’’ہم جہاں بھی جاتے ہیں، ساتھ ہی جاتے ہیں،‘‘ گیتا دیوی پاس ہی کھڑی اپنی سہیلی سکونی کو پیار سے دیکھتے ہوئے کہتی ہیں۔
وہ دونوں قریب کے جنگل سے سال (شوریا روبُسٹا) کے پتے جمع کرتی ہیں، جس سے وہ دونا (پیالے) اور پَتّل (پلیٹ) بناتی ہیں اور انہیں پاس کے شہر ڈالٹن گنج میں بیچنے جاتی ہیں، جو پلامو ضلع میں آتا ہے۔
گیتا اور سکونی دیوی ۳۰ سالوں سے کوپے گاؤں کی ایک چھوٹی سی بستی ندی ٹولہ میں رہ رہی ہیں۔ ریاست جھارکھنڈ کے بہت سے دیگر لوگوں کی طرح گیتا اور سکونی بھی اپنی روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے جنگل پر منحصر ہیں۔
وہ سات سے آٹھ گھنٹے جنگل میں گزارتی ہیں۔ جب ان کے مویشی چرنے کے بعد گھر کی طرف رخ کرنے لگتے ہیں، تو وہ بھی گھر لوٹتی ہیں۔ دونے اور پتّلوں کے لیے مناسب مقدار میں پتے جمع کرنے میں انہیں دو دن تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ جنگل میں وقت بڑی تیزی سے گزر جاتا ہے، جس میں وہ کام کے درمیان تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے آرام بھی کرتی ہیں۔ اس دوران وہ اپنی فیملی کے بارے میں باتیں کرتی ہیں اور مقامی خبریں بھی ایک دوسرے سے شیئر کرتی ہیں۔
گیتا ہر صبح اپنی پڑوسن کے آواز دینے کا انتظار کرتی ہیں، ’’نکلہیں…‘‘ چند لمحوں بعد وہ دونوں نکل پڑتی ہیں، ہر ایک کے پاس سیمنٹ کی پرانی بوریوں سے بنی ایک تھیلی ہوتی ہے جس میں ایک پانی کی بوتل، ایک چھوٹی کلہاڑی اور پرانے کپڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔ وہ جھارکھنڈ کے پلامو ٹائیگر ریزرو کے بفر ژون (درمیانی علاقے) میں واقع ہیہیگڑا جنگل کی طرف روانہ ہو جاتی ہیں۔
دونوں سہیلیاں الگ الگ برادریوں سے آتی ہیں – گیتا کا تعلق بھوئیاں دلت برادری سے ہے اور سکونی اوراؤں قبائلی برادری سے ہیں۔ جب ہم چلنا شروع کرتے ہیں، تو گیتا نے ہمیں متنبہ کرتے ہوئے کہا: ’’یہاں اکیلے مت آنا۔ کبھی کبھی جنگلی جانور بھی یہاں آتے ہیں۔ ہم نے یہاں تیندوؤں کو آتے دیکھا ہے!‘‘ یہاں سانپ اور بچھوؤں کا خطرہ بھی بہت زیادہ ہے۔ سکونی بتاتی ہیں، ’’کئی بار ہمارا سامنا ہاتھیوں سے بھی ہوا ہے۔‘‘ پلامو ٹائیگر ریزرو میں ۷۳ چیتے اور تقریباً ۲۶۷ ہاتھی ہیں ( جنگلی حیات کی گنتی، ۲۰۲۱ )۔
سردیوں کی اس دھندلی صبح میں گیتا اور سکونی نے صرف ہلکی سی شال اوڑھ رکھی ہے۔ دونوں کی عمر ۵۰ سال سے زیادہ ہے۔ وہ پہلے لاتیہار ضلع کے منیکا بلاک میں واقع اپنے گھر کے قریب بہنے والی اورنگا ندی کو پار کرتی ہیں۔ موسم سرما میں جب پانی کم ہوتا ہے تو دریا کو پیدل عبور کرنا آسان ہوتا ہے، لیکن بارش کے دنوں میں خواتین کو اکثر اُس پار جانے کے لیے گردن تک گہرے پانی سے گزرنا پڑتا ہے۔
دوسری طرف پہنچ جانے کے بعد، مزید ۴۰ منٹ تک پیدل چلنا پڑتا ہے۔ جنگل کی خاموشی ان کے قدموں کی آہٹ (درختوں کے گرے پڑے خشک پتوں پر پیر پڑنے سے ٹک-ٹک-ٹک کی آوازیں نکلتی ہیں) سے ٹوٹتی ہے۔ وہ ایک بڑے مہوا کے درخت (مدھوکا لانگی فولیا) کی طرف بڑھ رہی ہیں جو سال کے درختوں سے پوری طرح سے گھرے اس علاقے کے لیے سنگ میل کی طرح ہے۔
سکونی کہتی ہیں، ’’یہ جنگل اب ویسا نہیں رہا جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔ یہ پہلے بہت زیادہ گھنا تھا… ہمیں اتنا دور نہیں آنا پڑتا تھا۔‘‘ گلوبل فاریسٹ واچ کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ جھارکھنڈ میں ۲۰۰۱ سے ۲۰۲۲ کے درمیان ۶۲ء۵ کلو ہیکٹر کا جنگلاتی علاقہ ختم ہوگیا ہے۔
چند دہائی قبل، جنگل کے اپنے پرانے سفر کو یاد کرتے ہوئے سکونی کہتی ہیں، ’’اُس زمانے میں دن کا کوئی بھی پہر ہو، ۳۰-۴۰ لوگ جنگل میں ہر وقت رہا کرتے تھے۔ اب تو زیادہ تر مویشی اور بکریوں کے چرواہے، اور لکڑیاں جمع کرنے والے لوگ ہی نظر آتے ہیں۔‘‘
گیتا بتاتی ہیں کہ چار سال پہلے بھی کئی خواتین اس کام سے جڑی ہوئی تھیں، لیکن اس کام میں کم آمدنی ہونے کی وجہ سے وہ انہیں جاری نہیں رکھ سکیں۔ یہ سہیلیاں اپنے گاؤں کی آخری خواتین میں سے ہیں جو ابھی تک یہ کام کر رہی ہیں۔
خواتین نے اس لیے بھی لکڑیاں اکٹھا کرنا چھوڑ دیا ہے، کیونکہ بیچنے کے لیے جنگل سے جلانے والی لکڑیاں جمع کرنا اب ممنوع ہے۔ سکونی بتاتی ہیں، ’’سال ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن کے دوران ہی اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔‘‘ شروع میں حکومت جھارکھنڈ نے جلانے والی لکڑیاں جمع کرنے پر فیس لینا شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ، بعد میں حکومت نے اس فیصلے کو واپس لے لیا، لیکن گاؤں والے بتاتے ہیں کہ سوکھی لکڑیاں بیچنے کے لیے انہیں اب بھی فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔
دونوں سہیلیاں اپنا اور اپنے اہل خانہ کا گزارہ کرنے کے لیے جنگل جاتی ہیں۔ سکونی نے یہ کام ۲۰ سال کی عمر میں شروع کیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’میری شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔‘‘ اور جب ان کے شرابی شوہر نے انہیں چھوڑ دیا، تو سکونی کو اپنی اور اپنے تین بیٹوں کی کفالت کرنے کا کوئی نہ کوئی طریقہ ڈھونڈنا ہی تھا۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اُس وقت کام ملنا بہت مشکل تھا۔ پتے اور دتووَن [مسواک] بیچ کر میں نے کسی طرح اپنے بچوں کی پرورش کی۔‘‘
سکونی اب ۱۷ سال کے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے اکندر اوراؤں کے ساتھ دو کمروں کے ایک کچے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے دو بڑے بیٹوں کی شادی ہوچکی ہے اور وہ کوپے (ان کا اپنا گاؤں) میں ہی الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں۔
ان کے گھر سے کچھ ہی دوری پر، گیتا اپنی فیملی کے ساتھ مٹی سے بنے ایک گھر میں رہتی ہیں۔ گیتا کی فیملی میں ان کے علاوہ ۷ اور ممبران ہیں: ایک بیٹی، تین بیٹے، ایک بہو اور دو پوتے۔ ان کے شوہر کا پانچ سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ گیتا کی سب سے چھوٹی بیٹی، ۲۸ سالہ ارمیلا دیوی بھی دونا بیچتی ہیں، لیکن وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے لیے ایک بہتر مستقبل کی خواہاں ہیں۔ گیتا کہتی ہیں، ’’میں نے اپنی بڑی بیٹی کی شادی ایک غریب گھرانے میں کی تھی۔ میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ ایسا نہیں کروں گی۔ اگر مجھے جہیز دینا بھی پڑے، تو میں دوں گی۔‘‘
چھوٹی عمر سے ہی کام کرنے والی اور سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی گیتا کبھی اسکول نہیں جا پائیں۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’اگر میں اسکول جاتی تو گھر کا کام کون کرتا؟‘‘ ان کا دن علی الصبح ہی شروع ہوجاتا ہے، تقریباً ۴ بجے صبح سے ہی وہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں، جیسے کھانا پکانا، صفائی کرنا اور جنگل جانے سے پہلے مویشیوں (ایک گائے اور دو بیل) کو چرنے کے لیے چھوڑنا۔ ان کی سہیلی کا معمول بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ لیکن گیتا کے برعکس، ان کی بہو گھر کے کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ وہیں سکونی کو سارا کام اکیلے کرنا ہوتا ہے۔
*****
جنگل کے بفر ژون میں پہنچ کر، دونوں عورتیں اپنا تھیلا اتار کر نیچے رکھ دیتی ہیں۔ اتنی ٹھنڈی صبح میں بھی کئی کلومیٹر پیدل چلنے کی وجہ سے وہ پسینے سے شرابور ہو چکی ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وہ اپنی ساڑیوں کے پلو سے اپنی پیشانی اور گردن کے پسینے کو پونچھ رہی ہیں۔
کام شروع کرنے سے پہلے، وہ کپڑے کے پرانے ٹکڑے کے کونوں کو ایک عارضی بیگ میں باندھ دیتی ہیں، جس میں وہ پتے جمع کریں گی۔ ساڑی کے پلو کو اپنی کمر میں ٹھونس کر اور تھیلے کو کندھوں پر لٹکانے کے بعد اب وہ اپنا کام شروع کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔
وہ اپنے بائیں ہاتھ سے شاخوں کو پکڑ کر دائیں ہاتھ سے بڑے بڑے بیضوی شکل کے پتوں کو توڑتی ہیں۔ سکونی اپنی سہیلی کو خبردار کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس پیڑ میں ماٹا [سرخ چیونٹیاں] ہیں، تھوڑا دیکھ کر۔‘‘
گیتا اپنے تھیلے میں کچھ پتے ڈالتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم اچھے پتوں کو اکٹھا کرتے ہیں، جن میں سوراخ کم ہوں۔‘‘ وہ چھوٹی شاخوں سے پتے توڑتی ہیں، لیکن جب پتے ان کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں، تو انہیں درخت پر چڑھنا پڑتا ہے اور کلہاڑی کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
سال کے درخت عام طور پر آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں، اور تقریباً ۱۶۴ فٹ کی اونچائی تک بڑھتے ہیں۔ تاہم، اس جنگل میں سال کے درخت چھوٹے ہوتے ہیں، تقریباً ۳۰-۴۰ فٹ تک ہی ان کی لمبائی ہوتی ہے۔
سکونی تقریباً ۱۵ فٹ کی اونچائی والے درختوں میں سے ایک پر چڑھنے کے لیے تیار ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی ساڑی کو اوپر اٹھاتی ہیں اور اسے اپنے گھٹنوں کے درمیان باندھ لیتی ہیں۔ گیتا انہیں کلہاڑی پکڑاتی ہیں۔ وہ ایک شاخ کی طرف اشارہ کر کے بتاتی ہیں، ’’یہ والا کاٹو۔‘‘ شاخوں کو ایک لمبائی میں کاٹا جائے گا اور پھر اسے مسواک کی طرح استعمال کیا جائے گا، جسے وہ بعد میں بیچیں گی۔
گیتا ایک درخت سے دوسرے درخت تک جانے کے لیے اپنی کلہاڑی سے جھاڑیوں کو صاف کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’اس کی موٹائی بالکل صحیح ہونی چاہیے۔ سال کی ٹہنیاں بہت اچھی ہوتی ہیں، کیونکہ یہ جلدی سوکھتی نہیں ہیں۔ اسے آپ ۱۵ دنوں تک بھی رکھ سکتے ہیں۔‘‘
پتوں اور ٹہنیوں کو اکٹھا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ گیتا کہتی ہیں، ’’سردیوں کا مہینہ سب سے مشکل ہوتا ہے؛ ہمارے ہاتھ شل ہو جاتے ہیں۔ کلہاڑی کے دستے کو مضبوطی سے پکڑنے کی وجہ سے میرے ہاتھوں میں درد ہونے لگتا ہے۔‘‘
فروری اور مارچ کے مہینوں میں جب سال کے پتے جھڑنے لگتے ہیں، تو اپریل-مئی میں نئے پتوں کے آنے تک ان کا کام رک جاتا ہے۔ اس دوران، سکونی مہوا کے پھول چننے کا کام کرتی ہیں۔ اس سال (۲۰۲۳) کے شروع میں، انہوں نے جنگل سے ۱۰۰ کلو مہوا کے پھل اکٹھا کیے تھے اور انہیں سُکھا کر ایک مقامی تاجر کو ۳۰ روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا تھا۔ سبز پھلوں کو شراب بنانے، خوردنی تیل نکالنے اور غذائی اشیاء کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
گیتا اس دوران کچھ بھی نہیں کماتیں، اور گھر کا خرچ ان کے تین بیٹوں کی آمدنی سے چلتا ہے جو مہاجر مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کے گھر میں جو مہوا کا درخت ہے اس سے ان کی گھریلو ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔
*****
جنگل میں تین دنوں کی مشقت کے بعد، گیتا اور سکونی وافر مقدار میں پتے جمع کر لیتی ہیں اور اپنے تھیلوں کو ڈٓالٹن گنج لے کر جاتی ہیں۔ تقریباً ۳۰ کلو وزنی بوریوں کو اٹھا کر، وہ آدھا گھنٹہ پیدل سفر کرکے ہیہیگڑا ریلوے اسٹیشن پہنچتی ہیں۔ گیتا ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’میں اس بار زیادہ مسواک لے جا رہی ہوں۔‘‘ ان کی پیٹھ پر تھیلے کے علاوہ ایک گرم کمبل بھی ہے۔
ہیہیگڑا اسٹیشن پر، ایک درخت کے نیچے جگہ تلاش کر کے وہ دونوں بیٹھ جاتی ہیں اور دوپہر ۱۲ بجے کی لوکل ٹرین کا انتظار کرتی ہیں، جو انہیں ڈالٹن گنج لے کر جائے گی۔
’’پتہ-دتوَن بیچنے والوں کو ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی،‘‘ سکونی ٹرین کے دروازے کے ساتھ والی سیٹ پر اپنا سامان رکھتے ہوئے اس رپورٹر کو بتاتی ہیں۔ سست رفتار مسافر ٹرین کو ۴۴ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں تین گھنٹے لگیں گے۔ سکونی ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’صرف اس سفر کو طے کرنے میں ہی پورا دن ضائع ہوجاتا ہے۔‘‘
ٹرین چلنے لگی ہے اور گیتا اپنی ڈھائی ایکڑ زمین کے بارے میں بتاتی ہیں، جہاں وہ مانسون کے دوران دھان اور مکئی اور سردیوں میں گندم، جو اور چنے کی کھیتی کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’اس سال دھان کی فصل اچھی نہیں ہوئی، لیکن ہم نے ۲۵۰ کلو مکئی، ۵۰۰۰ روپے میں بیچی۔‘‘
سکونی دیوی تقریباً ایک ایکڑ زمین کی مالک ہیں، جہاں وہ خریف اور ربیع دونوں سیزن میں کھیتی کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’اس بار میں نے کھیتی نہیں کی۔ میں نے دھان کی فصل بوئی تھی، لیکن اس سے کوئی پیداوار نہیں ہوئی۔‘‘
وہ گپ شپ بھی کر رہی ہوتی ہیں، اور ساتھ ساتھ دونا بھی بناتی جاتی ہیں – چار سے چھ پتوں کو ایک دوسرے کے اوپر ترتیب سے رکھتی ہیں اور پھر بانس کی پٹیوں کے ساتھ ان کی سلائی کر دیتی ہیں۔ نرم پتیاں کئی بار موڑنے پر بھی نہیں ٹوٹتی ہیں، جس کی وجہ سے پلیٹیں اچھی بن جاتی ہیں۔ سکونی بتاتی ہیں کہ اگر پتہ بڑا ہے تو دو پتوں سے ایک دونا بن سکتا ہے۔ ورنہ، ایک دونا کے لیے چار سے چھ پتے لگتے ہیں۔‘‘
وہ ان پتوں کے کناروں کو جوڑ کر ایک گول دائرے کی شکل بناتی ہیں، تاکہ جب کھانا اس میں رکھا جائے تو وہ گرنے نہ پائے۔ گیتا دیوی کہتی ہیں، ’’اگر ہم اس میں سالن ڈال دیں، تو بھی وہ لیک نہیں ہوں گے۔‘‘
بارہ دونے کا ایک بنڈل چار روپے میں فروخت ہوتا ہے اور ہر بنڈل میں تقریباً ۶۰ پتے لگتے ہیں۔ تقریباً ۱۵۰۰ پتوں کو توڑنے، تیار کرنے اور شہر جا کر بیچنے کے بعد ان کی کمائی محض ۱۰۰ روپے ہی ہوتی ہے۔
خواتین داتون (مسواک) اور پولا (سال کے پتے) کو بھی ۱۰-۱۰ کے بنڈلوں میں فروخت کرتی ہیں، جن کی قیمت بالترتیب پانچ اور ۱۰ روپے ہوتی ہے۔ سکونی کہتی ہیں کہ اتنی محنت کے بعد بھی حالت یہ ہے کہ ’’لوگ مسواک کے لیے پانچ روپے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے، اور مول تول کرتے ہیں۔‘‘
شام ۵ بجے، ٹرین ڈالٹن گنج پہنچتی ہے۔ اسٹیشن کے باہر، سڑک کے کنارے گیتا زمین پر نیلے رنگ کی پالیتھین شیٹ بچھاتی ہیں اور دونوں پھر سے دونا بنانے کا کام شروع کر دیتی ہیں۔ وہ پتّلوں یا پلیٹوں کا آرڈر بھی لے رہی ہیں۔ ایک پلیٹ بنانے کے لیے ۱۲ سے ۱۴ پتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اسے ایک سے ڈیڑھ روپے فی پلیٹ کے حساب سے فروخت کرتی ہیں۔ ان کا استعمال گرہ پرویش (نوتعمیر شدہ گھر میں پہلے پہل داخل ہونے کی تقریب) یا نوراتر یا مندروں میں کھانا بانٹنے جیسے خاص موقعوں کے دوران کیا جائے گا۔ سو یا اس سے زیادہ پّتلوں کے بڑے آرڈر کے لیے کئی لوگ ایک ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
گیتا اور سکونی دیوی تب تک یہیں رہیں گی، جب تک ان کا سارا سامان فروخت نہیں ہو جاتا۔ سکونی بتاتی ہیں کہ کبھی کبھی اس میں ایک دن سے زیادہ لگ جاتا ہے، اور یہاں تک کہ آٹھ دن کا وقت بھی لگ سکتا ہے، ’’اگر دونا بیچنے والے اور لوگ آ جاتے ہیں۔‘‘ ایسے موقعوں پر، پلاسٹک کی نیلی چادر رات بھر کے لیے ان کا بستر بن جاتی ہے، اور جو کمبل وہ ساتھ رکھتی ہیں، ان کے کام آتے ہیں۔ اگر انہیں یہاں کچھ دن رکنا پڑا، تو وہ دن میں دو بار ستّو (پیسا ہوا چنا) سے اپنا پیٹ بھرتی ہیں، جس مد میں ہر روز فی کس ۵۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ان کی دکان ہمہ وقت کھلی رہتی ہے اور رات کی ٹرین کے مسافر ان سے مسواک خریدتے ہیں۔ شام کو گیتا اور سکونی اسٹیشن کے اندرنی حصے میں چلی جاتی ہیں۔ ڈالٹن گنج ایک چھوٹا شہر ہے اور اسٹیشن ایک محفوظ پناہ گاہ ہے۔
*****
تین دن بعد، گیتا نے دونا کے ۳۰ بنڈل اور مسواک کے ۸۰ بنڈل بیچ کر ۴۲۰ روپے کمائے ہیں، جبکہ سکونی کو دونا کے ۲۵ بنڈل اور مسواک کے ۵۰ بنڈل بیچ کر ۳۰۰ روپے ملے ہیں۔ کمائے ہوئے پیسوں کے ساتھ دونوں پلامو ایکسپریس میں سوار ہوتی ہیں، جو دیر رات کو روانہ ہوتی ہے اور اگلی صبح انہیں برواڈیہہ چھوڑے گی۔ وہاں سے ہیہیگڑا جانے کے لیے انہیں لوکل ٹرین پکڑنی ہوگی۔
سکونی اپنی کمائی سے خوش نہیں ہیں۔ وہ اپنا سامان سمیٹتے ہوئے کہتی ہیں، ’’یہ مشکل کام ہے اور کمائی بھی زیادہ نہیں ہے۔‘‘
لیکن انہیں دو چار دن میں واپس آنا پڑے گا۔ گیتا کہتی ہیں، ’’اسی سے میری روزی روٹی چلتی ہے۔ جب تک ہاتھ پیر چل رہے ہیں، میں یہ کام کرتی رہوں گی۔‘‘
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) سے ملی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: سبطین کوثر