جی ۲۰ سربراہ کانفرنس میں شامل ہونے آئے عالمی رہنماؤں کے استقبال میں جمعہ کے روز ملک کی راجدھانی جگمگا اٹھی، لیکن دہلی میں حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کی دنیا میں گہرا اندھیرا چھا گیا۔ پہلے کے بے گھر کسانوں، اور آج کے یمنا سیلاب متاثرین کو دنیا کی نظروں سے دور رہنے کو کہا گیا۔ انہیں گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے واقع ان کی عارضی جھگیوں سے ہٹا کر ندی کنارے کے جنگلاتی علاقوں میں بھیج دیا گیا ہے اور اگلے تین دنوں تک وہیں چھپے رہنے کو کہا گیا ہے۔
ہیرا لال نے پاری کو بتایا، ’’ہم میں سے کچھ لوگوں کو پولیس نے زبردستی ہٹایا۔ انہوں نے ۱۵ منٹ کے اندر جگہ خالی کرنے کو کہا اور یہ بھی وارننگ دی کہ اگر ہم نہیں ہٹے، تو وہ ہمیں طاقت کی زور پر ہٹا دیں گے۔‘‘
جنگلاتی علاقوں کی اونچی اونچی گھاسوں کے بیچ سانپ، بچھو جیسے خطرناک جانوروں کا خطرہ ہے۔ کبھی خود کے کسان ہونے پر فخر کرنے والے ہیرا لال بتاتے ہیں، ’’ہمارے کنبوں کو بجلی اور پانی کے بغیر رہنا پڑ رہا ہے۔ اگر کسی کو سانپ یا بچھو نے کاٹ لیا، تو علاج کا کوئی انتظام نہیں ہے۔‘‘
*****
ہیرال لال اپنا گیس سیلنڈر اٹھانے کے لیے بھاگے۔ دہلی کے راج گھاٹ کے قریب بیلا اسٹیٹ میں رہنے والے ۴۰ سال کے ہیرال لال اپنے گھر کا سامان بچانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑنا چاہتے تھے، کیوں کہ شام ہوتے ہی کالے رنگ کا پانی بڑی تیزی سے ان کے گھر میں گھسنے لگا تھا۔
وہ ۱۲ جولائی، ۲۰۲۳ کی رات تھی۔ کچھ دنوں کی بھاری بارش کے بعد یمنا ندی کے پانی کی سطح بڑھنے لگی تھی، اور دہلی میں اس ندی کے کنارے رہنے والے ہیرا لال جیسے لوگوں کے پاس وقت باکل بھی نہیں بچا تھا۔
میور وہار کے یمنا پشتہ علاقے میں رہنے والی ۶۰ سال کی چمیلی (جو گیتا کے نام سے مشہور ہیں) اپنے پڑوسی کی ایک سال کی چھوٹی بچی، رِنکی کو بچانے کے لیے دوڑیں۔ تب تک پورے علاقے میں کافی افراتفری مچ چکی تھی، کوئی اپنی بکریوں کو لے کر بھاگ رہا تھا تو کوئی کتے کو کندھے پر اٹھا کر وہاں سے کسی محفوظ جگہ جانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ اس دوران نہ جانے کتنے مویشی اپنی جان بچانے میں ناکام رہے۔ اس سے پہلے کہ تیزی سے بڑھتا ہوا سیلاب کا پانی سارے سامان بہا لے جاتا، وہاں کے لوگ اپنے برتنوں اور کپڑوں کو اکٹھا کرکے نکل جانے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
’’صبح تک، وہاں چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔ ہمیں بچانے کے لیے کوئی کشتی نہیں تھی۔ لوگ سوکھی زمین کی تلاش میں فلائی اوور کی طرف بھاگے،‘‘ بیلا اسٹیٹ میں ہیرال لال کی پڑوسن، ۵۵ سالہ شانتی دیوی نے بتایا۔ ’’ہم نے سب سے پہلے اپنے بچوں کو بچانے کی کوشش کی؛ گندے پانی میں سانپ اور دیگر جانور ہو سکتے تھے جو اندھیرے میں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔‘‘
