਰੀ (hunger) ਬਾਰੇ ਸੰਸਾਰ ਦੇ ਮਹਾਂ ਮਾਹਿਰਾਂ ਵਿਚ ਸ਼ੁਮਾਰ ਕੀਤਾ ਹੈ।

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique