ڈاکٹر بی آر امبیڈکر جب ہندوستانی سیاست کے افق پر نمودار ہوئے، تو علم و آگہی سے متعلق ان کی تحریک کو مہاراشٹر کے کونے کونے تک پہنچانے میں سب سے بڑا رول شاعروں و گلوکاروں نے ادا کیا۔ ان لوگوں نے بابا صاحب کی زندگی، ان کے پیغام اور دلتوں کی لڑائی میں ادا کیے گئے ان کے رول کو پوری وضاحت سے بیان کیا – اور یہ سبھی کام انہوں نے ایسی زبان میں کیے جو آسانی سے سب کی سمجھ میں آ جائے۔ انہوں نے جو گیت گائے، وہ گاؤوں میں دلتوں کے لیے علم حاصل کرنے کا واحد ذریعہ تھے، اور انہی گیتوں کے ذریعے اگلی نسل بدھ اور امبیڈکر سے آشنا ہو سکی۔
آتمام رام سالوے (۱۹۹۱-۱۹۵۳) کا تعلق شاعروں کے اس گروہ سے تھا، جو ۷۰ کی دہائی کے پر آشوب دور میں کتابوں کے ذریعے بابا صاحب کے مشن سے متعارف ہوئے تھے۔ سالوے نے اپنی پوری زندگی ڈاکٹر امبیڈکر اور آزادی سے متعلق ان کے مشن کے لیے وقف کر دی۔ یہ انہی کی روشن خیال شاعری کا نتیجہ تھا جس نے دو دہائیوں پر محیط نامانتر آندولن کو انجام تک پہنچایا۔ یہ آندولن (تحریک) مراٹھواڑہ یونیورسٹی کا نام بدل کر ڈاکٹر امبیڈکر یونیورسٹی کرنے کے لیے چلایا گیا تھا، جس نے مراٹھواڑہ خطہ کو مختلف ذاتوں کے درمیان لڑائی کا ایک میدان بنا دیا۔ اپنی مترنم آواز، اپنے الفاظ، اپنی شاعری کی مدد سے سالوے نے ظلم و استبداد کے خلاف علم و آگہی کی ایک مشعل جلائی، اور پیدل ہی مہاراشٹر کے مختلف گاؤوں کا دورہ کیا۔ آتما رام جب گاتے، تو انہیں سننے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے تھے۔ وہ کہتے، ’’یونیورسٹی کا نام جب باقاعدہ طور پر بدل دیا جائے گا، تو میں یونیورسٹی کے محرابی دروازے پر سنہرے حروف سے امبیڈکر کا نام لکھوں گا۔‘‘
شاعر آتما رام کے شعلہ بیاں الفاظ، آج بھی ذات پات کے جبر کے خلاف لڑنے والے مراٹھواڑہ کے دلت نوجوانوں کو حوصلہ عطا کرتے ہیں۔ بیڈ ضلع میں واقع پھُلے پمپل گاؤں گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۲۷ سالہ طالب علم، سُمت سالوے کا کہنا ہے کہ آتمام رام ان کے لیے کیا معنی رکھتے ہیں، اسے بیان کرنے کے لیے ’’ایک پوری رات اور ایک پورا دن بھی نا کافی ہوگا۔‘‘ ڈاکٹر امبیڈکر اور آتما رام سالوے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، سُمت نے آتما رام کا ایک ہلچل پیدا کرنے والا گیت سنایا، جس میں سامعین کو امبیڈکر کی راہ اختیار کرنے اور پرانی روش کو ترک کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اپنے سامعین کو اس سوال سے مشتعل کرتے ہوئے کہ ’’کب تک لپیٹے رہوگے خود کو پرانے کمبل سے؟‘‘ شاعر ہمیں یاد دلاتا ہے، ’’آئین کو اپنا توپ بنا کر، تمہارے نجات دہندہ بھیم نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں‘‘۔ سُمت کی آواز میں یہ گیت سنیں۔
घटनेच्या तोफानं
तुझ्या भीमबापाने
तोडल्या गुलामीच्या बेड्या
कुठवर या गोधडीत राहशील वेड्या?
लक्तरात सडले होते तुझे जिने
माणूस बनविले तुला त्या भीमजीने
ऐकून घे आज पिशा
काढ बुचडी दाढीमिशा
रानोबाच्या टंगाळ घोड्या
कुठवर या गोधडीत राहशील वेडया?
चार वर्णाचा होता गोधडीस रंग
जाळुनी भिमाने तिला बनवले अपंग
हा जगे बुद्धनगरीवर
हात दोन्ही डगरीवर
सुधरतील कशा या भीमवाड्या?
कुठवर या गोधडीत राहशील वेडया?
उवा तुझ्या गोधडीच्या शिरल्या जटात
म्हणून रानोबा घरी ठेविला मठात
नको आडण्यात शिरू
साळवेला कर तू गुरु
थांबव अप्रचाराच्या खोड्या
कुठवर या गोधडीत राहशील वेड्या?
آئین کو اپنا توپ بنا کر
تمہارے نجات دہندہ بھیم جی نے
غلامی کی زنجیریں توڑ دیں
کب تک لپیٹے رہو گے خود کو پرانے کمبل سے؟
بکھری ہوئی تھی تمہاری زندگی
بھیم جی نے بنا دیا تمہیں ایک انساں
اے نادانوں، میری بات سنو
اپنی داڑھی اور بال بڑھانا چھوڑو
رانوبا [ایک دیوتا] کے اندھے پیروکاروں
کب تک لپیٹے رہوگے خود کو پرانے کمبل سے؟
کمبل پہ تھا چار ورنوں (ذات) کا رنگ
جسے جلایا بھیم نے اور کر دیا بے اختیار
تم رہتے تو ہو بدھ نگری میں
لیکن جانا چاہتے ہو کہیں اور
پھر کیسے ہوگی حالت بہتر بھیم واڑی [دلت بستی] کی؟
کب تک لپیٹے رہوگے خود کو پرانے کمبل سے؟
کمبل کی جوئیں پڑ گئی ہیں تمہارے بالوں میں
پوجتے رہتے ہو رانوبا کو اپنے گھر اور مٹھ میں
چھوڑو راستہ جہالت کا
بنا لو سالوے کو اپنا گرو
بند کرو لوگوں کو گمراہ کرنا، ہے نا؟
کب تک لپیٹے رہوگے خود کو پرانے کمبل سے؟
یہ ویڈیو ’ Influential Shahirs: Narratives from Marathwada ‘ (رسوخ دار شعراء، مراٹھواڑہ کی کہانیاں) نامی مجموعہ کا ایک حصہ ہے، انڈیا فاؤنڈیشن فار دی آرٹس نے اپنے آرکائیوز اور میوزیم پروگرام کے تحت اس پروجیکٹ کو، پیپلز آرکائیو آف رورل انڈیا کے اشتراک سے نافذ کیا ہے۔ یہ کام گوئتھے انسٹی ٹیوٹ/میکس مولر بھون، نئی دہلی کے جزوی تعاون سے ممکن ہو پایا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز