’’پانی لے لو! پانی!‘‘ لیکن ٹھہریے، پانی بھرنے کے اپنے خالی برتنوں کو لانے کے لیے مت دوڑ پڑئیے۔ یہ پانی کا ٹینکر بہت چھوٹا ہے جسے پلاسٹک کی بوتل، ربڑ کی ایک پرانی چپل، پلاسٹک کے چھوٹے پائپ اور لکڑی کی تیلیوں سے بنایا گیا ہے، اور اس ٹینکر میں بمشکل ایک گلاس پانی ہی بھرا جا سکتا ہے۔
بلویر سنگھ، بھوانی سنگھ، کیلاش کنور اور موتی سنگھ – ساونٹا کے ۵ سال سے لے کر ۱۳ سال کے بچوں نے یہ کھلونا اُن پانی کے ٹینکروں کو دیکھ کر بنایا ہے جو ہفتہ میں دو بار ان کے علاقہ میں آتے ہیں اور جسے دیکھ کر راجستھان کے مشرقی کنارے کے گاؤں میں رہنے والے ان کے والدین اور گاؤں کے لوگ خوشی سے جھومنے لگتے ہیں۔
یہاں میلوں تک خشک زمین میں دراڑیں پڑی ہوئی ہیں، اور پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ صرف ارد گرد کے اورنوں (باغات) کے دو چار بڑے تالابوں میں ہی تھوڑا بہت پانی دکھائی دیتا ہے۔
بچے کبھی کبھی ٹینکر کی جگہ کیرئیر سے کھیلنے لگتے ہیں، جسے پلاسٹک کے جار کو آدھا کاٹ کر بنایا گیا ہوتا ہے۔ جب اس نامہ نگار نے ان کھلونوں کو بنانے کے عمل کے بارے میں جاننے کی کوشش کی، تب ان بچوں نے بتایا کہ چونکہ انہیں بیکار ہو چکے سامان سے ضروری چیزوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے، اس لیے اس کام میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔
ایک بار جب باہری ڈھانچہ بن کر تیار ہو جاتا ہے، تب دھات کے تاروں کی مدد سے اس کے پہیے بنا لیے جاتے ہیں۔ یہ سارے کام کھیجڑی (کیپّرِس ڈیسی ڈوآ) کے درخت کے سایہ میں ایک دوسرے سے قریب بیٹھ کر کیے جاتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز