ٹرین صرف پانچ منٹ کے لیے رکتی ہے اور ہم بھیڑ بھاڑ کے درمیان اس پر چڑھ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی ٹرین چل پڑتی ہے اور ہمیں کچھ گٹھریاں پلیٹ فارم پر ہی چھوڑنی پڑتی ہیں۔‘‘ سارنگا راج بھوئی رسیاں بنانے کا کام کرتی ہیں اور جن بنڈلوں کو وہ پیچھے چھوڑنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں وہ کپڑا کارخانوں کے بچے ہوئے فائبر (ریشے) ہوتے ہیں، جس سے ان کی ساتھی عورتیں رسیاں بنا کر بیچتی ہیں۔
سنترا راج بھوئی کہتی ہیں، ’’ہمارا خاندانی [پیشہ] ہے۔‘‘ وہ احمد آباد کے وٹوا میں ایک میونسپل ہاؤسنگ بلاک میں اپنے گھر کے پاس ایک کھلی جگہ پر بیٹھی ہیں۔ وہ سنتھیٹک فائبر سے بھری گٹھریاں کھولنے میں مصروف ہیں۔
سارنگا اور سنترا کا تعلق گجرات کی راج بھوئی خانہ بدوش برادری سے ہے۔ وہ احمد آباد سے سورت تک سفر کرتی ہیں اور راستے میں کپڑا ملوں سے فاضل فائبر خریدتی ہیں، جس سے وہ رسیاں بناتی ہیں۔ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جس کی وجہ سے وہ رات کو گیارہ بجے کے آس پاس گھر سے نکلتی ہیں اور اگلے دن شام سات بجے تک ہی واپس لوٹ پاتی ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے پاس چھوڑنا پڑتا ہے۔
وہ جس ٹرین کو پکڑتی ہیں وہ اکثر اپنی منزل پر رات کے ایک یا دو بجے پہنچتی ہے، اس لیے رسی بنانے والی عورتیں ریلوے پلیٹ فارم پر ہی سو جاتی ہیں، جس کے لیے انہیں اکثر ہراساں کیا جاتا ہے۔ کرونا کہتی ہیں، ’’ہمیں دو تین گھنٹوں کے لیے پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے اور پوچھ گچھ کی جاتی ہے کہ ہم کہاں سے آئے ہیں۔ پولیس والے غریب لوگوں کو پکڑتے ہیں اور اگر ان کا من ہوتا ہے، تو وہ ہمیں حراست میں لے لیتے ہیں۔‘‘
کرونا، سنترا اور سارنگا سبھی وٹوا میں واقع چار مالیا میونسپل ہاؤسنگ بلاک میں پڑوسی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں باقاعدہ پانی کی سپلائی اور سیویج لائنوں جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ لمبی لڑائی کے بعد بجلی کنکشن ملا ہے۔
وہ راج بھوئی برادری سے ہیں، جس میں عورتوں کے روایتی پیشوں میں رسی بنانا شامل ہے، جب کہ مرد کان کی گندگی صاف کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی برادری پہچان حاصل کرنے اور ریاست کی فلاحی اسکیموں سے مستفید ہونے اور بہتر معیار زندگی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ برادری کے مکھیا یا سربراہ راجیش راج بھوئی کہتے ہیں کہ راج بھوئی ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے، ’’لیکن ہماری ذات نگم [گجرات خانہ بدوش اور ڈی نوٹیفائیڈ قبائل ترقیاتی کارپوریشن] میں درج نہیں ہے۔‘‘
خانہ بدوش برادریوں کے لیے دستیاب کام کے مواقع اور دیگر اسکیموں تک رسائی حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، ’’ہمیں وہاں ’راج بھوئی‘ کی بجائے ’بھوئی راج‘ کے طور پر درج کیا گیا ہے اور جب سرکاری کام کی بات آتی ہے، تو یہ ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔‘‘
گجرات حکومت کی ویب سائٹ پر موجود ۲۸ خانہ بدوش قبائل اور ۱۲ ڈی نوٹیفائیڈ قبائل کی فہرست میں نہ تو راج بھوئی کا نام ہے اور نہ ہی بھوئی راج کا۔ گجرات کے ’بھوئی‘ کو ہندوستان کے ڈی نوٹیفائیڈ قبائل، خانہ بدوش قبائل اور نیم خانہ بدوش قبائل کی مسودہ فہرست (سماجی انصاف اور تفویض اختیار کی وزارت) میں درج کیا گیا ہے۔ گجرات میں، بھوئی راج کو دیگر پس ماندہ طبقہ کے تحت درج کیا گیا ہے۔ راجیش کہتے ہیں، ’’ہماری برادری کے لوگوں کو گجرات سے باہر سلاٹ گھیرا بھی کہا جاتا ہے اور وہ چکی اور سان کا پتھر بنانے کا کام کرتے ہیں۔‘‘ سلاٹ گھیرا بھی ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے اور ویب سائٹ پر اسی نام سے درج ہے۔
*****
رسیاں بنانے کے لیے ضروری فائبر کی ضرورت، ان عورتوں کو سورت کی کپڑا فیکٹریوں میں لے جاتی ہے۔ سارنگا راج بھوئی پان چباتے ہوئے کہتی ہیں، ’’وٹوا سے منی نگر اور منی نگر سے کیم۔ ہم [خام] مال ۲۵ روپے فی کلو کے حساب سے خریدتے ہیں،‘‘ ان کے ہاتھ ریشوں پر کام کرتے رہتے ہیں۔
احمد آباد کے منی نگر سے سورت کے کیم تک کا فاصلہ تقریباً ۲۳۰ کلومیٹر ہے۔ ان کے پاس ٹرین سے سفر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے؛ کرایہ زیادہ ہے، لیکن ہنستی ہوئی سارنگا، اپنی ٹھڈی پر بہتے پان کے رس کو پونچھتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ہم ٹکٹ نہیں خریدتے ہیں۔‘‘ کیم ریلوے اسٹیشن سے عورتیں، علاقے کی کپڑا فیکٹریوں تک رکشہ سے سفر کرتی ہیں۔
گیتا راج بھوئی (۴۷) کہتی ہیں، ’’کسی بھی خراب مال کو ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ ملازم اسے ہمیں یا کباڑی والوں کو بیچتے ہیں، جو بدلے میں اسے ہمیں بیچتے ہیں۔‘‘ مگر کسی بھی مال سے کام نہیں چلے گا، کرونا سمجھاتی ہیں۔ ’’کاٹن [سوتی] ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔ ہم صرف ریشم [سنتھیٹک سلک] کا استعمال کر سکتے ہیں اور جو فیکٹریاں اس کے ساتھ کام کر رہی ہیں وہ کیم میں ہیں۔‘‘
گیتا کہتی ہیں، اکثر خام مال (فائبر) کو ایک ساتھ گوندھ دیا جاتا ہے اور اس کی لاگت کم ہوتی ہے۔ اس کی قیمت ۱۵ سے ۱۷ روپے فی کلو ہوتی ہے۔ صوفے، بستر اور تکیے میں استعمال ہونے والا سفید فائبر مہنگا ہے – ۴۰ روپے فی کلو۔
سنترا کہتی ہیں، ’’ایک عورت ۱۰۰ کلو مال لا سکتی ہے۔ وہ ۲۵ یا کبھی کبھی ۱۰ کلو مال بھی لا سکتی ہے۔‘‘ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ انہیں اتنا مل ہی جائے گا؛ ہمیشہ خریدار بہت سارے ہوتے ہیں اور وافر مقدار میں فائبر دستیاب نہیں ہوتا ہے۔
سارنگا بتاتی ہیں کہ کیم سے احمد آباد تک مال پہنچانے کے لیے انہیں ’’سامان خریدنے اور اسٹیشن تک لانے کے لیے کیم میں [کئی کارخانوں میں] جانا پڑتا ہے۔‘‘
اسٹیشن پر ان کے بڑے بڑے بنڈل ریلوے ملازمین کی توجہ اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ کرونا راج بھوئی کہتی ہیں، ’’اگر وہ ہمیں پکڑ لیں، تو کبھی کبھی ہمیں جانے دیتے ہیں جب ہم انہیں بتاتے ہیں کہ ہم غریب ہیں۔ اگر کوئی سخت افسر آتا ہے، تو ہمیں ۲۰۰-۱۰۰ روپے دینے پڑتے ہیں۔ ہر بار جب ہم ۱۰۰۰ روپے کا مال خریدتے ہیں، تو ہمیں سفر کرنے پر ۳۰۰ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔‘‘ انہیں ضرورت کا سامان ملے یا نہ ملے، لیکن ۳۰۰ روپے خرچ ہونا طے ہے۔
تیس ہاتھ لمبائی کی ایک رسی ۸۰ روپے اور ۵۰ ہاتھ لمبائی کی رسی ۱۰۰ روپے میں بیچی جاتی ہے۔
ایک عورت ۵۰-۴۰ رسیاں لے کر چلتی ہے۔ کبھی کبھی وہ تمام رسیاں فروخت کر پاتی ہیں اور کبھی کبھی محمد آباد، آنند، لمباچی، تاراپور، کٹھلال، کھیڑا، گووند پورہ، ماتر، چانگا، پالّا، گومتی پور جیسے کچھ چھوٹے قصبوں اور شہروں میں صرف ۲۰ ہی فروخت کر پاتی ہیں۔
سارنگا کہتی ہیں، ’’ہم رسیاں بنانے کے لیے کڑی محنت کرتے ہیں اور پیسہ خرچ کر کے نڈیاد اور کھیڑا کے گاؤوں میں جا کر بیچتے ہیں، لیکن سودا ۱۰۰ سے گھٹ کر ۶۰-۵۰ روپے تک ہو جاتا ہے۔‘‘ اور پھر آنے جانے اور اکثر لگنے والے جرمانے کا پیسہ بھی کمائی سے خرچ ہو جاتا ہے۔
رسیاں بنانا مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے، جسے وہ گھر کے کاموں کے ساتھ کرتی ہیں۔ ارونا راج بھوئی کہتی ہیں، ’’جب نل [میں پانی] آتا ہے، تب ہم اٹھ جاتے ہیں۔‘‘
چونکہ ان کے گھر، کام کے حساب سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے عورتیں کھلی دھوپ میں کام کرتی ہیں۔ روپا کہتی ہیں، ’’ہم صبح ۷ بجے سے دن چڑھنے تک، اور دوپہر دو سے ساڑھے پانچ بجے تک کام کرتے ہیں۔ ہم گرمیوں کے دنوں میں زیادہ رسیاں بنا پاتے ہیں، کیوں کہ دن لمبے ہوتے ہیں – ہر دن تقریباً ۲۵-۲۰ رسیاں۔ لیکن سردیوں میں صرف ۱۵-۱۰۔
ایک چھوٹا ہاتھ پہیہ اور ایک بڑا مستحکم چرخہ ان کے پیشہ کے دو ضروری آلات ہیں۔
ایک عورت پہیہ گھماتی ہے، جب کہ دوسری دھاگوں کو پکڑ کر انہیں آپس میں جڑنے سے روکتی ہے۔ اس کے علاوہ، ایک دیگر عورت رسی کے سروں کو سنبھالتی ہے۔ چونکہ ایک وقت میں تین یا چار لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے فیملی کے لوگ اکثر ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ سرویلا راج بھوئی کہتی ہیں، ’’جیسے جیسے ہم پہیہ گھماتے رہتے ہیں، ریشہ سوت میں بدل جاتا ہے۔ تین الگ الگ دھاگے بنتے ہیں اور ایک ساتھ جڑ کر ایک رسی بن جاتی ہے۔‘‘ وہ ساتھ میں یہ بھی بتاتی ہیں کہ ۲۰-۱۵ فٹ کی ایک رسی بنانے میں ۴۵-۳۰ منٹ لگتے ہیں۔ ایک دن میں، ایک گروپ مل کر ۱۰-۸ رسیاں بنا لیتا ہے، کبھی کبھی وہ ۲۰ بھی بنا لیتے ہیں۔ مانگ کے حساب سے وہ ۱۰۰-۵۰ فٹ کی رسیاں بھی بناتے ہیں۔
ریاست میں بھوئی برادری بڑے پیمانے پر سوراشٹر علاقے میں آباد ہے۔ ۱۹۴۰ کی دہائی میں شائع ایک گجراتی لغت ’بھگود گومنڈل‘ کے مطابق، بھوئی ’’ایک پس ماندہ شودر برادری‘‘ ہے جو کبھی چمڑے کا کام کرتی تھی۔ لیکن رسوخ دار جین برادری کے ذریعے جانوروں کو ذبح کرنے کی مخالفت نے ان میں سے کئی کو زراعت اور دیگر مزدوری والے کام اپنانے کو مجبور کیا۔ مختلف پیشوں کی طرف رخ کرنے والے بھوئی الگ الگ ناموں سے جانے جانے لگے۔ راج بھوئی پالکی ڈھونے کا کام بھی کرتے تھے۔
عورتوں کے کام اور کڑی محنت کو بھانو راج بھوئی سمیت برادری کے مردوں کے ذریعے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ پیشہ سے کان صاف کرنے کا کام کرنے والے بھانو کا عورتوں کی کمائی کے بارے میں کہنا ہے، ’’اس سے کوئی خاص مدد نہیں ملتی۔ اس سے بس گھریلو اخراجات میں تھوڑی بہت مدد مل جاتی ہے۔‘‘ آخرکار، وراثت میں ملے ذات پر مبنی روایتی پیشوں سے صرف ’’تھوڑا بہت گھر کا خرچ‘‘ ہی نکل پاتا ہے۔
حالانکہ، گیتا راج بھوئی کے لیے یہ اب بھی ماہانہ تنخواہ والی نوکری تلاش کرنے کی کوشش سے بہتر ہے۔ یہ واضح ہے، جب وہ کہتی ہیں، ’’دسویں کے بعد بارہویں کرو، اس کے بعد کالج، تب جا کر نوکری ملتی ہے۔ اس سے اچھا اپنا دھندہ سنبھالو!‘‘
رپورٹر، آتش اندریکر چھارا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز