اروناچل پردیش کی زیرو وادی میں کل ۲۶ بڑے قبیلے ہیں۔ انہی میں سے ایک اَپٹانی قبیلہ بھی ہے، جو اپنی الگ امتیازی خصوصیت رکھتا ہے۔ آرکی ٹیکچر یعنی تعمیرات، زراعت، جسم کی زیبائش، کھانے اور زبانی تاریخ جیسی تمام روایات کی بالکل الگ پہچان ہے۔
ایٹا نگر سے تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر دور، ۱۵۰۰ میٹر سے زیادہ کی بلندی پر واقع زیرو ٹاؤن، لوور سوبانسیری ضلع کا ہیڈکواٹر ہے۔ ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم، نگونو زیرو کے ایک اہل کار کے اندازہ کے مطابق، اس علاقے میں تقریباً ۲۶ ہزار اَپٹانی رہتے ہیں۔
جنوری میں، میں نے زیرو کی ہانگ بستی (گاؤں) میں ایک اَپٹانی فیملی کے ساتھ چند روز گزارے۔
لکڑی کے طوالہ پر بانس سے بنا ہوا ہانگ کا ایک گھر
ہِبیو ایرا، جن کی عمر تقریباً ۹۰ سال ہے، ہانگ گاؤں میں اپٹانی قبیلہ کے روایتی ٹیٹو کے نشان اپنی ناک، پیشانی اور تھوڑی پر بنائے ہوئے۔ اپٹانی قبیلہ کی عورتیں ناک میں ایک زیور پہنتی ہیں، جن کو یاپِنگ ہرلو کہتے ہیں، جو کہ بلوغیت میں قدم رکھنے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ اپٹانی کمیونٹی کے ایک کارکن، نارنگ یمانگ بتاتے ہیں کہ ناک میں اسے پہننے اور چہرے پر گہرے رنگ کا ٹیٹو بنانے کی روایت دراصل ایک مزاحمت کے طور پر شروع ہوئی، کیوں کہ دشمن قبیلوں کے لوگ جب حملہ کرتے تھے، تو وہ عورتوں کو اغوا کر لیا کرتے تھے، اور یہ عورتیں دوبارہ پھر کبھی نظر نہیں آتی تھیں۔ نارنگ کے مطابق، ناک کی بالیاں اور ٹیٹو کا مقصد تھا ’’(حملہ آواروں کے لیے) ہمیں کم دلکش کے طور پر دکھانا۔‘‘ جسم پر اس قسم کے نشانات بنانے کی روایت ۱۹۷۰ سے ہی ختم ہو چکی ہے۔
۹۰ سالہ ہِبیو ٹاگ، شاید اس کمیونٹی کی سب سے بزرگ خاتون (اپٹانی میں ’آنے‘)، ہانگ میں بانس سے بنی اس جھونپڑی میں رہتی ہیں۔ یہاں پر بنے ہوئے تمام گھر ایک جیسے ہیں، روایتی ڈھانچے عمودی طوالہ پر بنے ہوئے ہیں۔
ہِبیو ٹاگ پوری تواضع سے فوٹو کھنچوانے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہیں، اور حالانکہ وہ ہندی یا انگریزی میں بات نہیں کرتیں، لیکن مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ’’مارچ میں ہمارے میوکو تہوار میں آنا،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’ہم تمہاری تواضع اپنے روایتی کھانے سے کریں گے۔‘‘
ٹالو ٹانی ایک روایتی تلوار دکھاتے ہیں، جسے اپٹانی کمیونٹی کا ہر مرد ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ہر فیملی میں ایسی ۸ سے ۱۰ تلواریں ہوتی ہیں، جسے اپنے دامادوں کو جہیز کے طور پر دیا جاتا ہے
ٹالو، جو ایک اپٹانی شکاری ہیں، بندوق کے ساتھ۔ شکار کرنا ایک ثقافتی عمل ہے، اپٹانی شکاری مختلف قسم کے جانوروں کا شکار کرتے ہیں، جس میں لکڑ بگھے، جنگلی سور اور پرندے شامل ہیں۔ وہ یہ کام زندہ رہنے، تجارتی مقاصد اور دواؤں کے لیے کرتے ہیں، جیسا کہ ۲۰۱۳ کی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے۔ لیکن شکار کی وجہ سے اب چرند و پرند کی کئی قسمیں خاتمہ کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔
نو سال کی ایک اپٹانی لڑکی، ٹیک لیمو (نیلے جیکٹ میں)، ہانگ گاؤں میں ایک ٹوٹے ہوئے آٹو میں کھیل رہی ہے
ہِبیو آیوم، جون سے ستمبر تک روایتی طریقے سے چاول کی کھیتی کرتی ہیں۔ اپٹانی کے ماہی پروری کے انوکھے طریقے اور قابل استقامت زرعی تکنیک کی وجہ سے، زیرو کو اپریل ۲۰۱۴ میں یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ نامزد کیا گیا۔
روایتی کھیتی کی شروعات ہر سال جون میں ہوتی ہے
نارنگ تام اور یمانگ کے گھر ۔ میں یہاں پر دو رات رکی، اور انھوں نے مجھے روایتی اپٹانی کھانے دیے۔ ان کے کھانوں میں چاول سب سے اہم جزو ہے، جس کے ساتھ عام طور پر گوشت (پورک، چکن، چوہا) اور دیگر اشیاء ہوتی ہیں۔
اپٹانی عام طور پر اپنے مہمانوں کا استقبال گھر پر چاول سے بنی ہوئی روایتی بیئر سے کرتے ہیں جس کے ساتھ اسپیشل نمک بھی ہوتا ہے، جسے ٹَپیو کہتے ہیں، جسے گھر پر دیسی پودوں کی راکھ سے بنایا جاتا ہے
اپٹانی عام طور سے چوہے کھاتے ہیں، اور یہ مقامی بازار میں ۲۵۰ روپے فی کلو کے حساب سے ملتا ہے
نارنگ یمانگ، کمیونٹی ورکر (اپٹانی زبان میں ’گمبوری‘) اپنے گلے میں روایتی موتی کے ہار پہنتی ہیں
ہانگ کے دھان کے کھیتوں کے ارد گرد موجود جنگلاتی علاقے