جمیل کشیدہ کاری کے ایک ماہر کاریگر ہیں۔ اس کام میں زری (سونے) کے دھاگے کا استعمال ہوتا ہے۔ ہوڑہ ضلع کا یہ ۲۷ سالہ مزدور گھنٹوں فرش پر دو زانوں بیٹھ کر مہنگے کپڑوں پر چمک پیدا کرتا ہے۔ لیکن اپنی عمر کی بیسویں دہائی میں ہڈیوں کی تپ دق (ٹی بی) کے مرض میں مبتلا ہونے کے فوراً بعد انہیں اس سوئی اور دھاگے سے دور ہونا پڑا۔ اس بیماری نے ان کی ہڈیوں کو اس قدر کمزور کر دیا تھا کہ وہ زیادہ دیر تک دو زانوں نہیں بیٹھ سکتے تھے۔
’’اس عمر میں مجھے کام کرنا چاہیے، اور [میرے] والدین کو آرام کرنا چاہیے۔ لیکن ہو اس کے بالکل برعکس رہا ہے۔ انہیں میرے طبی علاج میں مدد کے لیے کام کرنا پڑتا ہے،‘‘ یہ کہنا ہے جمیل کا جو ہوڑہ ضلع کے چنگیل علاقے میں رہتے ہیں اور علاج کے لیے کولکاتا کا سفر کرتے ہیں۔
اسی ضلع میں اویک اپنے کنبے کے ساتھ ہوڑہ پیِل خانہ کی کچی آبادی میں رہتے ہیں۔ ان کو ہڈیوں کی تپ دق ہے۔ انہیں ۲۰۲۲ کے وسط میں اسکول چھوڑنا پڑا تھا۔ حالانکہ وہ صحت یاب ہو رہے ہیں، لیکن وہ اب بھی اسکول جانے سے قاصر ہیں۔
جمیل، اویک اور دیگر مریضوں سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب میں نے ۲۰۲۲ میں اس اسٹوری کو کور کرنا شروع کیا تھا۔ میں اکثر پیِل خانہ کی کچی آبادیوں میں ان کے گھروں میں ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتا تھا، تاکہ میں ان کی روزمرہ کی زندگی کی تصویریں اتار سکوں۔
نجی کلینک کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر، جمیل اور اویک جنوبی ۲۴ پرگنہ اور ہوڑہ ضلع کے دیہی علاقوں میں مریضوں کی مدد کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے ذریعے چلائے جانے والے موبائل ٹی بی کلینک میں ابتدائی جانچ کے لیے آئے تھے۔ ایسا کرنے والے وہ تنہا نہیں ہیں۔
حالیہ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ۲۰۱۹-۲۱ ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) کے مطابق، ’’تپ دق صحت عامہ کے ایک بڑے مسئلے کے طور پر دوبارہ ابھر آیا ہے۔‘‘ دنیا بھر میں تپ دق کے تمام معاملوں میں ہندوستان کی حصہ داری ۲۷ فیصد ہے (نومبر ۲۰۲۳ میں شائع عالمی ادارہ صحت کی ٹی بی رپورٹ )۔
دو ڈاکٹروں اور ۱۵ نرسوں کی موبائل ٹیم نے ایک دن میں تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر کا سفر کرکے چار یا پانچ مختلف مقامات کا دورہ کیا اور ان لوگوں کے لیے صحت کی نگہداشت کی خدمات پیش کیں، جو کولکاتا یا ہوڑہ جانے کے متحمل نہیں تھے۔ موبائل کلینکس کے مریضوں میں یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور، تعمیراتی مزدور، پتھر توڑنے والے مزدور، بیڑی بنانے والے اور بس اور ٹرک ڈرائیور شامل تھے۔
موبائل کلینک میں جن مریضوں کی میں نے تصویریں اتاریں اور ان سے بات کی ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں اور شہر کی کچی آبادیوں سے تھا۔
یہ موبائل کلینکس کووِڈ کے دوران ایک خصوصی پہل کے تحت چلائی جا رہی تھیں اور اس کے بعد سے بند ہیں۔ اویک جیسے تپ دق کے مریض اب ہوڑہ میں بنترا سینٹ تھامس ہوم ویلفیئر سوسائٹی میں فالو اپ کے لیے جاتے ہیں۔ اس نوجوان کی طرح سوسائٹی کا دورہ کرنے والے دیگر افراد کا تعلق بھی پسماندہ برادریوں سے ہے اور اگر وہ بھیڑ بھاڑ والی سرکاری سہولیات میں جاتے ہیں، تو اپنی ایک دن کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔
مریضوں سے بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ان میں سے کچھ کو ہی تپ دق کی جانکاری تھی، احتیاطی تدابیر، علاج اور نگہداشت کی کون کہے۔ بہت سے متاثرہ مریض اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا قیام ایک ہی کمرے میں ہوتا ہے، کیونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ساتھ کام کرنے والے کمرے کا بھی اشتراک کرتے ہیں: ’’میں اپنے ساتھی مزدوروں کے ساتھ رہتا ہوں۔ ان میں سے ایک ٹی بی کا مریض ہے۔ چونکہ میں اپنے قیام کے لیے علیحدہ کمرہ لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لیے ان کے ساتھ ایک ہی کمرہ میں رہتا ہوں،‘‘ روشن کمار کہتے ہیں، جو ۱۳ سال قبل جنوبی ۲۴ پرگنہ سے ہجرت کر کے ہوڑہ میں ایک جوٹ فیکٹری میں کام کرنے آئے تھے۔
*****
نوعمروں کی ٹی بی پر ۲۰۲۱ کی قومی صحت مشن (این ایچ ایم) کی رپورٹ کے مطابق، ملک میں ٹی بی کے شکار بچوں کی تعداد عالمی سطح پر بچپن کے ٹی بی کا ۲۸ فیصد ہے۔
جب اویک کو ٹی بی کی تشخیص ہوئی تو انہیں اسکول چھوڑنا پڑا، کیونکہ وہ اب اپنے گھر سے باہر تھوڑی دور بھی نہیں جاسکتے تھے۔ ’’مجھے اپنے اسکول اور دوستوں کی یاد آتی ہے۔ وہ آگے جا چکے ہیں اور اب مجھ سے ایک کلاس اوپر ہیں۔ مجھے کھیلوں کی بھی یاد آتی ہے،‘‘ ۱۶ سالہ اویک کہتے ہیں۔
ایک اندازہ کے مطابق ہندوستان میں صفر سے ۱۴ سال کی عمر کے ۳۳ء۳ لاکھ بچے ہر سال ٹی بی کے مرض کا شکار ہوتے ہیں؛ لڑکوں میں اس کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ این ایچ ایم کی رپورٹ بتاتی ہے، ’’بچوں میں ٹی بی کی تشخیص کرنا مشکل ہے… بچوں میں اس کی علامات بچپن کی دیگر بیماریوں سے ملتی جلتی ہیں…‘‘ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ٹی بی کے نوخیز مریضوں کے لیے ادویات کی زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔
سترہ سالہ راکھی شرما بیماری سے ایک طویل جنگ کے بعد اب صحتیاب ہو رہی ہیں، لیکن وہ اب بھی بغیر سہارے کے چل نہیں سکتیں اور نہ ہی دیر تک بیٹھ سکتی ہیں۔ ان کی فیملی پیل خانہ کی کچی آبادی میں رہتی ہے۔ اس بیماری میں ان کا ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا ہے۔ ان کے والد راکیش شرما جو ہوڑہ میں ایک فوڈ کورٹ میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں، ’’ہم گھر پر ایک پرائیویٹ ٹیوٹر مقرر کر کے اس کی پڑھائی کے نقصان کی بھرپائی کرنے کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ہمارے وسائل محدود ہیں۔‘‘
دیہی علاقوں میں ٹی بی کے معاملات زیادہ ہیں۔ این ایف ایچ ایس - ۵ کی حالیہ رپورٹ کا کہنا ہے کہ ایسے گھروں میں رہنے والے لوگ جہاں کھانا پکانے کے ایندھن کے طور پر گھاس پھوس کا استعمال ہوتا ہے، جن کے پاس علیحدہ کچن نہیں ہے، اور جو مریض کے نزدیک رہتے ہیں ان کو اس مرض میں مبتلا ہونے کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔
صحت کی نگہداشت کے کارکن اس بات سے متفق ہیں کہ تپ دق نہ صرف غربت اور اس کے نتیجے میں خوراک اور آمدنی سے محرومی کی وجہ سے پھیلتی ہے، بلکہ یہ خود متاثرہ لوگوں کی غربت میں مزید اضافہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
این ایف ایچ ایس-۵ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس بات کے بھی امکانات ہوتے ہیں کہ تپ دق کے مریض کے گھر والے بدنامی کے خوف سے مرض کو چھپائے رکھتے ہیں: ’’…ہر پانچ میں سے ایک شخص یہ چاہے گا کہ اپنے گھر کے کسی فرد کی ٹی بی کے مرض کو راز ہی رکھا جائے۔‘‘ ٹی بی ہسپتال کے لیے ہیلتھ کیئر کارکنان کی تلاش بھی ایک مسئلہ ہے۔
قومی صحت مشن کی رپورٹ (۲۰۱۹) کے مطابق ہندوستان میں ٹی بی کے ایک چوتھائی مریض تولیدی عمر (۱۵ سے ۴۹ سال) کی خواتین ہیں۔ اگرچہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو ٹی بی کے مرض کا خطرہ کم ہوتا ہے، لیکن جو اس مرض میں مبتلا ہوتی ہیں ان میں اس بات کے امکانات رہتے ہیں کہ وہ اپنی صحت پر خاندانی رشتوں کو ترجیح دیں۔
’’میں جلد از جلد [گھر] واپس جانا چاہتی ہوں۔ مجھے ڈر ہے کہ میرا شوہر دوسری شادی کر لے گا،‘‘ بہار سے تعلق رکھنے والی ٹی بی کی مریضہ حنیفہ علی اپنی ازدواجی زندگی کو لے کر پریشان ہیں۔ ہوڑہ میں بنترا سینٹ تھامس ہوم ویلفیئر سوسائٹی کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ اپنی دوائیں لینا بند کر دیں گی۔
سوسائٹی کی سکریٹری مونیکا نائک کہتی ہیں، ’’خواتین خاموش شکار ہوتی ہیں۔ وہ مرض کی علامات کو چھپاتی ہیں اور کام کرتی رہتی ہیں۔ اور بعد میں جب بیماری کی تشخیص ہوتی ہے، تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ کافی نقصان ہو گیا ہوتا ہے۔‘‘ مونیکا ۲۰ سال سے زائد عرصے سے ٹی بی کے شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹی بی سے صحتیاب ہونا ایک طویل عمل ہے اور اس کا اثر پورے کنبے پر پڑتا ہے۔
’’کئی معاملات ایسے بھی ہیں جہاں مریضوں کے صحتیاب ہونے کے بعد بھی ان کے گھر والے انہیں واپس لینا نہیں چاہتے۔ دراصل ہمیں کنبے کے افراد کو راضی کرنا پڑتا ہے،‘‘ نائک مزید کہتی ہیں۔ ٹی بی کے انسداد کے شعبے میں ان کی انتھک محنت کے لیے انہیں جرمن کراس آف دی آرڈر آف میرٹ سے نوازا گیا ہے۔
ٹی بی سے صحتیاب ہو چکی ۴۰ سالہ الاپی منڈل کہتی ہیں، ’’میں اپنے گھر واپس جانے کے لیے دن گن رہی ہوں۔ گھر والوں نے اس طویل جنگ کے دوران مجھے تنہا چھوڑ دیا تھا۔‘‘
*****
ہیلتھ کیئر کارکنوں میں انفیکشن کا خطرہ زیادہ رہتا ہے اور ماسک لازمی ہے۔ سوسائٹی کے زیر انتظام کلینک میں انتہائی متعدی ٹی بی کے مریضوں کو ایک خصوصی وارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ بیرونی مریضوں کا شعبہ ہفتے میں دو بار روزانہ ۱۰۰-۲۰۰ مریضوں کی خدمت کرتا ہے، جن میں ۶۰ فیصد خواتین ہوتی ہیں۔
فیلڈ میں کام کرنے والے ڈاکٹر اشارہ کرتے ہیں کہ ٹی بی کی ادویات کے طویل استعمال سے بہت سے مریضوں میں طبی ڈپریشن کا ایک ضمنی اثر ہوتا ہے۔ مناسب علاج ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے: ڈسچارج ہونے کے بعد مریضوں کو باقاعدگی سے دوائیں اور صحت بخش خوراک لینی پڑتی ہے۔
ڈاکٹر ٹوبایس ووٹ کہتے ہیں کہ چونکہ زیادہ تر مریضوں کا تعلق کم آمدنی والے گروہوں سے ہوتا ہے، اس لیے وہ اکثر درمیان میں ہی علاج روک دیتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ایم ڈی آر ٹی بی (ملٹی ڈرگ ریزسٹنس ٹی بی) ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ٹوبایس ووٹ گزشتہ دو دہائیوں سے ہوڑہ میں ٹی بی پر کام کر رہے ہیں۔
کثیر ادویات مزاحم ٹی بی (ایم ڈی آر- ٹی بی) اب بھی صحت عامہ کا ایک بحران ہے اور صحت کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں ادویات مزاحم ٹی بی والے پانچ میں سے صرف دو لوگوں کو علاج تک رسائی حاصل ہوئی۔ ڈبلیو ایچ او کی گلوبل ٹی بی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ، ’’سال ۲۰۲۰ میں ۵ء۱ ملین افراد ٹی بی سے ہلاک ہوئے، جن میں ایچ آئی وی والے ۲۱۴۰۰۰ افراد بھی شامل تھے۔‘‘
ووٹ مزید کہتے ہیں: ’’تپ دق جسم کے کسی بھی حصے کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس میں ہڈی، ریڑھ، معدہ اور یہاں تک کہ دماغ بھی شامل ہے۔ اس مرض کے شکار ایسے بچے ہیں جو صحتیاب ہو جاتے ہیں، لیکن ان کی تعلیم میں خلل پڑتا ہے۔‘‘
ٹی بی کے بہت سے مریض اپنی روزی روٹی کھو چکے ہیں۔ ’’پھیپھڑوں کی ٹی بی سے مکمل طور پر صحتیاب ہونے کے باوجود میں مزید کام نہیں کر سکتا۔ میری طاقت ختم ہو گئی ہے،‘‘ رکشہ چلا چکے شیخ شہاب الدین کہتے ہیں۔ ایک مضبوط آدمی جو کبھی ہوڑہ ضلع میں مسافروں کو لے کر آتا اور جاتا تھا، اب وہ بے بس ہے۔ ’’میرا پانچ افراد کا کنبہ ہے۔ ہم کیسے زندہ رہیں؟‘‘ ساہاپور میں قیام پذیر شہاب الدین پوچھتے ہیں۔
پنچو گوپال منڈل ایک بزرگ مریض ہیں جو بنترا ہوم ویلفیئر سوسائٹی کلینک میں علاج کے لیے آتے ہیں۔ وہ ایک تعمیراتی مزدور تھے اور اب، ’’میرے پاس ۲۰۰ روپے بھی نہیں ہیں اور مجھ میں کھڑے ہونے کی طاقت بھی نہیں ہے۔ میں یہاں اپنے سینے کی جانچ کرانے آیا ہوں۔ حالیہ دنوں میں مجھے گلابی بلغم کی کھانسی آنے لگی ہے،‘‘ ہوڑہ کے ۷۰ سالہ رہائشی کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے تمام بیٹے کام کے لیے ریاست سے باہر چلے گئے ہیں۔
ٹی بی کی روک تھام کے لیے ویب سے چلنے والا مریض کے اندراجات کے نظام، نی-کشے، کا مقصد ایک جامع، سنگل ونڈو فراہم کرنا ہے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ علاج سے کیسے افاقہ ہو رہا ہے۔ ٹی بی کے مریضوں پر نظر رکھنا اور ان کی صحتیابی کو یقینی بنانا، نگہداشت کا ایک اہم جزو ہے۔ سوسائٹی کی انتظامی سربراہ، سمنتا چٹرجی کہتی ہیں، ’’ہم اس [نِی کشے] میں مریض کی تمام تفصیلات درج کرکے انہیں ٹریک کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ پیِل خانہ کی کچی آبادیوں میں ٹی بی سے متاثرہ مریضوں کی ایک بڑی تعداد ہے کیونکہ یہ ’’ریاست کی سب سے زیادہ گنجان بستیوں میں سے ایک ہے۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کووِڈ ۱۹ کی وبا کے بعد ٹی بی دوسرا سب سے بڑا متعدی قاتل ہے، حالانکہ یہ قابل علاج ہے اور اسے روکا جا سکتا ہے۔
مزید یہ کہ کووِڈ ۱۹ وبائی مرض نے کھانسی اور بیمار ہونے کی سماجی بدنامی میں اضافہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ٹی بی کے مریض اپنی بیماری دوسروں سے اس وقت تک چھپاتے ہیں جب تک کہ بیماری کی شدت اور انفیکشن بری حالت میں نہ پہنچ جائے۔
میں باقاعدگی سے صحت کے مسائل کا احاطہ کرتا ہوں، لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنے زیادہ لوگ اب بھی تپ دق کے مرض میں مبتلا ہیں۔ چونکہ یہ کوئی مہلک بیماری نہیں ہے، اس لیے اس کی وسیع پیمانے پر رپورٹنگ نہیں ہوتی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ حالانکہ یہ اکثر مہلک نہیں ہوتی، لیکن یہ کمانے والے شخص کو متاثر کر کے کنبے کو بے بس کر دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، صحتیابی ایک طویل عمل ہے، جو پہلے سے ہی حاشیے پر رہنے والے کنبوں کے مالی بوجھ میں مزید اضافہ کرتی ہے۔
اس اسٹوری میں کچھ نام بدل دیے گئے ہیں۔
اس اسٹوری میں مدد بہم پہنچانے کے لیے یہ رپورٹر جے پرکاش انسٹی ٹیوٹ آف سوشل چینج (جے پی آئی ایس سی) کے ممبران کا شکریہ ادا کرنا چاہے گا۔ جے پی آئی ایس سی تپ دق سے متاثرہ بچوں کے لیے کام کرتا ہے، اور تعلیم تک ان کی مسلسل رسائی کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔
مترجم: شفیق عالم