سُکمار بسواس (۷۰) ناریل بیچنے والے کوئی معمولی انسان نہیں ہیں۔ موسیقی سے انہیں اتنا پیار ہے کہ وہ خود کہتے ہیں، ’’میں کھانے کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہوں لیکن گانے کے بغیر نہیں۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ پیاسے خریداروں کے لیے ناریل کاٹتے وقت بھی وہ گیت گانا کبھی بند نہیں کرتے۔ شانتی پور کے لنکا پاڑہ اور ارد گرد کے علاقوں میں وہ ’ڈاب دادو‘ (ناریل دادا) کے نام سے مشہور ہیں۔
وہ ایک اسٹرا (پینے والے پائپ) کے ساتھ ہرا ناریل پکڑاتے ہیں، اور جب آپ اس کا پانی پی لیتے ہیں تو اسے کاٹ کر اندر سے ناریل کا نرم گودا نکال کر آپ کو کھانے کے لیے دیتے ہیں۔ اس دوران وہ لوک گیت گانا جاری رکھتے ہیں۔ وہ لالون فقیر جیسے صوفیوں، موسیقار شاہ عبدالکریم، بھابا کھیاپا وغیرہ کے ذریعے لکھے گئے گیت گاتے ہیں۔ ڈاب دادو کا کہنا کہ ان گیتوں میں ان کی زندگی کا راز پوشیدہ ہے، جسے بیان کرنے کے لیے وہ پاری سے کہتے ہیں: ’’ہم سچائی تک صرف تبھی پہنچ سکتے ہیں جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ سچائی کیا ہے۔ اور سچائی کو جاننے کے لیے ہمیں اپنے اندر ایمانداری پیدا کرنی ہوگی۔ بے ایمانی سے پاک ہونے کے بعد ہی ہم دوسروں سے پیار کر پائیں گے۔‘‘
اپنی ٹولی (تین پہیے والا ٹھیلہ) کے ساتھ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جاتے ہوئے وہ گیت گانا جاری رکھتے ہیں۔ گیتوں کو سن کر لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ڈاب دادو ان کے علاقے میں آ چکے ہیں۔
’’کئی لوگ ناریل نہیں خریدتے، لیکن کچھ دیر رک کر میرا گانا ضرور سنتے ہیں۔ انہیں (ناریل) خریدنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں زیادہ فروخت ہونے کی توقع بھی نہیں رکھتا۔ میں اسی سے خوش ہوں،‘‘ خریداروں کو سنبھالتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔
سُکمار کی پیدائش بنگلہ دیش کے کُشٹیا ضلع میں ہوئی تھی، جہاں ان کے والد روزی روٹی کے لیے مچھلیاں پکڑنے کا کام کرتے تھے، اور جس سیزن میں مچھلی نہیں پکڑ پاتے تھے اُن دنوں بطور دہاڑی مزدور کام کرتے تھے۔ جب ۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش (جسے اس وقت مشرقی پاکستان کہا جاتا تھا) کی جنگ شروع ہوئی، تب پناہ حاصل کرنے کے لیے وہاں کے لوگ بڑی تعداد میں ہندوستان آ گئے۔ سُکمار بھی انھیں میں سے ایک تھے۔ ’’جب اس ملک میں آئے تو ہر کسی کے لیے ہم پناہ گزین تھے۔ زیادہ تر لوگ ہمیں ہمدردی کی نظر سے دیکھتے تھے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ وہ جب ہندوستان آئے، تو صرف مچھلی پکڑنے کا ایک جال اپنے ساتھ لا سکے تھے۔
سُکمار کی فیملی سب سے پہلے مغربی بنگال کے شکار پور گاؤں پہنچی۔ کچھ مہینے کرشنا نگر میں گزارنے کے بعد، ان لوگوں نے آخرکار مرشد آباد ضلع کے ضیا گنج-عظیم گنج میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ سُکمار جب اپنے والد کے ذریعے گنگا سے مچھلی پکڑنے کا ذکر کرتے ہیں تب اُن کی آنکھیں چمکنے لگتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مچھلی پکڑنے کے بعد ان کے والد، ’’مقامی بازار گئے اور ان مچھلیوں کو بیچ کر موٹی رقم کمائی۔ اس کے بعد جب گھر لوٹے، تو ہم لوگوں سے کہا کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری تو لاٹری لگ گئی ہے۔ ہم نے پہلی بار ان مچھلیوں کو بیچ کر ۱۲۵ روپے کمائے۔ اُس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔‘‘
گزرتے ہوئے ان سالوں میں نوجوان سُکمار نے کئی قسم کے کام کیے: ٹرینوں میں گھوم گھوم کر سامان بیچے، ندی میں کشتیاں چلائیں، دہاڑی مزدور کے طور پر کام کیا اور بانسری اور دو تارا جیسے آلات موسیقی بھی بنائے۔ لیکن یہ سارے کام کرتے ہوئے انہوں نے گیت گانا کبھی نہیں چھوڑا۔ انہیں آج بھی وہ تمام گانے یاد ہیں جو انہوں نے بنگلہ دیش میں ندی کے کنارے اور سرسبز کھیتوں میں سیکھے تھے۔
سُکمار اب اپنی بیوی کے ساتھ مغربی بنگال کے ندیا ضلع میں واقع شانتی پور میں رہتے ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، جب کہ ان کا بیٹا مہاراشٹر میں دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتا ہے۔ ’’میں جو بھی کرتا ہوں اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ میرا ساتھ دیتے ہیں۔ یومیہ آمدنی کی مجھے کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مجھے پیدا ہوئے اب کافی عرصہ گزر چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بقیہ زندگی بھی میں اسی طرح گزار لوں گا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز