اونّوپورم میں دوپہر کی ہوا کے ذریعہ ہتھ کرگھا پیڈل کی مترنم آوازیں گونج رہی ہیں۔ ’’صبح ۵ بجے آئیں اور ہمیں ریشم کے دھاگوں پر کام شروع کرتے ہوئے دیکھیں،‘‘ ۶۷ سالہ ایم کے گودھنڈبنی مجھ سے کہتے ہیں۔ کچے اور بے رنگ ریشمی لاروا کے دھاگے کے جو بنڈل اونوپورم میں داخل ہوتے ہیں، جس پر یہاں گودھنڈبنی اور دیگر بُنکر کام کرتے ہیں، ۱۵۰ کلومیٹر دور، چنئی کے بڑے شوروم اور دیگر بازاروں میں عالیشان رنگین چھ گز کی ساڑیوں کی شکل میں پہنچتے ہیں۔
تمل ناڈو کے تیروونّاملائی ضلع کے مغربی ارنی بلاک کے اونوپورم گاؤں کے زیادہ تر بنکر کنبے ایک دوسرے کے سیدھے یا شادی کے ذریعہ رشتہ دار ہیں۔ تقریباً ہر گھر میں کم از کم ایک کرگھا ہے، جو نسلوں سے چلا آ رہا ہے۔ ’’ہمارے بچے باہر جاکر پڑھتے ہیں لیکن بُنائی کا ہنر بھی سیکھتے ہیں، یہ ہماری روایت ہے،‘‘ ۵۷ سالہ دیوسیناتھی پتی راج گوپال کہتے ہیں، جو اپنے ۱۶ سالہ بیٹے کو ایک چمکدار گلابی ریشم کی ساڑی بُننے میں مدد کر رہے ہیں۔
مختلف کوآپریٹو سوسائٹیز یا چھوٹے پیمانے کی مینوفیکچرنگ اکائیاں، ان میں سے زیادہ تر ارنی بلاک میں سکونت پذیر کنبوں کے ذریعے قائم کی گئی ہیں، بُنکروں سے ساڑیاں خریدتی ہیں اور انھیں برانڈیڈ کمپنیوں اور شو روموں میں سپلائی کرتی ہیں۔ یہ صارف بُنکروں کو مقبول عام مانگ کی بنیاد پر ڈیزائن فراہم کرتے ہیں، اور اکثر جدید نقش و نگار روایتی ڈیزائنوں کی جگہ لے لیتے ہیں۔
بدلے میں، بُنکر اچھا پیسہ کماتے ہیں۔ سرسوتی ایشوراین پاوو پُنائیتھل کو ٹھیک کرتی ہیں۔ یہ عام طور پر خواتین کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو بُنی جانے والی ساڑی کے بانا کے لیے کرگھے پر ۴۵۰۰-۴۸۰۰ انفرادی دھاگے کی لڑی کو لپیٹتی ہیں۔ ایسے ہر ایک تانا کے لیے انھیں کوآپریٹو سوسائٹیز یا جن کنبوں نے انھیں کام پر رکھا ہے ان کے ذریعہ ۲۵۰ روپے دیے جاتے ہیں، اور انہیں ایک مہینہ میں چھ سے آٹھ ایسے کام مل جاتے ہیں۔
یہاں کے بُنکر آسان ڈیزائن والی چار ساڑیوں کی بُنائی کرکے عام طور پر ۲۵۰۰ روپے کما لیتے ہیں۔ ’’ہم ہفتہ کے سبھی سات دن کام کرتے ہیں۔ ہماری واحد چھٹی پورے چاند والے دن ہوتی ہے، مہینہ میں صرف ایک بار،‘‘ ہتھ کرگھے سے اپنی نگاہ ہٹائے بغیر سرسوتی گنگادھرن کہتی ہیں۔ ’’یہ وہ دن ہوتا ہے جب ہم بھگوان کی پوجا کرتے ہیں جس نے ہمیں خوش قسمت بنایا ہے۔‘‘ دیگر بُنکروں کی طرح سرسوتی کو بھی کوآپریٹو سوسائٹیز سے ساڑی کے آرڈر ملتے ہیں۔ وہ ایک مہینہ میں ۱۵ سے ۲۰ ساڑیاں بنتی ہیں، اور تقریباً ۱۰ ہزار روپے کماتی ہیں۔
’’اسی سے ہمارا گھر چلتا ہے اور ہم اسے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ اگر ہم آرام کریں گے، تو اس سے کمائی کا نقصان ہوگا،‘‘ جگدیشن گوپال کہتے ہیں جو سنہری زری والی بھاری ساڑی کی بُنائی کر رہے ہیں۔
اس فوٹواسٹوری کا ایک الگ ایڈیشن ۲۸ فروری، ۲۰۱۸ کو دی پنچ میگزین میں شائع ہوا تھا۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)