وہ لاچاری سے اپنے بچوں کی اسکولی کتابیں اور کھانے کا راشن بہتے ہوئے دیکھ رہی تھیں۔ ’’ہمارا ۲۵ کلو گندم برباد ہو گیا، کپڑے بہہ گئے…‘‘
کچھ ہفتوں کے بعد، سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اب گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے اپنے عارضی گھروں میں رہ رہے ان لوگوں نے پاری سے بات کی۔ ’’پرشاسن (انتظامیہ) نے سمے (وقت) سے پہلے جگہ خالی کرنے کی چیتاونی (خبر) نہیں دی۔ کپڑے پہلے سے باندھ کے رکھے تھے، گود میں اٹھا اٹھا کر بکریاں نکالیں…ہم نے ناؤ (کشتی) بھی مانگی جانوروں کو بچانے کے لیے، پر کچھ نہیں ملا،‘‘ ہیرا لال نے اگست کے شروع میں بتایا۔
ہیرا لال اور شانتی دیوی کے اہل خانہ تقریباً دو مہینے سے گیتا کالونی فلائی اوور کے نیچے رہ رہے ہیں۔ بجلی کی بنیادی ضرورت کے لیے وہ فلائی اوور کے نیچے اپنے عارضی ٹھکانے پر اسٹریٹ لائٹ سے بجلی لینے کو مجبور ہیں، تاکہ رات میں ایک بلب جلا سکیں۔ وہیں، ہیرا لال کو دن میں دو بار یہاں سے تقریباً ۵-۴ کلومیٹر دور دریا گنج کے ایک عوامی نل سے ۲۰ لیٹر پینے کا پانی اپنی سائیکل پر لاد کر لانا پڑتا ہے۔
انہیں ابھی تک کسی قسم کا کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے، اور یمنا کے کنارے کبھی ایک با وقار کسان کے طور پر زندگی بسر کرنے والے ہیرا لال اب عمارتوں کی تعمیر کے مقام پر مزدوری کرنے کو مجبور ہیں۔ ان کی پڑوسن، شانتی دیوی کے شوہر ۵۸ سالہ رمیش نشاد بھی پہلے ایک کسان تھے، لیکن اب مصروف سڑک پر وہ بھی خوانچہ فروشوں کی لمبی لائن میں کھڑے ہو کر کچوری بیچ رہے ہیں۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان کا یہ معمولی روزگار بھی جلد ہی چھن جائے گا کیوں کہ حکومت اور دہلی جی ۲۰ اجلاس کی میزبانی کو تیار ہیں۔ اگلے دو مہینے تک خوانچہ فروشوں کو سڑکوں سے ہٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ شانتی کے مطابق، سرکاری عہدیدار کہتے ہیں کہ ’’یہاں نظر مت آ جانا۔ ہم جئیں کھائیں کیسے؟ دنیا کے سامنے دکھاوا کرنے کے نام پر آپ اپنے ہی لوگوں کے گھروں اور ان کی روزی روٹی کو برباد کر رہے ہیں۔‘‘
گزشتہ ۱۶ جولائی کو دہلی حکومت نے سیلاب سے متاثرہ ہر خاندان کو ۱۰ ہزار روپے کی راحت دینے کا اعلان کیا۔ یہ رقم سن کر ہیرا لال کو یقین نہیں ہوا۔ ’’یہ کیسا معاوضہ ہے؟ کس بنیاد پر وہ اس رقم تک پہنچے؟ کیا ہماری زندگی کی قیمت بس ۱۰ ہزار روپے ہے؟ ایک بکری کی قیمت ۸۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ کم از کم ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے تو ایک کام چلاؤ جھونپڑی کھڑا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔‘‘
یہاں رہنے والے زیادہ تر لوگ اپنی زمین گنوا چکے ہیں، جس پر وہ کبھی کھیتی کرتے تھے؛ اور اب مزدوری کر رہے ہیں، رکشہ چلا رہے ہیں یا گھریلو خدمت گار کا کام تلاش کر رہے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’کیا یہ معلوم کرنے کے لیے سروے ہوا تھا کہ کس کا کتنا نقصان ہوا؟‘‘
چھ ہفتے بعد پانی تو اتر گیا ہے، لیکن سبھی کو معاوضہ نہیں ملا ہے۔ لوگ لمبی کاغذی کارروائی اور گھماؤدار عمل کو اس کے لیے ذمہ دار مانتے ہیں۔ کمل لال کہتے ہیں، ’’پہلے انہوں نے کہا کہ اپنا آدھار کارڈ، بینک کے کاغذ اور فوٹو لے آؤ، پھر انہوں نے راشن کارڈ مانگا…‘‘ انہیں یہ بھی بھروسہ نہیں کہ اس علاقے کے ڈیڑھ سو کنبوں کے لیے وہ پیسہ آخرکار آئے گا بھی یا نہیں، جو انسانوں کے ذریعے پیدا کی گئی آفت کے شکار ہیں اور جسے ٹالا جا سکتا تھا۔
اس علاقے کے تقریباً ۷۰۰ کسان کنبوں نے ریاستی پروجیکٹوں میں اپنی زرعی زمین کھو دی تھی۔ ان کی باز آبادکاری کی کوششیں آگے نہیں بڑھ پائی ہیں۔ اہلکاروں سے لگاتار کھینچ تان چل رہی ہے، جو ان سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ چاہے ’ترقی‘ ہو، نقل مکانی ہو، آفت ہو یا مظاہرہ، ان سب میں ہمیشہ اگر کوئی شکار بنا ہے، تو وہ ہیں کسان۔ کمل، بیلا اسٹیٹ مزدور بستی سمیتی کا حصہ ہیں، جو معاوضے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اگست کی حبس بھری دوپہر میں پسینہ پونچھ رہے ۳۷ سالہ کمل کہتے ہیں، ’’سیلاب نے ہمارے احتجاجی مظاہروں پر روک لگا دی۔‘‘
*****
تقریباً ۴۵ سال بعد ایسا ہوا کہ دہلی پھر سے ڈوبی۔ سال ۱۹۷۸ میں یمنا اپنے آفیشیل سیکورٹی لیول سے ۸ء۱ میٹر اوپر اٹھ کر ۵ء۲۰۷ میٹر تک پہنچ گئی تھی۔ اس سال جولائی میں یہ ۵ء۲۰۸ میٹر پار کر گئی، جو اب تک کا ریکارڈ ہے۔ ہریانہ اور اتر پردیش میں بیراج وقت پر نہیں کھولے گئے اور بھری ہوئی ندی کی وجہ سے دہلی میں سیلاب آ گیا۔ نتیجہ یہ کہ لوگوں کی جان گئی، گھر اور ذریعہ معاش ختم ہو گئے۔ فصلوں اور دوسرے آبی ذخائر کو بھی کافی نقصان پہنچا۔
سال ۱۹۷۸ میں آئے سیلاب کے دوران، حکومت دہلی کے سینچائی اور سیلاب کنٹرول محکمہ کے مطابق، ’تقریباً ۱۰ کروڑ روپے کے نقصان کا اندازہ تھا۔ تب ۱۸ لوگوں کی جان گئی تھی اور ہزاروں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔‘
ایک مفاد عامہ کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ اس سال جولائی میں کئی دن کی بارش کے بعد آئے سیلاب میں ۲۵ ہزار سے زیادہ لوگ بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر متاثر ہوئے۔ ’ یمنا ریور پروجیکٹ: نیو ڈیلہی اربن ایکولوجی‘ کے مطابق، سیلاب والے علاقوں پر مسلسل قبضے کے نتائج سنگین ہوں گے، جس سے ’’…سیلابی میدان کے نچلے علاقوں میں بنے ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ جائیں گے اور مشرقی دہلی میں پانی بھر جائے گا۔‘‘
یمنا کے کنارے تقریباً ۲۴ ہزار ایکڑ میں کاشتکاری ہوتی رہی ہے اور کسان ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے یہاں کھیتی کر رہے ہیں۔ مگر سیلاب کے میدانوں میں کنکریٹ کے مندر، میٹرو اسٹیشن، دولت مشترکہ کھیل گاؤں بنائے جانے کے بعد سیلاب کا پانی رکنے کے لیے زمین کم بچی ہے۔ پڑھیں: بڑا شہر، چھوٹے کسان، اور ایک مرتی ہوئی ندی
سال ۲۰۲۳ میں آئے سیلاب کی قیمت چکا رہے بیلا اسٹیٹ کے کمل کہتے ہیں، ’’چاہے ہم جو کریں، قدرت اپنا راستہ نکال ہی لے گی۔ پہلے بارش اور سیلاب کے دوران پانی پھیل جاتا تھا اور اب چونکہ [میدانوں میں] جگہ کم ہے، اسے بہنے کے لیے بھرنا پڑا اور اس دوران اس نے ہمیں برباد کر دیا۔ صاف کرنی تھی یمنا، لیکن ہمیں ہی صاف کر دیا۔‘‘
کمل مزید کہتے ہیں، ’’یمنا کے کنارے ترقیاتی کام نہیں کرنا چاہیے۔ اسے سیلاب والا علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ سی ڈبلیو جی، اکشر دھام، میٹرو، یہ سب قدرت کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ قدرت کو جتنی جگہ چاہیے، وہ تو لے گی۔ پہلے پانی پھیل کر جاتا تھا اور اب چونکہ جگہ کم ہے، تو اٹھ کر جا رہا ہے، جس کی وجہ سے نقصان ہمیں ہوا ہے۔‘‘
’’دہلی کو کس نے ڈبویا؟ حکومت دہلی کے سینچائی اور سیلاب کنٹرول محکمہ کو ہر سال ۲۵-۱۵ جون کے درمیان تیار کرنی ہوتی ہے۔ اگر انہوں نے بیراج کے گیٹ [وقت پر] کھیل دیے ہوتے، تو پانی اس طرح نہیں بھرتا۔ پانی انصاف مانگنے سپریم کورٹ گیا،‘‘ راجندر سنگھ سنجیدگی کے ساتھ کہتے ہیں۔
گزشتہ ۲۴ جولائی، ۲۰۲۳ کو ’دہلی کا سیلاب: قبضہ یا حق؟‘ موضوع پر ہوئے عوامی مباحثہ میں الور کے ماہر ماحولیات راجندر سنگھ نے کہا، ’’یہ کوئی قدرتی آفت نہیں تھی۔ بے موسم بارش پہلے بھی ہو چکی ہے۔‘‘ مباحثہ کا اہتمام دہلی میں یمنا سنسد نے کیا تھا، جو یمنا کو آلودگی سے بچانے کے لیے لوگوں کی ایک پہل ہے۔
مباحثہ میں ڈاکٹر اشونی کے گوسائیں نے کہا، ’’اس سال یمنا کے ساتھ جو ہوا اس کے لیے ذمہ دار لوگوں کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔‘‘ وہ ۲۰۱۸ میں نیشنل گرین ٹربیونل کے ذریعے تشکیل کردہ یمنا مانیٹرنگ کمیٹی کے ماہر رکن تھے۔
وہ پوچھتے ہیں، ’’پانی میں رفتار بھی ہوتی ہے۔ بند کے بغیر پانی کہاں جائے گا؟‘‘ وہ بیراج بنانے کی بجائے آبی ذخائر بنانے کے حق میں ہیں۔ دہلی کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں وہ سول انجینئرنگ کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ۱۵۰۰ غیر قانونی کالونیوں کے ساتھ ساتھ سڑک پر نالیوں کی کمی کے سبب پانی سیور لائنوں میں جاتا ہے اور ’’اس سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں۔‘‘
