گنیش اور ارون مکانے کو اپنے اسکول میں بالترتیب درجہ ۹ اور ۷ میں ہونا چاہیے تھا۔ اس کی بجائے وہ ممبئی کے مضافات میں واقع تھانے ضلع کی ایک بستی، کولوشی میں اپنا وقت گھر پر ہی گزار رہے ہیں، اور جو بھی کباڑ مل جاتا ہے اس کے استعمال سے وہ کاریں اور دیگر اشیاء بناتے ہیں۔ یا جب ان کے والدین اینٹ بھٹے پر کام کرتے ہیں تو وہ ادھر ادھر گھوم پھر کر وقت گزارتے رہتے ہیں۔

ان کی ماں نیرا مکانےکہتی ہیں، ’’اب وہ کتابوں کا مطالعہ نہیں کرتے۔ چھوٹا لڑکا [ارون] کباڑ اور لکڑی سے کھلونے بنانے میں مصروف ہے۔ اس کا سارا دن کھیل کود میں گزرتا ہے۔‘‘ ارون ان کو بیچ میں ٹوکتے ہوئے کہتا ہے، ’’میں تمہیں کتنی بار بتاؤں کہ مجھے اسکول میں بوریت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ ان کی نوک جھونک طول پکڑنے لگتی ہے، لیکن ارون درمیان میں ہی اٹھ کر ایک عارضی کار کے ساتھ کھیلنے چلا جاتا ہے۔ یہ کار اس نے حال ہی میں اپنے گھر اور آس پاس پائی جانے والی بے کار چیزوں سے بنائی ہے۔

۲۶ سالہ نیرا نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے، لیکن ان کے شوہر ۳۵ سالہ وشنو نے دوسری جماعت کے بعد اسکول چھوڑ دیا تھا۔ مکانے کنبہ اس بات کو لے کر پر عزم ہے کہ ان کے لڑکوں کو باقاعدہ تعلیم حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ صرف وہی کام نہ کریں جو ان کے والدین کو مل سکتی ہے، یعنی مقامی ندیوں میں ماہی گیری یا اینٹوں کے بھٹے پر کام۔ کئی آدیواسی کنبے شہاپور کلیان علاقے میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے کے لیے ہجرت کرتے ہیں۔

کاتکری برادری سے تعلق رکھنے والے وشنو کہتے  ہیں، ’’میں زیادہ پڑھائی نہیں کر سکا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے اچھی طرح سے تعلیم یافتہ ہوں۔‘‘ کاتکری برادری مہاراشٹر میں غیرمحفوظ قبائلی گروپ (پی وی ٹی جی) کے طور پر درج تین برادریوں میں سے ایک ہے۔ قبائلی امور کی وزارت کی ۲۰۱۳ کی رپورٹ کے مطابق ریاست میں کاتکری برادری کی شرح خواندگی ۴۱ فیصد ہے۔

چنانچہ چار سال پہلے جب طلباء کی کمی کی وجہ سے مقامی سرکاری اسکول بند ہونے جا رہا تھا، تو وشنو اور ان کی بیوی نے اپنے بچوں کا داخلہ مڈھ گاؤں کے گورنمنٹ سیکنڈری آشرم اسکول (جسے مقامی طور پر مدھیہ آشرم شالہ کہا جاتا ہے) میں کروا دیا تھا۔ یہ درجہ ۱ سے ۱۲ تک کا دن میں چلنے والا اور رہائشی اسکول ہے اور تھانے ضلع کے مُرباڈ سے ۳۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں کے ۳۷۹ طلباء میں سے ۱۲۵ ان کے بیٹوں کی طرح سے رہائشی طلباء تھے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’میں خوش تھا کہ انہیں اسکول میں کھانے اور پڑھنے کو مل رہا ہے۔ لیکن ہمیں ان کی یاد بھی آتی تھی۔‘‘

PHOTO • Mamta Pared
PHOTO • Mamta Pared

بائیں: ارون مکانے لکڑی کی سائیکل سے کھیل رہا ہے جسے اس نے اپنے ہاتھ سے بنایا ہے۔ دائیں: مکانے کنبہ: وشنو، گنیش، نیرا اور ارون اپنے گھر کے باہر

جب لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا اور اسکول بند ہوئے، تو کولوشی کے زیادہ تر بچے جو مدھیہ آشرم شالہ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اپنے والدین کے پاس لوٹ آئے تھے۔

وشنو کے بیٹے بھی گھر لوٹ آئے۔ وشنو کہتے ہیں، ’’جب وہ واپس آئے تو شروع میں ہم خوش تھے کہ وہ گھر پر ہیں۔‘‘ خواہ اس کی وجہ سے انہیں مزید کام کیوں نہ تلاش کرنا پڑا ہو۔ وشنو قریب کے چھوٹے سے چیک ڈیم میں دو سے تین کلوگرام مچھلی پکڑتے تھے اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے اسے مرباڈ میں فروخت کرتے تھے۔ اب گھر میں بچوں کی آمد کی وجہ سے مچھلی کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی ناکافی تھی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے قریب میں واقع اینٹ بھٹوں پر کام کرنا شروع کر دیا۔ یہاں انہیں ہر ایک ہزار اینٹ کے لیے ۶۰۰ روپے ملتے تھے، لیکن یہ اعداد ان کی پہنچ سے دور تھے، کیونکہ پورے دن دیر تک کام کرنے کے باوجود وہ دن میں تقریباً ۷۰۰ سئ ۷۵۰ اینٹیں ہی بنا پاتے تھے۔

دو سال بعد اسکول دوبارہ کھل گیا ہے اور مدھیہ آشرم شالہ میں کلاسیں شروع ہو گئی ہیں، لیکن اپنے والدین کی التجا کے باوجود گنیش اور ارون مکنے اسکول واپس جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ارون کا کہنا ہے کہ پیچھے چھوٹ چکی پڑھائی کو پورا کرنے کے لیے دو سال کا وقفہ بہت زیادہ ہے اور انہیں یہ بھی یاد نہیں ہے کہ انہوں نے آخری بار اسکول میں کیا کیا تھا۔ ان کے والد نے حوصلہ نہیں کھویا ہے۔ اپنے بڑے بیٹے گنیش کے لیے انہوں نے ضروری نصابی کتابیں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ وہ دوبارہ اسکول میں داخل ہو سکے۔

درجہ ۴ کے طالب علم، نو سالہ کرشنا بھگوان جادھو اور اس کے دوست، درجہ ۳ کے طالب علم کالورام چندرکانت پوار آشرم شالہ میں دوبارہ داخل ہونے کی خواہش مند ہیں۔ کرشنا اور کالورام ایک سُر میں کہتے ہیں، ’’ہمیں پڑھنا اور لکھنا پسند ہے۔‘‘ لیکن چونکہ دو سال کے وقفے سے پہلے انہوں نے اسکول کی باقاعدہ تعلیم میں صرف چند سال گزارے تھے، اس لیے اب ان کے پاس ضروری صلاحیت نہیں ہے اور انہیں شروع سے پڑھائی شروع کرنے کی ضرورت ہوگی۔

اسکول بند ہونے کے بعد سے یہ دونوں لڑکے اپنے اہل خانہ کے ساتھ علاقے کی ندیوں اور اس کے کناروں سے ریت نکالنے کے لیے سفر کر رہے ہیں۔ بچوں کے گھر پر ہونے کی وجہ سے فیملی پر کمانے کا اضافی دباؤ تھا، کیونکہ کھانے والے زیادہ تھے۔

PHOTO • Mamta Pared
PHOTO • Mamta Pared

بائیں: تھانے ضلع کے مڈھ گاؤں میں گورنمنٹ سیکنڈری آشرم اسکول۔ دائیں: کرشنا جادھو (بائیں) اور کالورام پوار مقامی ندی میں کھیل رہے ہیں

*****

ملک بھر میں پانچویں جماعت کے بعد درج فہرست قبائل کے بچوں کے اسکول چھوڑنے کی شرح ۳۵ فیصد ہے۔ آٹھویں جماعت کے بعد یہ شرح بڑھ کر ۵۵ فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔ کولوشی کی آبادی زیادہ تر قبائلی ہے اور اس بستی یا واڈی میں تقریباً ۱۶ کاتکری آدیواسی خاندان آباد ہیں۔ مرباڈ بلاک میں ما ٹھاکر آدیواسیوں کی بھی بڑی آبادی ہے۔ ان دونوں برادریوں کے بچے آشرم شالہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

دوسرے اسکولوں کے برعکس جن کا خیال تھا کہ مارچ ۲۰۲۰ سے نافذ لاک ڈاؤن کے دوران ان کے پاس آن لائن کلاسز شروع کرنے کا متبادل موجود ہے، قبائلی طلباء کی اکثریت والا مدھیہ آشرم شالہ اسکول بند ہوگیا۔

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک استاد کہتے ہیں، ’’آن لائن اسکولنگ شروع کرنا ناممکن تھا، کیونکہ سبھی طلباء کے پاس یا ان کے گھروں میں اسمارٹ فون نہیں تھے۔ جن کے پاس فون تھے ان کو جب فون کیا جاتا، تو معلوم ہوتا کہ فون کام کرنے والے والدین کے ساتھ ہیں۔‘‘ دوسروں نے مزید وضاحت کی کہ بہت سے علاقوں میں موبائل نیٹ ورک ہی نہیں ہے، لہٰذا طلباء تک رسائی نہیں ہوسکتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے کوشش نہیں کی۔ ۲۰۲۱ کے آخر اور ۲۰۲۲ کے شروع میں کچھ اسکولوں نے باقاعدہ کلاسیں دوبارہ شروع کیں۔ لیکن بہت سے بچے جیسے وشنو کے بیٹے گنیش اور ارون، یا کرشنا اور کالورام، کلاس روم کے کام اور تعلیم سے رابطہ کھو چکے تھے اور واپس آنے سے گریزاں تھے۔

ایک استاد نے پاری کو بتایا، ’’چند بچے جنہیں ہم نے اسکول واپس آنے پر آمادہ کیا تھا، وہ پڑھنا بھول چکے تھے۔‘‘ ایسے بچوں کا ایک خاص گروپ بنایا گیا اور ان کے اساتذہ نے ان کے لیے الگ سے ریڈنگ کلاسوں کا بندوبست کیا۔ ان کی پڑھائی آہستہ آہستہ پٹری پر واپس لوٹ ہی رہی تھی کہ فروری ۲۰۲۱ میں کورونا کی دوسری لہر نے مہاراشٹر کو ایک اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر مجبور کیا اور بمشکل پڑھنا سیکھ رہے بچے ایک بار پھر گھر واپس لوٹ گئے۔

*****

PHOTO • Mamta Pared

کالورام اور کرشنا کے ساتھ لیلا جادھو۔ لڑکے دوپہر کے کھانے میں صرف ابلے ہوئے چاول کھا رہے ہیں

کرشنا کی ماں لیلا جادھو پوچھتی ہیں، ’’ہمیں [اپنی کمائی سے] اپنا پیٹ بھرنا چاہیے یا بچوں کے لیے موبائل فون خریدنا چاہیے؟ میرے شوہر ایک سال سے بیمار ہیں اور صاحب فراش ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میرا بڑا بیٹا کلیان کے اینٹ بھٹے پر کام کرنے گیا ہے۔‘‘ اپنے چھوٹے بیٹے کو صرف اس کے اسکول کے کام کے لیے موبائل خریدنے کے لیے رقم خرچ کرنے کا ان کے لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

کرشنا اور کالورام دوپہر کو پلیٹ میں چاول کھا رہے ہیں جس میں نہ کوئی سبزی ہے اور نہ ہی کوئی سالن۔ لیلا یہ دیکھانے کے لیے برتن سے ڈھکن ہٹاتی ہیں کہ ان کے اور ان کے کنبے کے لیے کتنا چاول پکتا ہے۔

لیلا، دیوگھر کے دوسرے لوگوں کی طرح زندگی گزارنے کے لیے ندیوں کے کنارے سے ریت نکالتی ہیں۔ ایک ٹرک ریت کے عوض ۳۰۰۰ روپے ملتے ہیں، اور ایک ٹرک کو بھرنے میں ایک ہفتے میں تین سے چار مزدور کام کرتے ہیں۔ پھر وہ رقم مزدوروں کے درمیان تقسیم ہو جاتی ہے۔

کالورام کھانا کھاتے ہوئے پوچھتا ہے، ’’ہم دوبارہ پڑھائی کب شروع کریں گے؟‘‘ حالانکہ اس کا اشارہ کسی کی جانب نہیں تھا۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب لیلا بھی دینا چاہیں گی کیونکہ اس کا مطلب صرف تعلیم حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ بچوں کے طعام کو یقینی بنانا بھی ہے۔

*****

مدھیہ آشرم شالا بالآخر فروری ۲۰۲۲ میں دوبارہ کھل گیا۔ کچھ بچے واپس آگئے لیکن مڈل اور پرائمری اسکول (درجہ ۱ سے ۸) کے لگ بھگ ۱۵ بچے واپس نہیں آئے ہیں۔ اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک استاد نے کہا، ’’ہم انہیں اسکول میں واپس لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بچے اپنے گھر والوں کے ساتھ تھانے، کلیان اور شہاپور میں کام کر رہے ہیں۔ اب ان کا سراغ لگانا بہت مشکل ہے۔‘‘

مترجم: شفیق عالم

Mamta Pared

ਮਮਤਾ ਪਰੇਡ (1998-2022) ਇੱਕ ਪੱਤਰਕਾਰ ਅਤੇ 2018 PARI ਇੰਟਰਨ ਸਨ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਆਬਾਸਾਹਿਬ ਗਰਵਾਰੇ ਕਾਲਜ, ਪੁਣੇ ਤੋਂ ਪੱਤਰਕਾਰੀ ਅਤੇ ਜਨ ਸੰਚਾਰ ਵਿੱਚ ਮਾਸਟਰ ਡਿਗਰੀ ਕੀਤੀ ਸੀ। ਉਨ੍ਹਾਂ ਨੇ ਆਦਿਵਾਸੀਆਂ ਦੇ ਜੀਵਨ, ਖ਼ਾਸ ਕਰਕੇ ਆਪਣੇ ਵਾਰਲੀ ਭਾਈਚਾਰੇ ਬਾਰੇ, ਉਨ੍ਹਾਂ ਦੀ ਰੋਜ਼ੀ-ਰੋਟੀ ਅਤੇ ਜੀਵਨ ਸੰਘਰਸ਼ਾਂ ਬਾਰੇ ਜਾਣਕਾਰੀ ਦਿੱਤੀ।

Other stories by Mamta Pared
Editor : Smruti Koppikar

ਸਮਰੂਤੀ ਕੋਪੀਕਰ ਇੱਕ ਸੁਤੰਤਰ ਪੱਤਰਕਾਰ ਤੇ ਕਾਲਮਨਵੀਸ ਤੇ ਮੀਡਿਆ ਐਜੂਕੇਟਰ ਹਨ।

Other stories by Smruti Koppikar
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam