ہر بار جب میں اپنے لوگوں کی موت کے بارے میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، میرا دماغ ٹھیک ویسے ہی سُنّ پڑ جاتا ہے جیسے کسی مرے ہوئے آدمی کے جسم سے سانس نکل جاتی ہے۔

ہمارے ارد گرد کی دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہاتھ سے میلا صاف کرنے والے ملازمین کی زندگی کے تئیں ہمارا معاشرہ آج بھی کوئی جوابدہی محسوس نہیں کرتا ہے۔ سرکار ان کی موت کو سرے سے خارج کرتی ہے، لیکن اس سال لوک سبھا میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں سماجی انصاف اور تفویض اختیار کے وزیر رام داس اٹھاولے کے ذریعہ پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، سال ۲۰۲۳-۲۰۱۹ کے درمیان ’’سیوروں اور سیپٹک ٹینکوں کی صفائی کے پر خطر کام کے سبب‘‘ ۳۷۷ صفائی ملازمین کی موت ہوئی۔

گزشتہ سات سالوں میں، میں نے ذاتی طور پر مین ہول میں ہونے والی اموات کے متعدد معاملے دیکھے ہیں۔ اکیلے چنئی ضلع کے اوَڈی میں ۲۰۲۲ سے لے کر اب تک مین ہول میں ہوئی اموات کے ۱۲ حادثے ہو چکے ہیں۔

گزشتہ ۱۱ اگست کو اوڈی کے رہنے والے اور ارون دھتیار برادری سے تعلق رکھنے والے ۲۵ سالہ ہری کی موت ایک سیویج کنال کی صفائی کے دوران ڈوبنے سے ہو گئی۔ وہ ایک کانٹریکٹ لیبر تھے۔

ہری انّا کی موت کے بارہ دن بعد، میں اس حادثہ کی رپورٹنگ کرنے وہاں گیا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی لاش ان کے گھر میں ایک فریزر باکس میں رکھی ہوئی تھی۔ ان کے گھر والے ان کی بیوی تمل سیلوی کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اب انہیں بیوہ کے طور پر مطلوبہ تمام رسم و رواج مکمل کر لینے چاہئیں۔ ان کے پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے ان کے پورے جسم پر ہلدی لپیٹ دیا اور ان کی تالی [شادی شدہ عورتوں کی نشانی] کاٹنے سے پہلے انہیں غسل کرایا گیا۔ ان رواجوں کو پورا کرتے وقت وہ خاموش ہی رہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

ہری کی موت کا سبب ہاتھ سے میلا صاف کرنے کا کام ہی تھا۔ ہری اور ان کی بیوی تمل سیلوی نے، جو معذوری کی شکار ہیں، محبت کی شادی کی تھی۔ تمل اور ان کی بیٹی ان کی لاش کے سامنے روتے رہے

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: دیپا اکّا آنجہانی گوپی کی بیوی ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہر کے تئیں اپنی محبت کا اظہار کرنے کے لیے ان کا نام اپنے دائیں ہاتھ پر گودوا رکھا ہے۔ دائیں: گوپی کا انتقال ۱۱ اگست، ۲۰۲۴ کو ہوا۔ کچھ دن بعد، ۲۰ اگست کو ان کی شادی کی سالگرہ اور ۳۰ اگست کو ان کی بیٹی (جو اس تصویر میں دیکھی جا سکتی ہے) کی پیدائش ہوئی تھی

جب وہ اپنے کپڑے بدلنے کے لیے دوسرے کمرے میں گئیں، تب پورے کمرے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ان کا گھر صرف لال اینٹوں سے بنا ہوا ہے اور دیواروں میں سیمنٹ بھی نہیں لگایا گیا ہے۔ جو اینٹیں دکھائی پڑ رہی تھیں وہ بھی اب گھِس کر بھربھری ہونے لگی تھیں۔ ایسا لگتا تھا، گویا پورا گھر کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔

جب تمل سیلوی اکّا اپنی ساڑی بدلنے کے بعد واپس لوٹیں، تب وہ چیختی ہوئی فریزر باکس کی طرف دوڑ پڑیں اور باکس کے بغل میں بیٹھ کر دہاڑیں مارتی ہوئی رونے لگیں۔ ان کے رونے کی آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی اور وہاں جمع لوگ بالکل خاموش ہو گئے۔

’’میرے پیارے! اٹھ جاؤ! میری طرف دیکھو، ماما [پیار کا لفظ]، یہ لوگ مجھے ساڑی پہنا رہے ہیں۔ تمہیں تو میرا ساڑی پہننا پسند نہیں ہے نا؟ اٹھ کر انہیں روکو کہ میرے ساتھ زبردستی نہ کریں۔‘‘

یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں۔ تمل سیلوی اَکّا جسمانی طور پر معذوری کی شکار ہیں اور ان کا ایک ہاتھ نہیں ہے۔ انہیں اپنی ساڑی کی پلیٹ میں اور اپنے کندھے پر پن لگانے میں پریشانی ہوتی ہے۔ اسی لیے وہ ساڑی نہیں پہنتی ہیں۔ یہ منظر آج بھی میرا پیچھا کرتا ہے اور مجھے پریشان کرتا ہے۔

ایسی تمام موت جو میں نے دیکھی ہے، آج بھی مجھے پریشان کرتی ہے۔

مین ہول میں ہوئی ہر ایک موت کے پیچھے بہت سی کہانیاں چھپی رہ جاتی ہیں۔ دیپا (۲۲)، جنہوں نے اوڈی میں ہوئی حالیہ مین ہول اموات میں اپنے شوہر کو بھی گنوا دیا، یہ سوال پوچھتی ہیں کہ کیا ۱۰ لاکھ کا معاوضہ ان کی فیملی کی خوشیوں کی تلافی کر سکتا ہے؟ وہ بتاتی ہیں، ’’۲۰ اگست کو ہماری شادی کی سالگرہ ہے اور ۳۰ اگست کو ہماری بیٹی کا یوم پیدائش ہے، اور وہ بھی ہمیں چھوڑ کر اسی مہینہ چلے گئے۔‘‘ انہیں جو مالی معاوضہ ملے گا اس سے ان کی تمام معاشی ضروریات پوری نہیں ہو سکتی ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: گلی میں گوپی کی لاش کو لانے سے پہلے فیملی کے لوگ کیلے کے خشک پتوں کو جلاتے ہوئے۔ دائیں: رواج کے مطابق وہ زمین پر کچھ پھول رکھتے ہیں

PHOTO • M. Palani Kumar

گوپی کی لاش کو ایک آئس باکس میں رکھا جا رہا ہے۔ سال ۲۰۱۳ میں ہاتھ سے میلا صاف کرنے کے کام پر قانونی پابندی لگنے کے باوجود، یہ عمل  آج بھی بے روک ٹوک جاری ہے۔ صفائی ملازمین کہتے ہیں کہ اہلکار اُن پر مین ہول میں داخل ہونے کا دباؤ ڈالتے ہیں، انہیں دھمکی دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے انکار کیا تو ان کی مزدوری کاٹ لی جائے گی

PHOTO • M. Palani Kumar

دیپا اکّا اپنے شوہر گوپی کے جسم سے لپٹتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر کی لاش کو لے جانے دینے کے لیے بالکل بھی تیار دکھائی نہیں دیتی ہیں

مین ہول حادثوں میں مارے گئے صفائی ملازمین کے بیوی بچوں کو عموماً متاثر نہیں مانا جاتا ہے۔ ویلّو پورم ضلع کے مادم پٹّو گاؤں میں جب انوشیا اَکّا کے شوہر ماری ایک مین ہول میں مارے گئے، تو انہیں رونے کا بھی موقع نہیں مل پایا، کیوں کہ وہ آٹھ مہینے کی حاملہ تھیں۔ میاں بیوی کو پہلے سے ہی تین بیٹیاں تھیں۔ پہلی دو بیٹیاں رونے لگیں، لیکن تیسری اتنی چھوٹی تھی کہ اسے احساس بھی نہیں ہوا کہ تمل ناڈو کے مشرقی ساحل پر آباد ان کے گھر کے اندر کیا کچھ واقع ہو چکا تھا۔

سرکاری معاوضہ میں ملے پیسے کو حقیر نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ’’میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں پاتی ہوں، مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے شوہر کے خون کے گھونٹ پی رہی ہوں،‘‘ انوشیا اکّا نے کہا۔

جب میں تمل ناڈو کے کرور ضلع میں متوفی صفائی ملازم بالا کرشنن کے گھر والوں سے ملا، تو میں نے پایا کہ ان کی بیوی گہرے ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کام کرتے ہوئے وہ اکثر اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی بھول جاتی ہیں۔ انہیں سنبھلنے اور اپنے ماحول کے تئیں بیدار ہونے میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔

ان خاندانوں کی زندگیاں پوری الٹ پلٹ چکی ہیں، بھلے ہی ہمارے لیے یہ اموات خبروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔

PHOTO • M. Palani Kumar

ویلّو پورم کے مادم پٹّو گاؤں کے ماری کی موت بھی میلا صاف کرنے کے دوران ہوئی۔ ان کی موت کے وقت ان کی بیوی انوشیا آٹھ مہینے کی حاملہ تھیں

PHOTO • M. Palani Kumar

ماری کی لاش ان کے گھر سے نکال کر اس قبرستان میں لے جائی جا رہی ہے، جہاں ان کی برادری کے لوگوں کو دفن کیا جاتا ہے۔ یہ دیگر برادریوں کے قبرستانوں سے الگ ہے

پچھلے سال، ۱۱ ستمبر ۲۰۲۳ کو اوڈی میں بھیما نگر کے صفائی ملازم موزز کی موت ہو گئی۔ علاقہ میں ٹائلوں کی چھت والا اکلوتا گھر ان کا ہی ہے۔ ان کی دونوں بیٹیاں حالات کو سمجھنے لائق بڑی ہو چکی تھیں۔ میں ان کے گھر ان کی لاش آنے سے ایک دن پہلے ہی گیا تھا۔ ان کی بیٹیوں نے ٹی شرٹ پہن رکھی تھی جن پر لکھا تھا – ’’ڈیڈ لوز می،‘‘ اور ’’ڈیڈز لٹل پرنسز‘‘۔ میں نہیں بتا سکتا کہ ایسا اتفاقاً ہوا تھا یا نہیں۔

دونوں پورا دن لگاتار روتی رہیں اور دوسروں کے ذریعہ خاموش کرانے کے باوجود بھی ان کا رونا بند نہیں ہوا۔

ہم ان ایشوز کو درج کرنے اور انہیں نام نہاد قومی دھارے کی بحثوں میں لانے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن ان اموات کو صرف خبر ماننے کی روایت چلن میں ہے۔

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: چنئی کے اوڈی ضلع کے بھیما نگر گاؤں میں ایک دوسری موت میں متوفی موزز کی ماتم کناں فیملی ان کی لاش پر پھول رکھتی ہوئی۔ دائیں: فیملی کے لوگ ان کی لاش کے سامنے دعا کرتے ہوئے

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: جب موزز کی لاش سے بدبو آنے لگی تو مجمع جلدی سے ان کی لاش کو وہاں سے لے گیا۔ دائیں: آنجہانی اوڈی موزز کا گھر

دو سال پہلے، شری پیرومبدور ضلع میں کانجی پٹّو گاؤں کے پاس تین صفائی ملازمین – نوین کمار (۲۵)، تروملائی (۲۰) اور رنگناتن (۵۰) کی موت ہو گئی۔ تروملائی کی حالیہ دنوں ہی شادی ہوئی تھی، اور رنگناتن کے دو بچے ہیں۔ مرنے والوں میں ایسے متعدد مزدور ہیں جن کی نئی نئی شادی ہوئی ہے اور ان کی ماتم کناں بیواؤں کو دیکھنا واقعی ایک دل دہلا دینے والا منظر ہے۔ اپنے شوہر کی موت کے کچھ مہینے بعد دوسروں نے موتو لکشمی کی گود بھرائی کی رسم پوری کی۔

ہمارے ملک میں ہاتھ سے میلا صاف کرنا غیر قانونی کام ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مین ہول کے اندر ہونے والی اموات کو کم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آگے اس ایشو کو کیسے اٹھاؤں۔ میری تحریر اور فوٹوگراف اس جابرانہ کام کا سامنے کرنے کے لیے میرے واحد ہتھیار ہیں۔

میرے اوپر ان اموات کا گہرا اثر پڑا ہے۔ میں اکثر خود سے یہ سوال کرتا ہوں کہ میرا ان کی آخری رسومات پر رونا مناسب ہے یا نہیں۔ پیشہ ور تکلیف جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ تکلیف ہمیشہ آدمی کا ذاتی معاملہ ہوتا ہے۔ بہرحال، اگر یہ اموات نہیں ہوتیں، تو شاید میں فوٹوگرافر نہیں بنتا۔ مین ہول کے اندر اب کوئی نہ مرے، اس کے لیے مجھے اور کیا کرنا چاہیے؟ ہم سب کو کیا کرنا چاہیے؟

PHOTO • M. Palani Kumar

۲ اگست، ۲۰۱۹ کو چنئی کے پولئن توپّو میں میلا صاف کرنے کے دوران صفائی ملازم موزز کی موت ہو گئی۔ یہاں نیلی ساڑی میں ان کی بیوی میری کو دیکھا جا سکتا ہے

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: رنگناتن کے گھر پر ان کے رشتہ دار ان کی موت کے بعد رواج کے مطابق چاول بانٹتے ہوئے۔ رنگناتن اور نوین کمار کی موت دیوالی کے صرف ایک ہفتہ پہلے تمل ناڈو کے شری پیرومبدور کے قریب کانجی پٹّو گاؤں میں سیپٹک ٹینک کی صفائی کرتے وقت ہوئی تھی۔ بائیں: جب سیپٹک ٹینک کی صفائی کے دوران شری پیرومبدور میں تین لوگ ایک ساتھ مرے، تب قبرستان میں بہت بھیڑ جمع ہو گئی تھی

PHOTO • M. Palani Kumar
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: چنئی میونسپل کارپوریشن کے صفائی ملازمین اپنی تقرری اور تنخواہ میں اضافہ کے لیے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے۔ ان کی تقرری دین دیال انتیودیہ یوجنا-نیشنل اربن لائیولی ہوڈ (ڈی اے وائی-این یو ایل ایم) کے تحت ہوئی ہے۔ یہاں کے ممبران لیفٹ ٹریڈ یونین سنٹر (ایل ٹی یو سی) کی قیادت میں مستقل نوکری اور تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ دائیں: ژون ۵، ۶ اور ۷ کے سینکڑوں صفائی ملازمین کووڈ کے بعد ٹھوس کچرا کے بندوبست کے پرائیویٹائزیشن کی مخالفت کرتے وقت پولیس کے ذریعہ گرفتار کر لیے گئے تھے

مترجم: محمد قمر تبریز

M. Palani Kumar

ଏମ୍‌. ପାଲାନି କୁମାର ‘ପିପୁଲ୍‌ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆ’ର ଷ୍ଟାଫ୍‌ ଫଟୋଗ୍ରାଫର । ସେ ଅବହେଳିତ ଓ ଦରିଦ୍ର କର୍ମଜୀବୀ ମହିଳାଙ୍କ ଜୀବନୀକୁ ନେଇ ଆଲେଖ୍ୟ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିବାରେ ରୁଚି ରଖନ୍ତି। ପାଲାନି ୨୦୨୧ରେ ଆମ୍ପ୍ଲିଫାଇ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ଏବଂ ୨୦୨୦ରେ ସମ୍ୟକ ଦୃଷ୍ଟି ଓ ଫଟୋ ସାଉଥ ଏସିଆ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ପ୍ରାପ୍ତ କରିଥିଲେ। ସେ ପ୍ରଥମ ଦୟାନିତା ସିଂ - ପରୀ ଡକ୍ୟୁମେଣ୍ଟାରୀ ଫଟୋଗ୍ରାଫୀ ପୁରସ୍କାର ୨୦୨୨ ପାଇଥିଲେ। ପାଲାନୀ ହେଉଛନ୍ତି ‘କାକୁସ୍‌’(ଶୌଚାଳୟ), ତାମିଲ୍ ଭାଷାର ଏକ ପ୍ରାମାଣିକ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ରର ସିନେମାଟୋଗ୍ରାଫର, ଯାହାକି ତାମିଲ୍‌ନାଡ଼ୁରେ ହାତରେ ମଇଳା ସଫା କରାଯିବାର ପ୍ରଥାକୁ ଲୋକଲୋଚନକୁ ଆଣିଥିଲା।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ M. Palani Kumar
Editor : PARI Desk

ପରୀ ସମ୍ପାଦକୀୟ ବିଭାଗ ଆମ ସମ୍ପାଦନା କାର୍ଯ୍ୟର ପ୍ରମୁଖ କେନ୍ଦ୍ର। ସାରା ଦେଶରେ ଥିବା ଖବରଦାତା, ଗବେଷକ, ଫଟୋଗ୍ରାଫର, ଚଳଚ୍ଚିତ୍ର ନିର୍ମାତା ଓ ଅନୁବାଦକଙ୍କ ସହିତ ସମ୍ପାଦକୀୟ ଦଳ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଥାଏ। ସମ୍ପାଦକୀୟ ବିଭାଗ ପରୀ ଦ୍ୱାରା ପ୍ରକାଶିତ ଲେଖା, ଭିଡିଓ, ଅଡିଓ ଏବଂ ଗବେଷଣା ରିପୋର୍ଟର ପ୍ରଯୋଜନା ଓ ପ୍ରକାଶନକୁ ପରିଚାଳନା କରିଥାଏ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ PARI Desk
Translator : Qamar Siddique

କମର ସିଦ୍ଦିକି ପିପୁଲ୍ସ ଆରକାଇଭ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ଅନୁବାଦ ସମ୍ପାଦକ l ସେ ଦିଲ୍ଲୀ ରେ ରହୁଥିବା ଜଣେ ସାମ୍ବାଦିକ l

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Qamar Siddique