چار دہائیوں میں پہلی دفعہ کیلاری ناگیشور راؤ نے ۲۰۱۷ میں اپنے کھیتوں میں تمباکو نہیں لگایا۔ اس فصل پر گزشتہ تین سالوں میں انہیں ۱۵ لاکھ روپے کا نقصان ہوا تھا اور وہ مزید نقصان کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
تمباکو کی پیداوار کی پیش کردہ قیمت کم ہو رہی تھی، اور اسے اگانے کی لاگت بڑھ رہی تھی۔ ۶۰ سالہ ناگیشور راؤ کا اندازہ ہے کہ پرکاسم ضلع کے پوڈیلی منڈل میں ان کے گاؤں موگا چنتلا میں ۲۴۰۰ ایکڑ زرعی زمین میں سے نصف اب خالی پڑی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسان تمباکو کی کاشت نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ ’’اس سے ہمیں صرف نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
پورے آندھرا پردیش میں تمباکو کی کاشت ۲۰۱۵-۱۶ میں ۳ء۳ لاکھ ایکڑ سے گھٹ کر ۲۰۱۶-۱۷ میں ۲۴ء۲ لاکھ ایکڑ رہ گئی۔ تمباکو بورڈ کے ایک اہلکار کے مطابق، اسی مدت میں ریاست میں تمباکو کی پیداوار ۱۶۷ملین کلو سے کم ہو کر ۱۱۰ ملین کلو رہ گئی۔ یہ اعداد بورڈ کے ۱۳۰ ملین کلو کے سالانہ ہدف سے بہت کم ہیں۔ ۱۹۷۰ کی دہائی میں وزارت تجارت اور صنعت کی طرف سے قائم کردہ بورڈ کا صدر دفتر گنٹور میں ہے۔ اس کے کردار میں کسانوں اور تمباکو کمپنیوں کے درمیان مارکیٹ کی ثالثی بھی شامل ہے۔
ایسے کئی عوامل ہیں جو کسانوں کو تمباکو کی کھیتی ترک کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک، پہلے ہی سے خشک سالی والے علاقے میں بارش کی کمی ہے۔ پرکاسم ضلع میں سالانہ اوسط بارش ۸۰۸ ملی میٹر ہوتی تھی، جبکہ جولائی ۲۰۱۷ سے (ریاستی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق) اصل بارش کم ہو کر تقریباً ۵۶۰ ملی میٹر رہ گئی ہے۔ یہ بارش عام طور پر خشک سمجھے جانے والے اننت پور ضلع کے پچھلے سال کی تقریباً ۵۸۰ ملی میٹر بارش سے بھی کم ہے، اور پورے آندھرا پردیش کی ۸۸۰ ملی میٹر کی اوسط کے آس پاس بھی نہیں ہے۔
کسان رہنماؤں کے اندازے کے مطابق، طویل عرصے (ایک صدی سے زیادہ) سے پرکاسم میں تمباکو ایک اہم فصل رہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ اسے کاشت کرنے کے لیے نسبتاً کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اب بارش کی کمی اور بورویل کے زیادہ استعمال نے پہلے سے ہی نیچے چلی گئی زیر زمین پانی کی سطح کو مزید نیچے کر دیا ہے۔
اگست میں شروع ہونے والی تمباکو کی بوائی سے چند ماہ قبل، مئی ۲۰۱۷ میں ضلع پرکاسم میں زیر زمین پانی ۲۳ میٹر کی گہرائی پر تھا، جبکہ باقی آندھرا پردیش میں یہ گہرائی ۷۹ء۱۴ میٹر (سرکاری اعداد و شمار کے مطابق) تھی۔ آندھرا پردیش واٹر، لینڈ اینڈ ٹریز ایکٹ، ۲۰۰۲ کے مطابق جہاں زیر زمین پانی ۲۰ میٹر سے نیچے ہو وہاں بورویل نہیں لگائے جا سکتے ہیں۔ چنانچہ پچھلے سال، زیر زمین پانی کو بچانے کے لیے، ضلع کے ۱۰۹۳ گاؤوں میں سے ۱۲۶ میں بورویل کھودنے پر مبینہ طور پر پابندی لگا دی گئی تھی۔
’’میں نے [۲۰۱۱ سے ۲۰۱۴ کے درمیان] ۱۱ بور ویل کھودے اور ہر ایک پر [تقریباً] ۲ لاکھ روپے خرچ کیے، لیکن اب ان میں سے ۱۰ بورویل کام نہیں کر رہے ہیں،‘‘ ینوگنتی سبّا راؤ کہتے ہیں۔ وہ موگا چنتلا میں ۴۰ ایکڑ زمین (۲۰ ایکڑ ان کی ملکیت، اور ۲۰ ایکڑ لیز کی) پر تمباکو، مکئی اور باجرہ کی کھیتی کرتے ہیں۔ پچھلے سال ۱۵ لاکھ روپے کی اچھی قیمت پر سڑک سے ملحق ایک ایکڑ زمین بیچنے کے بعد بھی فصلوں پر ہونے والے کئی سالوں کے نقصانات کی وجہ سے سبّا راؤ پر ۲۳ لاکھ روپے کا قرض ہے۔
سال ۲۰۰۹ میں مکمل ہونے والے گنڈلاکمّا آبی ذخیرے سے آبپاشی نے تمباکو کے زیر کاشت زمین کو بھی کم کر دیا۔ اس کے بعد قرضوں میں ڈوبے کسانوں نے اپنی فصلوں میں تنوع لانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ناگیشور راؤ نے بھی چنے، مٹر اور دیگر اناج جیسی فصلوں کے ساتھ تجربہ کیا ہے، لیکن پیداوار کی کم بازاری قیمتوں کی وجہ سے انہیں بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دریائے کرشنا پر ویلگنڈہ پروجیکٹ، جو ۲۰۰۵ میں آبی ذخیرے کی تعمیر کے ساتھ شروع ہوا تھا، اب بھی زیر تعمیر ہے۔
کسانوں کے تمباکو کی کاشت چھوڑنے کی ایک اور وجہ تمباکو کمپنیوں کی جانب سے ناقص قیمت کی پیشکش بھی ہے۔ موگا چِنتلا میں اپنی پانچ ایکڑ زمین میں سے تین ایکڑ پر تمباکو اگانے والے ۴۸ سالہ دلت کسان ویما کونڈئیہ وضاحت کرتے ہیں، ’’ایک کلو تمباکو تیار کرنے میں ہمیں ۱۲۰ روپے کا خرچ آتا ہے اور سگریٹ کمپنیاں ہمیں صرف ۹۰ سے۱۰۰ روپے دیتی ہیں۔ کمپنیاں تمباکو بورڈ کے ساتھ لابنگ کرکے بہت کم قیمت طے کرتی ہیں۔‘‘
وجے واڑہ میں مقیم آل انڈیا کسان سبھا کے رہنما ناگابوینا رنگاراؤ کہتے ہیں، ’’سگریٹ کمپنیاں ایک کلو تمباکو سے ۱۲۰۰ سے ۱۴۰۰ سگریٹ بناتی ہیں۔ وہ تمباکو پر ۲۵۰ روپے فی کلوگرام سے کم سرمایہ کاری کرکے ۲۰ ہزار روپے حاصل کرتی ہیں۔‘‘ مثال کے طور پر، آئی ٹی سی کمپنی کی ۲۰۱۷ کی سالانہ رپورٹ میں ۱۰ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے منافع کی بات کی گئی ہے۔
تمباکو کی کاشت کے غیرپائیدار ہونے کی ایک اور وجہ موگا چنتلا اور باقی مغربی پرکاسم میں جنوبی ہلکی مٹی کی کم پیداواری قوت ہے۔ ’’یہاں تین کوئنٹل فی ایکڑ تمباکو بھی ایک ریکارڈ ہے،‘‘ کونڈئیہ کہتے ہیں۔ یہاں اوسط پیداوار ۲ سے ۵ء۲ کوئنٹل فی ایکڑ ہے۔
مشرقی پرکاسم کے ساحلی علاقے کی جنوبی کالی مٹی کی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے۔ یہاں فی ایکڑ پیداوار ۶ سے ۷ کوئنٹل ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی کسان غیرمستحکم قیمتوں کی وجہ سے تمباکو کی کھیتی چھوڑ رہے ہیں۔
مشرقی پرکاسم میں ناگلوپّلا پاڈو منڈل کے ٹی اگراہرم گاؤں میں ۲۲۰ گوداموں (جو ایک گاؤں میں سب سے زیادہ ہیں) میں سے اب صرف ۶۰ کام کر رہے ہیں۔ آل انڈیا ایگریکلچرل ورکرز یونین، جس نے ۲۰۱۵ میں گاؤں میں ایک سروے کیا تھا، کی ایک رپورٹ کے مطابق پورے آندھرا پردیش کے ۴۲ ہزار گوداموں میں سے ۱۵ ہزار اب استعمال میں نہیں ہیں۔ گودام تمباکو کسانوں سے زیادہ سرمایہ کاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہاں تاجروں یا سگریٹ کمپنیوں کو فروخت کرنے سے پہلے تمباکو کو خشک اور تیار کیا جاتا ہے۔
گوداموں کا بند ہونا اور تمباکو کے زیر کاشت زمین کا سکڑنا بھی عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن آف ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) سے منسلک ہے، جس کا مقصد تمباکو کی کھپت کو کم کرنا ہے۔ سال ۲۰۱۶ میں، ایف سی ٹی سی پر دستخط کرنے والوں نے (بشمول ہندوستان کے) مرحلہ وار طریقے سے تمباکو کی پیداوار کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس لیے تمباکو بورڈ نے نئے گوداموں کو لائسنس دینا بند کر دیا ہے اور تمباکو کے کم ہوتے منافع کی وجہ سے کسانوں کی درخواستیں بھی کم ہو رہی ہیں۔
سری نواس راؤ ٹی (۴۰ سالہ) اگراہرم کے ایک کرایہ دار کسان ہیں، جو ۳۰ ہزار روپے فی ایکڑ سالانہ کی لیز پر لی گئی زمین پر تمباکو اگاتے ہیں۔ ان پر صرف پچھلے زرعی سیزن میں ۵ء۱ لاکھ روپے کا قرض ہو گیا ہے۔ ’’میں نے ۲۰۱۲ میں ۶ لاکھ روپے کی لاگت سے ایک گودام بنوایا تھا، جسے پچھلے سال ۳ لاکھ روپے میں فروخت کردیا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب کوئی بھی گودام خریدنے کو تیار نہیں ہے۔ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں ۱۰ لاکھ فی گودام کا معاوضہ دیا جائے اور ہم منٹوں میں تمباکو کی کاشت چھوڑ دیں گے۔ سال ۲۰۱۰ میں تقریباً ۳۳ موتھے (مزدوروں کے گروہ) باہر سے گاؤں کے گوداموں میں کام کرنے آئے تھے۔ اس سال بمشکل ۱۰ موتھے آئے ہیں۔‘‘
انہی عوامل کی وجہ سے پرکاسم کے تمباکو کسان کم پانی سے اگنے والی منافع بخش فصلوں کے متبادل تلاش کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جب میں نے موگا چنتلا گاؤں کا دورہ کیا تھا، تو سبّا راؤ دوسرے کسانوں کو اپنے اسمارٹ فون پر لاکھ کی فصل کے بارے میں یوٹیوب ویڈیو دکھا رہے تھے۔ ’’ہمیں اس فصل کو اپنے گاؤں میں آزمانا چاہیے،‘‘ انہوں نے کہا اور گاؤں والوں نے سر ہلا کر ان سے مزید بتانے کو کہا۔ ’’یہ ایک نقدی فصل ہے جو سریکاکولم ضلع اور اوڈیشہ کے کچھ حصوں میں اگائی جاتی ہے اور اسے زیادہ پانی کی ضرورت نہیں ہوتی،‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں۔
دریں اثنا، دہلی میں آٹورکشہ اور بس اسٹاپ پر یہ کہتے ہوئے کسانوں کے پوسٹر لگے ہیں کہ ’ہماری روزی روٹی کی حفاظت کریں‘۔ ان پر تمباکو فروخت کرنے والوں کی قومی تنظیم ’اکھل بھارتیہ پان وکریتا سنگٹھن‘ کا نام اور لوگو لگا ہوا ہے۔ جب میں کسانوں سے اس مہم کے بارے میں پوچھتا ہوں تو وہ جواب میں تمباکو کمپنیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ اس کے بعد سبا راؤ مزید کہتے ہیں، ’’اگر کسان متحد ہو کر آبپاشی کی سہولیات کے لیے یا سگریٹ کمپنیوں کے خلاف لڑتے تو ہماری حالت بہتر ہوسکتی تھی۔‘‘
اس مضمون کا مشترکہ طور پر تصنیف کردہ ایک اور ورژن سب سے پہلے ۲ فروری ۲۰۱۸ کو ’دا ہندو بزنس لائن‘ میں شائع ہوا تھا۔
مترجم: شفیق عالم