تیجلی بائی ڈھیڑیا نے آہستہ آہستہ اپنے دیسی بیجوں کا استعمال پھر شروع کر دیا ہے۔
تقریباً ۱۵ سال پہلے، مدھیہ پردیش کے علی راجپور اور دیواس ضلعوں میں تیجلی بائی جیسے بھیل آدیواسی کسانوں نے نامیاتی طریقوں سے اُگائے گئے دیسی بیجوں کو چھوڑ کر، کیمیائی طریقوں سے اُگائے گئے ہائبرڈ بیجوں کو اپنانا شروع کر دیا تھا۔ تیجلی بائی بتاتی ہیں کہ اس کی وجہ سے روایتی بیج غائب ہونے لگے۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’روایتی کھیتی میں بہت زیادہ محنت لگتی تھی اور اس کی خانہ پُری بازار میں ملنے والی قیمتوں سے نہیں ہو پاتی تھی۔‘‘ اس ۷۱ سالہ کسان کے مطابق، ’’کھیتوں میں مزدوری کا جو وقت بچنے لگا اس سے ہمیں مہاجرت کرنے اور گجرات میں بطور مہاجر مزدور اونچی شرحوں پر مزدوری کرنے کا موقع مل پایا۔‘‘
حالانکہ، اب دونوں ضلعوں کے ۲۰ گاؤوں میں تقریباً ۵۰۰ خواتین اپنے روایتی بیجوں کا تحفظ کر رہی ہیں اور کنسری نوں وڈاونو (کے این وی) کی رہنمائی میں نامیاتی کھیتی کی جانب لوٹ رہی ہیں۔ قابل ذکر ہے کہ بھیل زبان (بھیلالی کے نام سے مشہور) میں کنسری نوں وڈاونو کا مطلب ہے ’کنسری دیوی کو سلام‘۔ بھیل آدیواسی خواتین کی اجتماعی تنظیم، کے این وی کا قیام ۱۹۹۷ میں عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد خواتین کے حقوق کے لیے لڑنا اور ان کی صحت سے متعلق مسائل کو حل کرنا تھا۔ صحت سے متعلق امور پر ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کام کرنے کے بعد، کے این وی کے قیام کا حصہ رہیں آدیواسی خواتین کو احساس ہوا کہ روایتی فصلوں کو پھر سے اپنانے سے غذائی مسائل سے نمٹنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کاوڑا گاؤں کی رہائشی رنکو الاوا بتاتی ہیں کہ کے این وی میں، دیگر کسانوں کو بیچنے اور تقسیم کرنے کے لیے منتخب بیجوں کو الگ سے اسٹور کر کے رکھا جاتا ہے، تاکہ پورے ملک میں تنوع سے بھرپور نامیاتی کھیتی کی تشہیر کی جا سکے۔ وہیں، بقیہ فصلوں کو اپنے استعمال کے لیے رکھا جاتا ہے۔ رنکو (۳۹) کہتی ہیں، ’’فصل کی کٹائی کے بعد، ہمیں سب سے اچھے بیجوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔‘‘
ککرانا گاؤں کی کسان اور کے این وی کی رکن، رایتی بائی سولنکی ان کی بات سے متفق نظر آتی ہیں: ’’بیج کے معیار میں بہتری اور ان کی پیداوار میں اضافہ کا یہی سب سے اچھا طریقہ ہے۔‘‘
رایتی بائی (۴۰) مزید کہتی ہیں، ’’ہم بھیل آدیواسی باجرہ اور جوار جیسے اناج ہی کھایا کرتے تھے۔ باجرہ ایک ایسا اناج ہے جس میں سب سے کم پانی لگتا ہے اور یہ سب سے زیادہ مقوی بھی ہوتا ہے۔ اس کی کھیتی دھان اور گیہوں جیسے اناج کے مقابلے آسان ہے۔‘‘ وہ اس کی قسمیں گنانا شروع کرتی ہیں – بٹّی، بھادی، رالا، راگی، باجرہ، کودو، کُٹکی، سانگری۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’مٹی کی زرخیزی کو قدرتی طور پر برقرار رکھنے کے لیے بیچ بیچ میں سیم، دال، اور تلہن وغیرہ کی کھیتی کی جاتی ہے۔‘‘
آدیواسی خواتین کی کوآپریٹو تنظیم، کے این وی کا کام دیسی بیجوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ نامیاتی کھیتی کو پھر سے چلن میں لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔
مدھیہ پردیش کے علی راجپور ضلع کے کھوڑامبا گاؤں میں رہنے والی تیجلی بائی کا کہنا ہے کہ یہ عمل آہستہ روی سے ہو رہا ہے، کیوں کہ کھاد تیار کرنے میں بہت وقت لگتا ہے۔ ’’میں اپنی زمین کے صرف چھوٹے سے حصہ میں دیسی بیج بو رہی ہوں، تاکہ اپنا پیٹ پالنے بھر کا اُگا سکوں۔ میں پوری طرح نامیاتی کھیتی نہیں کر سکتی۔‘‘ اپنی فیملی کے تین ایکڑ میں وہ جوار، مکئی، دھان، دال اور سبزیاں اُگاتی ہیں، جو بارش پر منحصر رہتی ہے۔
دیواس ضلع کے جماسندھ گاؤں کے رہائشی وکرم بھارگو بتاتے ہیں کہ نامیاتی کھیتی میں استعمال ہونے والی کھاد اور بایو کلچر کی بھی واپسی ہونے لگی ہے۔ بایو کلچر کو گڑ، چنے کے پاؤڈر، گوبر اور مویشیوں کے پیشاب کو ملا کر اور پھر سڑا کر تیار کیا جاتا ہے۔
باریلا آدیواسی برادری سے تعلق رکھنے والے وکرم (۲۵) کے مطابق، ’’کھیتوں سے نکلنے والے بایوماس کو مویشیوں کے گوبر میں ملانے کے بعد ایک گڑھے میں پرت در پرت ڈال کر رکھنا پڑتا ہے، اور تیار کرنے کے لیے اسے لگاتار پانی دینا پڑتا ہے۔ پھر اسے چھڑکا جاتا ہے اور مٹی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے، تاکہ فصل کی پیداوار میں فائدہ ہو سکے۔‘‘
*****
ویستی پڑیار کا کہنا ہے کہ جب بازار کی تھوپی فصلوں کے دباؤ میں بیج غائب ہوئے، تو برادری کے روایتی پکوان بھی غائب ہو گئے تھے، ساتھ ہی باجرہ الگ کرنے اور ہاتھ سے کوٹنے کے روایتی طریقے بھی عام رواج سے خارج ہو گئے تھے۔ چونکہ باجرے کی عمر زیادہ نہیں ہوتی ہے، اس لیے عورتیں باجرے کو تبھی کوٹتی تھیں، جب اسے پکانا ہوتا تھا۔
الگ الگ باجروں کے نام بتاتے ہوئے اور مقامی سطح پر اُگائے گئے اناج کے بارے میں بتاتے ہوئے ویستی کہتی ہیں، ’’جب ہم چھوٹے تھے، تو ہم رالا، بھادی اور بٹّی جیسے باجرے سے بہت لذیذ کھانا پکاتے تھے۔ بھگوان نے انسانوں کو بنایا اور جان حاصل کرنے کے لیے دیوی کنسری کا دودھ پینے کو کہا۔ جوار [دیوی کنسری کی علامت] کو بھیل برادری کے لوگ زندگی فراہم کرنے والی مانتے ہیں۔‘‘ بھیلالا برادری (ریاست میں درج فہرست ذات کے طور پر درج) کی یہ ۶۲ سالہ کسان چار ایکڑ میں کھیتی کرتی ہیں، جس میں سے آدھا ایکڑ زمین پر اپنے کھانے کے لیے نامیاتی طریقے سے اناج اُگائے جاتے ہیں۔
بچھی بائی باجرے سے پکائے ہوئے کھانوں کو یاد کرتی ہیں۔ دیواس ضلع کے پانڈو تالاب گاؤں کی رہائشی، بچھّی بائی بتاتی ہیں کہ ان کا پسندیدہ کھانا ماہ کُدری تھا، جس میں باجرہ بھات کے ساتھ چکن کری (مرغ کا سالن) کھائی جاتی تھی۔ ساٹھ سال سے زیادہ کی ہو چکی بِچھّی بائی کو دودھ اور گڑ سے بنی جوار کی کھیر بھی یاد آتی ہے۔
ہاتھ سے اناج کوٹنے کا کام برادری میں مل جل کر کیا جاتا تھا، جس سے خواتین کو ساتھ آنے کا موقع ملتا تھا۔ ’’اس دوران ہم لوک گیت گاتے تھے، جس سے ہمارا کام آسان ہو جاتا تھا۔ لیکن اب، کام کی تلاش میں ہونے والی مہاجرت اور خاندانوں کے چھوٹے ہوتے چلے جانی کی وجہ سے عورتوں کو کام میں ہاتھ بٹانے کا موقع نہیں مل پاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
کارلی بائی بھاؤ سنگھ نوجوان تھیں، تو اپنے ہاتھوں سے باجرہ کوٹتی تھیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ اس کام میں کتنی محنت لگتی تھی۔ ’’ان دنوں نوجوان عورتیں آٹا چکی میں جوار، مکئی اور گیہوں پیسنا پسند کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے باجرے کی کھپت کم ہو گئی ہے،‘‘ کاٹکوٹ گاؤں کی یہ ۶۰ سالہ باریلا آدیواسی خاتون کہتی ہیں۔
بیجوں کو جمع کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔ ’’پھٹکے گئے اناج کو موہتیوں [بانس کے ڈبوں] میں جمع کرنے سے پہلے، ایک ہفتہ تک دھوپ میں سُکھانا پڑتا ہے۔ موہتیوں کو ہوا لگنے سے روکنے کے لیے مٹی اور گوبر کے لیپ سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ تقریباً چار مہینے کے بعد جمع کیے گئے اس اناج پر کیڑے دھاوا بولتے ہیں، اس لیے انہیں ایک بار پھر سے دھوپ میں سُکھانا پڑتا ہے،‘‘ رایتی بائی بتاتی ہیں۔
دوسری طرف، پرندے بھی باجرہ بہت پسند کرتے ہیں۔ باجرے کی الگ الگ قسمیں بوائی کے بعد الگ الگ وقت پر پکتی ہیں اور خواتین کو ہی ان کی لگاتار نگرانی کرنی پڑتی ہے۔ بچھی بائی کہتی ہیں، ’’ہمیں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ کہیں پرندے ساری فصلیں نہ کھا جائیں اور ہمارے لیے کچھ نہ بچے!‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز