’’تاریخ چاہے ملک کی ہو، زبان کی یا مذہب کی، تاریخ سلطانوں، سرداروں اور رہنماؤں کے کارناموں سے لبالب ہے۔ اس میں ہم کہیں نہیں ہوتے۔ ہم جو کہ مجسّم تاریخ ہیں۔ ہم یعنی کہ عام انسان، عوام۔ عوام ہی ملکوں کی تشکیل کرتے ہیں، زبانوں کو فروغ دیتے ہیں اور مذاہب کو مقبولیت۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ زردار اور زور آور ان کے مختار بن بیٹھتے ہیں اور پھر انھیں کو اپنے مفاد اور استحصال کے لیے استعمال کرتے ہیں،‘‘ یہ کہنا ہے معراج الدین کا، جو اب کونو نیشنل پارک کے کنارے رہتے ہیں۔ پارک کے ارد گرد کی برادریوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے انہوں نے جنگل سے بے دخل کیے گئے لوگوں کی پریشانیوں کو قریب سے دیکھا ہے اور ان کے دکھ درد کو محسوس کیا ہے، جسے وہ اس نظم میں بیان کر رہے ہیں۔
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
اے دیر و حرم کے مختارو
اے ملک و زباں کے سردارو
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
اے تاج بسر میزان بکف
تم عدل و حمایت بھول گئے
کاغذ کی رسیدوں میں لکھ کر
انسان کی قیمت بھول گئے
لکھو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
مانا کہ طبیعت بھاری ہے
اور بھوک بدن پر طاری ہے
پانی بھی نہیں شریانوں میں
پر سانس ابھی تک جاری ہے
سنبھلو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
اے شاہ سخن فرزانہ قلم
یہ شورش دانم بند کرو
روتے بھی ہو تم پیسوں کے لیے
رہنے دو یہ ماتم بند کرو
بخشو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
آئین معیشت کس نے لکھے
آداب سیاست کس نے لکھے
ہے جن میں تمہاری آغائی
وہ باب شریعت کس نے لکھے
لکھو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
اے پند گران دین و دھرم
پیغمبر و کعبہ میرے ہیں
مندر بھی مرے بھگوان مرے
گردوارے کلیسا میرے ہیں
نکلو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں
کہہ دو جا کر سلطانوں سے
زرداروں سے ایوانوں سے
پیکار تمدّن کے حامی
بے ننگ سیاست دانوں سے
کہہ دو کہ ابھی میں زندہ ہوں
سن لو کہ ابھی میں زندہ ہوں