پٹل پور گاؤں میں اب اجول داس کے علاوہ کوئی اور نظر نہیں آتا۔ گاؤں میں کسانوں کی اب یہی آخری فیملی بچی ہے۔
پچھلے سال اکتوبر میں ہاتھیوں نے پٹل پور گاؤں میں ان کے مٹی سے بنے گھر کو پوری طرح اجاڑ دیا تھا۔ اور یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا، بلکہ گزشتہ ۱۰ سالوں میں ہاتھیوں کے ذریعے ان کے گھر کو اسی طرح آٹھ بار گرایا جا چکا ہے۔
فصل کی کٹائی کا وقت تھا اور مانسون بھی آ چکا تھا، یعنی آشاڑ اور شراون کا مہینہ تھا۔ ہاتھیوں کا یہ جھنڈ پہاڑیوں اور جنگل کے راستے تقریباً ۲۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہاڑیوں کے دامن میں آباد پٹل پور گاؤں تک آیا تھا۔ یہ ہاتھی پہلے میوراکشی ندی کی معاون ندی سدھشیوری کے کنارے رکے، اور کچھ دیر وہاں آرام کیا۔ یہ گاؤں سے تقریباً ایک کلومیٹر دور ہے۔ پھر، اتنے لمبے سفر کے بعد بھوکے ہاتھیوں کا یہ جھنڈ فصلوں والے کھیتوں کی طرف آیا۔
چندنا اور اجول داس کے چھوٹے بیٹے پرسین جیت بتاتے ہیں، ’’ہم جان کو خطرے میں ڈال کر انہیں بھگانے کے لیے جلتی ہوئی مشعلیں لے کر گئے۔ یہ ہاتھی یہاں پر کئی بار آتے ہیں اور کھیتوں میں کھڑی دھان کی فصلوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اگر ہاتھی ساری فصلیں کھا گئے، تو ہم کیا کھائیں گے؟‘‘
داس صرف دھان کے نقصان سے فکرمند نہیں ہیں۔ فیملی اپنی ۱۴ بیگھہ (تقریباً ۶ء۸ ایکڑ) زمین پر آلو، لوکی، ٹماٹر اور کدو کے ساتھ ساتھ کیلا اور پپیتا بھی اگاتی ہے۔ اور پھر اُجول داس کوئی معمولی کسان نہیں ہیں۔ ان کے کدوؤں نے انہیں ریاستی ایوارڈ ’کرشک رتن‘ دلوایا، جو ریاست کے ہر بلاک سے سب سے بہتر کارکردگی کرنے والے کسان کو ہر سال دیا جاتا ہے۔ انہوں نے ۲۰۱۶ اور ۲۰۲۲ میں یہ انعام راج نگر بلاک سے جیتا تھا۔ اس کے لیے انہیں ۱۰ ہزار روپے نقد اور ایک سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا۔
پٹل پور میں ان کا گھر مغربی بنگال کے بیر بھوم ضلع کے بالکل مغربی کنارے پر ہے۔ کچھ ہی دور بعد جھارکھنڈ کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور ہر سال ہاتھیوں کا جھنڈ کھانے کی تلاش میں یہاں آتا ہے۔ پہلے وہ پہاڑیوں سے ملحق جنگلوں میں انتظار کرتے ہیں اور پھر فوراً پاس کے کھیتوں میں آ جاتے ہیں۔
وہ پہلے جن گاؤوں میں پہنچتے ہیں، ان میں سے ایک پٹل پور ہے۔ ان کے دھاوا بولنے کا اثر کیا رہا ہے، وہ یہاں کے ٹوٹے پھوٹے اور خالی کر دیے گئے مکانوں، ٹوٹے ہوئے تلسی منچوں اور خالی آنگن کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
تقریباً ۱۳-۱۲ سال پہلے جب ہاتھیوں نے پہلی بار اس گاؤں پر حملہ کیا تھا، تب وہاں ۳۳۷ لوگ رہتے تھے (مردم شماری ۲۰۱۱)۔ اگلی دہائی میں یہ تعداد کم ہو گئی اور آج (۲۰۲۳) میں راج نگر بلاک کے اس گاؤں میں صرف ایک فیملی بچی ہے، جو اپنی زمین اور گھر پر ڈٹی ہوئی ہے۔ بار بار ہاتھیوں کے حملے سے دہشت زدہ اور پریشان گاؤں والے ہجرت کرکے سوری، راج نگر اور جوائے پور جیسے پڑوسی قصبوں اور شہروں کی طرف چلے گئے ہیں۔
