تین دہائی قبل کوئی بھی شخص نوجوان سنجے کامبلے کو بانس کا کام سکھانا نہیں چاہتا تھا۔ آج جب وہ ہر شخص کو اپنا زوال آمادہ ہنر سکھانا چاہتے ہیں تو کوئی سیکھنا نہیں چاہتا۔ ’’یہ بدلتے وقت کی ستم ظریفی ہی ہے،‘‘ ۵۰ سالہ دستکار کہتے ہیں۔
کامبلے اپنی ایک ایکڑ زمین پر بانس اگاتے ہیں، جن کا استعمال بنیادی طور پر ارلا بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا برساتی کوٹ ہوتا ہے۔ اس کا استعمال مغربی مہاراشٹر کے اس خطہ میں دھان اگانے والے کسان کرتے ہیں۔ کِرلے گاؤں کے اس رہائشی کا کہنا ہے، ’’تقریباً بیس سال پہلے ہر کسان کھیتوں میں کام کرتے ہوئے اِرلا کا استعمال کرتا تھا، کیونکہ ہمارے شاہوواڑی تعلقہ میں بہت زیادہ بارش ہوتی تھی۔‘‘ کامبلے اپنے کھیتوں میں کام کرتے وقت خود بھی اسے پہنتے تھے۔ بانس کا برساتی کوٹ کم از کم سات سال تک چلتا ہے، اور ’’اس کے بعد بھی آسانی سے اس کی مرمت کی جا سکتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
لیکن اب چیزیں بدل گئی ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کولہاپور ضلع میں گزشتہ ۲۰ برسوں میں جولائی اور ستمبر کے درمیان ہونے والی بارش ۱۳۰۸ ملی میٹر (۲۰۰۳) سے کم ہوکر ۹۷۳ ملی میٹر (۲۰۲۳) تک رہ گئی ہے۔
’’کسے معلوم تھا کہ یہاں بارش کسی دن اتنی کم ہو جائے گی کہ میرے فن کو ہی ختم کر دے گی؟‘‘ اِرلا بنانے والے سنجے کامبلے پوچھتے ہیں۔
کامبلے کہتے ہیں، ’’ہم ہر سال صرف جون سے ستمبر تک کھیتی کا کام کرتے ہیں، کیونکہ یہاں زراعت کا انحصار بارش پر ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں بارش کی بے ترتیبی نے زیادہ تر گاؤں والوں کو ممبئی اور پونے جیسے شہروں میں ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا ہے، جہاں وہ ریستوراں میں، پرائیویٹ بس کمپنیوں میں بطور کنڈکٹر، تعمیری مقامات پر بطور معمار، یومیہ اجرت والے مزدور، اور سڑک پر خوانچہ لگانے والے، یا پورے مہاراشٹر میں کھیتوں میں مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔
جو لوگ یہاں رہ گئے ہیں وہ بارش کی کمی کی وجہ سے دھان کی کاشت سے گنے کی کاشت کی طرف منتقل ہو گئے ہیں۔ کامبلے کہتے ہیں، ’’جن کسانوں کے پاس بورویل ہیں وہ تیزی سے گنے کی کاشت کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ گنے کی کھیتی قدرے آسان ہے۔‘‘ یہ تبدیلی تقریباً سات سال پہلے شروع ہوئی تھی۔
اگر بارش صحیح مقدار میں ہوتی ہے، تو کامبلے مانسون کے دوران تقریباً ۱۰ ارلا فروخت کرسکتے ہیں، لیکن پورے ۲۰۲۳ میں انہیں صرف تین ارلا کے آرڈر ملے۔ ’’اس سال بہت کم بارش ہوئی۔ ایسے میں کون ارلا خریدے گا؟‘‘ ان کے گاہک آس پاس کے گاؤں امبا، ماسنولی، تلوڑے اور چندولی سے آتے ہیں۔
گنے کی کھیتی کی طرف مائل ہونا ایک اور مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ ’’ارلا کا استعمال مثالی طور پر ایسی فصلوں والے کھیتوں میں کیا جاتا ہے جن کی لمبائی کم ہوتی ہے۔ آپ گنے کے کھیت میں ارلا پہن کر نہیں چل سکتے، کیونکہ اس کا بھاری ڈھانچہ فصلوں کے تنوں سے ٹکرائے گا،‘‘ سنجے وضاحت کرتے ہیں، جو ایک دلت بدھسٹ ہیں۔ ارلا کی جسامت کا انحصار اسے پہننے والے کسان کی لمبائی پر ہوتا ہے۔ ’’یہ ایک چھوٹے گھر کی طرح ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔
سستے پلاسٹک کے رین کوٹ، جو اب گاؤں میں فروخت ہوتے ہیں، نے ارلا کے استعمال کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ بیس سال پہلے کامبلے ایک ارلا ۲۰۰ سے ۳۰۰ روپے میں فروخت کرتے تھے۔ اب اس کی قیمت انہوں نے بڑھا کر ۶۰۰ روپے کر دی ہے، کیونکہ زندگی گزارنے کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے۔
*****
کامبلے کے والد، آنجہانی چندرپا، ایک کسان اور فیکٹری مزدور تھے۔ ان کے دادا مرحوم جیوتیبا، جو سنجے کی پیدائش سے پہلے گزر چکے تھے، ارلا بناتے تھے۔ اس وقت ان کے گاؤں میں یہ ایک عام پیشہ تھا۔
یہاں تک کہ ۳۰ سال پہلے بھی اس کی اتنی مانگ تھی کہ کامبلے نے سوچا کہ بانس کا کام سیکھنے سے انہیں کاشتکاری سے ہونے والی اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ ’’میرے پاس کوئی اور متبادل نہیں تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے اپنے کبنے کی کفالت کے لیے پیسہ کمانا تھا۔‘‘
جب کامبلے نے اس ہنر کو سیکھنے کا فیصلہ کیا، تو انہوں نے کرلے کے کامبلے واڑی وسات (ایک مقام کا نام) میں ایک تجربہ کار کاریگر سے رجوع کیا۔ کامبلے یاد کرتے ہیں، ’’میں نے ان سے التجا کی کہ وہ مجھے سکھائیں، لیکن وہ اس قدر مصروف تھے کہ میری طرف دیکھا تک نہیں۔‘‘ حالانکہ، وہ شکست تسلیم کرنے والے نہیں تھے۔ ہر صبح اس کاریگر کے کام کا مشاہدہ کرتے کرتے انہوں نے ایک دن خود اس ہنر کو سکھ لیا تھا۔
بانس کے ساتھ اپنے پہلے تجربے میں کامبلے نے ایک چھوٹی گول ٹوپلِی (ٹوکری) بنائی تھی، جس کی باریکیوں پر انہوں نے ایک ہفتہ کے اندر دسترس حاصل کر لی تھی۔ وہ سارا دن بانس کے ساتھ کھیلتے، ریت جیسی خاکستری قمچیوں کو اس وقت تک بُنتے جب تک کہ اسے بالکل صحیح شکل نہ مل جاتی۔
کامبلے کہتے ہیں، ’’فی الحال میرے کھیتوں میں تقریباً ۱۰۰۰ بانس ہیں۔ ان بانسوں کا استعمال دستکاری اور انگور کے باغوں میں [انگور کی بیلوں کو سہارا دینے کے لیے] کیا جاتا ہے۔‘‘ اگر سنجے بازار سے شیوا (بانس کی مقامی قسم) خریدتے، تو انہیں فی بانس کم از کم ۵۰ روپے خرچ کرنے پڑتے۔
ارلا بنانا ایک محنت طلب کام ہے اور اسے سیکھنے میں سنجے کو تقریباً ایک سال کا وقت لگا تھا۔
یہ کام ایک تیار بانس کی تلاش کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ گاؤں والے چیوا کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں ، کیونکہ یہ مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔ کامبلے اپنے کھیت میں بانسوں کا بغور معائنہ کرتے ہیں اور ایک ۲۱ فٹ کے بانس کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگلے پانچ منٹ میں وہ اسے دو پور اوپر سے کاٹتے ہیں اور اپنے کندھے پر رکھ لیتے ہیں۔
وہ اپنے ایک کمرے اور ایک باورچی خانہ والے چیرا (لیٹرایٹ) گھر میں واپس آتے ہیں اور بانس کو صحن میں اپنے کام کرنے والی جگہ پر رکھ دیتے ہیں۔ وہ بانس کے دونوں سروں کو پارلی (ایک قسم کی درانتی) کی مدد سے کاٹتے ہیں، جو ایک جیسی نہیں ہوتی ہیں۔ اس کے بعد وہ بانس کو دو برابر حصوں میں منقسم کرتے ہیں اور تیزی سے اپنی پارلی کو ہر ٹکڑے سے عمودی طور پر گزارتے ہیں، اور پھر اس کو مزید دو حصوں میں منقسم کرتے ہیں۔
بانس کی سبز رنگ کی بیرونی تہہ کو پارلی کے استعمال سے چھیل کر پتلی قمچیاں بنائی جاتی ہیں۔ وہ اس طرح کی قمچیاں بنانے میں کم از کم تین گھنٹے صرف کرتے ہیں۔ پھر ان قمچیوں سے اِرلا بُنا جاتا ہے۔
’’قمچیوں کی تعداد کا انحصار ارلا کے سائز پر ہوتا ہے،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں۔ تقریباً ہر اِرلا کے لیے بانس کے تین ٹکڑوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن میں ہر ایک کی لمبائی ۲۰ فٹ ہوتی ہے۔
کامبلے ۲۰ قمچیوں کو افقی طور پر ترتیب دیتے ہیں، اور ہر دو قمچی کے درمیان چھ سینٹی میٹر کا فاصلہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ان پر عمودی طور پر کچھ اور قمچیاں لگاتے ہیں اور ان کو آپس میں جوڑ کر بُننا شروع کرتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے چٹائی بنی جاتی ہے۔
اس ماہر دستکار کو ان قمچیوں کو بنانے کے لیے کسی پیمائشی ٹیپ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ صرف اپنی ہتھیلیوں کو حوالہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ’’پیمائش اتنی درست ہوتی ہے کہ قمچی کا کوئی اضافی حصہ باقی نہیں رہتا،‘‘ وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’اس ڈھانچے کو بنانے کے بعد آپ کو کناروں کو اطراف سے موڑنا پڑتا ہے، جس کے لیے بہت زیادہ طاقت درکار ہوتی ہے،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں۔ جب ڈھانچہ تیار ہو جاتا ہے، تو وہ قمچیوں کو موڑنے میں تقریباً ایک گھنٹہ کا وقت لیتے ہیں، اور ہر ایک کا اوپر کی طرف ایک نوک دار سرا بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس پورے عمل میں تقریباً آٹھ گھنٹے لگتے ہیں۔
ارلا کا ڈھانچہ مکمل ہونے کے بعد اسے نیلے رنگ کی ترپال کی ایک بڑی چادر سے ڈھانپ دیا جاتا ہے جو پانی کو روکنے کا کام کرتا ہے۔ ارلا کے نکیلے سرے سے بندھی پلاسٹک کی رسی کو پہننے والے کے جسم سے باندھا جاتا ہے۔ اسے سالم رکھنے کے لیے مختلف سروں پر متعدد گرہیں لگائی جاتی ہیں۔ امبا اور ملکہ پور کے قصبوں سے کامبلے ترپال کی ایک چادر۵۰ روپے میں خریدتے ہیں۔
*****
ارلا بنانے کے ساتھ ساتھ کامبلے اپنے کھیت میں دھان کی کاشت بھی کرتے ہیں۔ فصل کا زیادہ تر حصہ ان کے کنبے کے استعمال میں آتا ہے۔ ان کی بیوی، مالابائی، جن کی عمر ۴۰ کی دہائی کے وسط میں ہے، اپنے اور دوسروں کے کھیتوں میں نکائی، گڑائی، دھان اور گنے کی بوائی، یا فصلوں کی کٹائی کا کام کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’چونکہ ہمیں ارلا کے لیے کافی آرڈر نہیں ملتے اور صرف دھان کی کاشت پر گزارہ نہیں ہوسکتا، اس لیے میں کھیتوں میں کام کرتی ہوں۔‘‘ ان کی بیٹیاں، کرونا، کنچن، اور شوبھانگی، سبھی کی عمریں ۲۰ کی دہائی کے نصف آخر میں ہیں، شادی شدہ اور گھریلو خواتین ہیں۔ ان کے بیٹے، سوپنل، ممبئی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور انہوں نے کبھی ارلا بنانا نہیں سیکھا ہے۔ سنجے کہتے ہیں، ’’وہ شہر چلا گیا کیونکہ یہاں کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔‘‘
اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے، کامبلے نے بانس کی دیگر اشیاء کے ساتھ ساتھ کُھرُد (مرغیوں کے باڑے) اور کَرندا (مچھلی کے پنجرے) کی دستکاری میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔ یہ چیزیں آرڈر پر بنائی جاتی ہیں اور گاہک انہیں لینے ان کے گھر خود آتے ہیں۔ تقریباً ایک دہائی قبل، انہوں نے ٹوپلا یا کنگی بھی بنایا تھا۔ ان کا استعمال روایتی طور پر چاول ذخیرہ کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ لیکن پترچا ڈبوں (ٹین کے بکس) کی آسانی سے دستیابی کے باعث ان کے آرڈر آنا بند ہو گئے ہیں۔ اب وہ انہیں صرف اپنے گھریلو استعمال کے لیے بناتے ہیں۔
’’اب کون یہ ہنر سیکھنا چاہے گا؟‘‘ اپنی بنائی ہوئی اشیاء کی تصاویر دکھانے کے لیے اپنے فون کو اسکرول کرتے ہوئے کامبلے کہتے ہیں۔ ’’اس کی کوئی مانگ نہیں ہے اور اس کی قیمت بھی ناکافی ہے۔ چند سالوں میں یہ ہنر معدوم ہو جائے گا۔‘‘
یہ اسٹوری دیہی دستکاروں پر سنکیت جین کی سیریز کا حصہ ہے، اور اسے مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم