’’میری ماں کے ساتھ اس موضوع پر میرا کل رات ہی جھگڑا ہوا ہے،‘‘ ۲۱ سالہ آشا بسّی بتاتی ہیں۔ ’’پچھلے ساڑھے تین سالوں سے میرے والدین مجھے پڑھائی چھوڑ کر شادی کر لینے کے لیے کہہ رہے ہیں،‘‘ وہ مزید وضاحت کے ساتھ اپنی بات بتاتی ہیں۔
یوتمال شہر کے ساوتری جیوتی راؤ سماج کاریہ مہاودیالیہ میں آخری سال کی طالبہ آشا سوشل ورک سے گریجویشن کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے معاملہ میں اپنی فیملی کے ابتدائی ارکان میں سے ایک ہیں۔ ’’جن لڑکیوں کی جلدی شادی ہو جاتی ہے، ان کی تعریف کی جاتی ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں، اور ساتھ میں یہ کہنا بھی نہیں بھولتیں، ’’لیکن میں خود کو تعلیم یافتہ بنانا چاہتی ہوں، اپنے آپ کو آزاد کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔‘‘
آشا، مہاراشٹر کے یوتمال ضلع کے جیولی گاؤں میں رہتی ہیں اور متھرا لبھان برادری سے تعلق رکھتی ہیں، جو ریاست میں ڈی نوٹیفائیڈ قبیلہ کی فہرست میں شامل ہے۔ ان کے ماں باپ کسان ہیں اور جیولی میں اپنی زمین پر ہی سویا، کپاس، گیہوں اور جوار کی کھیتی کرتے ہیں۔
فیملی اپنے چار بچوں – تین بیٹیاں اور ایک بیٹا – کا پیٹ بھرنے کے لیے کھیتی پر منحصر ہے۔ آشا سب سے بڑی اولاد ہیں، جو اپنے ماموں اور ممانی کے ساتھ یوتمال شہر میں رہتی ہیں اور گریجویشن کی پڑھائی کر رہی ہیں۔
آشا کے ماں باپ نے کچھ مقامی ٹیچروں کی درخواست پر ۷ سال کی عمر میں ان کا داخلہ گھر کے پاس ہی موجود ضلع پریشد (زیڈ پی) اسکول میں کرا دیا تھا۔ انہوں نے وہاں تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد جیولی سے ۱۲ کلومیٹر دور یوتمال شہر چلی گئیں۔ وہاں انہوں نے مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ سے منظور شدہ اسکول میں پڑھائی کی، اور اس کے بعد قریب کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔
’’ہماری برادری میں لڑکیاں عموماً ۷ویں جماعت تک تعلیم حاصل کر پاتی ہیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کا اسکول جانا چھڑوا دیا جاتا ہے۔ بہت کم لڑکیاں کالج کا منہ دیکھ پاتی ہیں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ تین سال قبل ان کی چھوٹی بہن کی بھی شادی کر دی گئی۔
آشا کہتی ہیں، ’’ہمارا معاشرہ قدامت پرست ہے۔‘‘ لڑکیوں کے محبت والی شادی یا بین ذات شادی کر لینے کے خوف سے ڈرے ہوئے لوگ لڑکیوں پر شادی کا دباؤ ڈالتے ہیں۔ ’’اگر کوئی لڑکی اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہو جاتی ہے، تو اس کی سہیلیوں کا بھی اسکول جانا چھڑوا دیا جاتا ہے،‘‘ آشا بتاتی ہیں۔ ’’میں اپنی برادری میں ایسی کسی لڑکی کو نہیں جانتی، جس نے اپنی ذات سے باہر کسی لڑکے سے شادی کی ہو۔‘‘
آشا کہتی ہیں کہ شادی کر لینے کا دباؤ کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران اپنے عروج پر تھا۔ اس دوران وہ اپنے گاؤں جیولی لوٹ آئی تھیں۔ ان دنوں شادی کے مقصد سے ان کو کچھ لڑکوں سے ملوایا بھی گیا تھا۔ ’’وبائی مرض کے دوران میرے علاقہ کی ۳۰ سے زیادہ لڑکیوں کی شادی کر دی گئی، جو ۲۱ سال سے کم عمر کی تھیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔
چونکہ جیولی میں اعلیٰ تعلیم کے لیے لڑکیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے، اس لیے یہاں تعلیم کو شادی ملتوی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں مانی جاتی۔ ’’چونکہ میری چھوٹی بہن کی شادی ہو چکی ہے اور میری نہیں ہوئی ہے، اس لیے لوگ مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔
’’اپنی تعلیم کے لیے میں جو کچھ بھی کرتی ہوں، اپنے دم پر کرتی ہوں،‘‘ آشا کہتی ہیں، لیکن یہ کہتے ہوئے وہ اپنی اداسی کو چھپا پانے میں ناکام رہتی ہیں۔ چونکہ وہ اپنی فیملی کی پہلی رکن ہیں، جس نے اپنی اعلی تعلیم جاری رکھی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے تعلیم کے بارے میں مناسب رہنمائی نہیں مل پاتی ہے۔ ان کے والد بال سنگھ بسّی نے ۱۱ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے اور ماں ومل نے ۵ویں جماعت تک پڑھائی کی ہے۔ ’’ان کو ابھی بھی میری پڑھائی لکھائی سے بہت زیادہ امید نہیں ہے، کیوں کہ میں لڑکی ہوں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے ’’لوٹایچا کام‘‘ ہو گیا ہے – ایک ایسا کام جس میں بہت زیادہ ذہنی اور جسمانی محنت کی ضرورت پڑتی ہے۔
’’گھر کے کسی رکن نے میری پڑھائی لکھائی میں دلچسپی نہیں لی،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ ’’کاش میری ماں نے مجھ سے کبھی کہا ہوتا، ’تو کر، می توجیا پاٹھی شی آہے‘ [تم پڑھو، میں تمہارے ساتھ ہوں]۔‘‘ لیکن آشا کے مطابق، ان کی ماں ہی ان کی تعلیم سے سب سے زیادہ چڑھتی ہیں۔
جیولی سے سب سے قریب کا کالج بیٹر گاؤں میں ہے، جو ۱۲ کلومیٹر دور ہے۔ ’’اکیلے اسکول آنے جانے کی صورت میں ماں باپ اپنی بیٹی کی حفاظت کو لے کر فکرمند رہتے ہیں۔ اس لیے، لڑکیاں عموماً گروپ میں آتی جاتی ہیں،‘‘ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ناکافی اور نامناسب سہولیات کی نشاندہی کرتے ہوئے آشا کہتی ہیں۔ ’’اگر کوئی لڑکی اسکول جانا چھوڑ دیتی ہے، تو دوسرے سرپرست بھی ساتھ آنے جانے والی سہیلی کے نہ ہونے کے سبب اپنی بیٹی کو پڑھائی چھوڑ دینے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘
آشا یاد کرتی ہیں کہ اسکول کی پڑھائی کے لیے یوتمال شہر جانے کا فیصلہ بہت آسان نہیں تھا۔ وہ متھرا لبھان بولی بولتی تھیں، جو اسکول میں مراٹھی ذریعہ تعلیم سے الگ تھی۔ اس کی وجہ سے ان کے لیے کلاس اور اسکول کے دیگر پروگراموں میں حصہ لینا مشکل تھا۔ ’’میرے ہم جماعت میری بولی کا مذاق اڑایا کرتے تھے،‘‘ آشا بتاتی ہیں۔ ’’مجھے ڈر لگتا تھا کہ اگر میں کلاس میں اپنی بولی میں بات چیت کروں گی، تو وہ ہنسیں گے۔‘‘
اس تشویش نے اسکول میں آشا کی نشوونما کو متاثر کیا۔ ’’۶ویں جماعت تک میں صرف مراٹھی کے حروف ہی لکھ پاتی تھی، پورا جملہ لکھ پانا میرے لیے ناممکن تھا۔ ۵ویں جماعت تک میں کُترا [کتا] اور مانجر [بلی] جیسے چھوٹے موٹے الفاظ بھی نہیں پڑھ پاتی تھی۔‘‘
حالانکہ، ان کی جھجک تب دور ہوئی، جب انہوں نے مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ سینئر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ (ایس ایس سی) کے دسویں کے امتحان میں ۷۹ فیصد نمبرات حاصل کیے۔ اس کامیابی نے ان کے اندر خود اعتمادی پیدا کی اور وہ اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے ماموں کو راضی کرنے میں کامیاب رہیں۔ ۱۲ویں جماعت میں انہوں نے ۶۳ فیصد نمبرات حاصل کیے۔
آشا کی اکیڈمک حصولیابیاں ان کے ارد گرد کے لوگوں کے لیے خاص معنی نہیں رکھتیں – ’’میرے والدین کبھی بھی فخر کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کی بیٹی شہر میں رہ کر گریجویشن کر رہی ہے، کیوں کہ ہمارے سماج میں اس بات کی کوئی قیمت ہی نہیں ہے۔‘‘
کم عمر میں شادی کر دینے کا چلن لڑکیوں کے اندر سے تعلیم حاصل کرنے کا سارا جوش نچوڑ لیتا ہے۔ ’’اگر پہلے سے ہی طے ہو کہ ۱۶ سال کی عمر تک لڑکیوں کی شادی کر دینی ہے، تو وہ پڑھائی کے لیے محنت کیوں کریں گی؟‘‘ آشا سوال کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، انہوں نے اپنے اندر کی خواہشوں کو مرنے نہیں دیا ہے۔ تعلیم کی خصوصیات کے بارے میں وہ بیدار ہیں اور اس بیداری نے ان کے اندر تحفظ کا احساس بھی پیدا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’محفوظ مستقبل کا خواب میں تعلیم کی وجہ سے ہی دیکھ سکتی ہوں۔‘‘
آشا کو پڑھنا کافی پسند ہے۔ ان کی پسندیدہ کتابوں میں سریتا آواڈ کی ’ہم رستہ ناکارتانا‘ اور سنیتا برڈے کی ’پھندری‘ شامل ہے، جو سماج کی کمزور اور اندیکھی کی شکار خواتین کی محروم زندگی کو اجاگر کرتی ہے۔ آشا ’ویمن اسٹڈیز‘ موضوع میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہیں اور پہلے ہی ان کا انتخاب سونی پت کی اشوک یونیورسٹی میں ینگ انڈیا فیلو کے طور پر ہو چکا ہے۔
یوتمال شہر آنے کے بعد آشا کی خود اعتمادی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ’’میرے رشتہ دار سوشل ورک کی ڈگری کو بہت زیادہ قابل احترام نہیں سمجھتے، لیکن میرے لیے یہ بہت کارگر اور اطمینان بخش رہا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ جیولی میں آشا کی متھرا لبھان برادری کے لوگوں کے گھروں کو اجتماعی طور پر تانڈے کہا جاتا ہے۔ ان کی رہائش عموماً عام بستی سے الگ ہوتی ہے۔ ’’اس طرح الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے ہمارے لیے جدید اور ترقی پسند خیالات کے رابطہ میں آنا مشکل ہو جاتا ہے،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ کالج میں ان کے ٹیچر ان کے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آتے ہیں – خاص طور پر پروفیسر گھن شیام درنے، جنہوں نے انہیں مراٹھی پڑھایا ہے۔
’’عام طور پر لوگ مانتے ہیں کہ عورتیں کچھ بھی حاصل کرنے کے قابل نہیں ہیں،‘‘ آشا کہتی ہیں۔ ان کے لہجہ میں مایوسی سے زیادہ غصہ ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں اس نظریہ کو بدلنا چاہتی ہوں۔ جب میں بڑا عہدہ حاصل کر لوں گی، تو اپنے گاؤں لوٹنا چاہوں گی اور یہاں کی لڑکیوں کی دنیا میں مثبت اور بڑی تبدیلی لانا چاہوں گی۔ میں یہاں سے پیچھا نہیں چھڑانا چاہتی۔‘‘
حالانکہ، پہلے آشا کو لگن (شادی) کے آئندہ سیزن سے نمٹنا ہے، جس وقت شادی کر لینے کا دباؤ کافی بڑھ جاتا ہے۔ آشا کہتی ہیں، ’’مجھے اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت ہمت کی ضرورت ہے۔‘‘
مترجم: قمر صدیقی