گاؤں کے ایک سرے پر اپنے ایک منزلہ مٹی کے گھر کے آنگن میں بیٹھے ۵۷ سال کے اُجول داس نے بتایا، ’’جن میں استطاعت تھی وہ دوسرے گاؤوں میں چلے گئے۔ میری فیملی بڑی ہے۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔ اگر ہم چلے گئے، تو ہم کھائیں گے کیا؟‘‘ اجول کی فیملی یہاں کی بیراگی برادری کے زمرے میں آتی ہے، جو مغربی بنگال میں دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) کے طور پر درج ہے۔
تقریباً ۵۳ سال کی چندنا داس کہتی ہیں کہ جب وہ ہاتھیوں کی چنگھاڑ سنتی ہیں، تو اپنے گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور جوائے پور کی طرف نکل جاتی ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر یہ ممکن نہیں ہوتا، تو ’’ہم سبھی گھر کے اندر ہی رہتے ہیں۔‘‘
گاؤں کے ان واحد مکینوں کا کہنا ہے کہ ان کے سامنے دوسرے مسائل بھی ہیں۔ گنگ موڑی جوائے پور پنچایت میں آنے والے اس گاؤں کی سڑک خطرناک طریقے سے جنگل سے ملحق ہے۔ رکنے کے فیصلہ کے پیچھے ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہاتھیوں کے حملے شروع ہونے کے بعد سے کوئی بھی اس علاقے میں زمین نہیں خریدنا چاہتا۔ اجول کہتے ہیں، ’’اس لیے زمین بیچ کر نکل پانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔‘‘
فیملی کے دوسرے ممبران میں اجول کی بیوی چندنا داس اور ان کے دو بیٹے چیرن جیت اور پرسین جیت ہیں۔ ان کی ۳۷ سالہ بیٹی بیشاکھی کی شادی ۱۰ سال پہلے ہوئی تھی اور وہ سینتھیا میں رہتی ہیں، جو پٹل پور سے تقریباً ۵۰ کلومیٹر دور ہے۔
پرسین جیت (۲۷ سالہ) کے پاس ایک ماروتی کار ہے اور وہ بتاتے ہیں کہ اسے وہ پڑوسی گاؤں والوں کو کرایے پر دے کر تقریباً ۱۰ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ فیملی کے دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی خاندانی زمین پر کام کرتے ہیں اور بارش پر منحصر فصلیں اگاتے ہیں۔ پیداوار کا ایک حصہ وہ اپنے کھانے کے لیے رکھتے ہیں اور اجول باقی حصہ راج نگر میں ہفتے میں ہر جمعرات اور اتوار کو لگنے والی ہاٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ ہفتہ کے باقی دنوں میں وہ یا تو سائیکل پر یا اپنے بیٹے چیرن جیت کی موٹر سائیکل پر گاؤں گاؤں جا کر سبزیاں بیچتے ہیں۔ وہ اپنے لیے ایک متعینہ رقم الگ رکھ کر دھان بھی بیچ دیتے ہیں۔
اجول داس کہتے ہیں، ’’اپنی فصلوں سے پیار کی وجہ سے مجھے ہاتھیوں کے حملے کا درد برداشت کرتے ہوئے بھی یہیں رہنا ہوگا۔‘‘ وہ اس جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔
راج نگر ہائی اسکول کے تاریخ کے سابق استاد سنتوش کرمکار کے مطابق، گھٹتے جنگلوں کی وجہ سے ہاتھی زرعی علاقوں میں آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ جھارکھنڈ کو پار کرنے کے بعد پرولیہ کی جس دلما رینج میں داخل ہوتے ہیں، وہاں پہلے گھنے جنگل ہوا کرتے تھے اور جھنڈ کو وافر مقدار میں چارہ مل جاتا تھا۔
سنتوش کہتے ہیں، ’’آج ہاتھی پریشان ہیں۔ وہ چارے کے لیے پہاڑیاں چھوڑ کر نکل رہے ہیں۔‘‘ لگژری ریسورٹ بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی کے ساتھ ساتھ انسان کی موجودگی بڑھنے کی وجہ سے ہاتھیوں کے لیے کھانا کم رہ گیا ہے اور ان کی پناہ گاہ میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔
پرسین جیت کے مطابق، اس سال (۲۰۲۳) گاؤں میں کوئی ہاتھی نہیں دیکھا گیا، لیکن تشویش برقرار ہے: ’’اگر وہ سبھی آئے تو کیلے کے باغ کو ختم کر دیں گے۔‘‘ ان کا کیلے کا باغ ۱۰ کٹھہ (صفر اعشاریہ ۱۶ ایکڑ) میں پھیلا ہوا ہے۔
مغربی بنگال کے محکمہ جنگلات کی رپورٹ کے مطابق، کسانوں کو ’’انسانوں کی موت/زخم کے ساتھ ساتھ جنگلی جانوروں کی وجہ سے گھروں/فصلوں/مویشیوں کے نقصان کے لیے‘‘ معاوضہ ملنا چاہیے۔ اجول داس کے پاس صرف چار بیگھہ زمین کے کاغذات ہیں۔ باقی زمین (دس بیگھے) انہیں اپنے اجداد سے وراثت میں ملی ہے، مگر ثبوت کے طور پر کوئی دستاویز نہیں ہے اور اس لیے انہیں اپنے نقصان کا کوئی پیسہ نہیں مل سکتا۔ انہوں نے بتایا، ’’اگر ہاتھی ۳۰-۲۰ ہزار روپے کی فصل برباد کر دیتے ہیں، تو حکومت انہیں ۵۰۰ روپے سے ۵۰۰۰ روپے کے درمیان کچھ دے دیتی ہے۔‘‘
سال ۲۰۱۵ میں انہوں نے درخواست دی تھی، تو انہیں راج نگر میں بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر سے معاوضہ کے طور پر ۵۰۰۰ روپے ملے تھے۔ تین سال بعد ۲۰۱۸ میں انہیں معاوضہ کے طور پر ایک مقامی لیڈر سے ۵۰۰ روپے ملے۔
محکمہ جنگلات کے رینجر، قدرتِ خدا کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کی حفاظت کے لیے ہر طرح کا احتیاط برتتے ہیں۔ ’’ہمارے پاس ’ایراوت‘ نام کی ایک کار ہے۔ ہم ہاتھیوں کو بھگانے کی خاطر سائرن بجانے کے لیے یہ کار استعمال کرتے ہیں۔ ہم انہیں بغیر کوئی جسمانی نقصان پہنچائے صرف سائرن بجا کر بھگا دیتے ہیں۔‘‘
محکمہ جنگلات کے پاس مقامی ’گج متر‘ بھی ہوتے ہیں۔ پٹل پور سے سات کلومیٹر دور باگان پاڑہ کے پانچ نوجوانوں کو محکمہ جنگلات نے گج متر کے طور پر کام کرنے کے لیے ٹھیکہ پر رکھا ہے۔ ہاتھیوں کے آنے پر وہی محکمہ جنگلات کو مطلع کرتے ہیں۔
مگر پٹل پور کے آخری رہائشی اس سے متفق نہیں ہیں۔ چندنا داس کہتی ہیں، ’’ہمیں محکمہ جنگلات سے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘ ویران پڑے گھر اور خالی آنگن ان کی بے بسی کو صاف طور پر ظاہر کرتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز