شری رنگم کے قریب کولّیڈم ندی کے ریتیلے کنارے پر پھیل رہے اندھیرے کے درمیان اپنے تل کے کھیتوں سے ۱۰ منٹ کے فاصلے پرموجود کسان وڈی ویلن مجھے اپنی زندگی کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ سال ۱۹۷۸ میں ان کی پیدائش کے ۱۲ دن بعد اسی دریا میں آئے سیلاب کی کہانی۔ ان کے گاؤں کی کہانی، جہاں ہر شخص شہد کے رنگ کا ایلو (تل کے بیج) اگاتا ہے، اور جس سے خوشبودار تیل نکالا جاتا ہے۔ ’کیلے کے دو تنوں کو پکڑ کر‘ تیراکی سیکھنے کی کہانی۔ پریہ سے محبت کی کہانی، جو ایک بڑی ندی، کاویری، کے کنارے رہتی تھیں، اور جن سے اپنے والد کے اعتراض کے باوجود شادی کر لی تھی۔ اور اپنی ڈیڑھ ایکڑ زمین پر دھان، گنے، کالے چنے اور تل کی کھیتی کی کہانی…

پہلی تین فصلوں سے کچھ رقم حاصل ہوتی ہے۔ ’’ہم دھان کی فصل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو گنے کی کاشت کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور اس رقم کو کھیت میں ڈال دیتے ہیں،‘‘ وڈی ویلن وضاحت کرتے ہیں۔ تل (جسے تمل میں ایلو کہتے ہیں) کی کھیتی تیل کے لیے کی جاتی ہے۔ اس کے بیجوں کی پسائی لکڑی کے کولہو میں کی جاتی ہے، اور نلّینئی (تل کے تیل) کو ایک بڑے برتن میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ’’ہم اسے کھانا پکانے، اچار بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں،‘‘ پریہ کہتی ہیں، ’’میرے شوہر روزانہ اس سے غرارے کرتے ہیں۔‘‘ وڈی ویلن مسکراتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اور تیل کا غسل مجھے بہت  پسند ہے!‘‘

ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو وڈی ویلن کو پسند ہیں، اور ان سب سے انہیں خوشی ملتی ہے۔ نوعمری میں اس دریا میں مچھلی پکڑنا، اپنے دوستوں کے ساتھ تازہ مچھلیوں کو بھوننا اور کھانا۔ گاؤں میں پنچایت کے مکھیا کے گھر میں موجود واحد ٹیلی ویژن دیکھنا۔ ’’کیوںکہ، مجھے ٹی وی دیکھنا بہت پسند تھا، مجھے اس کی وہ آواز بھی پسند تھی جب اس میں خرابی ہو جاتی تھی اور ’اووین‘ کی آواز آتی تھی!‘‘

لیکن وہ پرانی گلابی یادیں دن کے اجالے کی طرح دھندلا جاتی ہیں۔ ’’اب آپ صرف زمین پر انحصار نہیں کر سکتے،‘‘ وڈی ویلن اشارہ کرتے ہیں۔ ’’ہمارا کام  چل جاتا ہے کیونکہ میں ایک ٹیکسی بھی چلاتا ہوں۔‘‘ وہ اپنی ٹویوٹا ایٹیوس میں بیٹھا کر ہمیں تروولرسولئی کے شری رنگم تعلقہ میں واقع اپنے گھر سے دریا کے کنارے لے آئے تھے۔ انہوں نے آٹھ فیصد کی سود پر نجی قرض لے کر یہ کار خریدی تھی۔ قرض کی واپسی کے لیے انہیں ہر مہینے ۲۵ ہزار روپے کی بھاری رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ دونوں میاں بیوی کا کہنا ہے کہ پیسہ کا انتظام ہمیشہ ایک جدوجہد ہوتا ہے۔ اکثر مشکل اوقات میں سونے کے کسی زیور کو  رہن رکھا جاتا ہے۔ ’’اگر ہم جیسے لوگ گھر بنانے کے لیے بینک میں قرض کی درخواست دیں گے، تو ہمیں چپلوں کے ایسے ۱۰ جوڑے گھسنے پڑیں گے۔ وہ ہمیں دوڑا دوڑا کر مار ڈالیں گے!‘‘ وڈی ویلن کہتے ہیں۔

آسمان اب کسی آئل پینٹنگ کی طرح گلابی اور نیلا اور سیاہ ہو گیا ہے۔ کہیں سے مور کے پکارنے کی آواز آتی ہے۔ ’’دریا میں اُدبلاﺅ بھی ہیں،‘‘ وڈی ویلن بتاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہی نوعمر لڑکے اُدبلاﺅں کی سی مہارت کے ساتھ غوطہ لگاتے ہیں۔ ’’میں نے بھی ایسا کیا ہے، جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو یہاں تفریح کے لیے اور کچھ تھا ہی نہیں!‘‘

Vadivelan and Priya (left) on the banks of Kollidam river at sunset, 10 minutes from their sesame fields (right) in Tiruchirappalli district of Tamil Nadu
PHOTO • M. Palani Kumar
Vadivelan and Priya (left) on the banks of Kollidam river at sunset, 10 minutes from their sesame fields (right) in Tiruchirappalli district of Tamil Nadu
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو کے تروچیراپلی ضلع میں اپنے تل کے کھیتوں (دائیں) سے ۱۰ منٹ کے فاصلہ پر غروب آفتاب کے وقت کولیڈم ندی کے کنارے وڈی ویلن اور پریہ (بائیں)

وڈی ویلن ندیوں کی پوجا بھی کرتے ہیں۔ ’’ہر سال، آڈی پیروکو (تمل مہینے آڈی کے ۱۸ویں دن) کو ہم سب کاویری کے کنارے جاتے ہیں اور ناریل توڑتے ہیں، کافور جلاتے ہیں، پھول چڑھاتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں۔ گویا بدلے میں کاویری اور کولیڈم (کولیرون) ندیاں یہاں تمل ناڈو کے تروچیراپلی (جسے تریچی بھی کہا جاتا ہے) ضلع میں ان کے کھیتوں کی پیاس بجھائیں گی، جیسا کہ ان ندیوں نے تقریباً دو ہزار  سالوں سے کیا ہے۔

*****

’’بھاپ پر پکی دالیں، تل کے لڈو، اور بریانی
پھول، اگربتی، اور تازہ پکے ہوئے چاول کے نذرانوں
کے ساتھ عورتیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رقص کرتی ہیں
بزرگ اور معزز خواتین انہیں آشیرواد دیتے ہوئے کہتی ہیں
’’ہمارے بادشاہ کے ذریعے اس عظیم سلطنت میں
بھوک، بیماری اور دشمنی سے نجات ملے؛
بارش ہو اور دولت کے چشمے پھوٹ پڑیں‘‘

دوسری صدی عیسوی میں لکھی گئی تمل رزمیہ سیلپِتی کارم سے یہ دعائیہ رسم ’’تقریباً ویسی ہی ہے جیسا کہ آج تمل ناڈو میں رائج ہے،‘‘ چینتل ناتھن اپنے بلاگ اولڈ تمل پوئٹری [نظم: اندرا ویڈوُو، مصرعہ ۶۸-۷۵] میں لکھتے ہیں۔

ایلّو (تل) کا استعمال قدیم زمانے سے ہو رہا ہے۔ یہ ایک ایسی فصل ہے جس کے مختلف اور دلچسپ استعمال ہوتے ہیں۔ تل کے تیل کو نلّینئی کہتے ہیں اور جنوبی ہندوستان میں یہ کھانا پکانے کا ایک پسندیدہ تیل ہے، اور اس کے بیجوں کو مقامی اور بیرونی مٹھائیوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ سفید یا سیاہ تل کے چھوٹے چھوٹے دانے ذائقہ دار کھانوں کو لذت فراہم کرتے ہیں، اور یہ یہاں کی رسومات کا بھی ایک اہم حصہ ہیں، خاص طور پر وہ رسومات جہاں اپنے آباء اجداد کو یاد کیا جاتا ہے یا ان کی پوجا کی جاتی ہے۔

تل کے بیجوں میں ۵۰ فیصد تیل، ۲۵ فیصد پروٹین اور ۱۵ فیصد کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔ تل اور اجوائین پر انڈین کونسل فار ایگریکلچرل ریسرچ (آئی سی اے آر) کا پروجیکٹ کہتا ہے کہ ’یہ توانائی کا ایک ذخیرہ ہے اور وٹامن ای، اے، بی کمپلیکس اور معدنیات جیسے کیلشیم، فاسفورس، آئرن، کاپر، میگنیشیم، زنک اور پوٹاشیم سے بھرپور ہے۔‘ اس میں حیرت کی بات نہیں ہے کہ تل کی کھلی – ایلّو پوناکو – کو مویشیوں کے لیے ایک اچھا چارہ مانا جاتا ہے۔

Ellu (sesame) is both ancient and commonplace with various uses – as nallenai (sesame oil), as seeds used in desserts and savoury dishes, and as an important part of rituals. Sesame seeds drying behind the oil press in Srirangam.
PHOTO • M. Palani Kumar

ایلّو (تل) کا استعمال قدیم زمانے سے ہو رہا ہے۔ اسے کئی طرح سے استعمال میں لایا جاتا ہے، جیسے نلینئی (تل کے تیل)، بیجوں کے طور پر مٹھائی اور لذیذ کھانوں میں، اور رسومات کے ایک اہم حصے کے طور پر۔ شری رنگم میں چکّی کے پیچھے سوکھتا تل

Freshly pressed sesame oil (left) sits in the sun until it clears. The de-oiled cake, ellu punaaku (right) is sold as feed for livestock
PHOTO • M. Palani Kumar
Freshly pressed sesame oil (left) sits in the sun until it clears. The de-oiled cake, ellu punaaku (right) is sold as feed for livestock.
PHOTO • M. Palani Kumar

تازہ نکالا گیا تل کا تیل (بائیں) دھوپ میں تب تک رکھا جاتا ہے، جب تک وہ صاف نہ ہو جائے۔ تیل نکالنے کے بعد بچنے والا ایلّو پوناکو (دائیں) مویشیوں کے چارے کے طور پر بیچا جاتا ہے۔

’تِل (سیسمم انڈیکم ایل) قدیم ترین دیسی تلہن کی فصل ہے، ہندوستان میں جس کی کاشت کی سب سے طویل تاریخ رہی ہے۔‘ آئی سی اے آر کی شائع کردہ ہینڈ بک آف ایگریکلچر میں مزید کہا گیا ہے کہ ہندوستان تل پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، دنیا کی ۲۴ فیصد فصل یہاں اگائی جاتی ہے۔ کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہندوستان میں تلہن کی فصل کا رقبہ کا ۱۲ سے ۱۵ فیصد، پیداوار ۷ سے ۸ فیصد اور کھپت ۹ سے ۱۰ فیصد ہے۔

یہ کوئی جدید رجحان نہیں ہے۔ کے ٹی اچایا اپنی اہم کتاب انڈین فوڈ، اے ہسٹوریکل کمپینین میں کہتے ہیں کہ اس کی برآمد کے حوالے سے کافی ثبوت موجود ہیں۔

جنوبی ہندوستان کے بندرگاہوں سے تل کی تجارت کی تاریخی تفصیلات کم از کم پہلی صدی عیسوی سے ملنے لگتی ہیں۔ ایک یونانی بولنے والے نامعلوم مصری ملاح کے ذریعہ تحریر کردہ کتاب پیری پلس ماریس ایریتھریئے (سرکم نیویگیشن آف دی ایریتھرین سی) میں اس وقت کی تجارت کو بڑی تفصیل کے ساتھ درج کیا گیا ہے۔ اس نے ذکر کیا ہے کہ بیرون ملک بھیجی جانے والی قیمتی اشیاء میں - بشمول ہاتھی دانت اور ململ کے - تل کا تیل اور سونا، دونوں موجودہ تمل ناڈو کے مغربی حصے کونگوناڈو سے بھیجے جاتے تھے۔ دیگر اشیاء سے موازنہ کرنے کے بعد تل کے تیل کی قیمت اور اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

اچایا کے مطابق مقامی تجارت بھی کافی متحرک تھی۔ منکوڈی مروتنر کے ذریعہ لکھی گئی کتاب مدورئی کانچی میں ایک سرگرم تجارتی مرکز کے طور پر مدورئی کا ذکر ملتا ہے: ’گول مرچ اور دھان، جوار، چنا، مٹر اور تل سمیت سولہ قسموں کے اناج سے بھری بوریاں اناج منڈیوں میں ڈھیر لگی ہوئی ہیں۔‘

تل کے تیل کو شاہی سرپرستی حاصل تھی۔ اچایا کی کتاب انڈین فوڈ میں ڈومنگو پائیز کا ذکر ملتا ہے، جو ایک پرتگالی تاجر تھا اور ۱۵۲۰ کے آس پاس وجئے نگر میں کئی سال تک مقیم رہا تھا۔ پائیز نے راجا کرشن دیو رائے کے بارے میں لکھا ہے:

’’راجا سورج نکلنے سے پہلے ایک پائنٹ [مائع کی ایک پیمائش] کی تین چوتھائی مقدار کے برابر تل کا تیل پینے کا عادی ہے اور اسی تیل سے اپنے پورے جسم پر مالش کرواتا ہے۔ وہ اپنی کمر کو ایک چھوٹے سے کپڑے سے ڈھانپتا ہے اور اپنے ہاتھوں سے بھاری وزن اٹھاتا ہے، اور پھر اپنی تلوار لے کر اس وقت تک مشق کرتا ہے جب تک کہ سارا تیل پسینہ میں بہہ نہ جائے۔‘‘

Sesame flowers and pods in Priya's field (left). She pops open a pod to reveal the tiny sesame seeds inside (right)
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Sesame flowers and pods in Priya's field (left). She pops open a pod to reveal the tiny sesame seeds inside (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

پریہ کے کھیت میں تل کے پھول اور پھلیاں (بائیں)۔ وہ چھوٹی سی تل کی پھلی کو کھولتی ہیں جس سے ایک بیج برآمد ہوتا ہے (دائیں)

Priya holding up a handful of sesame seeds that have just been harvested
PHOTO • M. Palani Kumar

پریہ ہاتھ میں مٹھی بھر تل لیے ہوئی ہیں، جن کی پیداوار ابھی ابھی حاصل ہوئی ہے

وڈی ویلن کے والد پلنی ویل بھی اس بیان کی تصدیق کرتے معلوم ہوتے ہیں۔ ہر تفصیل سے لگتا ہے کہ وہ کھیلوں سے محبت کرنے والے شخص تھے۔ ’’انہوں نے اپنے بدن کو کافی احتیاط سے بنایا تھا۔ انہوں نے پتھر [وزن] اٹھائے، ناریل کے باغ میں کشتی سکھائی۔ وہ سلمبم [تامل ناڈو کا قدیم مارشل آرٹ جس کا ذکر سنگم ادب میں کیا گیا ہے] بھی اچھی طرح جانتے تھے۔‘‘

یہ فیملی صرف اپنے کھیتوں کے تل کا تیل اور کبھی کبھار ناریل کا تیل استعمال کرتی تھی۔ دونوں کو بڑے برتنوں میں محفوظ کیا جاتا تھا۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے والد رالے سائیکل چلاتے تھے، اور اس پر کالے چنے کی بوریاں لاد کر تریچی میں گاندھی مارکیٹ جاتے تھے۔ وہ مرچ، سرسوں، کالی مرچ اور املی لے کر واپس آتے تھے۔ یہ ایک بارٹر (مبادلہ اجناس) کی طرح تھا، اور باورچی خانے میں سال بھر ذخیرہ کر دیا جاتا تھا!‘‘

*****

وڈی ویلن اور پریہ کی شادی ۲۰۰۵ میں ہوئی تھی۔ ان کی شادی تریچی کے قریب واقع ویلور مروگن مندر میں ہوئی تھی۔ ’’شادی میں میرے والد شریک نہیں ہوئے تھے، انہوں نے ہماری شادی کو منظوری نہیں دی تھی،‘‘ وڈی ویلن کہتے ہیں۔ ’’حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے میرے دوست جو گاؤں میں میرے رشتہ داروں کو لینے آئے تھے، میرے والد کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ آ رہے ہیں۔ انہیں مزید غصہ آگیا!‘‘ وڈی ویلن ہنستے ہوئے بتاتے ہیں۔

ہم اس میاں بیوی کے گھر کے اندر ہال میں دیوتاؤں کی تصویروں سے بھرے شیلف کے پاس بیٹھے ہیں۔ دیوار پر فیملی کی تصاویر ہیں، جن میں سیلفیاں، چھٹیوں کی تصاویر اور پورٹریٹ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ ایک ٹیلی ویژن ہے جو خالی وقت میں پریہ کے لیے تفریح کا لمحہ فراہم کرتا ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے، تو ان کے دونوں بچے اسکول جا چکے تھے۔ ان کا کتا ہمیں ’ہیلو‘ کہنے آتا ہے۔ ’’یہ جولی ہے،‘‘ وڈی ویلن بتاتے ہیں۔ ’’یہ بہت پیاری ہے،‘‘ میں اس کی تعریف کرتا ہوں۔ ’’یہ لڑکا ہے،‘‘ وڈی ویلن یہ کہتے ہوئے زور سے ہنستے ہیں۔ جولی ناخوش ہو کر چلی جاتی ہے۔

پریہ ہمیں کھانے پر مدعو کرتی ہیں۔ انہوں نے ہمارے لیے شاندار دعوت کا انتظام کیا ہے، جس میں وڈا کے ساتھ ساتھ پائیسم بھی شامل ہے۔ وہ کیلے کے پتے پر ہمیں کھانا پیش کرتی ہیں۔ کھانا مزیدار ہونے کے علاوہ، پیٹ بھر دینے والا ہے۔

Left: Priya inspecting her sesame plants.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: The couple, Vadivelan and Priya in their sugarcane field.
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: پریہ اپنے تل کے پودوں کا معائنہ کر رہی ہیں۔ دائیں: وڈی ویلن اور پریہ اپنے گنے کے کھیت میں کھڑے ہیں۔

ہمیں نیند نہ آنے لگے، اس لیے ہم کام کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ تل کی کھیتی کرنا ان کے لیے کیسا تجربہ رہا؟ ’’یہ پریشانی سے بھرا کام ہے،‘‘ وڈی ویلن کہتے ہیں۔ ان کے مطابق کھیتی کا پیشہ ہی ایسا ہے۔ ’’اس کام میں نہ کے برابر منافع ہے، لیکن لاگت بڑھتی رہتی ہے۔ یوریا کے ساتھ ساتھ دوسرے کھاد بھی کافی مہنگے ہو گئے ہیں۔ اوپر سے کھیت جوتنا ہے اور تل کے بیج بونے ہیں۔ اس کے بعد نالی بنانی ہوتی ہے، تاکہ پانی درمیان میں بہتا رہے۔ ہم کھیت میں صرف اس وقت پانی ڈالتے ہیں جب سورج غروب ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘

پریہ بتاتی ہیں کہ پہلی سینچائی تیسرے ہفتے کے آس پاس کی جاتی ہے۔ تب تک پودا اتنا بڑا ہو جاتا ہے، وہ اپنے ہاتھ کو زمین سے نو یا ۱۰ انچ اوپر رکھ کر بتاتی ہیں۔ ’’پھر یہ تیزی سے بڑھنے لگتا ہے۔ پانچویں ہفتے میں آپ گھاس پھوس کی نکائی کرتے ہیں، یوریا ڈالتے ہیں، اور ہر ۱۰ دن یا اس کے بعد اس کی آبپاشی کرتے ہیں۔ اگر اچھی دھوپ ہو تو آپ کو اچھی پیداوار ملے گی۔‘‘

جب وڈی ویلن کام پر جاتے ہیں، تب پریہ کھیتوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ کسی بھی خاص وقت میں ان کے ڈیڑھ ایکڑ کھیت میں کم از کم دو فصلیں کھڑی ہوتی ہیں۔ وہ گھر کا کام نمٹا تی ہیں، بچوں کو اسکول بھیجتی ہیں، اپنے لیے کھانا پیک کرتی ہیں اور اپنے کھیت میں مزدوروں میں شامل ہونے کے لیے اپنی سائیکل چلاتی ہیں۔ ’’صبح ۱۰ بجے ہمیں سب کے لیے چائے منگوانی پڑتی ہے۔ اور دوپہر کے کھانے کے بعد چائے اور پلکارم [ہلکا ناشتہ]  دیا جاتا ہے۔ عام طور پر ہم سوئیم [میٹھا] اور ارولئی بونڈا [نمکین] دیتے ہیں۔‘‘ وہ لگاتار کوئی نہ کوئی کام کرتی ہیں: اٹھ رہی ہیں بیٹھ رہی ہیں، لا رہی ہیں، موڑ رہی ہیں، اٹھاتی ہیں، کھانا پکاتی ہیں، صفائی کرتی ہیں… اس سے قبل کہ ہم ان کے کھیتوں کا معائنہ کرنے نکلیں، وہ ہمیں جوس کی پیش کش کرتی ہیں، ’’تھوڑا جوس لیجئے۔‘‘

*****

ایلو وَیَل ، یعنی تل کے کھیت ایک خوبصورتی منظر پیش کرتے ہیں۔ پھول نازک اور سجاوٹ کے قابل ہوتے ہیں۔ ان کی رنگت گلابی اور سفید ہوتی ہے، جو شفان ساڑھیوں اور فرینچ مینیکیور کی یاد دلاتے ہیں۔ کسی طرح بھی گاڑھے تیل کے کھیت نہیں معلوم ہوتے ہیں جو جنوبی ہندوستانی باورچی خانے کا بنیادی حصہ ہے۔

تل کا پودا لمبا اور پتلا ہوتا ہے، جس کے پتے گہرے سبز رنگ کے ہوتے ہیں۔ تنے پر بہت سی سبز پھلیاں ہوتی ہیں۔ ہر پھلی بادام کے برابر ہوتی ہے، اور اس کی شکل الائچی کی طرح ہوتی ہے. پریہ ہمارے لیے ایک پھلی توڑ کر لاتی ہیں۔ اس کے اندر کئی چھوٹے پیلے سفید تل موجود ہیں۔ یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ ایک چمچ تیل کے لیے ان میں سے کتنی پھلیوں کو پیسنا پڑے گا۔ ایک اڈلی پر عام طور پر کم از کم دو تل کیوں لگائے جاتے ہیں ، اور کچھ اڈلی پوڈی (ایک خشک چٹنی) میں ڈالا جاتا ہے۔

اگرچہ اس سے متعلق سیدھے طور پر سوچنا مشکل ہے، کیونکہ اپریل کا سورج پورے آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ ہم قریب کے ایک باغ میں سایہ تلاش کرتے ہیں۔ وڈی ویلن کا کہنا ہے کہ اسی جگہ خواتین زرعی مزدور بھی آرام کرتی ہیں۔ ان میں سے کئی ان کے پڑوسی گوپال کے کالے چنے کے کھیت میں مزدوری کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے سروں پر سوتی کے تولیے لپیٹ رکھے ہیں، تاکہ خود کو دھوپ کی شدت سے بچا سکیں۔ دوپہر کے کھانے اور چائے کے وقفے کو چھوڑ کر وہ بغیر رکے کام کرتی ہیں۔

Left: Mariyaayi works as a labourer, and also sells tulasi garlands near the Srirangam temple.
PHOTO • M. Palani Kumar
Right: Vadivelan’s neighbour, S. Gopal participates in the sesame harvest
PHOTO • M. Palani Kumar

بائیں: ماریائی بحیثیت مزدور کام کرتی ہیں، اور شری رنگم مندر کے قریب تلسی کی مالا بھی فروخت کرتی ہیں۔ دائیں: وڈی ویلن کے پڑوسی، ایس گوپال تل کی کٹائی میں حصہ لے رہے ہیں

Women agricultural labourers weeding (left) in Gopal's field. They take a short break (right) for tea and snacks
PHOTO • M. Palani Kumar
Women agricultural labourers weeding (left) in Gopal's field. They take a short break (right) for tea and snacks.
PHOTO • M. Palani Kumar

خواتین زرعی مزدور گوپال کے کھیت میں (بائیں) گھاس کی نکائی کر رہی ہیں۔ وہ چائے اور ناشتے کے لیے ایک مختصر وقفہ (دائیں) لیتی ہیں

یہ سب بڑی عمر کی خواتین ہیں۔ سب سے بزرگ شاید وی ماریائی ہیں۔ ان کی عمر ستر کی دہائی میں ہے۔ جب وہ نکائی یا روپائی یا کٹائی نہیں کر رہی ہوتی ہیں، تو تلسی (مقدس تلسی) کی مالا شری رنگم مندر میں لے جا کر فروخت کرتی ہیں۔ وہ نرمی سے بولتی ہیں۔ سورج کی تپش سے  کوئی راحت نہیں ہے…

تل کے پودے کو بظاہر سورج کی تپش سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ اسے دیگر بہت ساری چیزوں سے بھی فرق نہیں پڑتا، وڈی ویلن کے پڑوسی ۶۵ سالہ ایس گوپال کہتے ہیں اور وڈی ویلن اور پریہ ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ تینوں کسان کیڑے مار دوا اور اسپرے سے متعلق نہ کے برابر بات کرتے ہیں اور اگر کرتے بھی ہیں تو سرسری طور پر۔ وہ پانی کو لے کر بھی پریشان نہیں ہیں۔ تل کی کاشت جوار کی کاشت کی طرح آسان ہوتی ہے۔ اس میں بہت کم توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ بے موسم کی بارش سے اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ رہتا ہے۔

اور ۲۰۲۲ میں یہی ہوا تھا۔ ’’جنوری اور فروری میں اس وقت بارش ہوئی تھی جب اسے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت پودے نئے نئے تھے، ان کی نمو رک گئی تھی،‘‘ وڈی ویلن کہتے ہیں۔ ان کی فصل کٹائی کے لیے تیار ہے، لیکن وہ پیداوار کو لے کر بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ ’’ہمیں پچھلے سال ۳۰ سینٹ (ایکڑ کا تہائی) زمین پر لگائی گئی فصل سے ۱۵۰ کلوگرام پیداوار ملی تھی۔ اس دفعہ مجھے شک ہے کہ یہ ۴۰ کلو سے بھی تجاوز کرے گی۔‘‘

اس تخمینے کی یہ مقدار بمشکل ان کے کنبے کی تیل کی سالانہ ضرورت پوری کرے گی۔ ’’ہم بیج کو تقریباً ۱۵ سے ۱۸ کلو گرام کی گھانی میں پیستے ہیں۔ اس سے تقریباً سات یا آٹھ لیٹر تیل ملتا ہے۔ ہمیں اپنی ضروریات کے لیے کم سے کم دو گھانی کی ضرورت ہوتی ہے،‘‘ پریہ بتاتی ہیں۔ وڈی ویلن اگلے دن ہمیں تیل کی چکی میں لے جانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن بیجوں کا کیا ہوگا؟ وہ کیسے جمع ہوتے ہیں؟

گوپال ہمیں اپنے تل کا کھیت دیکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کھیت تھوڑی دوری پر اینٹوں کے بھٹے کے پاس ہے، جہاں بہت سے مہاجر کنبے رہ کر کام کرتے ہیں اور ایک اینٹ کے عوض ایک روپیہ کی مجموعی رقم حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں (جو ان کی بکریوں اور مرغیوں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں)۔ بھٹہ شام کو خاموش ہے۔ اور وہاں کام کرنے والی ایک مزدور ایم سینیامل مدد کے لیے آگے بڑھتی ہیں۔

Priya and Gopal shake the harvested sesame stalks (left) until the seeds fall out and collect on the tarpaulin sheet (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Priya and Gopal shake the harvested sesame stalks (left) until the seeds fall out and collect on the tarpaulin sheet (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

پریہ اور گوپال کٹے ہوئے تل کے ڈنٹھلوں کو (بائیں) تب تک ہلاتے ہیں جب تک کہ بیج گر کر ترپال کی چادر پر جمع نہ ہو جائیں (دائیں)

Sesame seeds collected in the winnow (left). Seeniammal (right)  a brick kiln worker, helps out with cleaning the sesame seeds to remove stalks and other impurities
PHOTO • M. Palani Kumar
Sesame seeds collected in the winnow (left). Seeniammal (right)  a brick kiln worker, helps out with cleaning the sesame seeds to remove stalks and other impurities
PHOTO • M. Palani Kumar

سوپ میں جمع کیے گئے تل کے بیج (بائیں)۔ سینیامّل (دائیں)، جو اینٹ بھٹے پر کام کرنی والی مزدور ہیں، تل کے بیجوں کو کھرپتوار سے پاک کرنے میں مدد کر رہی ہیں

سب سے پہلے گوپال اُس ترپال کو ہٹاتے ہیں، جس سے کٹے ہوئے تل کی فصل کو ڈھانپا گیا ہے۔ درجۂ حرارت اور نمی کو بڑھانے اور پھلیوں کے کھل جانے کی خاطر انہیں کچھ دنوں کے لیے ایک ساتھ ڈھیر کیا گیا ہے۔ سینیامّل ایک چھڑی کے سہارے ماہرانہ طور پر تل کے ڈنٹھلوں کو الٹتی پلٹتی ہیں۔ پھلیاں پک کر تیار ہیں۔ وہ پھٹ جاتی ہیں اور پختہ بیج گر جاتے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے جمع کرتی ہیں اور ان کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے بناتی ہیں۔ اور وہ اس عمل کو اس وقت تک دہرائیں گی جب تک کہ تمام ڈنٹھل خالی نہ ہوجائیں۔

پریہ، گوپال اور دیگر افراد ڈنٹھل جمع کرکے انہیں باندھتے ہیں۔ اب انہیں ایندھن کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ ’’مجھے یاد ہے کہ ان کا استعمال دھان ابالنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ہم رائس مل میں یہ کام کر لیتے ہیں۔ تل کے ڈنٹھل اب جلا دیے جاتے ہیں،‘‘ وڈی ویلن بتاتے ہیں۔

بہت سے پرانے رواج ختم ہو چکے ہیں، گوپال بات کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ان کی ناراضگی اُویِر ویلی (پودوں سے باڑ بنانے کی روایت) کے تصور کے ختم ہو جانے سے ہے۔ ’’جب ہم انہیں لگاتے تھے تو گیدڑ باڑوں کے ساتھ اپنا ٹھکانہ بناتے تھے۔ وہ پرندوں اور جانوروں کو ہماری فصلوں سے دور رکھتے تھے۔ اب آپ کو گیدڑ کہاں نظر آتے ہیں!‘‘ وہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’بالکل سچی بات ہے،‘‘ وڈی ویلن بھی ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ’’ہر طرف گیدڑ رہتے تھے۔ میری شادی سے پہلے، میں نے ندی کے کنارے ایک جانور کے بچے کو اٹھایا، یہ سوچ کر کہ یہ کسی قسم کا جھبرا کتا ہے۔ میرے والد نے فوراً کہا کہ یہ تھوڑا الگ ہے۔ اس رات بالغ گیدڑوں کا ایک گروہ رات بھر ہمارے گھر کے پیچھے چیختا رہا۔ میں نے اسے واپس وییں چھوڑ دیا جہاں سے اٹھایا تھا!‘‘

ہمارے گپ شپ کے دوران سینیامّل بھوسے اور سوکھے پتے کے ساتھ ملے تل کے بیجوں کوایک سوپ میں منتقل کرتی ہیں۔ وہ اسے اپنے سر سے اوپر اٹھا کر بڑی مہارت سے ہلاتی ہیں۔ یہ عمل ایک ہی وقت میں خوبصورت اور مشکل بھی ہے، اور اس میں ہنر کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ تل بارش کی بوندوں کی طرح گرتا ہے اور موسیقی پیدا کرتا ہے۔

Gopal's daughter-in-law cleans the seeds using a sieve (left) and later they both gather them into sacks (right).
PHOTO • M. Palani Kumar
Gopal's daughter-in-law cleans the seeds using a sieve (left) and later they both gather them into sacks (right).
PHOTO • M. Palani Kumar

گوپال کی بہو چھلنی (بائیں) سے بیج صاف کر رہی ہیں اور بعد میں دونوں مل کر انہیں بوریوں (بائیں) میں جمع کرتے ہیں

Priya helps gather the stalks (left). Gopal then carries it (right) to one side of the field. It will later be burnt
PHOTO • M. Palani Kumar
Priya helps gather the stalks (left). Gopal then carries it (right) to one side of the field. It will later be burnt.
PHOTO • M. Palani Kumar

پریہ ڈنٹھل (بائیں) جمع کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ پھر گوپال اسے اٹھا کر (دائیں) میدان کے ایک طرف لے جاتے ہیں۔ بعد میں اسے جلا دیا جائے گا

*****

شری رنگم میں شری رنگا مرچیکو (لکڑی کے کولہو) میں ریڈیو پر ایک پرانا تمل گانا بج رہا ہے۔ کولہو کے مالک آر راجو کیش رجسٹر کھول کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ تل کو پیستے وقت کولہو سے آواز آ رہی ہے۔ اسٹیل کے بڑے بڑے برتن سنہری پیلے رنگ کے تیل سے بھرے ہوئے ہیں۔ گھر کے پچھواڑے تل خشک ہو رہے ہیں۔

’’۱۸ کلو تل کو پیسنے میں ڈیڑھ گھنٹے کا وقت لگتا ہے۔ ہم اس میں ڈیڑھ کلو تاڑ کا گڑ ملاتے ہیں۔ اس عمل میں تقریباً ۸ لیٹر تیل نکلتا ہے۔ اسٹیل کے کولہو کے مقابلے یہ تھوڑا کم ہوتا ہے،‘‘ راجو بتاتے ہیں۔ وہ گاہکوں سے ایک کلو تیل کے عوض ۳۰ روپے وصول کرتے ہیں۔ اور کولڈ پریسڈ تل کا تیل ۴۲۰ روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کرتے ہیں۔ ’’ہم صرف اعلیٰ معیار کے تل استعمال کرتے ہیں، جو براہ راست کسان سے یا گاندھی مارکیٹ سے ۱۳۰ روپے فی کلو کے حساب سے خریدے جاتے ہیں اور تیل کا ذائقہ بڑھانے کے لیے اچھے معیار کے تاڑ کے گڑ ۳۰۰ روپے فی کلو کے حساب سے خریدے جاتے ہیں۔‘‘

کولہو صبح ۱۰ بجے سے شام ۵ بجے کے درمیان چار بار چلتا ہے اور اس سے نکلنے والے تازہ تیل کو صاف ہونے کے لیے دھوپ میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تل کی سوکھی کھلی ( ایلو پوناکو ) میں کچھ باقی ماندہ تیل ہوتا ہے، اور کسان اسے ۳۵ روپے فی کلو کے حساب سے اپنے مویشیوں کے لیے خرید لیتے ہیں۔

راجو کا خیال ہے کہ وہ ایک ایکڑ تل کی کھیتی، کٹائی، صفائی اور بوریوں میں بھرائی پر ۲۰ ہزار روپے سے کچھ زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ پیداوار عام طور پر ۳۰۰ کلو سے زیادہ ہوتی ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ وہ اس سہ ماہی فصل کے لیے ۱۵ سے ۱۷ ہزار روپے کے درمیان منافع حاصل کرتے ہیں۔

وڈی ویلن کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہیں پر ہے۔ ’’آپ جانتے ہیں کہ ہماری محنت سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے؟ تاجروں کو! جب فصل ہاتھ بدلتی ہے، تو وہ ہمیں ادا کی گئی رقم سے دوگنا منافع حاصل کرتے ہیں،‘‘ وہ الزام لگاتے ہیں۔ ’’تاجروں نے اس میں کیا اضافہ کر دیا؟‘‘ وہ اپنا سر ہلاتے ہیں۔ ’’اسی لیے ہم تل نہیں بیچتے۔ ہم گھریلو خرچ کے لیے، اپنے استعمال کے لیے یہ فصل اگاتے ہیں۔ یہی کافی ہے…‘‘

The wooden press at Srirangam squeezes the golden yellow oil out of the sesame seeds
PHOTO • M. Palani Kumar
The wooden press at Srirangam squeezes the golden yellow oil out of the sesame seeds
PHOTO • M. Palani Kumar

شری رنگم میں لکڑی کا کولہو تلوں کو پیس کر اس سے سنہری پیلے رنگ کا تیل نکالتا ہے

Gandhi market in Trichy, Tamil Nadu where sesame and dals are bought from farmers and sold to dealers
PHOTO • M. Palani Kumar
Gandhi market in Trichy, Tamil Nadu where sesame and dals are bought from farmers and sold to dealers
PHOTO • M. Palani Kumar

تمل ناڈو کے تریچی کا گاندھی بازار، جہاں کسانوں سے تل اور دال خرید کر ڈیلروں کو بیچا جاتا ہے

تریچی کے مصروف گاندھی بازار میں تل کی دکانوں پر گہما گہمی ہے۔ کسان باہر کالے چنے، سبز چنے اور تل کی بوریوں پر بیٹھے ہیں۔ تاجر غار نما دکانوں کے اندر ہیں جو ان کے دادا کی بنائی ہوئی ہیں۔ پی سروَنن (۴۵) کا خیال ہے کہ جس دن ہم جاتے ہیں اس کے آس پاس زیادہ کالے چنے ہوتے ہیں۔ خواتین اور مرد مزدور دال کو چھلنی سے چھانتے ہیں اور تول کر پیک کرتے ہیں۔ ’’مقامی تل کی کٹائی ابھی شروع ہوئی ہے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’بوریاں جلد آنا شروع ہو جائیں گی۔‘‘

لیکن ۵۵ سالہ ایس چندر شیکھرن کا اندازہ ہے کہ اچھی فصل کے موسم میں بھی تل کی پیداوار ان کے والد کے زمانے کی پیداوار کا چوتھا حصہ ہوتی ہے۔ ’’جون میں ہر روز تقریباً ۲۰۰۰ ایلّو موٹئی [تل کی بوریاں] گاندھی مارکیٹ میں آتی تھیں۔ پچھلے کچھ سالوں میں، یہ گھٹ کر ۵۰۰ پر آ گئی ہیں۔ کسان تل کی کھیتی ترک کر رہے ہیں۔ یہ [فصل] بہت محنت طلب ہے۔ قیمتیں نہیں بڑھ رہی ہیں- فی کلو تل کی قیمت ۱۰۰ سے ۱۳۰ روپے کے درمیان رہتی ہے۔ لہذا، وہ کالے چنے کی طرف مائل ہو رہے ہیں جسے مشین سے کاٹا جا سکتا ہے اور اسی دن بوریوں میں محفوظ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

میں ٹوکتے ہوئے سوال کرتی ہوں کہ تیل کی قیمت تو زیادہ ہے اور اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کسانوں کو بہتر قیمت کیوں نہیں ملتی؟  چندر شیکھرن جواب دیتے ہیں، ’’یہ مارکیٹ پر، سپلائی اور ڈیمانڈ، دوسری ریاستوں کی پیداوار اور بڑے آئل مل مالکان کے اسٹاک پر منحصر ہے۔‘‘

ہر جگہ، ہر فصل اور ہر شے کی ایک ہی کہانی ہے۔ ’مارکیٹ‘ کچھ کے لیے بہتر ہے، اور کچھ کے لیے خراب ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہ کس کے لیے بہتر ہے…

*****

ہندوستان میں خوردنی تیل کی صنعت کی درآمدات اور نقل مکانی کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ رہی ہے، جو فصلوں اور ثقافتی عمل سے منسلک ہے۔ جیسا کہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، دہلی کی سوشیالوجی اور پالیسی اسٹڈیز کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر رچا کمار ایک مقالے میں بتاتی ہیں: ’’۱۹۷۶ تک ہندوستان اپنی خوردنی تیل کی ضروریات کا تقریباً ۳۰ فیصد درآمد کر رہا تھا۔‘‘ فرام سیلف ریلائنس ٹو ڈیپننگ ڈسٹریس (خود انحصاری سے گہرے ہوتے دباؤ تک) کے عنوان سے شائع یہ مقالہ مزید کہتا ہے: ’’حکومت ڈیری کوآپریٹیو کی کامیابی کو دہرانا چاہتی تھی جس نے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کیا تھا۔‘‘

Freshly pressed sesame oil (left). Various cold pressed oils (right) at the store in Srirangam
PHOTO • M. Palani Kumar
Freshly pressed sesame oil (left). Various cold pressed oils (right) at the store in Srirangam.
PHOTO • M. Palani Kumar

تازہ نکالا ہوا تل کا تیل (بائیں)۔ شری رنگم کی ایک دکان پر مختلف قسم کے کولڈ پریسڈ تیل (دائیں)

لیکن، کمار کہتی ہیں، ’’زرد انقلاب کے باوجود ہندوستان میں ۱۹۹۰ کی دہائی کے وسط میں خوردنی تیل کی بھاری کمی محسوس کی گئی، جو تلہن، اناج، دالوں کی مخلوط فصلوں سے گندم، چاول اور گنے کی فصلوں کی طرف زمین کی منتقلی کی وجہ سے تھی۔ اور ان فصلوں کے لیے حکومت کی طرف سے خصوصی مراعات اور خریداری کی ضمانت دی گئی تھی۔ مزید برآں، ۱۹۹۴ میں خوردنی تیل کی درآمدات کی نرم کاری کے بعد انڈونیشیا سے سستے پام آئل اور ارجنٹائن سے سویا بین تیل کی مقامی مارکیٹ میں بھرمارکے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔

’’پام آئل اور سویا بین آئل دیگر خوردنی تیلوں کے سستے متبادل بن گئے، خاص طور پر ونسپتی کی تیاری میں (ریفائن، ہائیڈروجنیٹڈ ویجیٹبل شارٹننگ)، جو زیادہ مہنگے دیسی گھی کا بہت مقبول متبادل ہے۔ انہوں نے مل کر ہندوستان بھر کے کھیتوں اور پلیٹوں سے بہت سارے روایتی اور علاقائی تلہن اور تیلوں کو غائب کر دیا جس میں سرسوں، تل، السی، ناریل اور مونگ پھلی شامل ہیں، کیونکہ کسانوں کو یہ فصلیں غیر منافع بخش لگتی ہیں،‘‘ کمار لکھتی ہیں۔

حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ہندوستان میں پیٹرولیم اور سونے کے بعد خوردنی تیل سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی چیز بن گئی ہے۔ زرعی درآمد میں ان کی حصہ داری ۴۰ فیصد اور کل درآمد میں ۳ فیصد ہو گئی ہے۔ یہ کہنا ہے جون ۲۰۲۳ میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مقالہ کا۔ یہ مطالعہ نوٹ کرتا ہے کہ گھریلو کھپت کی تقریباً ۶۰ فیصد مانگ درآمدات سے پوری ہوتی ہے۔

*****

وڈی ویلن کے کنبے کے ساٹھ فیصد اخراجات ان کی ٹیکسی سے پورے ہوتے ہیں۔ کاویری کی طرح جو ان کے گاؤں سے بالکل آگے دو حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے، وڈی ویلن کا وقت اور ان کی زندگی زراعت اور ڈرائیونگ کے درمیان دو حصوں میں منقسم ہو گئی ہے۔ ڈرائیونگ سخت، غیر یقینی آمدنی والی اور محنت طلب کام ہے۔‘‘

چونکہ یہ دن کا کام ہے (اور وہ لمبے وقت تک گاڑی چلاتے ہیں)، اس لیے ان کی بیوی کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔ یہ کام درون خانہ کاموں کے علاوہ ہوتا ہے جو زیادہ تر انہیں کے ذمہ ہوتا ہے۔ وڈی ویلن اکثر ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ کبھی رات کو کھیت کو پانی دینا، اور کٹائی کی مشین لانے کے لیے کئی دنوں تک دوڑنا، خاص طور پر جب دوسرے کسان بھی اپنی فصل کی کٹائی کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ کھیتوں میں بہت زیادہ محنت کیا کرتے تھے۔ ’’لیکن آج کل اگر میں بیلچے سے کام کرتا ہوں اور گاڑی نہیں چلاتا تو میری پیٹھ میں جکڑن آ جاتی ہے!‘‘

Women workers winnow (left) the freshly harvested black gram after which they clean and sort (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Women workers winnow (left) the freshly harvested black gram after which they clean and sort (right)
PHOTO • M. Palani Kumar

خواتین مزدور اڑد کی تازہ پیداوار کو پھٹک (بائیں) رہی ہیں، جس کے بعد وہ اسے صاف کرتی ہیں اور چھانٹتی (دائیں) ہیں

لہذا، جب انہیں ضرورت ہوتی ہے تو یہ میاں بیوی مزدور رکھتے ہیں۔ گھاس نکائی کرنے اور بوائی کرنے اور تلوں کی پٹائی کرنے کے لیے۔ ان کاموں کے لیے انہیں زیادہ تر بڑی عمر کی خواتین ملتی ہیں۔

اڑد کی کاشت بھی اتنی ہی سخت ہے۔ ’’فصل کی کٹائی سے ٹھیک پہلے اور بعد میں بارش ہوئی تھی۔ اسے میں انہیں خشک رکھنا میرے لیے بہت مشکل تھا۔‘‘ وہ اپنی آزمائش بیان کرتے ہیں اور ان کی یہ کوشش سپر ہیومن لگتی ہے۔ ان کی کہانی سننے کے بعد سے میں اپنی اڈلی اور ڈوسا میں ڈلی ہوئی اُڑد دال [ اُلوندو ] کو زیادہ عزت کی نظڑ سے دیکھنے لگی ہوں۔

’’جب میں اپنی عمر کی بیسویں دہائی میں تھا تو لاری چلاتا تھا۔ اس لاری میں ۱۴ پہیے تھے۔ ہم دو ڈرائیور تھے اور ہم نے باری باری ڈرائیو کرتے ہوئے پورے ملک کا سفر کیا۔ اتر پردیش، دہلی، کشمیر، راجستھان، گجرات…‘‘ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کیا کھایا اور کیا پیا (اونٹ کے دودھ کی چائے، روٹی اور دال، انڈے کی بھرجی)، کہاں نہاتے تھے (دریا کے کنارے، یا کبھی کبھی نہیں بھی نہاتے تھے، جیسے کہ سرینگر میں جہاں بہت سردی تھی)، گاڑی چلاتے ہوئے کیا سنا (’’خود کو بیدار رکھنے کے لیے الیّا راجا کے گانے، اور کُتو پاٹو سنے!‘‘)۔ وہ دوستی، گپ شپ اور بھوتوں کے بارے میں مزیدار باتیں کرتے ہیں۔ ’’ایک رات میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لیے ٹرک سے نیچے اترا۔ میں نے اپنا سر کمبل سے ڈھانپ رکھا تھا۔ اگلی صبح، دوسرے لوگوں نے کہا کہ انہوں نے ایک بڑے سر والے بھوت کو دیکھا ہے!‘‘ وہ زور سے ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔

انہوں نے پورے ملک کے سفر والی ڈرائیونگ چھوڑ دی، کیونکہ یہ انہیں ہفتوں گھر سے دور رکھتی تھی۔ اپنی شادی کے بعد وہ مقامی طور پر گاڑی چلاتے تھے، اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ وڈی ویلن اور پریہ کے دو بچے ہیں: ایک بیٹی جو دسویں جماعت میں تعلیم حاصل کر رہی ہے اور ایک بیٹا ساتویں جماعت میں ہے۔ ’’ہم انہیں سب کچھ دینے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن شاید میں ایک نوجوان لڑکے کے طور پر زیادہ خوش تھا،‘‘ وہ کچھ سوچ کر کہتے ہیں۔

Vadivelan’s time is divided between farming and driving. Seen here (left)with his wife Priya in the shade of a nearby grove and with their children (right)
PHOTO • M. Palani Kumar
Vadivelan’s time is divided between farming and driving. Seen here (left)with his wife Priya in the shade of a nearby grove and with their children (right)
PHOTO • Aparna Karthikeyan

وڈی ویلن کا وقت کاشتکاری اور ڈرائیونگ کے درمیان منقسم ہے۔ یہاں (بائیں) اپنی بیوی پریہ کے ساتھ قریبی باغ کے سائے میں کھڑے ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ (دائیں) دیکھے جا سکتے ہیں

ان کا بچپن آسان نہیں تھا۔ ’’اس وقت ہماری پرورش کسی نے نہیں کی، آپ سمجھ رہی ہیں نا،‘‘ وہ ٹھہر کر میری طرف مسکراتے ہیں۔ ’’ہم یوں ہی بڑے ہوگئے۔‘‘ جب وہ نویں جماعت میں تھے تو انہیں چپل کا پہلا جوڑا ملا تھا۔ اس وقت تک وہ ننگے پاؤں گھومتے تھے۔ اکثر اپنی دادی کی اگائی ہوئی ساگ کے بنڈل ۵۰ پیسے فی بنڈل کے حساب سے فروخت کرتے تھے۔ ’’کچھ لوگ اس کے لیے بھی تول مول کرتے تھے!‘‘ وہ حیرت سے بتاتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسکول کی طرف سے ملنے والی سائیکل کی سواری بنیان اور جانگھیا پہن کر کرتے تھے۔ ’’وہ کپڑے تین مہینے تک چلتے تھے۔ میرے والدین ہمیں ہمیں سال میں صرف ایک جوڑی نئے کپڑے دیتے تھے۔‘‘

وڈی ویلن مشکل وقت کی بات کرتے ہیں۔ وہ ایتھلیٹ تھے اور ریس میں حصہ لیا کرتے تھے اور انعامات بھی جیتے تھے۔ وہ کبڈی کھیلتے تھے، ندی میں تیراکی کرتے تھے، دوستوں کے ساتھ سیر کرتے تھے، اور گھر میں رات  کے وقت اپنی دادی سے کہانیاں سنتے تھے۔ ’’میں آدھی کہانی کے دوران ہی سو جاتا تھا اور اگلی رات وہ باقی کی کہانی سناتی تھیں۔ انہیں بہت سی کہانیاں یاد تھیں، راجاؤں، رانیوں اور دیوتاؤں کی کہانیاں…‘‘

لیکن نوجوان وڈی ویلن ضلع سطح کے مقابلوں میں حصہ لینے سے قاصر رہے، کیونکہ ان کا کنبہ کھیل کا ساز و سامان اور خوراک فراہم کرنے کا متحمل نہیں تھا۔ گھر میں کھانے کے لیے دلیہ، چاول اور شوربہ اور کبھی کبھی گوشت ملتا تھا۔ اسکول میں وہ دوپہر کے کھانے کے لیے اپما لے جاتے تھے۔ شام کو چاول کا پانی اور نمک بطور ’ناشتہ‘ پینا انہیں یاد ہے۔ وہ لفظ ’ناشتہ‘ جان بوجھ کر استعمال کرتے ہیں۔ اور اب وہ اپنے بچوں کو ڈبہ بند ناشتہ خریدتے ہیں۔

وہ اپنے بچوں کو اپنے بچپن کی سختیوں سے بچا کر رکھتے ہیں۔ دوسری دفعہ جب میں ان کے قصبے گئی، تو کولیڈم ندی کے کنارے ان کی بیوی اور بیٹی ریت کھود رہی تھیں۔ چھ انچ کی کھدائی کے بعد ہی پانی نکل آیا۔ ’’اس ندی کا پانی بہت صاف ستھرا ہے،‘‘ پریہ کہتی ہیں۔ وہ ایک ٹیلہ بنا کر اس میں اپنے بال کا پِن چھپا دیتی ہیں اور ان کی بیٹی اسے ڈھونڈتی ہے۔ وڈی ویلن اور ان کا بیٹا گہرے پانی میں نہانے لگتے ہیں۔ جہاں تک میں دیکھ سکتی ہوں، ہمارے آس پاس کوئی اور نہیں ہے۔ ریت پر گھر لوٹ رہی گایوں کے قدموں کے نشانات ہیں۔ ندی کی گھاس سرسراتی ہے۔ یہ جگہ بالکل ویسی ہی خوبصورت ہے جیسی وسیع اور کھلی جگہوں کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ ’’آپ کو یہ خوبصورتی اپنے شہر میں نہیں مل سکتی،‘‘ وڈی ویلن گھر واپسی کا راستہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’کیا مل سکتی ہے؟‘‘

*****

اگلی دفعہ جب میں ندی کے پاس جاتی ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میں شہر میں ہوں۔ یہاں بہت بھیڑ بھاڑ ہے۔ یہ اگست ۲۰۲۳ کی بات ہے۔ یہ وڈی ویلن کے قصبے میں میرے پہلے دورے کے ایک سال کے بعد کا واقعہ ہے۔ میں یہاں آڈی پیروکو کے لیے آیا ہوں، جو کاویری کے کنارے منایا جاتا ہے، جہاں تاریخ، ثقافت اور رسومات اس ندی کے ساحل پر یکجا ہو جاتے ہیں۔

Vadivelan at a nearby dam on the Cauvery (left) and Priya at the Kollidam river bank (right)
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Vadivelan at a nearby dam on the Cauvery (left) and Priya at the Kollidam river bank (right)
PHOTO • Aparna Karthikeyan

کاویری (بائیں) پر بنے قریبی ڈیم پر وڈی ویلن اور کولیڈم ندی کے کنارے پریہ (دائیں)

The crowd at Amma Mandapam (left), a ghat on the Cauvery on the occasion of Aadi Perukku where the river (right) is worshipped with flowers, fruits, coconut, incense and camphor.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
The crowd at Amma Mandapam (left), a ghat on the Cauvery on the occasion of Aadi Perukku where the river (right) is worshipped with flowers, fruits, coconut, incense and camphor.
PHOTO • Aparna Karthikeyan

امّا منڈپم (بائیں) پر بھیڑ، یہ آڈی پیروکو کے موقع پر کاویری کا ایک گھاٹ ہے جہاں پھولوں، پھلوں، ناریل، اگربتی اور کافور سے ندی (دائیں) کی پوجا کی جاتی ہے

’’یہاں کافی بھیڑ ہونے والی ہے،‘‘ اپنی کار کو شری رنگم کے ایک پُرسکون بائی لین میں پارک کرتے ہوئے وڈی ویلن خبردار کرتے ہیں۔ ہم امّا منڈپم تک پیدل چل کر جاتے ہیں۔ یہ کاویری کا ایک گھاٹ ہے جہاں یاتری جمع ہوتے ہیں۔ ابھی صرف ساڑھے آٹھ بجے ہیں اور یہ جگہ پوری طرح سے بھر گئی ہے۔ سیڑھیوں پر پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہے، سیڑھیاں لوگوں اور کیلے کے پتوں سے اٹی پڑی ہیں، جس میں دریا کے لیے نذرانے کے طور پر ناریل، اگربتیوں سے چھیدے ہوئے کیلے، ہلدی کے چھوٹے گنیش، پھول، پھل اور کافور رکھے ہوئے ہیں۔ ماحول میں تہوار اور شادی کی طرح کا جوش ہے۔

نوبیاہتا جوڑے اور ان کے اہل خانہ پجاریوں کے گرد جمع ہوتے ہیں، جو انہیں تھالی میں رکھے سونے کے زیورات تالی [منگل سوتر] کو ایک نئے دھاگے میں پرونے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔ پھر شوہر اور بیوی پوجا کرتے ہیں، اور سنبھال کر رکھی شادی کی مالا کو بڑی احتیاط سے پانی میں پھینک دیتے ہیں۔ خواتین ایک دوسرے کے گلے میں ہلدی کے دھاگے باندھتی ہیں۔ وہ گھروالوں اور دوستوں کو کمکم اور مٹھائیاں پیش کرتی ہیں۔ تریچی کے مشہور بھگوان گنیش کے مندر اُچی پلّئی یار کوئل کی چمک صبح کی دھوپ میں کاویری پر چھا جاتی ہے۔

اور ندی تیزی سے بہہ رہی ہے، پوجا اور منتوں کا بوجھ لے کر، کھیتوں اور خوابوں کو سیراب کرتی ہوئی بالکل ویسے ہی جیسا کہ وہ ہزاروں سالوں سے کرتی آ رہی ہے…

’فرام سیلف ریلائنس ٹو ڈیپیننگ ڈسٹریس: دی ایمبی ولینس آف یلو ریوولیوشن ان انڈیا‘ سے تحقیقی مقالہ شیئر کرنے کے لیے ڈاکٹر رچا کمار کا بہت شکریہ۔

اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Aparna Karthikeyan

ଅପର୍ଣ୍ଣା କାର୍ତ୍ତିକେୟନ ହେଉଛନ୍ତି ଜଣେ ସ୍ୱାଧୀନ ସାମ୍ବାଦିକା, ଲେଖିକା ଓ ପରୀର ବରିଷ୍ଠ ଫେଲୋ । ତାଙ୍କର ତଥ୍ୟ ଭିତ୍ତିକ ପୁସ୍ତକ ‘ନାଇନ୍‌ ରୁପିଜ୍‌ ଏ ଆୱାର୍‌’ରେ ସେ କ୍ରମଶଃ ଲୋପ ପାଇଯାଉଥିବା ଜୀବିକା ବିଷୟରେ ବର୍ଣ୍ଣନା କରିଛନ୍ତି । ସେ ପିଲାମାନଙ୍କ ପାଇଁ ପାଞ୍ଚଟି ପୁସ୍ତକ ରଚନା କରିଛନ୍ତି । ଅପର୍ଣ୍ଣା ତାଙ୍କର ପରିବାର ଓ କୁକୁରମାନଙ୍କ ସହିତ ଚେନ୍ନାଇରେ ବାସ କରନ୍ତି ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ଅପର୍ଣ୍ଣା କାର୍ତ୍ତିକେୟନ୍
Photographs : M. Palani Kumar

ଏମ୍‌. ପାଲାନି କୁମାର ‘ପିପୁଲ୍‌ସ ଆର୍କାଇଭ୍‌ ଅଫ୍‌ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆ’ର ଷ୍ଟାଫ୍‌ ଫଟୋଗ୍ରାଫର । ସେ ଅବହେଳିତ ଓ ଦରିଦ୍ର କର୍ମଜୀବୀ ମହିଳାଙ୍କ ଜୀବନୀକୁ ନେଇ ଆଲେଖ୍ୟ ପ୍ରସ୍ତୁତ କରିବାରେ ରୁଚି ରଖନ୍ତି। ପାଲାନି ୨୦୨୧ରେ ଆମ୍ପ୍ଲିଫାଇ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ଏବଂ ୨୦୨୦ରେ ସମ୍ୟକ ଦୃଷ୍ଟି ଓ ଫଟୋ ସାଉଥ ଏସିଆ ଗ୍ରାଣ୍ଟ ପ୍ରାପ୍ତ କରିଥିଲେ। ସେ ପ୍ରଥମ ଦୟାନିତା ସିଂ - ପରୀ ଡକ୍ୟୁମେଣ୍ଟାରୀ ଫଟୋଗ୍ରାଫୀ ପୁରସ୍କାର ୨୦୨୨ ପାଇଥିଲେ। ପାଲାନୀ ହେଉଛନ୍ତି ‘କାକୁସ୍‌’(ଶୌଚାଳୟ), ତାମିଲ୍ ଭାଷାର ଏକ ପ୍ରାମାଣିକ ଚଳଚ୍ଚିତ୍ରର ସିନେମାଟୋଗ୍ରାଫର, ଯାହାକି ତାମିଲ୍‌ନାଡ଼ୁରେ ହାତରେ ମଇଳା ସଫା କରାଯିବାର ପ୍ରଥାକୁ ଲୋକଲୋଚନକୁ ଆଣିଥିଲା।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ M. Palani Kumar
Editor : P. Sainath

ପି. ସାଇନାଥ, ପିପୁଲ୍ସ ଆର୍କାଇଭ୍ ଅଫ୍ ରୁରାଲ ଇଣ୍ଡିଆର ପ୍ରତିଷ୍ଠାତା ସମ୍ପାଦକ । ସେ ବହୁ ଦଶନ୍ଧି ଧରି ଗ୍ରାମୀଣ ରିପୋର୍ଟର ଭାବେ କାର୍ଯ୍ୟ କରିଛନ୍ତି ଏବଂ ସେ ‘ଏଭ୍ରିବଡି ଲଭସ୍ ଏ ଗୁଡ୍ ଡ୍ରଟ୍’ ଏବଂ ‘ଦ ଲାଷ୍ଟ ହିରୋଜ୍: ଫୁଟ୍ ସୋଲଜର୍ସ ଅଫ୍ ଇଣ୍ଡିଆନ୍ ଫ୍ରିଡମ୍’ ପୁସ୍ତକର ଲେଖକ।

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ ପି.ସାଇନାଥ
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

ଏହାଙ୍କ ଲିଖିତ ଅନ୍ୟ ବିଷୟଗୁଡିକ Shafique Alam