*****
بیلا اسٹیٹ کے کسان پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی، کاشتکاری رک جانے، باز آبادکاری نہ ہونے اور بے دخلی کے خطرے کے سبب غیر یقینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ پڑھیں: ’دہلی میں کسانوں کے ساتھ ایسا برتاؤ ہوتا ہے‘ ۔ حالیہ سیلاب نقصان کے اس سلسلے کی ایک تازہ مثال ہے۔
ہیرا لال کہتے ہیں، ’’۱۰ ضرب ۱۰ کی جھگی [عارضی گھر] میں رہنے والے ۵-۴ لوگوں کی ایک فیملی کے لیے اسے بنانے کی لاگت ۲۰ سے ۲۵ ہزار روپے آتی ہے۔ اکیلے برساتی شیٹ کی قیمت ۲۰۰۰ روپے ہے۔ اگر ہم گھر بنانے کے لیے مزدور رکھتے ہیں، تو ہمیں روزانہ ۷۰۰-۵۰۰ روپے ادا کرنے ہوں گے۔ اگر ہم اسے خود کرتے ہیں، تو اپنی خود کی اجرت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔‘‘ ہیرا لال اپنی بیوی اور ۱۷، ۱۵، ۱۰ اور ۸ سال کی عمر کے چار بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بانس کے ہر ستون کی قیمت بھی ۳۰۰ روپے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں کم از کم ایسے ۲۰ ستون چاہیے۔ بے گھر ہوئے کنبوں کو یہ نہیں معلوم کہ ان کے نقصان کی تلافی کون کرے گا۔
مویشیوں کو پھر سے جمع کرنے کی لاگت الگ ہے، جن میں سے کئی کی سیلاب کے دوران موت ہو گئی۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ایک بھینس کی قیمت ۷۰ ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ اسے زندہ رکھنے اور دودھ نکالنے کے لیے آپ کو اسے اچھی طرح کھلانا ہوگا۔ جس بکری کو ہم بچوں کی روزانہ دودھ کی ضرورت اور گھر میں چائے کے لیے رکھتے ہیں، اسے خریدنے میں ۸۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے کا خرچ آتا ہے۔‘‘
ان کی پڑوسن، شانتی دیوی نے پاری کو بتایا کہ ان کے شوہر یمنا کنارے کے زمین مالک اور کسان کہلانے کی قانونی لڑائی ہار گئے۔ اب وہ سائیکل پر کچوڑی بیچتے ہیں، مگر مشکل سے یومیہ ۳۰۰-۲۰۰ روپے کما پاتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پولیس ہر مہینے ان سے ۱۵۰۰ روپے لیتی ہے، چاہے آپ وہاں تین دن کھڑے ہوں یا ۳۰ دن۔‘‘
سیلاب کا پانی اتر گیا ہے، لیکن دوسری مصیبتیں سر اٹھانے لگی ہیں۔ ملیریا، ڈینگو، حیضہ، ٹائیفائیڈ جیسی متعدی بیماریوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ سیلاب کے فوراً بعد، راحت کیمپوں میں ہر دن آئی فلو کے ۱۰۰ سے زیادہ معاملے آ رہے تھے۔ لیکن ان کیمپوں کو اس کے بعد سے ہٹا لیا گیا ہے۔ جب ہم ہیرا لال سے ملے، تو ان کی آنکھیں آئی (لال آنکھ: ریڈ آئی) ہوئی تھیں۔ انہوں نے مہنگی قیمت والا دھوپ کا چشمہ اٹھایا اور بولے، ’’یہ ۵۰ روپے کے آتے ہیں، لیکن مانگ بڑھنے کی وجہ سے ۲۰۰ روپے میں بیچے جا رہے ہیں۔‘‘
معاوضہ کا انتظار کر رہے کنبوں کی طرف سے بولتے ہوئے وہ طنزیہ ہنسی کے ساتھ کہتے ہیں، ’’یہ کوئی نئی کہانی نہیں ہے، لوگ ہمیشہ دوسروں کی تکلیفوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز