پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا نے آج اپنے سات سال مکمل کر لیے۔ ہم نہ صرف وبائی مرض اور لاک ڈاؤن جیسے مشکل دور کو پار کرنے میں کامیاب رہے، بلکہ اس دوران ہم نے اپنا سب سے اچھا کام بھی کیا ہے۔
پچھلے سال لاک ڈاؤن کے اعلان کے پہلے دن، حکومت ہند نے میڈیا (پرنٹ اور الیکٹرانک دونوں) کو ضروری اشیاء اور خدمات کے زمرے میں شامل کر دیا۔ یہ ایک اچھا قدم تھا۔ اس سے پہلے ہندوستانی عوام کو صحافت اور صحافیوں کی اتنی زیادہ ضرورت کب پڑی تھی؟ ایسی تمام کہانیاں بتانی ضروری تھیں جن پر لوگوں کی زندگی اور ان کا معاش منحصر تھا۔ اس ملک کی بڑی میڈیا کمپنیوں نے اس کے بدلے کیا کیا؟ ۲۰۰۰ سے ۲۵۰۰ صحافیوں اور تقریباً ۱۰ ہزار سے زیادہ میڈیا کے غیر صحافی ملازمین کو نوکری سے نکال دیا۔
ایسے میں وہ ان بڑی کہانیوں کو کیسے کہتے؟ جب کہ انہوں نے تو اپنے کچھ سب سے بہترین صحافیوں کو نکال دیا تھا؟ جن کی نوکریاں سلامت نہیں رہیں، ان ہزاروں ملازمین کی تنخواہ میں ۴۰ سے ۶۰ فیصد کی کٹوتی کی گئی۔ صحافیوں کے سفر کرنے پر سخت پابندی لگا دی گئی تھی، لیکن ایسا ان کی صحت کو دیکھتے ہوئے نہیں، بلکہ لاگت میں کٹوتی کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اور جو تمام اسٹوری، خاص کر ۲۵ مارچ، ۲۰۲۰ کے بعد کے دو ہفتوں میں کی گئی، وہ بڑے پیمانے پر شہروں یا بڑے قصبوں تک محدود تھیں۔
اپریل ۲۰۲۰ کے بعد سے پاری نے اپنی ٹیم میں ۱۱ مزید لوگوں کی تقرری کی ہے، اور کسی کی بھی تنخواہ سے ایک پیسے کی بھی کٹوتی نہیں کی گئی۔ اور اگست ۲۰۲۰ میں، تقریباً پورے عملہ کا پروموشن کرتے ہوئے ان کی تنخواہوں میں بھی اضافہ کیا گیا۔
اپنی دیگر رپورٹوں (متنوع اور تفصیلی) کے علاوہ، وبائی مرض کی شروعات سے لے کر اب تک پاری نے تقریباً ۲۷۰ (زیادہ تر ملٹی میڈیا) اسٹوری اور ضروری دستاویزات شائع کی ہیں، جو لاک ڈاؤن کے دوران معاش سے متعلق مسائل پر مبنی تھیں۔ یہ کہانیاں ہمارے پاس ۲۳ ریاستوں سے آئیں، اور ہندوستان کے تقریباً تمام اہم علاقوں کی ترجمانی کرتی تھیں۔ اس میں دیہی علاقوں کی جانب مہاجرت کر رہے مزدوروں کے ساتھ ساتھ، ان علاقوں سے متعلق تمام کہانیوں کو ہم نے شامل کیا جن کے لیے صحافیوں نے لاک ڈاؤن کے دوران نقل و حمل کے وسائل کی غیر دستیابی کے باوجود سینکڑوں کلومیٹر کے سفر کیے۔ آپ کو ان کہانیوں پر ۶۵ سے زیادہ صحافیوں کے نام (بائی لائن) ملیں گے۔ وبائی مرض آنے سے کئی سال پہلے سے ہی پاری، مہاجر مزدوروں پر مبنی اسٹوری کر رہا تھا، اور اس کے لیے ۲۵ مارچ، ۲۰۲۰ کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں، اور جنہیں یہ بات نہیں معلوم ہے انہیں بتا دوں کہ پاری نہ صرف صحافت سے متعلق ایک پلیٹ فارم ہے، بلکہ ایک جیتا جاگتا آرکائیو بھی ہے۔ ہمارے پاس دیہی ہندوستان سے متعلق مضامین، رپورٹ، مقامی موسیقی، گانے، تصاویر اور فلموں کا سب سے بڑا آن لائن ذخیرہ ہے، اور ہم پوری دنیا میں دیہی علاقوں سے جڑی کہانیوں کے سب سے بڑے آرکائیو میں سے ایک ہیں۔ اور ہم ۸۳ کروڑ دیہی ہندوستانیوں سے جڑی کہانیوں کو انہی کی زبان میں سامنے لے کر آتے ہیں۔
اپنے قیام کے ابتدائی ۸۳ مہینوں میں پاری نے ۴۲ ایوارڈ جیتے، یعنی اوسطاً ہر ۵۹ دن میں ایک ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ ان میں سے ۱۲ بین الاقوامی ایوارڈ ہیں۔ اور کل ۱۶ ایوارڈ لاک ڈاؤن کے دوران کی گئی تمام اسٹوری کو ملے ہیں۔ اپریل ۲۰۲۰ میں، یونائٹیڈ اسٹیٹس لائبریری آف کانگریس نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے اپنی ویب آرکائیوز میں پاری کو شامل کیا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم آپ کی ویب سائٹ کو اس آرکائیو اور تاریخی ریکارڈ کا ایک اہم حصہ مانتے ہیں۔‘‘
پاری نے ہندوستان کی ۱۲ ریاستوں سے خواتین کی تولیدی صحت پر اسٹوریز کی ایک ایوارڈ یافتہ سیریز شائع کی، خاص کر ان ریاستوں سے جہاں تولیدی صحت کو لے کر خواتین کی حالت سب سے زیادہ نازک ہے۔ اس سیریز کی کل ۳۷ اسٹوریز میں سے ۳۳ اسٹوری وبائی مرض کے بعد لاک ڈاؤن کے دوران شائع ہوئی ہیں۔ یہ سیریز صحافت کے شعبہ میں ایسی پہلی ملک گیر کوشش ہے جس میں دیہی خواتین کے اپنے تجربات کے ذریعے ان کی تولیدی صحت سے متعلق حقوق کا جائزہ لیا گیا ہے۔
ہم نے سب سے مشکل وقت میں کام کرتے ہوئے دیکھا کہ ہمارے قارئین کی تعداد میں تقریباً ۱۵۰ فیصد اور ہمارے سوشل میڈیا پلیٹ فارم، جیسے انسٹا گرام پر فالوورز کی تعداد میں ۲۰۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے ضروری بات تو یہ ہے کہ انسٹا گرام پر پاری کے قارئین نے لاکھوں روپے کی مالی امداد ان اسٹوریز میں شامل لوگوں کو براہ راست بھجوائیں۔
اس کے علاوہ، ہم نے حال ہی میں منسوخ ہوئے زرعی قوانین کے خلاف چلی کسانوں کی تحریک پر ۲۵ صحافیوں اور فوٹوگرافر کے ذریعے لکھی گئی ۶۵ تفصیلی رپورٹوں کے ساتھ ساتھ دس اہم دستاویزات بھی شائع کیے۔ اس قسم کی رپورٹس آپ کو ’مین اسٹریم‘ میڈیا کے پلیٹ فارم پر نہیں ملیں گی۔ یہ اسٹوریز صرف دہلی کی سڑکوں سے ہی نہیں، بلکہ آدھا درجن ریاستوں سے شائع کی گئیں۔
ہماری اسٹوریز نے اس تاریخی تحریک میں شامل کسانوں کی ذاتی زندگی کو دیکھا: وہ کہاں سے آئے تھے، ان کے مطالبات کیا تھے، وہ کن باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ دہلی آکر اس تحریک کے لیے خیمہ زن ہونے کو مجبور ہو گئے، جب کہ اس کے سبب انہیں اپنی فیملی سے ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے لیے دور رہنا پڑا۔ ہم نے اس کی لابی کرنے والوں یا اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی بجائے عام کسانوں کی آواز پر توجہ دی۔ یہ پاری ہی تھا، جس نے اس تحریک کا تذکرہ پوری دنیا میں گزشتہ کئی برسوں میں ہوئے سب سے بڑے، پرامن، جمہوری احتجاجی مظاہروں کی شکل میں کیا۔ اوریہ تحریک بھی تو وبائی مرض کے درمیان ہی شروع ہوئی تھی۔
دسمبر ۲۰۱۴ میں انگریزی زبان میں میڈیا پلیٹ فارم کے طور پر شروع ہوا، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا (پاری) اب ایک ساتھ ۱۳ زبانوں میں شائع ہوتا ہے، اور جلد ہی دیگر زبانوں میں بھی دستیاب ہوگا۔ ہم برابری میں یقین رکھتے ہیں، اس لیے کسی بھی زبان میں لکھی اسٹوری کو ہم سبھی ۱۳ زبانوں میں شائع کرتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ ہندوستانی زبانیں دیہی ہندوستان کی روح ہیں، اور ہندوستان کی ہر ایک زبان آپ کی اپنی زبان ہے ۔ ہمارے ترجمہ نگاروں میں ڈاکٹر، ماہر طبیعیات، اساتذہ، فنکار، صحافی، خواتین خانہ، ماہر لسانیات، مصنف، انجینئر، طلبہ اور پروفیسر حضرات شامل ہیں۔ سب سے بزرگ ترجمہ نگار کی عمر ۸۴ سال اور سب سے نوجوان کی عمر ۲۲ سال ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ ہندوستان کے باہر رہتے ہیں جب کہ دیگرلوگ ہندوستان کے دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں انٹرنیٹ کنیکٹویٹی کا مسئلہ بہت زیادہ ہے۔
