’’کمپنی کے لوگ یہاں پر ہو رہے احتجاج سے خوش نہیں ہیں۔ اس کی وجہ سے نقل و حمل پر بہت برا اثر پڑا ہے اور کاروبار مشکل سے چل رہا ہے،‘‘ کنڈلی صنعتی علاقہ میں گھریلو سامان تیار کرنے والی ایک کمپنی میں بطور سپروائزر کام کرنے والے، ۲۲ سالہ نظام الدین علی کہتے ہیں۔ وہ ہریانہ- دہلی سرحد پر واقع سنگھو پر کسانوں کے احتجاج کے مقام سے تقریباً چھ کلومیٹر دور رہتے ہیں۔ (ہریانہ کے سونی پت ضلع میں واقع کنڈلی ایک پرانا گاؤں، اور اب ایک میونسپل کونسل ہے)۔

اس رکاوٹ کی وجہ سے، نظام الدین کو ان کی کمپنی نے پچھلے دو مہینہ سے تنخواہ نہیں دی ہے، پھر بھی وہ احتجاج کر رہے کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ’’میری فیکٹری کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے اسے میں سمجھتا ہوں، جس کی وجہ سے میری تنخواہ پر اثر پڑا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی، میں کسانوں کی حمایت کرتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ لیکن اس قسم کی حمایت میں کہیں کوئی اختلاف دیکھنے کونہیں ملتا – ’’اگر میں اپنی فیکٹری کی ۲۰ فیصد حمایت کرتا ہوں، تو کسانوں کی ۸۰ فیصد حمایت کرتا ہوں۔‘‘

نظام الدین چند سال قبل بہار کے سیوان ضلع سے کنڈلی آئے تھے۔ سیوان میں ان کے پاس ساڑھے ۶ بیگھہ زمین ہے (بہار میں تقریباً ۴ ایکڑ)، جس پر ان کی فیملی گیہوں، چاول، ارہر کی دال، سرسوں، مونگ کی دال اور تمباکو کی کھیتی کرتی ہے۔ ’’یہ کسان ہیں جو معاش کمانے کے لیے ان فصلوں کو اُگاتے ہیں، حکومت یا امبانی اور اڈانی نہیں۔ میں پورے ہندوستان کے کسانوں کے درد کو سمجھتا ہوں۔ اگریہ نئے قوانین نافذ ہو گئے، تو راشن تک ہماری رسائی ختم ہو جائے گی۔ اسکولوں میں ملنے والا مڈ ڈے میل بھی جاری نہیں رہ پائے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

’’بہار میں [چند سال قبل] ہم سے کہا گیا کہ ایک کلو گیہوں کے ۲۵ روپے ملیں گے۔ بہار کی ہر کسان فیملی کے بینک اکاؤنٹ میں [پی ایم کسان اسکیم کے تحت] ۲ ہزار روپے ڈالے گئے۔ لیکن اس کے بعد ۲۵ روپے کی قیمت گھٹاکر ۷ روپے فی کلو کر دی گئی۔ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن حکومت ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔‘‘

Left: Nizamuddin Ali, a security supervisor at a factory near the Singhu site, has not received his salary for over two months, but still supports the protesting farmers. Right: Mahadev Tarak, whose income has halved from his stall selling cigarettes and tea, says, 'We don't have any problems if the farmers stay here'
PHOTO • Anustup Roy
Left: Nizamuddin Ali, a security supervisor at a factory near the Singhu site, has not received his salary for over two months, but still supports the protesting farmers. Right: Mahadev Tarak, whose income has halved from his stall selling cigarettes and tea, says, 'We don't have any problems if the farmers stay here'
PHOTO • Anustup Roy

بائیں: سنگھو کے احتجاجی مقام کے قریب واقع ایک فیکٹری میں بطور سکیورٹی سپروائزر کام کرنے والے نظام الدین علی کو دو مہینے سے تنخواہ نہیں ملی ہے، پھر بھی وہ احتجاج کرنے والے کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ دائیں: مہادیو تارک، جن کی سگریٹ اور چائے کی دکان سے ہونے والی آمدنی گھٹ کر آدھی ہو گئی ہے، کہتے ہیں، ’اگر کسان یہاں رکتے ہیں تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘

سنگھو پر نظام الدین علی اور دیگر – جو احتجاج کرنے والے گروہوں کا حصہ نہیں ہیں – سے بات کرنے سے اس کے بالکل برعکس تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جو چند دنوں سے میڈیا میں چھائی ہوئی ہے – کہ ’ناراض مقامی لوگ‘ احتجاجیوں سے ہاتھا پائی کر رہے ہیں۔

احتجاج کے مقام کے قریب، سنگھو بارڈر سے تقریباً ۳ اعشاریہ ۶ کلومیٹر دور نیو کنڈلی میں، ۴۵ سالہ مہادیو تارک ایک چھوٹی سی دکان پر سگریٹ اور چائے بیچتے ہیں۔ احتجاج شروع ہونے کے بعد ان کی آمدنی میں کافی کمی آئی ہے۔ ’’میں ایک دن میں ۵۰۰ سے ۶۰۰ روپے کما لیتا تھا،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’لیکن آج کل میں اس کا آدھا ہی کما پاتا ہوں۔‘‘ ان کے علاقہ میں، کچھ دنوں قبل ’مقامی لوگوں‘ کو احتجاج کرنے والے کسانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے اور بارڈر کو خالی کرنے کی مانگ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

لیکن مہادیو اب بھی کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔

’’مجھے پورایقین ہے کہ ’مقامی لوگ‘ جو چند دنوں قبل آئے تھے اور جنہوں نے کسانوں کے ساتھ ہاتھا پائی کی تھی، وہ اس علاقہ کے نہیں ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اگر کسان یہاں رکتے ہیں تو ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ آپ یہاں جتنے بھی دکانداروں کو دیکھ رہے ہیں، وہ سبھی کسانوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا احتجاج متوسط طبقہ کے لوگوں کو بھی فائدہ پہنچانے والا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔‘‘

مہادیو کی دکان کے بغل میں ایک اور چھوٹی دکان چلانے والی ایک خاتون تبصرہ کرنے سے منع کرتی ہیں۔ ’’میں ایک مسلمان ہوں، میں آپ کو اپنا نام نہیں بتانا چاہتی اور میں یہاں چل رہے کسانوں کے احتجاج کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی،‘‘ وہ کہتی ہیں، جو اپنے چہرے پر پردہ کر لیتی ہیں، اور پھر مسکراتے ہوئے کولڈ ڈرنک، چپس اور سگریٹ بیچنے کے لیے اپنے کسانوں گاہکوں کی طرف مڑ جاتی ہیں۔

Ramdari Sharma, who works at a petrol pump near the Singhu site, asserts that his support for the protesting farmers is for a better future for the country. Right: Deepak's socks' sales have been hit, but he says, 'Don't think that I won't support the farmers. Their problems are much greater than my own'
PHOTO • Anustup Roy
Ramdari Sharma, who works at a petrol pump near the Singhu site, asserts that his support for the protesting farmers is for a better future for the country. Right: Deepak's socks' sales have been hit, but he says, 'Don't think that I won't support the farmers. Their problems are much greater than my own'
PHOTO • Anustup Roy

رامداری شرما، جو سنگھو میں احتجاج کے مقام کے قریب ایک پٹرول پمپ پر کام کرتے ہیں، زور دیکر کہتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو ان کی حمایت ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ہے۔ دائیں: دیپک کی موزے کی فروخت میں کمی آئی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں، ’ایسا مت سوچیں کہ میں کسانوں کی حمایت نہیں کروں گا۔ ان کے مسائل مجھ سے کہیں زیادہ بڑے ہیں‘

سنگھو بارڈر جہاں سے شروع ہوتا ہے اس سے تقریباً دو کلومیٹر دور، ۴۶ سالہ رامداری شرما ایک پٹرول پمپ پر کام کرتے ہیں۔ پہلے یہاں پر روزانہ جو ۶-۷ لاکھ روپے کا کاروبار ہوتا تھا، وہ اب گھٹ کر ایک دن میں تقریباً ۱ لاکھ روپے رہ گیا ہے۔ رامداری کام کرنے کے لیے روزانہ ہریانہ کے سونی پت ضلع کے جاٹی کلاں گلاؤں سے یہاں آتے ہیں، جو کہ بارڈر سے چار کلومیٹر دور ہے۔ گاؤں میں ان کی فیملی کے پاس ۱۵ ایکڑ زمین ہے جس پر ان کے بھائی گیہوں، چاول اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔

’’بازار میں ہر ایک سامان پر اس کا اپنا ایم آر پی (میکسیمم رٹیل پرائس) ہوتا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’لیکن ہمارے پاس اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم جو کچھ اُگاتے ہیں اس کی قیمت طے کرنے کا حق ہمارا ہے۔ ہم فصلیں اُگاتے ہیں، ایسے میں کوئی اور ہمیں اپنی پیداوار کو فروخت کرنے کے ہمارے حق سے کیسے محروم کر سکتا ہے؟ ایک لیٹر پینے کا پانی [بوتل میں] ۴۰ روپے میں فروخت ہوتا ہے۔ زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے میں بھی کھیتی کرنے کے لیے، ہمیں ہزاروں لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ سیلاب آتا ہے۔ کبھی کبھی قحط پڑتا ہے۔ فصلیں برباد ہوجاتی ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ اوپر والا [بھگوان] ہماری حفاظت کرے گا۔ اور وہ حفاظت کرتا بھی ہے، لیکن پھر کوئی بیچ میں آ جاتا ہے اور سارا کام بگاڑ دیتا ہے۔‘‘

کاشتکاری میں اپنی فیملی کی سخت محنت کو دیکھنے کے بعد، رامداری کہتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے کسانوں کو ان کی حمایت صرف یہاں کے لیے اور وقتی نہیں ہے، بلکہ ملک کے بہتر مستقبل کے لیے ہے۔ ’’بھگت سنگھ کو ہندوستان میں پھانسی دی گئی۔ اپنے زمانے کے ہم وطنوں کے بارے میں سوچنے کے علاوہ، وہ آزاد ہندوستان کے بہتر مستقبل کے بارے میں بھی سوچتے تھے۔ میری زندگی تو کسی طرح گزر جائے گی، لیکن میں اپنی آنے والی نسلوں کی زندگیوں کو مزید محفوظ بنانا چاہتا ہوں۔ اسی لیے میں احتجاج کی حمایت کر رہا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

Rita Arora, who sells protest badges, flags and stickers on a street near the Singhu border, says, 'We get our food from farmers. It's impossible to ignore them'
PHOTO • Anustup Roy
Rita Arora, who sells protest badges, flags and stickers on a street near the Singhu border, says, 'We get our food from farmers. It's impossible to ignore them'
PHOTO • Anustup Roy

ریتا اروڑہ، جو سنگھو کے قریب ایک سڑک پر احتجاج سے متعلق بلّے، جھنڈے اور اسٹیکرز فروخت کرتی ہیں، کہتی ہیں، ’ہمیں کسانوں سے کھانا ملتا ہے۔ انہیں نظر انداز کرنا ناممکن ہے‘

کسان جن قوانین کی مخالفت کر رہے ہیں، وہ زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔

کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ نئے قوانین کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی)، زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ کمیٹیوں (اے پی ایم سی)، ریاست کے ذریعہ خرید وغیرہ سمیت، کاشتکاروں کی مدد کرنے والی بنیادی شکلوں کو بھی کمزور کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔

’’یہ کسان ہیں،‘‘ ۵۲ سالہ ریتا اروڑہ کہتی ہیں، جو سنگھو بارڈر سے تقریباً ڈیڑھ کلومیٹر دور ایک سڑک پر کسانوں کے احتجاج سے متعلق بِلّے، جھنڈے اور اسٹیکرز فروخت کرتی ہیں۔ ’’یہ لوگ شدید سردی میں اتنے دنوں سے یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت جب انتخابات سے پہلے ووٹ مانگتی ہے، تو وہ اچھے اچھے وعدے کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اقتدار میں آ جاتے ہیں؟ حکومت نے جو تین قوانین پاس کیے ہیں، ان سے ان لوگوں کو ہونے والی پریشانیوں کو دیکھئے۔ ہمیں کسانوں سے کھانا ملتا ہے۔ انہیں نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔‘‘

ریتا کی ایک دکان نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کے پاس تھی، جہاں پر وہ کولڈ ڈرنک، چپس، سگریٹ وغیرہ بیچا کرتی تھیں۔ وبائی مرض کے دوران ان کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا، اور زبردست مالی خسارہ برداشت کرنے کے بعد، انہوں نے تھوڑی بہت کمائی کرنے کے لیے سنگھو آنے کا فیصلہ کیا۔ ’’میں [احتجاج کے] شروع میں جوتے بیچا کرتی تھیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں، ’’اور ان قوانین کے بارے میں یا کسان احتجاج کیوں کر رہے ہیں، نہیں جانتی تھی۔ لیکن پھر میں نے لوگوں سے بات کی اور ان قوانین کو سمجھا۔ مجھے احساس ہوا کہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ غلط ہے۔‘‘

Khushmila Devi, who runs a tea stall with her husband Rajender Prajapati near the protest site, says, 'The farmers provide us food. They are the basis of our existence'
PHOTO • Anustup Roy
Khushmila Devi, who runs a tea stall with her husband Rajender Prajapati near the protest site, says, 'The farmers provide us food. They are the basis of our existence'
PHOTO • Anustup Roy

خُشمیلا دیوی، جو اپنے شوہر راجندر پرجا پتی کے ساتھ احتجاج کے مقام کے قریب چائے کی دکان چلاتی ہیں، کہتی ہیں، ’کسان ہمیں کھانا فراہم کرتے ہیں۔ وہ ہمارے وجود کی بنیاد ہیں‘

اب وہ زیادہ نہیں کما پاتی ہیں، لیکن یہاں ہونے پر انہیں خوشی ہے۔ ’’میری روزانہ کی آمدنی صرف ۲۰۰-۲۵۰ روپے ہے۔ لیکن مجھے کوئی افسوس نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میں اس احتجاج کا حصہ ہوں۔ میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ ان زرعی قوانین کو فوراً واپس لے لے۔‘‘

سنگھو سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، دیپک سڑکوں پر موزے فروخت کرتے ہیں۔ وہ بارڈر پر عارضی دکان لگانے کے لیے روزانہ آٹو رکشہ سے آتے ہیں۔ وہ کنڈلی میونسپل کونسل کے علاقہ میں اپنی زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر گوبھی اُگاتے ہیں۔ ’’یہاں پر احتجاج شروع ہوئے دو مہینے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے۔ میری آمدنی میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔ احتجاج شروع ہونے سے پہلے میں ایک دن میں ۵۰۰-۶۰۰ روپے کماتا تھا، لیکن اب میں ایک دن میں مشکل سے ۲۰۰-۲۵۰ روپے کما پاتا ہوں۔ لیکن براہ کرم یہ نہ سوچیں کہ میں کسانوں کی حمایت نہیں کروں گا۔ ان کے مسائل مجھ سے کہیں زیادہ بڑے ہیں،‘‘ ۳۵ سالہ دیپک کہتے ہیں۔

اسی طرح، سنگھو بارڈر سے تقریباً ایک کلومیٹر دور، ۴۰ سالہ خُشمیلا دیوی اور ان کے شوہر، ۴۵ سالہ راجندر پرجاپتی چائے کی ایک دکان چلاتے ہیں۔ وہ روزانہ نئی دہلی کے نریلا سے آتے ہیں جو کہ یہاں سے چھ کلومیٹر دور ہے، اور انہوں نے احتجاج کے جاری رہنے کی وجہ سے اپنی آمدنی میں تیزی سے گراوٹ دیکھی ہے۔ ’’ہم ہر مہینے تقریباً ۱۰ ہزار روپے کما لیتے تھے، لیکن اب یہ آمدنی صرف ۴-۶ ہزار روپے ماہانہ رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ، دہلی سے سنگھو تک کے راستے میں ۲۶ جنوری سے بیریکیڈ لگا دیے گئے ہیں، جس سے ہماری پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ لیکن پھر بھی ہم کسانوں کی حمایت کرتے ہیں،‘‘ میاں بیوی نے کہا۔

’’پہلے، وہ [حکومت] نوٹ بندی لیکر آئے،‘‘ خُشمیلا کہتی ہیں۔ ’’پھر انہوں نے جی ایس ٹی تھوپ دیا، اور اس کے بعد وبائی مرض اور لاک ڈاؤن آگیا، جب ہمیں لگاتار کئی مہینوں تک پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ، تمام اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ کسان ہمیں کھانا فراہم کرتے ہیں۔ وہ ہمارے وجود کی بنیاد ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوں گے، تو کون ہوگا؟‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Anustup Roy

ਅਨੁਸਤੁਪ ਰਾਏ ਕੋਲਕਾਤਾ ਤੋਂ ਹਨ ਅਤੇ ਸਾਫ਼ਟਵੇਅਰ ਇੰਜੀਨੀਅਰ ਹਨ। ਜਦੋਂ ਉਹ ਕੋਡ ਨਹੀਂ ਲਿਖ ਰਹੇ ਹੁੰਦੇ, ਉਹ ਆਪਣੇ ਕੈਮਰੇ ਨਾਲ਼ ਪੂਰੇ ਭਾਰਤ ਵਿੱਚ ਘੁੰਮਦੇ ਹਨ।

Other stories by Anustup Roy
Translator : Qamar Siddique

ਕਮਾਰ ਸਦੀਕੀ, ਪੀਪਲਜ਼ ਆਰਕਾਈਵ ਆਫ਼ ਰੂਰਲ ਇੰਡੀਆ ਵਿਖੇ ਉਰਦੂ ਅਨੁਵਾਦ ਦੇ ਸੰਪਾਦਕ ਹਨ। ਉਹ ਦਿੱਲੀ ਸਥਿਤ ਪੱਤਰਕਾਰ ਹਨ।

Other stories by Qamar Siddique