پاری کو کوئی بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس کی کوئی سبسکرپشن فیس نہیں ہے۔ کسی بھی مضمون کو پڑھنے کے لیے پیسے خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ہماری ویب سائٹ پر کسی اشتہار کو جگہ نہیں دی گئی ہے۔ پہلے سے ہی ایسے کئی میڈیا پلیٹ فارم موجود ہیں، جو اشتہارات کے ذریعے نوجوانوں کو غیر ضروری مصنوعات خریدنے کے لیے آمادہ کر رہے ہیں۔ اب ہم بھی ان میں شامل کیوں ہوں؟ ہمارے تقریباً ۶۰ فیصد قارئین ۳۴ سال سے کم عمر کے ہیں اور ان میں سے تقریباً ۶۰ فیصد لوگ ۱۸ سے ۲۴ سال کے ہیں۔ ہمارے ساتھ کام کرنے والے کئی رپورٹر، مضمون نگار اور فوٹوگرافر بھی ۱۸ سے ۲۴ سال کے ہیں۔
ہمارے نئے گوشہ، پاری ایجوکیشن کو شروع ہوئے ایک سال ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارے ہدف – مستقبل کے لیے نصاب تیار کرنے – کو لے کر بڑی تیزی سے آگے بڑھا ہے۔ تقریباً ۹۵ تعلیمی ادارے اور تعلیم کے شعبہ میں کام کر رہی ۱۷ تنظیمیں، پاری کو ایک نصاب کی شکل میں استعمال کر رہی ہیں اور اس کے توسط سے دیہی ہندوستان کے بارے میں سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ان میں سے ۳۶ ادارے ہمارے ساتھ کام کرتے ہوئے پاری پر مبنی نصاب تیار کر رہے ہیں، تاکہ ان کے طلبہ محروم طبقوں کے ساتھ سیدھے جڑ کر کام کریں۔ پاری ایجوکیشن نے ۶۳ الگ الگ شعبوں کے طلبہ کے ذریعے تحریر کردہ ۱۳۵ رپورٹوں کو شائع کیا ہے، جو زراعت، ختم ہو رہے ذریعہ معاش، جنسی مسائل جیسے موضوعات پر مبنی ہیں۔ جنوری ۲۰۲۱ سے، اس گوشہ کے تحت ۱۲۰ ویبناروں اور ہندوستان کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں کے ساتھ ساتھ دور دراز کے دیہی اسکولوں میں ورکشاپ منعقد کیے گئے ہیں۔
پاری کے لیے ’’دیہی‘‘ لفظ ہندوستان کے دور دراز کے علاقوں کی ترجمانی کرنے والا کوئی حسین لفظ نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ہندوستانی ثقافت کی مدح سرائی کرنے والا لفظ ہے۔ نہ ہی ہم اس لفظ کے سہارے کسی پرانی طرز زندگی کو یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جسے جمع کرنے اور اس کی نمائش کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔ پاری، دیہی ہندوستان کے ذریعے ’قوم‘ جیسے تصور کی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ان مختلف النوع روایات اور برتاؤ کی بات کرتا ہے، جن پر دیہی ہندوستان کی بنیاد قائم ہے۔ دیہی ہندوستان کی یہ تصویر جتنی خوبصورت اور شاندار ہے اتنی ہی بے رحم اور جابر بھی۔ پاری اپنے آپ میں ہم سبھی کے لیے تعلیم کا ایک پائیدار وسیلہ ہے – اور ہم عام ہندوستانیوں کے ہنر اور ان کے علم کا احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے دور کے کچھ سب سے اہم مسائل پر لکھتے ہوئے ان کی زندگی کے تجربات اور ان کی باتوں کو مرکز میں رکھتے ہیں۔
ہمارے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی پر شائع کردہ مضامین کی سیریز (ایوارڈ یافتہ) کو اقوام متحدہ ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) ایک کتاب کی شکل میں شائع کرے گا۔ یہ سیریز کسانوں، مزدوروں، ماہی گیروں، جنگلاتی باشندوں، سمندری کائی اکٹھا کرنے والوں، خانہ بدوش چرواہوں، شہد اکٹھا کرنے والوں، کیڑے کا کاروبار کرنے والے لوگوں وغیرہ کے تجربات اور ان کے بیانات پر مبنی ہیں۔ اور ماحولیاتی تبدیلی کے لحاظ سے حساس پہاڑی علاقوں، جنگلات، سمندر، ساحلی علاقوں، ندی بیسن، مونگے کے جزائر، ریگستان، خشک اور نیم خشک علاقوں کی حیاتیاتی زندگی سے جڑی کہانیاں ہیں…
روایتی میڈیا کے ذریعے بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال، عام قارئین کو خود سے دور کر دیتا ہے اور ایک قسم کی قدامت پرستی کو جنم دیتا ہے، جہاں ماحولیاتی تبدیلی کا مطلب صرف آرکٹک گلیشیئر کا پگھلنا، امیزون کے جنگلات کی تباہی اور آسٹریلیا میں لگی آگ ہے۔ وہیں دوسری طرف بین حکومت کانفرنس میں ہوئے معاہدوں یا اہم لیکن پیچیدہ زبان میں لکھی ہوئی آئی پی سی سی (ماحولیاتی تبدیلی پر بین حکومتی پینل) کی رپورٹس ہیں، جو مطالعہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ پاری کے رپورٹر ماحولیاتی تبدیلی کے مسائل کو اپنے قارئین کے سامنے اسٹوری کے ذریعے اس طرح پیش کرتے ہیں جس سے عام لوگ اس کے ساتھ اپنا رشتہ آرام سے جوڑ پاتے ہیں۔
جیسے جیسے ملک اپنی آزادی کے ۷۵ویں سال کی جانب بڑھ رہا ہے، ہم ہندوستان کے اُن آخری با حیات مجاہدین آزادی پر (مضامین، ویڈیو اور آڈیو کے توسط سے) لگاتار لکھ رہے ہیں جو ابھی تک زندہ ہیں۔ آنے والے ۷-۵ سالوں میں مجاہدین آزادی کی اس نسل کا کوئی بھی رکن زندہ نہیں رہے گا، اور ہندوستان کے بچے جدوجہد آزادی سے جڑے قصے ان لوگوں کی زبانی نہیں سن پائیں گے۔ پاری کے موجودہ پلیٹ فارم پر وہ ان لوگوں کو سن سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں، اور جدوجہد آزادی سے جڑی باتوں کو ان کے الفاظ میں پڑھ سکتے ہیں۔
ہم بھلے ہی بیحد کم وسائل کے ساتھ کام کرنے والا ایک نیا میڈیا پلیٹ فارم ہیں، لیکن ہندوستانی صحافت کے شعبہ میں ہم سب سے بڑا فیلوشپ پروگرام چلا رہے ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ تمام ۹۵ (جغرافیائی اور تاریخی طور پر اہم) خطوں اور ان کے دیہی علاقوں میں سے کوئی ایک مضمون ابھر کر سامنے آئے اور ان علاقوں سے جڑی کہانیاں سامنے لائے۔ ہمارے فیلوشپ پروگرام کے تحت منتخب کردہ تمام ۳۰ لوگوں میں سے آدھے سے زیادہ فیلو خواتین ہیں، اور ان میں سے کافی لوگ اقلیتی اور تاریخی طور پر سماجی و مالی اعتبار سے محروم برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان سات سالوں میں ہمارے ساتھ ۲۴۰ انٹرن کام کر چکے ہیں، جن میں سے ۸۰ انٹرن پاری ایجوکیشن پروگرام کے ساتھ جڑے ہیں، اور پاری کے ساتھ ۳-۲ مہینے کے ٹریننگ پروگرام میں شریک ہو کر ایک الگ قسم کی صحافت کے ہنر سیکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ، ہمارے پاس مختلف النوع ثقافتوں، زبانوں، فنون کی شکلوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی کسی بھی زبان میں دیہی خواتین کے ذریعے تخلیق کردہ اور گائے گئے گیتوں کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔ یعنی، دیہی مہاراشٹر اور کرناٹک کے کچھ گاؤوں میں خواتین کے ذریعے تخلیق کردہ اور گائے ہوئے ایک لاکھ ۱۰ ہزار گیتوں کے مجموعہ والا چکّی کے گانوں کا پروجیکٹ ہمارے پلیٹ فارم پر موجود ہے۔ ابھی تک، ان میں سے تقریباً ۶۹ ہزار گیتوں کا انگریزی ترجمہ ہماری ٹیم کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔
ہم نے فوک آرٹس، موسیقی، فنکاروں، کاریگروں، تخلیقی تصنیف، اور شاعری کو اپنے پلیٹ فارم پر جگہ دے کر ہندوستان کے مختلف حصوں سے آنے والی اسٹوریز اور ویڈیو کا ذخیرہ جمع کیا ہے۔ شاید ہمارا پلیٹ فارم ایسا واحد پلیٹ فارم ہے، جہاں ہندوستان کے دیہی علاقوں کی گزشتہ دو تین دہائیوں میں کھینچی گئی سفید و سیاہ تصاویر کا آرکائیو موجود ہے، جہاں دس ہزار تصویریں اس آرکائیو کا حصہ ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تصویریں کام کرتے ہوئے لوگوں کی ہیں، حالانکہ کچھ تصویروں میں وہ آرام کرتے ہوئے بھی مل جائیں گے۔
یہاں ہم اپنے چہرے پروجیکٹ کا ذکر کرنا چاہیں گے، جس کے تحت ہم ملک بھر کے لوگوں کے چہروں کی تنوع کا ذخیرہ جمع کر رہے ہیں۔ یہ چہرے لیڈروں یا مشہور شخصیات کے نہ ہو کر عام لوگوں کے چہرے ہیں۔ ہمارا مقصد ہے کہ ہمارے پاس ملک کے ہر ضلع اور ہر بلاک سے لوگوں کی تصویریں ہوں۔ ابھی تک ہمارے پاس ملک کے ۲۲۰ ضلعوں اور ۶۲۹ بلاک سے ۲۷۵۶ چہروں کی تصاویر دستیاب ہیں۔ ان تصاویر کو گریجویشن کی تعلیم حاصل کر رہے طلبہ سمیت کل ۱۶۴ فوٹوگرافرز نے کھینچا ہے۔ مجموعی طور پر، گزشتہ سات سالوں میں پاری نے اپنے پلیٹ فارم پر ۵۷۶ فوٹوگرافرز کے کام کو جگہ دی ہے۔
ہماری لائبریری میں دستیاب کسی بھی مواد پر آپ کو کوئی فیس نہیں ادا کرنی پڑتی، یہ پوری طرح سے مفت ہے۔ کوئی بھی ضروری رپورٹ، دستاویز، قانون سے متعلق معلومات، اور اشاعت سے باہر ہو چکی کوئی بھی کتاب ہو، پاری کی لائبریری میں سب موجود ہے، جہاں آپ انہیں ڈاؤن لوڈ یا پرنٹ کر سکتے ہیں اور مکمل حوالہ کے ساتھ آپ مفت میں ان کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس لائبریری کا ایک حصہ پاری ہیلتھ آرکائیو بھی ہے، جسے ہم نے وبائی مرض کے پہلے سال میں شروع کیا تھا اور اب اس پر صحت سے متعلق کل ۱۴۰ اہم رپورٹس اور دستاویز شامل ہیں، جن میں کئی چند دہائی پرانی ہیں، لیکن ان میں حالیہ رپورٹس بھی الیکٹرانک فارمیٹ میں دستیاب ہیں۔
پاری، سرکاری اور کارپوریٹ، دونوں قسم کی ملکیت یا کنٹرول سے آزاد ہے۔ اور ہم کسی اشتہار کو جگہ نہیں دیتے۔ حالانکہ، یہ ہماری آزادی کو تو یقینی بناتا ہے، لیکن ہم آپ قارئین کے تعاون اور مالی امداد پر منحصر ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی جملہ نہیں ہے۔ اگر آپ ہماری مدد نہیں کریں گے، تو ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے، براہ کرم آپ پاری کی مالی مدد کریں، ہماری آزادی کی حفاظت کریں، اور بہتر صحافت کو ایک موقع دیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز